آدھی کھالو بھیک نہ مانگو
اگر کوئی بڑا آدمی بادشاہوں میں پیدا ہوگیا تو گوتم بدھ کی طرح بادشاہت چھوڑ خرابوں میں آبیٹھا۔
میں اکثر ''پنچنگ مصرعہ'' موضوع بناتا ہوں کہ جس میں مکمل درد انگیز پیغام موجود ہو اور پڑھنے والا عنوان پڑھ کر ہی بات سمجھ جائے۔ دو روز پہلے خبریں سن رہا تھا۔ ہماری حکومت نے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ماننے سے انکار کردیا ہے۔ یہ سن کر بے ساختہ میں بچوں کی طرح تالیاں بجانے لگا۔ یہ دراصل پوری قوم کے دل کی آواز ہے۔ ہماری 65 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ہم کو قرضوں نے ہی برباد کیا۔ ''ایڈ کی گندم کھاکر ہم نے کتنے دھوکے کھائے ہیں'' اور آج جب ملک آخری دموں پر ہے، ہمیں پھر نئے قرضوں کے جال میں پھنسایا جارہا ہے۔نیا جال لائے پرانے شکاری!
میں حیران نہیں ہوں، نہ ہی میں پریشان ہوں۔ مجھے غصہ آرہا ہے کہ یہ ہمارے پارلیمنٹیرین جو لاکھوں، کروڑوں روپوں کی دہشت ناک سیاہ شیشوں والی گاڑیوں میں بیٹھ کر پارلیمنٹ ہاؤس تشریف لاتے ہیں، یہ جو ہزاروں روپوں کے چشمے بالوں میں لگائے، لاکھوں روپوں کی جوتیاں پیروں میں پہنے اور انتہائی قیمتی ہینڈ بیگ لٹکائے لش پش خواتین ممبران پارلیمنٹ ہیں۔ یہ لوگ کون ہیں؟ ان کو اپنی آن بان شان پر ذرہ برابر ندامت نہیں ہوتی! اٹھارہ کروڑ آبادی میں آدھے لوگ مانگ تانگ کر زندگی گزار رہے ہیں اور یہ چند ہزار لوگ عیش کر رہے ہیں۔ زمینوں پر ان کا قبضہ ہے، وسائل پر بھی یہی قابض ہیں اور خلق خدا کو بھوکوں ترسا رہے ہیں۔ اس لمحے مجھے بنگالی زبان کے عظیم انقلابی شاعر قاضی نذرالاسلام یاد آگئے ہیں۔ ان کی بنگالی نظم کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔
''میں زمانہ حال کا شاعر ہوں، مستقبل کا پیغام بر نہیں ہوں،
کوئی کہتا ہے کہ اگلے زمانے میں تجھے کون یاد کرے گا۔
کوئی کہتا ہے، شاعر کو قید و بند سے کیا واسطہ!
میری جان ضیق میں ہے۔
لوگو! مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ مستقبل مجھے یاد کرے گا، یا نہیں
تمنا صرف یہ ہے کہ جو لوگ خلق خدا کو بھوکوں تڑپا رہے ہیں،
میری تحریر ان کے لیے پیام موت ثابت ہو''
عظیم انقلابی شاعر قاضی نذرالاسلام کا زمانہ تقریباً سو سال پہلے کا زمانہ تھا۔ ایسی عوامی مقبولیت شاید ہی کسی اور شاعر کو نصیب ہوئی ہو جو نذرل کوملی۔ مجھے خوب یاد ہے جب مشرقی پاکستان ہمارے ساتھ تھا، کراچی میں بنگالی طلبا و طالبات نے ''نذرل اکیڈمی'' بنا رکھی تھی، جس کے تحت ہر سال قاضی نذرالاسلام کی سالگرہ منائی جاتی تھی اور اس موقع پر نذرل کے گیت، سازوں کے ساتھ گائے جاتے تھے۔ قاضی نذالاسلام نے اپنی عمر کے آخری کئی سال کلکتہ میں اس حالت میں گزارے کہ وہ اپنی یادداشت کھو بیٹھے تھے۔ انھیں کچھ یاد نہیں تھا کہ وہ کون ہیں، کیا ہیں اور عوام ان کے نغمے گاتے تھے اور آج بھی گاتے ہیں۔ دنیا بھر میں بولی جانے والی زبانوں کے پہلے دس عوامی انقلابی شاعروں میں قاضی نذرالاسلام کا نام شامل ہے۔ پاکستان کی دھرتی خوش نصیب ہے اور اس کا شہر کراچی اور کراچی کا علاقہ لائنز ایریا۔ جہاں پاکستان بننے سے پہلے، ٹیونیشیا لائن کی فوجی بیرکوں میں قائم ایک بیکری میں اس عظیم شاعر نے بحیثیت نان بائی کام کیا تھا۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہر بڑا آدمی خرابوں میں ہی پلا بڑھا ہے اور اگر کوئی بڑا آدمی بادشاہوں میں پیدا ہوگیا تو گوتم بدھ کی طرح بادشاہت چھوڑ خرابوں میں آبیٹھا۔ ہمارے سائنس دان مشتاق اسمٰعیل صاحب نے اپنے شعرنامے ''امیرخسرو جرمنی میں'' میں لکھا ہے کہ مشہور موٹرکار کمپنی فورڈ کے مالک فورڈ کا اربوں کھربوں پتی پوتا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے نیپال کے کسی آشرم میں بیٹھ گیا ہے اور سوامی نارائن ہنری فورڈ دوم نام رکھ لیا ہے، اس نے دنیا تج دی ہے اور اب بھیک مانگ کر زندگی گزار رہا ہے۔
ہمارے اربوں کھربوں پتی خاندانوں کو دنیا کب سمجھ میں آئے گی۔ ان کے محل، قیمتی تحائف، زرو جواہرات، اعلیٰ ترین فرنیچر اور قیمتی کاروں کے اسکواڈ سے لدے پھندے ہیں۔خلق خدا ہے کہ خط افلاس سے نیچے گر رہی ہے۔
افسوس کہ یہی ''چند لوگ'' ہیں جن کے ہاتھوں کروڑوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ حبیب جالب نے بہت پہلے فلم ''سازوآواز'' کے لیے ایک گیت لکھا تھا، اسے ملکہ ترنم نور جہاں نے گایا تھا اور موسیقار تھے حسن لطیف ملک ۔ گیت سنیے! جالب نے فلم نگر کو بھی اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا۔
کیوں کہیں یہ ستم آسماں نے کیے
آسماں سے ہمیں کچھ شکایت نہیں
دکھ ہمیں جو دیے ، اس جہاں نے دیے
چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہے زندگی
چھین لیتے ہیں جب چاہتے ہیں خوشی
اونچے اونچے گھروں میں ہے جو روشنی
جل رہے ہیں ہمارے لہو کے دیے
دکھ ہمیں جو دیے اس جہاں نے دیے
مجھے یاد آرہا ہے پچھلے پانچ سالہ دور کے حکمرانوں کی ایک وزیر و ممبر قومی اسمبلی کے بارے میں ٹی وی چینل پر ایک پروگرام آرہا تھا۔ امیر کبیر گھرانے کی بہو کو اﷲ تعالیٰ نے حسن کی دولت سے بھی مالامال کر رکھا تھا، اس کا گھر بھی دکھایا گیا، بڑے بڑے کمرے، کھڑکیوں دروازوں پر جھولتے قیمتی پردے، فرش پر جابجا مخملیں قالین، باغ میں طرح طرح کے خوبصورت پودے، خوشنما پھول، قطار اندر قطار ایستادہ بڑے بڑے درخت، پالتو جانور، پرندے اور اس ماحول میں گھومتی پھرتی خوبصورت ممبر پارلیمنٹ جیسے جنت میں گھومتی پھرتی حور ۔
پتا نہیں ایسی کتنی جنتیں اس خانماں برباد ملک پاکستان میں آباد ہیں اور ان میں گھومتی پھرتی حوریں!! اور دوسری طرف دنیا کی جہنم میں سڑتے گلتے، بھوکے، لاغر، بیمار، کروڑوں بے آسرا، بے سہارا لوگ۔ ضیا سرحدی کے مصرعے سنیے کہ سنانے کو میرے پاس یہی کچھ ہے۔
اک طرف ہے اونچے محلوں کا غرور اور دولت کا نشہ
دوسری جانب ہزاروں بے قصور اور دکھ افلاس کا
کس کو منصف جان کر آواز دوں
شام غم ''پھر'' آگئی ''پھر'' اداسی چھاگئی
یہ حکمران، یہ پارلیمنٹیرین، یہ پاکستان کی غیرت کے رکھوالے ہیں اور اگر ہیں تو جالب کی آواز پر لبیک کہیں:
پاکستان کی غیرت کے رکھوالو! بھیک نہ مانگو
توڑ کے اس کشکول کو آدھی کھالو، بھیک نہ مانگو
اپنے بل پر چلنا کب سیکھوگے، طوفانوں میں پلنا کب سیکھو گے
یہ کہنہ تقدیر کا شکوہ کب تک
اس کو آپ بدلنا کب سیکھو گے
خود اپنی بگڑی تقدیر بنالو، بھیک نہ مانگو
عوام آدھی کھانے کو تیار ہیں، حکمران آدھی کا آغاز کریں ورنہ۔۔۔۔!!