تعلیمی نظام کی ’’قید‘‘ سے رہائی کا مسئلہ

یہ کہنا کہ سرکاری نظام تعلیم میں کوئی خرابی نہیں، جانب داری کی اعلیٰ قسم کی عینک لگا کر ہی ایسا کہا جاسکتا ہے۔


احمد خان July 05, 2013

CAIRO: ہماری سیاست اور ہر سیاسی حکومت کا المیہ یہ رہا ہے کہ جو ایم پی اے بنتا ہے اس کا سب سے پہلا مطالبہ اپنی حکمران جماعت سے یہ ہوتا ہے کہ اس کے حلقے کی تحصیلوں میں اس کے من پسند دوسرے الفاظ میں ''مطیع'' تحصیل افسران کا تقرر کیا جائے، اسی طرح جو ایم این اے بنتا ہے اس کا اولین مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ ضلع میں ڈی سی او سمیت تمام ایسے ضلعی افسران کا تقرر کیا جائے جو بندے تو اﷲ کے ہوں لیکن وہ تابعدار اس ایم این اے کے ہوں۔ آمریت ہو یا جمہوریت کا لبادہ اوڑھی حکومت، ہر حکومت کے ایم این اے، ایم پی اے اپنی سیاست محکمہ تعلیم پر چمکانے کے آرزو مند ہوتے ہیں۔ محکمہ تعلیم میں ان کی دلچسپی محض اس حد تک ہوتی ہے کہ اساتذہ کے تبادلے ان کی مرضی سے ہوں، جہاں تک حصول تعلیم اور معیار تعلیم کا تعلق ہے، اس سے مقامی سیاست دان لاتعلق رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔

یہ کہنا کہ سرکاری نظام تعلیم میں کوئی خرابی نہیں، جانب داری کی اعلیٰ قسم کی عینک لگا کر ہی ایسا کہا جاسکتا ہے۔ سرکاری نظام تعلیم میں ایسے اساتذہ بھی ہیں جو اسکول جانا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں، ان کو اپنے اسکولوں کا راستہ تک معلوم نہیں۔ لیکن؟ ان خامیوں کے پیچھے کس کے ہاتھ کارفرما ہیں اور ایسے اساتذہ کی تعداد کتنی ہے؟ ایسے اساتذہ جو اسکولوں کو نہیں جاتے وہ کل کا زیادہ سے زیادہ دس فیصد ہیں جو نہ اسکول جاتے ہیں اور اگر بہ امر مجبوری جائیں بھی تو کم ازکم پڑھاتے نہیں۔ لیکن ان اساتذہ کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے جو وہ اتنی دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ یہ اساتذہ کس کے لاڈلے ہیں اور کس کے زور پر ایسا کرتے ہیں؟ اپنے انھی سیاسی تعلقات اور سیاسی واسطوں کے بل پر۔ اساتذہ کی اکثریت وہ ہے جن کا نہ کو ئی سیاسی بیک گرائونڈ ہے اور نہ ہی سیاسی واسطہ، سو ان اساتذہ کو آپ ''یتیم اساتذہ'' کہہ سکتے ہیں، جو دل جمعی سے پڑھاتے بھی ہیں اور ''اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا'' کے مصداق سزا بھی کاٹتے ہیں۔

سرکاری شعبہ تعلیم میں موجود خامیوں کو کس طرح سے دور کیا جاسکتا ہے؟ حضور! صرف اتنی زحمت کرلیجیے کہ ای ڈی او ایجوکیشن کو مکمل اختیارات سونپ دیں، بلکہ اسے آزاد کردیں کہ ضلع میں اپنی مرضی کے ڈی ای اوز، ڈپٹی ڈی ای اوز اور اے ای اوز کی ٹیم بنا دے اور پھر اسے معین وقت دیں کہ اتنے عرصے میں حکومت کو رزلٹ دیں۔ دوسری جانب محکمہ تعلیم کو تقرر اور تبادلوں کی حکومتی پابندی سے سال کے بارہ مہینے آزاد کردیں۔ جس اسکول سے کوئی استاد ریٹائرڈ ہو دوسرے دن اس کی پوسٹ پر دوسرے استاد کا تقرر یا تبادلہ ہوچکا ہو۔ جن اسکولوں میں عمارتی اور تدریسی سہولیات کی کمی ہے، انھیں حکومت ہنگامی بنیادوں پر پورا کرے۔ لیکن زمینی حقائق کیا ہیں کہ ہر ضلع کے مڈل اور ہا ئی اسکولز میں سے آدھے اسکولز مستقل ہیڈ ماسٹر یا ہیڈ مسٹریس سے محروم ہیں۔ ان اسکولوں میں رفع بلا کے تحت کسی استاد کو انچارج بنا کر کام چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

بہت سے اسکول ایسے ہیں کہ جن کی عمارتیں تک نہیں اور ایسے اسکولوں کی تعداد بھی کم نہیں جن میں بجلی اور پانی جیسی سہولیات کا فقدان ہے۔ ان تمام مسائل میں سرکار چاہتی ہے کہ تعلیم بہتر ہو۔ اسکولوں میں داخلے ہوں۔ جناب والا! ہر ایک کو اپنا لخت جگر پیارا ہے، ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ ایسے اسکول میں پڑھے جہاں اسے تمام سہولیات میسر ہوں، مگر حکومت وقت بالکل اس کے برعکس پالیسیاں اپنائے ہوئے ہے۔ حکومت کے اپنے اوپر عائد متذکرہ فرائض سے مکمل چشم پوشی کا نظارا دیکھنے کو مل رہا ہے جب کہ دوسری جانب اساتذہ کو سیخ پر چڑھا کر کباب بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جب ہر افسر ایم این اے اور ایم پی اے کا ''غلام'' ہوگا تو وہ کیسے سیاسی چہیتوں کا قبلہ درست کرسکتا ہے؟ جب سیاسی حکومت کا چہیتا کمانڈنگ پوزیشن پر براجمان ہوگا، وہ صرف سیاسی آقائوں کے احکامات ہی بجا لائے گا اور ان کے حکم ناموں کی پاسداری میں جتا رہے گا۔

اعلیٰ اور ذمے دار سرکاری عہدوں پر جب اپنے چہیتوں اور من پسند افسران کی تقرر کی پالیسی اختیار کی جائے گی پھر اس محکمے سے میرٹ پر فرائض کی انجام دہی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ اگر سرکاری نظام تعلیم کا قبلہ ملکی، معاشرتی اور عہد حاضر کے تقاضوں اور امنگوں کے مطابق درست کرنا ہے تو خود احتسابی اور میرٹ کی ابتدا حکومت اپنی گود سے کرے۔ حکومت اپنے اوپر عائد ذمے داریوں سے تو کنارہ کشی کرے اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کو مشق ستم بنائے، اس صورت میں ملک کا نظام تعلیم کیسے درست سمت پر استوار ہو سکتا ہے؟

سرکاری نظام تعلیم میں جو نقائص پائے جاتے ہیں، ان نقائص کے ''باوا آدم'' ہمارے اپنے سیاسی گدی نشین ہیں جو محکمہ تعلیم کے معاملات میں سیاسی مداخلت کو اپنا اولین حکومتی اور سیاسی فرض سمجھتے ہیں۔ مکرر عرض ہے کہ ای ڈی اوز ایجوکیشن کو کامل اختیار دیجیے اور سرکاری تعلیم کو سیاست سے پاک کردیجیے، دیکھیے آپ کا نظام تعلیم کیسے نقائص سے پاک ہوتا ہے؟ وہ چند فیصد اساتذہ جو سیاسی ڈیروں کی ''چھتریوں'' کی بنا پر اسکول نہیں جاتے وہ کیسے اپنے اسکول کی راہ لیتے ہیں۔ دراصل حکومت خود نہیں چاہتی کہ سرکاری اسکولز کا نظام درست ہو، اگر حکومت واقعی غریب کے بچے کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے کمربستہ ہے تو حکومت کو زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں بنانی ہوں گی۔ صرف ظاہر گیری سے معاملات نہ پہلے کبھی سیدھے ہوئے، نہ مستقبل میں ایسی امید رکھی جاسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔