سردار عثمان بزدار اور عمران خان کی کہانی
کہا جاتا ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم اور انتخابی مہم کے شروع ہونے کے بعد کہانی شروع ہوئی
سردار عثمان بزدار کے بارے میں ایک عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ ایک حادثاتی وزیر اعلیٰ ہیں۔ یہی سمجھا جا رہا ہے کہ جب بہت سارے ناموں پر اعتراضات سامنے آگئے تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا قرعہ سردار عثمان بزدار کے حق میں نکل آیا۔ ان کے وزیر اعلیٰ بننے کے حوالہ سے بہت سی کہانیاں بھی گردش کر رہی ہیں۔ ان کہانیوں میں یہ بھی ایک کہانی ہے کہ وہ خاتون اول کی چوائس ہیں۔ اس ضمن میں احسن گجر کے کردار کی بھی بات کی جاتی ہے۔ سردار عثمان بزدار عمران خان کو کیسے ملے۔ ان کو وزیر اعلیٰ کا امیدوارکس نے تجویز کیا۔
کس نے عمران خان کو کہا کہ سردار عثمان بزدار وزیر اعلیٰ ہو سکتے ہیں۔ کب عمران خان نے انھیں وزیر اعلیٰ کی نظر سے دیکھنا شروع کیا۔ یہ بات تو ممکن نہیں کہ عمران خان سردار عثمان بزدار کو جانتے ہی نہیں تھے۔ دونوں کے درمیان کوئی ذہنی ہم آہنگی ہی نہیں تھی اور بس کسی کے کہنے پر انھوں نے ایک انجان آدمی کو وزیر اعلیٰ پنجاب جیسے اہم عہدہ پر نامزد کر دیا۔ اور اب اس انجان آدمی کی روز تعریفوں کے پل باندھتے رہتے ہیں۔سوال یہ بھی اہم ہے کہ کیا سردار عثمان بزدار عمران خان کی فرسٹ چوائس نہیں تھے۔
میں نے ایک واقف حال سے سردار عثمان بزدار کے وزیر اعلیٰ بننے کی کہانی جاننے کے لیے استفسار کیاتو وہ مسکرائے اور کہنے لگے اس ضمن میں جتنے منہ اتنی باتوں والی صو رتحال ہے ۔ بہر حال حقیقت یہ ہے کہ سردار عثمان بزدار نے 9مئی 2018کو اسلام آباد میں تحریک انصاف جوائن کی۔ اس کے بعد ان کی عمران خان سے بنی گالہ میں آدھے گھنٹے کی ملاقات ہوئی۔ یہ کہا جاتا ہے کہ کم گو شریف النفس اور شرمیلی شخصیت کے مالک سردار عثمان بزدار اور عمران خان کے درمیان ایک تعلق اس ایک ملاقات میں بن گیا تھا۔ ویسے تو عمران خان اس وقت جب روز لوگ تحریک انصاف جوائن کر رہے تھے انھیں صرف چند منٹ کے لیے ملتے تھے۔ ایک تصویر بنتی اور رسمی بات ہوتی اور ملاقات ختم ہو جاتی۔ لیکن سردار عثمان بزدار کے ساتھ گپ شپ پہلی ملاقات میں کچھ لمبی ہوئی۔ لیکن اس کو حسن اتفاق بھی کہا جا سکتا ہے۔ اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس ایک ملاقات میں سردار عثمان بزدار وزیر اعلیٰ کے لیے منتخب ہو گئے تھے۔ اس ملاقات میں تو شائد وزارت کا بھی چانس نہیں تھا۔
کہا جاتا ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم اور انتخابی مہم کے شروع ہونے کے بعد کہانی شروع ہوئی۔ جنوبی پنجاب محاذ کی شمولیت اور جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے اعلان کے بعد عمران خان کویہ احساس ہو گیا کہ پنجاب میں ان کی کامیابی میں جنوبی پنجاب کا اہم کردار ہوگا۔ انتخابی سروے پول بھی یہی ظاہر کر رہے تھے کہ وسطی پنجاب میں ن لیگ مضبوط ہے جب کہ جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف مضبوط ہو گی۔ ایسے میں عمران خان نے انتخابی مہم کے دوران جون میں یہ فیصلہ کیا کہ اگر پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت بنتی ہے تو وزیر اعلیٰ جنوبی پنجاب سے ہوگا۔ اس فیصلہ میں اہم اداروں کے ذمے داران کی مشاورت بھی شامل تھی۔ جب یہ فیصلہ ہو گیا کہ پنجاب کی اگلی وزارت اعلیٰ جنوبی پنجاب کو ملے گی تو سب کے کان کھڑے ہوگئے۔
ایک عمومی خیال یہ بن گیا کہ شاہ محمود قریشی وزیر اعلیٰ ہونگے۔ لیکن وہ عمران خان کے امیدوار نہیں تھے۔ جنوبی پنجاب محاذ بنانے والے بھی وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے۔ خسرو بختیار اور دیگر بڑے بڑے جاگیردار جو تحریک انصاف میں شامل ہو رہے تھے ۔ وہ سب وزیر اعلیٰ کے منصب پر آنکھ لگائے بیٹھے تھے۔ تاہم عمران خان ان میں سے کسی کو بھی وزیر اعلیٰ بنانے کے حق میں نہیں تھے۔ جو جتنا بڑا نام تھا عمران خان اس کے اتنے ہی بڑے مخالف تھے۔ ایسے میں عمران خان کے تھنک ٹینک نے جس میں سیاسی لوگ نہیں ہیں عمران خان سے سوال کیا کہ وہ کیسا وزیر اعلیٰ تلاش کر رہے ہیں۔
عمران خان نے کہا پڑھا لکھا نوجوان۔ جس پر دولت بنانے کا کوئی الزام نہ ہو۔ بلکہ لوگوں کے لیے ایک نیا چہرہ ہو تا کہ کہیں تو تبدیلی کو دکھایا جا سکے۔ اس کے بعد جنوبی پنجاب سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والوں کی فہرست منگوائی گئی۔اس میں ایسے امیدوار کی تلاش شروع ہو گئی جو پڑھا لکھا ہو اور نیا چہرہ ہو۔ بڑے بڑے خاندان الگ کر دیے گئے۔
اس کے بعد ایک ہی نام بچ گیا اور وہ سردار عثمان بزدار کا تھا۔ایم اے پولیٹکل سائنس اور ایل ایل بی۔ دو ڈگریاں ان کی تعلیمی قابلیت کو مضبوط کر رہی تھیں۔ پسماندہ علاقہ۔ نیا چہرہ۔ شریف النفس۔ کم گو۔ کوئی سکینڈل نہیں۔ صاف کیرئیر۔ وہ تبدیلی کے تمام معیار پر پورے اتر رہے تھے۔ اس لیے ان کا نام سامنے آتے ہی عمران خان نے اپنی واحد 9مئی کی ملاقات کی نتیجے میں پسندیدگی اور دلچسپی کا اظہار کیا۔ وہ اس نام پر غور کرنے کے لیے تیار تھے۔ یہ بات باعث حیرانی ہے کہ جون کے آخری ہفتہ میں سردار عثمان بزدار کو یہ علم ہو چکا تھا کہ ان کا نام پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے زیر غور ہے۔ اس دوران ان کی عمران خان سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ ابھی الیکشن دور تھے۔ یہ سردار عثمان بزدار کی عمران خان سے دوسری ملاقات تھی۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ عمران خان نے نیم رضامندی ظاہر کر دی کہ اگر یہ اپنی سیٹ جیت جاتے ہیں تو ان کا نام ہو سکتا ہے۔
اس طرح سردار عثمان بزدار کو انتخابات سے قبل ہی معلوم ہوگیا تھا کہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے زیر غور ہیں۔ لیکن یہ ان کی سیاسی پختگی تھی کہ انھوںنے کسی کو ہوا بھی نہیں لگنی دی کہ وہ وزیر اعلیٰ کے امیدوار ہیں۔
25جولائی کے انتخابات سے اگلے دن حلقہ میں مبارکبادیں وصول کرنے کے بجائے سردار عثمان بزدار لاہور پہنچ چکے تھے۔شاہ محمود قریشی اپنی صوبائی اسمبلی کی سیٹ ہار چکے تھے۔ لیکن سردار عثمان بزدار کو معلوم تھا کہ گیم شروع ہو گئی ہے۔ وہ وزیر اعلیٰ کے امیدوار ہیں۔ لیکن وہ کسی سے ذکر نہیں کر رہے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب روز میڈیا میں تحریک انصاف کی طرف سے وزیر اعلیٰ کے لیے ایک نیا نام سامنے آتا تھا۔ یہ بھی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ عمران خان سردار عثمان بزدار کے نام کاآخری دن اعلان کرنا چاہتے تھے تاکہ کسی کو بھی مخالفت کا موقع نہ ملے۔ روز نام سامنے آرہے تھے اور روز مسترد ہو رہے تھے۔
راوی بتاتے ہیں کہ عمران خان نے سردار عثمان بزدار کے نام کا اعلان کرنے سے پہلے سردار عثمان بزدار سے کم از کم چھے طویل نشستیں کیں۔ چار سے چھ گھنٹے دورانیہ کی ان نشستوں میں عمران خان نے بزدار کو مکمل طور پر جانچنے کی کوشش کی۔ دوست بتاتے ہیں کہ عمران خان یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ واقعی شریف ہیں یا شریف لگتے ہیں۔ عمران خان انھیں اپنی سوچ بھی بتا رہے تھے اور سردار عثمان بزدار کی سوچ بھی جاننے کی کوشش کر رہے تھے۔ دوست بتاتے ہیں کہ ایک ملاقات بارہ گھنٹے سے بھی طویل رہی۔ اس طرح عمران خان نے سردار عثمان بزدار کو نامزد کرنے سے پہلے انھیں مکمل جاننے کی کوشش کی۔
یہ ساری کہانی لکھنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ سردار عثمان بزدار کوئی حادثاتی یا اتفاقی وزیر اعلیٰ نہیں ہیں۔ آج عمران خان ہر تقریب میں ان کی تعریفوں کے جو پل باندھتے ہیں وہ کوئی مصنوعی نہیں ہیں۔ سردار عثمان بزدار نے اپنی شرافت اور ایمانداری کا عمران خان کو قائل کر لیا ہوا ہے۔ عمران خان دل سے ان کے مرعوب ہو چکے ہیں۔ انھیں تبدیلی اور تحریک انصاف کا حقیقی چہرہ سمجھتے ہیں۔اسی لیے ان کے گن گا رہے ہیں۔ شاید عمران خان سمجھتے ہیں کہ اس اقتدار کے لیے انھوں نے بہت سے compromiseکیے ہیں۔ لیکن سردار عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنانا ہی ان کی کامیابی ہے۔اسی لیے بزدار کے خلاف ہر سازش ناکام ہو رہی ہے۔ میڈیا کا سارا پراپیگنڈا ناکام ہو رہا ہے۔ کیونکہ بزدار عمران خان کا سوچا سمجھا فیصلہ ہے کوئی مجبوری میں کیا ہوا فیصلہ نہیں ہے۔
کس نے عمران خان کو کہا کہ سردار عثمان بزدار وزیر اعلیٰ ہو سکتے ہیں۔ کب عمران خان نے انھیں وزیر اعلیٰ کی نظر سے دیکھنا شروع کیا۔ یہ بات تو ممکن نہیں کہ عمران خان سردار عثمان بزدار کو جانتے ہی نہیں تھے۔ دونوں کے درمیان کوئی ذہنی ہم آہنگی ہی نہیں تھی اور بس کسی کے کہنے پر انھوں نے ایک انجان آدمی کو وزیر اعلیٰ پنجاب جیسے اہم عہدہ پر نامزد کر دیا۔ اور اب اس انجان آدمی کی روز تعریفوں کے پل باندھتے رہتے ہیں۔سوال یہ بھی اہم ہے کہ کیا سردار عثمان بزدار عمران خان کی فرسٹ چوائس نہیں تھے۔
میں نے ایک واقف حال سے سردار عثمان بزدار کے وزیر اعلیٰ بننے کی کہانی جاننے کے لیے استفسار کیاتو وہ مسکرائے اور کہنے لگے اس ضمن میں جتنے منہ اتنی باتوں والی صو رتحال ہے ۔ بہر حال حقیقت یہ ہے کہ سردار عثمان بزدار نے 9مئی 2018کو اسلام آباد میں تحریک انصاف جوائن کی۔ اس کے بعد ان کی عمران خان سے بنی گالہ میں آدھے گھنٹے کی ملاقات ہوئی۔ یہ کہا جاتا ہے کہ کم گو شریف النفس اور شرمیلی شخصیت کے مالک سردار عثمان بزدار اور عمران خان کے درمیان ایک تعلق اس ایک ملاقات میں بن گیا تھا۔ ویسے تو عمران خان اس وقت جب روز لوگ تحریک انصاف جوائن کر رہے تھے انھیں صرف چند منٹ کے لیے ملتے تھے۔ ایک تصویر بنتی اور رسمی بات ہوتی اور ملاقات ختم ہو جاتی۔ لیکن سردار عثمان بزدار کے ساتھ گپ شپ پہلی ملاقات میں کچھ لمبی ہوئی۔ لیکن اس کو حسن اتفاق بھی کہا جا سکتا ہے۔ اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس ایک ملاقات میں سردار عثمان بزدار وزیر اعلیٰ کے لیے منتخب ہو گئے تھے۔ اس ملاقات میں تو شائد وزارت کا بھی چانس نہیں تھا۔
کہا جاتا ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم اور انتخابی مہم کے شروع ہونے کے بعد کہانی شروع ہوئی۔ جنوبی پنجاب محاذ کی شمولیت اور جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے اعلان کے بعد عمران خان کویہ احساس ہو گیا کہ پنجاب میں ان کی کامیابی میں جنوبی پنجاب کا اہم کردار ہوگا۔ انتخابی سروے پول بھی یہی ظاہر کر رہے تھے کہ وسطی پنجاب میں ن لیگ مضبوط ہے جب کہ جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف مضبوط ہو گی۔ ایسے میں عمران خان نے انتخابی مہم کے دوران جون میں یہ فیصلہ کیا کہ اگر پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت بنتی ہے تو وزیر اعلیٰ جنوبی پنجاب سے ہوگا۔ اس فیصلہ میں اہم اداروں کے ذمے داران کی مشاورت بھی شامل تھی۔ جب یہ فیصلہ ہو گیا کہ پنجاب کی اگلی وزارت اعلیٰ جنوبی پنجاب کو ملے گی تو سب کے کان کھڑے ہوگئے۔
ایک عمومی خیال یہ بن گیا کہ شاہ محمود قریشی وزیر اعلیٰ ہونگے۔ لیکن وہ عمران خان کے امیدوار نہیں تھے۔ جنوبی پنجاب محاذ بنانے والے بھی وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے۔ خسرو بختیار اور دیگر بڑے بڑے جاگیردار جو تحریک انصاف میں شامل ہو رہے تھے ۔ وہ سب وزیر اعلیٰ کے منصب پر آنکھ لگائے بیٹھے تھے۔ تاہم عمران خان ان میں سے کسی کو بھی وزیر اعلیٰ بنانے کے حق میں نہیں تھے۔ جو جتنا بڑا نام تھا عمران خان اس کے اتنے ہی بڑے مخالف تھے۔ ایسے میں عمران خان کے تھنک ٹینک نے جس میں سیاسی لوگ نہیں ہیں عمران خان سے سوال کیا کہ وہ کیسا وزیر اعلیٰ تلاش کر رہے ہیں۔
عمران خان نے کہا پڑھا لکھا نوجوان۔ جس پر دولت بنانے کا کوئی الزام نہ ہو۔ بلکہ لوگوں کے لیے ایک نیا چہرہ ہو تا کہ کہیں تو تبدیلی کو دکھایا جا سکے۔ اس کے بعد جنوبی پنجاب سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والوں کی فہرست منگوائی گئی۔اس میں ایسے امیدوار کی تلاش شروع ہو گئی جو پڑھا لکھا ہو اور نیا چہرہ ہو۔ بڑے بڑے خاندان الگ کر دیے گئے۔
اس کے بعد ایک ہی نام بچ گیا اور وہ سردار عثمان بزدار کا تھا۔ایم اے پولیٹکل سائنس اور ایل ایل بی۔ دو ڈگریاں ان کی تعلیمی قابلیت کو مضبوط کر رہی تھیں۔ پسماندہ علاقہ۔ نیا چہرہ۔ شریف النفس۔ کم گو۔ کوئی سکینڈل نہیں۔ صاف کیرئیر۔ وہ تبدیلی کے تمام معیار پر پورے اتر رہے تھے۔ اس لیے ان کا نام سامنے آتے ہی عمران خان نے اپنی واحد 9مئی کی ملاقات کی نتیجے میں پسندیدگی اور دلچسپی کا اظہار کیا۔ وہ اس نام پر غور کرنے کے لیے تیار تھے۔ یہ بات باعث حیرانی ہے کہ جون کے آخری ہفتہ میں سردار عثمان بزدار کو یہ علم ہو چکا تھا کہ ان کا نام پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے زیر غور ہے۔ اس دوران ان کی عمران خان سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ ابھی الیکشن دور تھے۔ یہ سردار عثمان بزدار کی عمران خان سے دوسری ملاقات تھی۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ عمران خان نے نیم رضامندی ظاہر کر دی کہ اگر یہ اپنی سیٹ جیت جاتے ہیں تو ان کا نام ہو سکتا ہے۔
اس طرح سردار عثمان بزدار کو انتخابات سے قبل ہی معلوم ہوگیا تھا کہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے زیر غور ہیں۔ لیکن یہ ان کی سیاسی پختگی تھی کہ انھوںنے کسی کو ہوا بھی نہیں لگنی دی کہ وہ وزیر اعلیٰ کے امیدوار ہیں۔
25جولائی کے انتخابات سے اگلے دن حلقہ میں مبارکبادیں وصول کرنے کے بجائے سردار عثمان بزدار لاہور پہنچ چکے تھے۔شاہ محمود قریشی اپنی صوبائی اسمبلی کی سیٹ ہار چکے تھے۔ لیکن سردار عثمان بزدار کو معلوم تھا کہ گیم شروع ہو گئی ہے۔ وہ وزیر اعلیٰ کے امیدوار ہیں۔ لیکن وہ کسی سے ذکر نہیں کر رہے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب روز میڈیا میں تحریک انصاف کی طرف سے وزیر اعلیٰ کے لیے ایک نیا نام سامنے آتا تھا۔ یہ بھی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ عمران خان سردار عثمان بزدار کے نام کاآخری دن اعلان کرنا چاہتے تھے تاکہ کسی کو بھی مخالفت کا موقع نہ ملے۔ روز نام سامنے آرہے تھے اور روز مسترد ہو رہے تھے۔
راوی بتاتے ہیں کہ عمران خان نے سردار عثمان بزدار کے نام کا اعلان کرنے سے پہلے سردار عثمان بزدار سے کم از کم چھے طویل نشستیں کیں۔ چار سے چھ گھنٹے دورانیہ کی ان نشستوں میں عمران خان نے بزدار کو مکمل طور پر جانچنے کی کوشش کی۔ دوست بتاتے ہیں کہ عمران خان یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ واقعی شریف ہیں یا شریف لگتے ہیں۔ عمران خان انھیں اپنی سوچ بھی بتا رہے تھے اور سردار عثمان بزدار کی سوچ بھی جاننے کی کوشش کر رہے تھے۔ دوست بتاتے ہیں کہ ایک ملاقات بارہ گھنٹے سے بھی طویل رہی۔ اس طرح عمران خان نے سردار عثمان بزدار کو نامزد کرنے سے پہلے انھیں مکمل جاننے کی کوشش کی۔
یہ ساری کہانی لکھنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ سردار عثمان بزدار کوئی حادثاتی یا اتفاقی وزیر اعلیٰ نہیں ہیں۔ آج عمران خان ہر تقریب میں ان کی تعریفوں کے جو پل باندھتے ہیں وہ کوئی مصنوعی نہیں ہیں۔ سردار عثمان بزدار نے اپنی شرافت اور ایمانداری کا عمران خان کو قائل کر لیا ہوا ہے۔ عمران خان دل سے ان کے مرعوب ہو چکے ہیں۔ انھیں تبدیلی اور تحریک انصاف کا حقیقی چہرہ سمجھتے ہیں۔اسی لیے ان کے گن گا رہے ہیں۔ شاید عمران خان سمجھتے ہیں کہ اس اقتدار کے لیے انھوں نے بہت سے compromiseکیے ہیں۔ لیکن سردار عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنانا ہی ان کی کامیابی ہے۔اسی لیے بزدار کے خلاف ہر سازش ناکام ہو رہی ہے۔ میڈیا کا سارا پراپیگنڈا ناکام ہو رہا ہے۔ کیونکہ بزدار عمران خان کا سوچا سمجھا فیصلہ ہے کوئی مجبوری میں کیا ہوا فیصلہ نہیں ہے۔