نریندر مودی کی سیاسی پسپائی

بنیادی طورپر نریندرمودی بھارت کے سرمایہ دار طبقہ اور انتہا پسند ہندوؤں کی سیاست کے درمیان کٹھ پتلی بن گئے


سلمان عابد December 17, 2018
[email protected]

NEW DELHI: نریندر مودی اور بی جے پی کی حکومت کو بہت سے سیاسی پنڈت معاشی ترقی اور خوشحالی کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔ ان سیاسی پنڈتوں کا خیال تھا کہ نریندر مودی وزیر اعظم بن کر گجرات کی ترقی کے ماڈل کو پورے بھارت میں پھیلانے میں کامیاب ہونگے۔ اسی بنیاد پر بھارت کے بڑے بڑے سرمایہ داروں نے مودی کی انتخابی مہم میں بڑی مالی سرمایہ کاری کی اور اسے ترقی کی کنجی قرار دیا ۔لیکن نریندر مودی کی سرکار نے سیکولر بھارت کو ہندواتہ کی سیاست میں دھکیلا اور پاکستان ,مسلم دشمنی کو بنیاد بنا کر جو سیاست کی اس پر ان کے حامی سرمایہ دار بھی نالاں تھے۔

بنیادی طورپر نریندرمودی بھارت کے سرمایہ دار طبقہ اور انتہا پسند ہندوؤں کی سیاست کے درمیان کٹھ پتلی بن گئے اور انتہا پسند ہندو ان کی سیاست اور فیصلوں پر ایسے غالب ہوئے کہ وہ انتہاپسندی کی سیاست کے دائرہ سے باہر نہیں نکل سکے ۔ انتخابات کسی بھی جماعت کی سیاسی مقبولیت کو جانچنے کا اک بڑا پیمانہ ہوتے ہیں ۔

پچھلے دنوں بھارت کی پانچ بڑی ریاستوں کے انتخابات ہوئے۔ان ریاستوں میںمدھیہ پردیش,راجستھان,چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورام شامل ہیں ۔ ان انتخابات سے قبل مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں پچھلے 15برس سے بی جے پی کی حکومت تھی جب کہ راجستھان میں بھی پچھلے پانچ برس سے بی جے پی اقتدار میں شامل تھی ۔ان تینوں ریاستوں کو بی جے پی کی سیاست کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا,مگر حالیہ ریاستی انتخابات میں بی جے پی اور مودی حکومت کو ان تینوں اہم ریاستوں میں کانگریس کے ہاتھوں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔جب کہ دیگر دو ریاستوں میں بھی بی جے پی شکشت کھاگئی اور وہاں علاقائی جماعتوں کو کامیابی ملی ۔اس تناظر میں پانچوں ریاستوں میں بی جے پی کی شکست کو سیاسی ماہرین ایک بڑی سیاسی شکست کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ جو بی جے پی کا دعوی تھا کہ اب اقتدار ان سے نہیں چھینا جاسکے گا ، غلط ثابت ہوا ہے ۔

جو تنائج سامنے آئے ہیں اس کے مطابق مدھیہ پردیش کی 230نشستوں میں سے کانگریس کو 114جب کہ بی جے پی کو 109نشستیں مل سکیں ۔جب کہ راجسھتان میں 199نشستوں پر جو مقابلہ ہوا اس میں کانگریس کو 101 جب کہ بی جے پی کو73نشستیں مل سکیں۔عملاً ان دونوں ریاستوں میں کانگریس حکومت بناسکتی ہے ۔تلنگانہ میں مقامی جماعت راشٹرزسمیھتی نے دونوں جماعتوں کانگریس اور بی جے پی کو انتخابی شکست سے دوچار کیااور 119 نشستوں میں سے 88نشستوں پر کامیابی حاصل کی ,کانگریس کو 21اور بی جے پی کو محض ایک نشست مل سکی۔ چھتیس گڑھ کی90نشستوں میں سے کانگریس کو 68 نشستوں پر کامیابی ملی جب کہ بی جے پی محض 16نشستیں حاصل کرسکی ۔کانگریس کی حکومت یہاں بھی بن سکتی ہے۔ البتہ میزو رام ریاست میں کانگریس کو شکست کا سامنا کرنا پڑایہاں کانگریس کی حکومت تھی,لیکن مقامی جماعت میزو نیشنل فرنٹ نے 40میں سے 26نشستوں پر کامیابی حاصل کی ,جب کہ کانگریس پانچ نشستوں پر جیت سکی ۔

بھارت میں عام انتخابات 2019میں ہونے ہیں۔ ان عام انتخابات سے قبل ان پانچ بڑی ریاستوں کے انتخابی نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ مودی سرکار کو ایک بڑا سیاسی دھچکا لگا ہے ۔ ان ریاستی انتخابات کے نتائج بی جے پی کو متوقع خطرات سے آگاہ کررہے ہیں کہ ان کے لیے عام انتخابات میں سب کچھ اچھا نہیں ہے اور اسے ذہنی و سیاسی طور پر کچھ نئی منصوبہ بندی کرنی ہوگی ۔کانگریس جو کافی برسوں سے اپنی سیاسی بقا کی بحالی کی جنگ لڑرہی ہے اسے ان پانچ ریاستی انتخابات میں سے تین ریاستوں میں کامیابی نے ایک بڑا سیاسی ریلیف دیا ہے ۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کانگریس کی قیادت اور بالخصوص سونیا گاندھی اور ان کا بیٹا راہول گاندھی کئی برسوں سے سیاسی طور پر تنہائی کا شکار تھے , لیکن انھوں نے مودی حکومت میں سیاسی پسپائی کے بجائے کافی محنت کی۔ کچھ سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ راہول گاندھی اگلے عام انتخابات میں بھارت کی سیاست میں بڑی تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ مضبوط بی جے پی اور نریندر مودی جسے ایک بڑی طاقت سمجھا جاتا ہے کیونکر ان ریاستی انتخابات میں نتائج میں اپنا سیاسی جادو نہیں چلاسکے۔ اس کی چار بڑی وجوہات ہیں ۔

اول مودی سرکار نے بڑے بڑے سیاسی معاشی نعرے یا دعوے کیے تھے لیکن لوگ ان کی معاشی اور سیاسی پالیسیوں سے نالاں تھے اور اس کا اظہار انھوں نے ان کی مخالفت میں ووٹ دے کر دیا ہے ۔ دوئم بھارت میں موجود مسلمان سمیت دیگر اقلیتوں میں مودی سرکار کے بارے میں بہت زیادہ تحفظات تھے ۔ بھارت میں موجود اقلیتیں انتہا پسند ہندوؤں سے اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں ۔ سوئم مودی سرکار کا ہندواتہ کی پالیسی پر مضبوطی دکھانا اور مسلم دشمنی کی بنیاد پر سیاست کو وہاں کے روشن خیال ہندوؤں نے بھی بری طرح مسترد کیا۔چہارم مودی سرکار نے انتہا پسند ہندو طبقہ کو لگام ڈالنے کے بجائے ان کی کھل کر سرپرستی کی اور عملاً اپنے آپ کو انتہا پسندی سے جوڑا۔ بی جے پی اور مودی سرکار کے پاس ان پانچ برسوں میں بڑا اچھا موقع تھا کہ وہ بھارت کی پرانی روائتی سیاست سے ہٹ کر کچھ ایسا نیا کرتی جو بھارت سمیت علاقائی سیاست میں بھی ان کی سیاسی کامیابی کے امکانات کو روشن کرتا ۔ابتدا میں جو سیاسی ماڈل مودی نے پیش کیا تھا۔

اسے بڑی پزیرائی بھی ملی , لیکن عملی سیاست میں وہ اپنے معاشی ماڈل کو چھوڑ کر انتہا پسندی کو نئی سیاسی طاقت فراہم کرنے کے ایجنڈے میں پھنس گئے اورآج اس کا نتیجہ ان کو اپنی ہی مضبوط ریاستوں میں بدترین شکست کے طور پر دیکھنا پڑا ہے ۔بدقسمتی سے ان پانچ ریاستی انتخابات کے نتائج سے قبل وہاں کے سیاسی پنڈت تواتر کے ساتھ بی جے پی کی حکومت کو اشارے کررہے تھے کہ ان کے ساتھ سب اچھا نہیں ہے ,مگر مودی سرکار کی بہت زیادہ خوش فہمی کی سیاست نے ان کو اب واقعی سیاسی تنہائی میں ڈال دیا ہے۔

اپریل2019میں ہونے والے عام انتخابات میں اپنی سیاسی بقا قائم رکھنے کی بی جے پی کی کوشش کس حد تک کامیاب ہوگی اس پر فوری طور پر حتمی رائے نہیں دی جاسکتی۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر مودی سرکار موجودہ پالیسیوں کے تسلسل کو ہی برقرار رکھتی ہے اور جو غلطیاں اب تک اس سے ہوئی ہیں اس سے کچھ نہیں سیکھتی تو ووٹرز دوبارہ مخالفانہ ردعمل دے سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کی انتخابی سیاست میں پاکستان دشمنی کا ایجنڈا بکتا ہے اور مودی سرکار اسی نکتہ کو بنیاد بنا کر اگر انتخابی مہم میں اترتی ہے تو وہ ماضی کی غلطیوں سے باہرنہیں نکل سکے گی۔مگر مودی سرکار کی کوشش ہوگی کہ وہ پاکستان دشمنی یا مخالفت کے ایجنڈے میں اور زیادہ شدت کو پیدا کرکے ووٹرز کی ہمدردی کو حاصل کرے تاکہ وہ ہندو ازم کی جذباتی کیفیت سے فائدہ اٹھاسکے۔لیکن لگتا ہے کہ مودی سرکار کی مہم جوئی نے اسے اور اس کی جماعت کو زیادہ سیاسی تنہائی میں ڈال دیا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں