بھارتی مسیحیوں کا اعلانِ بغاوت
بھارتی سیکولرازم کا بھانڈا تو بھارتی مسیحی مذہبی قیادت نے پھوڑ دیا ہے۔
دہلی کے تقریباً سو سالہ قدیم سیکرڈ ہارٹ کتھیڈرل چرچ کے آرچ بشپ ، انیل جوزف تھامس کوٹو، نے بھارت کے تمام مسیحیوں، مسلمانوں اور سکھوں میں ایک خط تقسیم کیا ہے جس میں کہا گیا ہے:''بھارت کا سیکولرازم اور بھارتی جمہوریت شدید خطرے میں ہے۔آئیے ہم سب دعا اور عبادت کے ذریعے خداوند سے گزارش کریں کہ بھارتی سیکولرازم اور بھارتی جمہوریت بچ جائے۔''اِس خط یا سرکلر کو Pray For 2019کا نام دیا گیا ہے۔آرچ بشپ صاحب کے اِس خط سے بھارتی بنیاد پرست ہندوؤں کو بڑی تکلیف پہنچی ہے ،حالانکہ اِس خط میں کوئی ایک لفظ بھی غیر حقیقی نہیں ہے۔
بھارتی وزیر داخلہ، راجناتھ سنگھ، نے مگر غصے سے دہکتے ہُوئے کہا ہے کہ آرچ بشپ انیل جوزف نے بنیادی بات ہی غلط کہی ہے۔ اُن کے نائب وزیر داخلہ ، مختار عباس نقوی، بھی بھاگے بھاگے آگے بڑھے ہیں اور کہا ہے کہ ''اگر بھارتی سیکولرازم محفوظ نہیں ہے تو دنیا میں کہیں بھی سیکولرازم بچا ہُوا نہیں ہے۔''آر ایس ایس ، جو نریندر مودی کی ''مدر پارٹی'' کہلاتی ہے، کے ایک رہنما ، راکیش سنہا، نے منہ سے جھاگ اُڑاتے ہُوئے آرچ بشپ صاحب کے مذکورہ سرکلر پر یوں اپنا ردِ عمل دیا ہے:'' یہ دہلی کے ایک چرچ کی طرف سے براہِ راست بھارت اور بھارتی ہندوؤں پر حملہ ہے۔
اِسے نظر انداز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہندوؤں پر حملہ آوروں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے۔''بھارتی بنیاد پرست ہندوؤں کا غصہ اپنی جگہ لیکن واقعہ یہ ہے کہ دہلی کے معزز آرچ بشپ نے اپنے سرکلر میں جو کہاہے، صد فیصد درست ہے۔ بھارت کی سبھی اقلیتیں اِس سرکلر کے مندرجات سے متفق ہیںکہ بھارت کے نام نہاد سیکولرازم کے پردے ہی میں بھارت کے تمام غیر ہندو شہریوں کا جینا حرام بنا دیا گیا ہے۔بشپ صاحب کا خط اِسی ظلم کا عکس ہے۔ جب سے نریندر مودی کی شکل میں بی جے پی ، آرایس ایس اور بجرنگ دَل ایسی متعصب اور متشدد ہندو جماعتیں برسرِ اقتدار آئی ہیں، بھارتی مسلمانوں، دَلتوں ، مسیحیوں اور سکھوں کا ناک میں دَم کر دیا گیا ہے۔
دنیاکی تقریباً تمام انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی یہ تسلیم کررہی ہیں؛ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ آرچ بشپ صاحب نے جو کہا ہے، وہ دراصل اُن کے دُکھے دل کی سچی آواز ہے۔یہ غالب ہندو اکثریت کے خلاف (ابھی)منظّم بغاوت تو نہیں ہے لیکن اِسے باقاعدہ اوربلند آواز میں احتجاج ضرور کہا جا سکتاہے۔ بھارتی مقتدر جماعت بی جے پی کو زیادہ تکلیف مگر اس لیے ہُوئی ہے کہ اگلے سال ہی بھارت میں لوک سبھا (قومی اسمبلی) کے انتخابات ہو رہے ہیں اور ہندو مذہبی جماعتوں کا خیال ہے کہ آرچ بشپ کا یہ خط دراصل بھارتی مسیحیوں کے ساتھ باقی بھارتی اقلیتوں کو بھی نریندر مودی سے دُور لے جانے کی ایک باقاعدہ ''سازش'' ہے(واضح رہے بھارت میںپانچ سے چھ کروڑ مسیحی آباد ہیں۔)
واقعہ یہ ہے کہ بھارتی آرچ بشپ کی اِس چٹھی نے بھارتی حکومت کے کئی جبریہ ہتھکنڈوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ گویا بھارت کے نام نہاد سیکولر چہرے پر کالک سی مَل دی گئی ہے۔سوال مگر یہ ہے کہ آیا دہلی کے آرچ بشپ صاحب نے بھارتی سیکولرازم اور بھارتی جمہوریت کے مکمل خاتمے کے بارے میں جن خطرناک رجحانات اورخدشات کا اظہار کیا ہے، غلط ہیں؟بھارت سے باہر بسنے والوں کو تو رکھیئے ایک طرف، خود بھارت کے اندر معتدل اور غیرجانبدار حلقے شہادت دے رہے ہیں کہ جب سے نریندر مودی اور اُن کی کٹر ہندو بنیاد پرست جماعتیں برسرِ اقتدار آئی ہیں، بھارتی مسیحیوں سمیت تمام اقلیتیں گھٹن اور جبر محسوس کررہی ہیں۔ بھارتی ہندو مذہبی شخصیات ہمیشہ یہ پروپیگنڈہ کرتی رہی ہیں کہ مسیحی ادارے اور تنظیمیں بھارتی غریب ہندوؤں کو پیسے اور دیگر معاملات کا لالچ دے کر اپنے مذہب کا حصہ بناتے ہیں۔
اِسے اساس بنا کر مقتدر اور طاقتور ہندومذہبی لیڈروں نے بھارتی مسیحیوں پر بہت زیادتیاں کی ہیں۔ گذشتہ چار برسوں کے دوران اِن کارروائیوں میں کئی گُنا اضافہ ہوا ہے۔ ایک معروف بھارتی مسیحی تنظیمThe Evangelical Fellowship of Indiaنے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ '' بھارت کے جن صوبوں میں بی جے پی کی حکومتیں قائم ہیں، وہاں مسیحیوں کی زندگیاں اجیرن بنا دی گئی ہیں۔اِن بھارتی ریاستوں میں انڈین مسیحی برادری، ہندوؤں کے ہاتھوں جبرو تشدد کا نشانہ بھی بنائی جارہی ہے اور انھیں قتل بھی کیا جارہا ہے۔اُن کے گھر بھی نذرِ آتش کیے جاتے ہیں اور اُن کے چرچ بھی۔ دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ اُن کے مشنری اسکول و کالج، جن میں سیکڑوں کی تعداد میں ہندو بھی زیر تعلیم ہیں، جلا دئے جائیں گے یا ہمیشہ کے لیے انھیں بند کر دیا جائے گا۔''
اِس انکشاف خیز رپورٹ میںیہ بھی بتایا گیا ہے کہ پچھلے سال بھارت میں 351 مسیحی،ہندوؤں کے ہاتھوں قتل کیے گئے۔کچھ اِسی طرح کے انکشافات انسانی حقوق کی علمبردار ایک اور بھارتی تنظیم نے بھی اپنی سالانہ رپورٹ میں پیش کیے ہیں لیکن نریندر مودی حکومت ٹس سے مَس نہیں ہُوئی؛ چنانچہ اِسی کا یہ نتیجہ بھی نکلا ہے کہ بھارتی گجرات ریاست کے ایک آرچ بشپ، تھامس میکزن، نے بھی بھارتی حکومت کے نام ایک احتجاجی خط لکھا ہے۔ اس کی باز گشت بھی بھارتی میڈیا میں سنائی دے رہی ہے ۔
ہندو میڈیا واویلا کر رہا ہے کہ بھارتی مسیحی رہنماؤں کے یہ خطوط دراصل بھارتی جمہوریت کے نام کو بٹہ لگانے کی سازش ہے۔ کٹر ہندوؤں کی طرف سے یہ بھی پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ بھارتی مسیحی مذہبی قیادت کے یہ خطوط دراصل اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں مودی اور اُن کی جماعت کو شکست دینے کی سازش ہیں۔ بجائے اِس کے کہ ہندو مذہبی رہنما اور مقتدر سیاسی قیادت اِن شکایات پر سنجیدگی سے کان دھرتے، اُلٹا بھارتی مسیحیوںکو ڈانٹا ڈپٹا جارہا ہے۔
دہلی کے آرچ بشپ جوزف انیل اور گجرات کے آرچ بشپ تھامس میکزن نے ہندوؤں کے مظالم اور تشدد آمیز وارداتوں کے خلاف جو احتجاجی خطوط لکھے ہیں، بھارتی حکومت اور بھارتی ہندو مذہبی قیادت اِن پر بڑی سیخ پا ہورہی ہے۔ بھارتی مسیحی بھی مقتدر ہندوؤں سے دبنے اور سہمنے کے بجائے جواب دینے کے لیے ڈَٹ گئے ہیں؛ چنانچہ اِس پیش منظر میں جان دیال سامنے آئے ہیں۔ یہ صاحب بھارتی مسیحیوں کی ایک مشہور اور منظّم تنظیم ''آل انڈیا کیتھولک یونین'' کے سابق صدر ہیں۔انھوں نے دہلی میں عالمی میڈیا کے سامنے ایک پریس کانفرنس کرتے ہُوئے کہا ہے : ''آرچ بشپ انیل جوزف نے ایک لفظ بھی غلط نہیں لکھا ہے۔
مَیں بھارت کے طُول وعرض میں پھرا ہُوں۔ اپنے ذاتی تجربات، مشاہدات اور آنکھوں دیکھے لاتعداد احوال کی بنیاد پر کہہ سکتا ہُوں کہ بھارتی مسیحیوں کے ساتھ ساتھ بھارت کی ہر اقلیت خوف اور دہشت کے سائے میں رہ رہی ہے۔ مودی حکومت نے بنیاد پرست ہندو تنظیموں کے گٹھ جوڑ سے بھارت بھر میں جو ماحول بنا دیا ہے، اِس کے نتائج یہ نکلے ہیں کہ ہر غیرہندو بھارتی شہری پر خوف کے سائے مسلّط ہیں۔'' حقیقت یہ ہے کہ ایک خوف بھارتی ہندوؤں کے ذہنوں پر بھی مسلّط ہے۔ اپنی بے پناہ عددی طاقت اور اقتدار پر مطلق غلبے کے باوجود نریندر مودی اور اُن کی دونوں بڑی ہندومذہبی اتحادی جماعتیں یہ خیال کرتی رہتی ہیں کہ ہندو اپنے مذہب سے منحرف ہو کر کہیں مسیحی یا مسلم نہ بن جائیں۔
یہ خیال انھیں ہر دَم ڈراتا اور خوف دلاتا رہتا ہے؛چنانچہ اپنے تئیں یہ راستہ مسدود کرنے کے لیے بی جے پی نے سات بھارتی صوبوں میںیہ قانون نافذ کر دیا ہے کہ کوئی بھی ہندو اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان یا مسیحی نہیں بن سکتا۔ اِن سات صوبوں کے نام یہ ہیں:اُتر کھنڈ، اُڑیسہ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، گجرات، ہماچل پردیش اور جھاڑ کھنڈ۔ یہ پابندیاں درحقیقت بھارتی آئین اور سیکولرازم کی اخلاقیات سے متصادم ہیں۔ اِن پابندیوں سے مگر کیا ہو گا؟ جنہوں نے ہندو مَت سے نجات حاصل کرنی ہے، وہ کئی راستے تلاش کرلیں گے۔ ایسی پابندیاں اُن کے راستے کی دیوار نہیں بن سکتیں۔ واقعہ یہ ہے کہ آرچ بشپ انیل جوزف صاحب اورآرچ بشپ تھامس میکزن صاحب کے لکھے گئے خطوط نے بھارتی سیکولرازم کا پردہ چاک کر دیا ہے۔یہ خطوط دراصل بھارتی آرمی چیف ، جنرل بپن راوت، کے منہ پر طمانچہ بھی ہیں جنہوں نے ابھی چند دن پہلے ہی کہا تھا کہ'' پاکستان اگر بھارت سے بہتر تعلقات چاہتا ہے تو پاکستان کو سیکولر ملک بننا پڑے گا''۔ بھارتی سیکولرازم کا بھانڈا تو بھارتی مسیحی مذہبی قیادت نے پھوڑ دیا ہے۔
بھارتی وزیر داخلہ، راجناتھ سنگھ، نے مگر غصے سے دہکتے ہُوئے کہا ہے کہ آرچ بشپ انیل جوزف نے بنیادی بات ہی غلط کہی ہے۔ اُن کے نائب وزیر داخلہ ، مختار عباس نقوی، بھی بھاگے بھاگے آگے بڑھے ہیں اور کہا ہے کہ ''اگر بھارتی سیکولرازم محفوظ نہیں ہے تو دنیا میں کہیں بھی سیکولرازم بچا ہُوا نہیں ہے۔''آر ایس ایس ، جو نریندر مودی کی ''مدر پارٹی'' کہلاتی ہے، کے ایک رہنما ، راکیش سنہا، نے منہ سے جھاگ اُڑاتے ہُوئے آرچ بشپ صاحب کے مذکورہ سرکلر پر یوں اپنا ردِ عمل دیا ہے:'' یہ دہلی کے ایک چرچ کی طرف سے براہِ راست بھارت اور بھارتی ہندوؤں پر حملہ ہے۔
اِسے نظر انداز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہندوؤں پر حملہ آوروں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے۔''بھارتی بنیاد پرست ہندوؤں کا غصہ اپنی جگہ لیکن واقعہ یہ ہے کہ دہلی کے معزز آرچ بشپ نے اپنے سرکلر میں جو کہاہے، صد فیصد درست ہے۔ بھارت کی سبھی اقلیتیں اِس سرکلر کے مندرجات سے متفق ہیںکہ بھارت کے نام نہاد سیکولرازم کے پردے ہی میں بھارت کے تمام غیر ہندو شہریوں کا جینا حرام بنا دیا گیا ہے۔بشپ صاحب کا خط اِسی ظلم کا عکس ہے۔ جب سے نریندر مودی کی شکل میں بی جے پی ، آرایس ایس اور بجرنگ دَل ایسی متعصب اور متشدد ہندو جماعتیں برسرِ اقتدار آئی ہیں، بھارتی مسلمانوں، دَلتوں ، مسیحیوں اور سکھوں کا ناک میں دَم کر دیا گیا ہے۔
دنیاکی تقریباً تمام انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی یہ تسلیم کررہی ہیں؛ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ آرچ بشپ صاحب نے جو کہا ہے، وہ دراصل اُن کے دُکھے دل کی سچی آواز ہے۔یہ غالب ہندو اکثریت کے خلاف (ابھی)منظّم بغاوت تو نہیں ہے لیکن اِسے باقاعدہ اوربلند آواز میں احتجاج ضرور کہا جا سکتاہے۔ بھارتی مقتدر جماعت بی جے پی کو زیادہ تکلیف مگر اس لیے ہُوئی ہے کہ اگلے سال ہی بھارت میں لوک سبھا (قومی اسمبلی) کے انتخابات ہو رہے ہیں اور ہندو مذہبی جماعتوں کا خیال ہے کہ آرچ بشپ کا یہ خط دراصل بھارتی مسیحیوں کے ساتھ باقی بھارتی اقلیتوں کو بھی نریندر مودی سے دُور لے جانے کی ایک باقاعدہ ''سازش'' ہے(واضح رہے بھارت میںپانچ سے چھ کروڑ مسیحی آباد ہیں۔)
واقعہ یہ ہے کہ بھارتی آرچ بشپ کی اِس چٹھی نے بھارتی حکومت کے کئی جبریہ ہتھکنڈوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ گویا بھارت کے نام نہاد سیکولر چہرے پر کالک سی مَل دی گئی ہے۔سوال مگر یہ ہے کہ آیا دہلی کے آرچ بشپ صاحب نے بھارتی سیکولرازم اور بھارتی جمہوریت کے مکمل خاتمے کے بارے میں جن خطرناک رجحانات اورخدشات کا اظہار کیا ہے، غلط ہیں؟بھارت سے باہر بسنے والوں کو تو رکھیئے ایک طرف، خود بھارت کے اندر معتدل اور غیرجانبدار حلقے شہادت دے رہے ہیں کہ جب سے نریندر مودی اور اُن کی کٹر ہندو بنیاد پرست جماعتیں برسرِ اقتدار آئی ہیں، بھارتی مسیحیوں سمیت تمام اقلیتیں گھٹن اور جبر محسوس کررہی ہیں۔ بھارتی ہندو مذہبی شخصیات ہمیشہ یہ پروپیگنڈہ کرتی رہی ہیں کہ مسیحی ادارے اور تنظیمیں بھارتی غریب ہندوؤں کو پیسے اور دیگر معاملات کا لالچ دے کر اپنے مذہب کا حصہ بناتے ہیں۔
اِسے اساس بنا کر مقتدر اور طاقتور ہندومذہبی لیڈروں نے بھارتی مسیحیوں پر بہت زیادتیاں کی ہیں۔ گذشتہ چار برسوں کے دوران اِن کارروائیوں میں کئی گُنا اضافہ ہوا ہے۔ ایک معروف بھارتی مسیحی تنظیمThe Evangelical Fellowship of Indiaنے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ '' بھارت کے جن صوبوں میں بی جے پی کی حکومتیں قائم ہیں، وہاں مسیحیوں کی زندگیاں اجیرن بنا دی گئی ہیں۔اِن بھارتی ریاستوں میں انڈین مسیحی برادری، ہندوؤں کے ہاتھوں جبرو تشدد کا نشانہ بھی بنائی جارہی ہے اور انھیں قتل بھی کیا جارہا ہے۔اُن کے گھر بھی نذرِ آتش کیے جاتے ہیں اور اُن کے چرچ بھی۔ دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ اُن کے مشنری اسکول و کالج، جن میں سیکڑوں کی تعداد میں ہندو بھی زیر تعلیم ہیں، جلا دئے جائیں گے یا ہمیشہ کے لیے انھیں بند کر دیا جائے گا۔''
اِس انکشاف خیز رپورٹ میںیہ بھی بتایا گیا ہے کہ پچھلے سال بھارت میں 351 مسیحی،ہندوؤں کے ہاتھوں قتل کیے گئے۔کچھ اِسی طرح کے انکشافات انسانی حقوق کی علمبردار ایک اور بھارتی تنظیم نے بھی اپنی سالانہ رپورٹ میں پیش کیے ہیں لیکن نریندر مودی حکومت ٹس سے مَس نہیں ہُوئی؛ چنانچہ اِسی کا یہ نتیجہ بھی نکلا ہے کہ بھارتی گجرات ریاست کے ایک آرچ بشپ، تھامس میکزن، نے بھی بھارتی حکومت کے نام ایک احتجاجی خط لکھا ہے۔ اس کی باز گشت بھی بھارتی میڈیا میں سنائی دے رہی ہے ۔
ہندو میڈیا واویلا کر رہا ہے کہ بھارتی مسیحی رہنماؤں کے یہ خطوط دراصل بھارتی جمہوریت کے نام کو بٹہ لگانے کی سازش ہے۔ کٹر ہندوؤں کی طرف سے یہ بھی پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ بھارتی مسیحی مذہبی قیادت کے یہ خطوط دراصل اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں مودی اور اُن کی جماعت کو شکست دینے کی سازش ہیں۔ بجائے اِس کے کہ ہندو مذہبی رہنما اور مقتدر سیاسی قیادت اِن شکایات پر سنجیدگی سے کان دھرتے، اُلٹا بھارتی مسیحیوںکو ڈانٹا ڈپٹا جارہا ہے۔
دہلی کے آرچ بشپ جوزف انیل اور گجرات کے آرچ بشپ تھامس میکزن نے ہندوؤں کے مظالم اور تشدد آمیز وارداتوں کے خلاف جو احتجاجی خطوط لکھے ہیں، بھارتی حکومت اور بھارتی ہندو مذہبی قیادت اِن پر بڑی سیخ پا ہورہی ہے۔ بھارتی مسیحی بھی مقتدر ہندوؤں سے دبنے اور سہمنے کے بجائے جواب دینے کے لیے ڈَٹ گئے ہیں؛ چنانچہ اِس پیش منظر میں جان دیال سامنے آئے ہیں۔ یہ صاحب بھارتی مسیحیوں کی ایک مشہور اور منظّم تنظیم ''آل انڈیا کیتھولک یونین'' کے سابق صدر ہیں۔انھوں نے دہلی میں عالمی میڈیا کے سامنے ایک پریس کانفرنس کرتے ہُوئے کہا ہے : ''آرچ بشپ انیل جوزف نے ایک لفظ بھی غلط نہیں لکھا ہے۔
مَیں بھارت کے طُول وعرض میں پھرا ہُوں۔ اپنے ذاتی تجربات، مشاہدات اور آنکھوں دیکھے لاتعداد احوال کی بنیاد پر کہہ سکتا ہُوں کہ بھارتی مسیحیوں کے ساتھ ساتھ بھارت کی ہر اقلیت خوف اور دہشت کے سائے میں رہ رہی ہے۔ مودی حکومت نے بنیاد پرست ہندو تنظیموں کے گٹھ جوڑ سے بھارت بھر میں جو ماحول بنا دیا ہے، اِس کے نتائج یہ نکلے ہیں کہ ہر غیرہندو بھارتی شہری پر خوف کے سائے مسلّط ہیں۔'' حقیقت یہ ہے کہ ایک خوف بھارتی ہندوؤں کے ذہنوں پر بھی مسلّط ہے۔ اپنی بے پناہ عددی طاقت اور اقتدار پر مطلق غلبے کے باوجود نریندر مودی اور اُن کی دونوں بڑی ہندومذہبی اتحادی جماعتیں یہ خیال کرتی رہتی ہیں کہ ہندو اپنے مذہب سے منحرف ہو کر کہیں مسیحی یا مسلم نہ بن جائیں۔
یہ خیال انھیں ہر دَم ڈراتا اور خوف دلاتا رہتا ہے؛چنانچہ اپنے تئیں یہ راستہ مسدود کرنے کے لیے بی جے پی نے سات بھارتی صوبوں میںیہ قانون نافذ کر دیا ہے کہ کوئی بھی ہندو اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان یا مسیحی نہیں بن سکتا۔ اِن سات صوبوں کے نام یہ ہیں:اُتر کھنڈ، اُڑیسہ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، گجرات، ہماچل پردیش اور جھاڑ کھنڈ۔ یہ پابندیاں درحقیقت بھارتی آئین اور سیکولرازم کی اخلاقیات سے متصادم ہیں۔ اِن پابندیوں سے مگر کیا ہو گا؟ جنہوں نے ہندو مَت سے نجات حاصل کرنی ہے، وہ کئی راستے تلاش کرلیں گے۔ ایسی پابندیاں اُن کے راستے کی دیوار نہیں بن سکتیں۔ واقعہ یہ ہے کہ آرچ بشپ انیل جوزف صاحب اورآرچ بشپ تھامس میکزن صاحب کے لکھے گئے خطوط نے بھارتی سیکولرازم کا پردہ چاک کر دیا ہے۔یہ خطوط دراصل بھارتی آرمی چیف ، جنرل بپن راوت، کے منہ پر طمانچہ بھی ہیں جنہوں نے ابھی چند دن پہلے ہی کہا تھا کہ'' پاکستان اگر بھارت سے بہتر تعلقات چاہتا ہے تو پاکستان کو سیکولر ملک بننا پڑے گا''۔ بھارتی سیکولرازم کا بھانڈا تو بھارتی مسیحی مذہبی قیادت نے پھوڑ دیا ہے۔