آب حیات

جدید میڈیکل سائنس نے بھی یہ ثابت کردیا ہے کہ اگر انسان کے جسم میں پانی کی مطلوبہ مقدار میں کمی آجائے۔


Shakeel Farooqi July 06, 2013
[email protected]

KARACHI: انسانی وجودکا انحصار جن عناصر پر ہے ان میں آگ، مٹی، ہوا اور پانی شامل ہیں۔ لیکن ان چاروں عناصر میں پانی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دیگر تمام عناصرکے مقابلے میں پانی وہ عنصر ہے جو انسانی جسم میں 70 فی صد تک پایا جاتا ہے۔ پانی آکسیجن اورہائیڈروجن کا وہ انتہائی اہم کیمیائی مرکب ہے جو اللہ رب العزت کی تخلیق کردہ اس وسیع و عریض کائنات میں ہر ذی روح کی زندگی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ خالق کائنات نے قرآن حکیم میں اس نکتے کی وضاحت نہایت واضح الفاظ میں کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ''ہم نے ہر جان دار شے کو پانی سے پیدا کیا''۔ چناں چہ کرہ ارض کی تمام مخلوقات بشمول نباتات کی زندگی اور نشوونما کا دارومدار پانی پر ہے۔

جدید میڈیکل سائنس نے بھی یہ ثابت کردیا ہے کہ اگر انسان کے جسم میں پانی کی مطلوبہ مقدار میں کمی آجائے تو زندگی خطرے میں پڑسکتی ہے پانی وہ قدرتی مادہ ہے جو ٹھوس، مایع اور گیس یعنی بخارات کی شکل میں ہر جاندار کے جسم میں پایا جاتا ہے صاف اور شفاف پانی ہمارے جسم کے اندر سے مضر اور آلودہ مادوں کو بول و براز اور پسینے کی صورت میں براہ راست خارج کرکے ہماری تندرستی و صحت کو برقرار رکھنے میں معاونت کرتا ہے اس کے برعکس گندہ اور آلودگی آمیز پانی میعادی بخار، ہیضہ ، پیچش، اسہال، قبض، بدہضمی اور پیٹ کی دیگر خطرناک بیماریوں کے لاحق ہونے کا بنیادی سبب بنتا ہے۔ اگرچہ بہ ظاہر پانی میں کوئی خاص غذائیت موجود نہیں ہوتی تاہم یہ غذا کو ہضم کرنے اور جسم کے اندر خون کی روانی کو برقرار رکھنے میں ایک لازمی اور بنیادی غذائی جزو تسلیم کیا جاتا ہے۔ انسانی جسم بھی پیڑ پودوں کی طرح ہے جو پانی کی کمی کی وجہ سے مرجھا جاتے ہیں۔

طبی نکتہ نظر سے بھی پانی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ یہ نہ صرف پیاس بجھا کر سکون اور چین پہنچاتا ہے بلکہ تھکاوٹ کو دور کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ پانی پی کر انسان تو کیا جانور بھی تروتازہ ہوجاتے ہیں گویا ان میں ایک نئی روح پھونک دی گئی ہو۔ پانی خون کو گاڑھا ہونے سے بچانے اور دوران خون کے نظام کو بحال اور رواں رکھنے میں انتہائی اہم رول ادا کرتا ہے۔جلد کے خلیات کو تازہ اور نرم و ملائم رکھنے میں بھی پانی کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پانی چہرے کو شگفتگی اور شادابی بخشتا ہے اور جسم کی حدت و حرارت کو اعتدال پر رکھنے میں بھی بہت معاون ہوتا ہے۔ نظام ہاضمہ کو درست رکھنے میں بھی پانی کی اہمیت بیان سے باہر ہے۔ دوا سازی کی صنعت کے لیے بھی پانی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ پانی کے فوائد بے شمار ہیں جنھیں گنوانا کار دشوار ہے۔

ہماری زبان و ادب کا گزارہ بھی پانی کے بغیر ممکن نہیں۔ چلّو بھر پانی میں ڈوب مرنا اور دیدوں کا پانی مرجانا جیسے خوبصورت محاورے پانی کے ہی مرہون منت ہیں۔ اس موقع پر ہمیں بچوں کے لیے تحریر کی گئی علامہ اقبال کی ایک خوبصورت نظم ''پہاڑ اور گلہری'' کا یہ شعر یاد آرہا ہے:

کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے

تجھے ہو شرم تو پانی میں جاکے ڈوب مرے

پانی بلا لحاظ مذہب و دولت ہر ایک کی ضرورت ہے اور سب کے کام آتا ہے۔ اس حوالے سے اپنی ایک نظم ''سوال یہ ہے'' کی درج ذیل سطریں یاد آرہی ہیں:

سوال یہ ہے کہ پانی کی شہریت کیا ہے؟

یہ سب کے واسطے تسکین کا سبب کیوں ہے؟

یہ رنگ و نسل کی تفریق کیوں نہیں کرتا؟

دنیا کے تمام مذاہب میں پانی کو لازم و ملزوم کا درجہ حاصل ہے۔ مثلاً ہندوؤں کے یہاں گنگا جل کو پوتر مانا جاتا ہے تو مسلمانوں میں آب زم زم کو انتہائی تقدس کا درجہ حاصل ہے۔ یہ پانی ہی تو ہے جس سے پانچوں وقت وضو کرکے ہم نماز پنجگانہ ادا کرتے ہیں۔

پانی کی افادیت و اہمیت کے بیان میں ہمارا قلم پانی کی طرح رواں ہے اور رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ سچ پوچھیے تو آب ہی حیات ہے۔ اگر پانی میسر نہ ہو تو انسان ماہی بے آب ہے۔ پانی کی اسی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت سندھ نے اپنے نئے بجٹ برائے سال 2013-14 میں پینے کے پانی کی فراہمی کا خصوصی اہتمام کیا ہے جس میں شمسی توانائی کے ذریعے پانی فراہم کرنے کے نظام کے لیے خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سولر انرجی کے ذریعے واٹر پمپنگ یونٹس کی متعدد اسکیمیں بھی صوبائی حکومت کے منصوبوں میں شامل ہیں۔ بجٹ میں کول اینڈ انرجی کے پانچ نئے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 11 ارب 68 کروڑ60 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں جن میں مٹھی، اسلام کوٹ اور تھرپارکر میں کھارے پانی کو میٹھا بنانے یک واٹرڈی سیلی نیشن پلانٹس کی توسیع کا منصوبہ اور اسلام کوٹ میں تھرلاج کے اضافی وبیرونی ترقیاتی منصوبے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تھرپارکر کے 6 دیہات میں کھارے پانی کو میٹھا بنانے کے لیے 6 واٹر ڈی سیلی نیشن پلانٹس کی تنصیب کے لیے خطیر رقوم رکھی گئی ہیں۔

یہ بات قابل ستائش ہے کہ سندھ کی حکومت تھر کے علاقے میں آباد لاکھوں لوگوں کے لیے پینے کے صاف پانی کی فراہمی پر خصوصی اور ترجیحی توجہ دے رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے تھر میں ریورس آسموسس پلانٹس کی کامیابی کے ساتھ تنصیب کے منصوبوں پر تیزی کے ساتھ عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ پینے کے پانی کی جلدازجلد فراہمی کا یہ طریقہ کار کم خرچ بھی ہے اور بالا نشیں بھی۔ دورافتادہ بکھرے ہوئے گاؤں گوٹھوں تک نہری پانی کی ترسیل کا نظام مشکل بھی ہے اور مہنگا بھی۔ اس کے علاوہ اس میں ایک ممکنہ قباحت یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے ہر وقت اور مستقل سپلائی کو برقرار رکھنا ایک مشکل کام ہے۔

تھر کے عوام کے دیرینہ مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ تھرپارکر اور عمرکوٹ کے ضلعوں کے لیے 31 آراو پلانٹس کی تنصیب کی منظوری دی تھی۔ اس وسیع پروگرام میں ٹیوب ویلز کی کھدائی اور تنصیب کے منصوبے شامل تھے۔ اس کام کی تکمیل کے لیے 25 جنوری 2012 کو باقاعدہ ایک ٹھیکہ دیا گیا تھا۔ اس ضمن میں تھرکول فیلڈ سے متعلق واٹر ماسٹر پلان بھی قابل ذکر ہے۔ اس میں انٹرنیشنل کنسلٹنٹس کی وساطت سے ہائیڈرو جیولوجیکل، واٹر سپلائی اور Waste Water Management کے مطالعہ جات بھی شامل ہیں۔ حکومت سندھ کے محکمہ آب پاشی کی تیار کی ہوئی ایک اسکیم بھی اس سلسلے میں قابل ذکر ہے جس میں RD-365 LBOD سے پانی کے حصول کا بندوبست بھی شامل ہے۔ تھر سے حاصل ہونے والے کوئلے کی بنیاد پر مستقبل کے توانائی کے منصوبوں کے لیے درکار پانی کی ضروریات کی تکمیل کے لیے واٹر سپلائی کی اسکیم انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

بھاری مقدار میں کوئلے کے خزانوں سے بھرپور بدین کول فیلڈ دو ہزار مربع کلومیٹر کے وسیع و عریض رقبے پر محیط ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کوئلے کے یہ زبردست ذخائر 1135 اعشاریہ 25 ملین ٹن کے لگ بھگ ہیں۔ ان حالات میں جب کہ صوبہ سندھ بلکہ پورا ملک توانائی کے بحران کا شکار ہے، کوئلے کے ان ذخائر کو بروئے کار لاکر توانائی کے سنگین اور برسوں پرانے مسئلے کو طویل المدت بنیادوں پر کامیابی کے ساتھ حل کیا جاسکتا ہے۔ مگر ایسے کسی بھی منصوبے کو کامیابی سے عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری ہے کہ تھر کے علاقے میں قلت آب کے مسئلے کو جنگی بنیاد پر حل کیا جائے۔ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ اس سمت میں کام کا نہ صرف آغاز ہوچکا ہے بلکہ خاطر خواہ اور حوصلہ افزا نتائج بھی حاصل ہورہے ہیں۔ یہ امر قابل ستائش ہے کہ حکومت سندھ نے اچھی شہرت کی حامل جس مقامی کمپنی کی خدمات ریورس آسموسس پلانٹ نصب کرنے کے لیے حاصل کی ہوئی ہیں اس کی کارکردگی حاصل شدہ نتائج کے اعتبار سے قطعی طور پر تسلی اور اطمینان بخش ہے۔ تاہم قلت آب کا مسئلہ اس حوالے سے مزید توجہ طلب ہے آبادی کی کثرت کے مقابلے میں فراہمی آب کا بندوبست بہت ناکافی ہے۔ اس کے علاوہ آبادی میں روز افزوں اضافہ بھی اس بات کا متقاضی ہے کہ فراہمی آب کے مراکز اور فلٹریشن پلانٹس کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے اور اس کام کے لیے اضافی فنڈ مختص کیے جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں