قیمتی وقت

زیادہ کمانے کے فلسفے نے مغرب میں عورتوں کو بھی کام کاج کی طرف مائل کیا۔

apro_ku@yahoo.com

چین کی حکومت نے ایک قانون پاس کیا ہے جس کے تحت ایسے نوجوان جو اپنے بوڑھے والدین کو وقت نہیں دیتے ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اگرچہ اس قانون کی واضح تشریح نہیں کی گئی ہے کہ اس سزا کا اطلاق کس طرح اور کن صورتوں میں ہوگا تاہم بعض حکام کا کہنا ہے کہ اس قانون کو لانے کا مقصد شعور بھی اجاگر کرنا ہے۔

فی زمانہ انسان مادہ پرستی کی طرف گامزن ہے، زیادہ مال کمانے اور دنیاوی اسٹیٹس کو بلند کرنے کے لیے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دونوں قسم کے ممالک میں دوڑ جاری ہے۔ پاکستان کی طرح چین میں بھی لوگ اپنا معاشی معیار بلند کرنے کے لیے گائوں، دیہاتوں سے شہر کی طرف نقل مکانی بھی کررہے ہیں اور جن علاقوں میں تیز رفتار ٹرین کی سروس موجود ہے وہاں کے لوگ ان ذریعوں سے سفر کرکے شہری علاقوں میں ملازمتیں کرنے کے لیے پہنچتے ہیں۔ جاپان کا بھی یہی حال ہے۔ چند سال قبل ہی حکومت کی جانب سے یہ اعلانات سامنے آئے تھے کہ لوگ کام کاج میں اپنی سماجی زندگی کو وقت نہیں دے رہے، لہٰذا وہ ملازمت سے رخصت لے کر اپنے گھروں کو جائیں اور وہاں اہل خانہ کے ساتھ وقت گزاریں۔

بات بظاہر بہت معمولی سی ہے لیکن اس کے اثرات انفرادی سطح سے لے کر معاشرتی اور ملکی سطح تک خطرناک انداز میں پہنچ رہے ہیں۔ زیادہ کمانے کے فلسفے نے مغرب میں عورتوں کو بھی کام کاج کی طرف مائل کیا۔ اس ضمن میں عورتوں کی آزادی کا نعرہ بھی لگایا گیا۔ بظاہر یہ نعرہ بھی بہت خوبصورت اور سحر انگیز تھا اور اس کے نتیجے میں خاندانوں کی ماہانہ آمدنی میں بھی اضافہ ہوا کیونکہ اب شوہر کے ساتھ ساتھ بیوی بھی کمارہی تھی لیکن اس کا اثر خاندانی نظام پر اس طرح پڑا کہ والدین اپنی اولاد کو وقت نہیں دے سکے۔ ظاہر ہے کہ جب میاں اور بیوی دونوں باہر کمانے جائیں تو بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال کون کرے گا؟ مغرب نے اس کا بہترین حل اس طرح پیش کیا کہ ''ڈے کیئر سینٹر'' متعارف کرادیے۔ اب آپ کو فکر کی ضرورت نہیں، آپ اپنے شیر خوار بچوں کو بھی ڈے کیئر سینٹر میں چھوڑ کر کام کاج پر جاسکتے ہیں اور جب بچے اسکول جانے لگیں تو پھر فکر کی کوئی بات نہیں کیونکہ بچے آدھے سے زائد وقت تو اسکول میں گزار دیتے ہیں۔ یوں مغرب نے میاں بیوی کو کمانے کا بھرپور موقع فراہم کردیا اور پر آسائش زندگی کے لیے راہیں کھل گئیں۔


مگر اس کا نقصان یہ ہوا کہ بچے والدین سے دور ہوگئے اور فاصلے کے باعث اس محبت اور انسیت سے عاری ہوگئے جو بچوں کو اپنے والدین کے ساتھ وقت گزارنے سے حاصل ہوتی ہے۔ اس محبت اور انسیت کے خاتمے سے جو بچوں اور والدین کے درمیان ہوتی ہے، محبت کا وہ جذباتی رشتہ ختم ہوگیا جو بچوں اور والدین کے درمیان ہوتا ہے۔ چنانچہ جب والدین کی عمر حد سے گزرنے لگیں، بچے جوان اور والدین بوڑھے ہوگئے تو پھر بچوں نے بھی والدین کو وقت دینا چھوڑ دیا۔ اس کی دو وجوہات تھیں ایک تو یہ کہ فاصلوں کے باعث وہ محبت ہی ختم ہوگئی جو بچوں کو والدین کے لیے وقت نکالنے پر مجبور کرتی تھی، نیز بچوں کو بڑے ہوکر وہی ماحول ملا جو ان کے والدین کے پاس تھا، یعنی میاں بیوی دونوں مل کر کمائیں اور معیار زندگی بلند کریں، بچوں کو ڈے کیئر سینٹر میں چھوڑیں، چنانچہ اب نئی نسل جو اپنے بچوں کو بالکل اسی طرح ڈے کیئر سینٹر میں چھوڑ رہی ہے جس طرح ان کے والدین نے چھوڑا تھا تو بھلا وہ اپنے والدین کو کہاں سے وقت دیں گے؟ پھر جس طرح ان والدین نے بچوں کو سوائے وقت کے کھلونے اور دیگر ضروریات کی اشیا دینے کا عملی درس دیا تھا، اس کے تحت بچے جوان ہوکر والدین کو بھی صحت کے لیے دوائیں اور دیگر ضروری اشیاء تو دیتے ہیں مگر وقت نہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ایک بچپن اور دوسرا بڑھاپا دونوں کی ضرورت محض پیسہ یا کھلونے نہیں، انسان ہوتے ہیں، دونوں کی ضرورت جیتے جاگتے انسان ہوتے ہیں، جو چاہتے ہیں کہ کوئی ان سے بات کرنے والا ہو، کوئی ان کی سننے والا ہو مگر افسوس بلند معیار زندگی اور کمانے کی دھن نے بچپن اور بڑھاپے دونوں میں انسانوں سے وقت چھین لیا۔ اس طرف زندگی میں معیار اور آسائش تو ہے مگر ''ڈے کیئر سینٹر'' اور ''اولڈ ہائوسز'' بھی ہیں جو معاشرے کی تباہی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور جنھیں حکومت کی جانب سے والدین کے لیے وقت کا مطالبہ بھی اس معاشرے کی تباہی کا ثبوت ہے۔

میرے ایک قریبی عزیز حال ہی میں کینیڈا سے آئے ہیں جن کے دونوں لڑکے جو اسکول میں A لیول میں پڑھ رہے ہیں اپنی پسند کی شادی کرکے والدین کو چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کینیڈا پہنچ کر وہ اور ان کی بیوی دونوں ملازمت کرکے کمانے لگ گئے اور بچوں کو وقت نہ دے سکے، وہ جب صبح جاتے تو بچے سورہے ہوتے تھے، شام کو وہ دیر سے گھر آتے تو بچوں سے بات کرنے کا بھی وقت مشکل سے ملتا تھا۔ آج وہ دوسروں کو نصیحت کررہے ہیں کہ خدارا اپنے بچوں کو وقت ضرور دیں۔

ہمارے ملک میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال چل رہی ہے، معیار زندگی بلند کرنے کے لیے کہیں میاں بیوی صبح و شام ملازمتیں کررہے ہیں تو کہیں میاں صبح ملازمت کے بعد پارٹ ٹائم جاب کے لیے سرگرداں نظر آتا ہے۔ باپ صبح کا نکلا رات دیر کو گھر پہنچتا ہے، ایسے میں بیوی اور بچوں کو ٹائم کیسے دیا جائے؟ یہ ضرور ہے کہ مہنگائی میں گزارا کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے لیکن ہمیں یہ بھی فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم یہ سب کچھ آخر کس قیمت پر کریں؟ راقم کے کئی جاننے والے اپنے والدین کو چھوڑ کر مڈل ایسٹ اور کینیڈا منتقل ہوگئے، اب ان کے بزرگ والدین کو باہر سے پیسہ تو ضرور مل رہا ہے لیکن ان کی آنکھوں میں وہ آنسو ہیں جو انسانوں سے پیسہ نہیں وقت مانگ رہے ہیں جو کہ ان کی اولاد ہی نہیں دے رہی تو کوئی تیسرا بھلا کیسے دے گا۔ ہر کسی کو تو کمانے کے لیے وقت بھی تھوڑا پڑرہا ہے۔ مغرب کے مفکرین نے آبادی کم کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا مگر اس مادہ پرستی کے رجحان سے ان کی نسلوں کو اس قدر محدود کردیا کہ اب وہ خود عوام سے زیادہ اولاد کی اور بزرگ والدین کو وقت دینے کی درخواستیں کررہے ہیں قانون بنارہے ہیں۔ آئیے اس پہلو پر بھی غور کریں۔
Load Next Story