تجاوزات کا ڈیم کی تعمیر میں کردار
شہروں میں تعینات کمشنر اور ڈپٹی کمشنروں کی سیاسی وابستگیاں گزشتہ حکومت سے ہیں
وہ پالیسی کبھی اچھی نہیں ہوسکتی جس کے نتیجے میں معماری کی بجائے تخریب کاری کا جنم ہو ۔ ایک حکمران کو چاہیے کہ جب وہ کسی تبدیلی کا حکم دے یا پھر برسرِ اقتدار آکر ریاستی مشینری کے ذریعے معاشرے میں کچھ بہتری لانے کی خواہش کے زیرِ اثرکچھ احکامات صادرکرے یا کوئی پالیسی سازی کرے، تو اس بات کا ضرور خیال رکھے کہ اس کے احکامات اور پالیسیوں کے نتیجے میں سماج کے اندر مثبت اور تعمیری کام ہوں نہ کہ تخریبی کارروائیوں کا آغاز ہو جائے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے تجاوزات کو ہٹانے کا فیصلہ یقیناََ مخلص سوچ کے ساتھ کیا ہوگا، مگر اس کے نتیجے میں ہمارے ملک کے اندر بڑے پیمانے پر غریب عوام کے گھر اورکاروبار تباہ کر دیے گئے ہیں۔
تجاوزات کو ہٹانے کی خواہش نے یقینا اسی سوچ کے تحت جنم لیا ہو گا کہ ماضی کے مقتدر اور برسرِ اقتدار طبقات اور ان کے زیر اثر پلنے والے قبضہ مافیا نے جن جن قومی املاک اور زمینوں پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے وہ ختم کرایا جائے، تاکہ ہمارے سماج میں قبضہ مافیا کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔یہ ایک اچھی سوچ تھی کہ ہمارے ملک میں ہرکام معیار اور انصاف کے مطابق ہو، مگر ناجائز تجاوزات کو ہٹانے کا حکم ملتے ہی سب سے پہلے ہر شہر میں غریب کے جھونپڑے،کھوکھے اور چھوٹی چھوٹی دکانوں پر مبنی کاروبار تباہ کر دیے گئے۔
تجاوزات ہٹانے کے حوالے سے موجودہ حکومت کی سب سے بڑی انتظامی ناکامی یہ تھی کہ حکومت نے غریب لوگوں کو کوئی نعم البدل فراہم نہیں کیا۔ مثال کے طور پرچھوٹی دکانوں اور ریڑھیاں یا کھوکھے پرکاروبار چلانے والے افراد کے لیے ہر شہر میں اوپن مارکیٹ کے لیے حکومت کوئی جگہ فراہم کرتی اور ان کو وہاں منتقل کیا جاتا، اگر ہر محلے میں ایک ایک پلاٹ اوپن مارکیٹ کے لیے مختص کر دیا جاتا تو کم از کم ریڑھی لگانے والے اورکھوکھے چلانے والے انتہائی غریب افراد کے کاروبار بھی بچے رہتے اور ہمارے شہر بھی تجاوزات کو ہٹائے جانے کے نتیجے میں صاف ستھرے ہوجاتے، مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا ، الٹا بہت سے گھروں کے چولہے بند کر دیے گئے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت تجاوزات کوہٹانے کے نام پر اندھا دھندغریبوں کے گھر اور کاروباری مراکز تباہ کرنے کی بجائے کسی حکمتِ عملی سے کام لیتے ہوئے تعمیر شدہ عمارتوں کے مالکان پر تجاوزات کو تعمیرکرنے کی وجہ سے جرمانہ عائد کرتی اور جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت عمارتوں یا کاروباری مراکزکوگرایا جاتا۔ کم ازکم عوام کو ان کے گھر اور کاروبار بچانے کا حکومت ایک موقع ضرور دیتی۔ اس سے ہمارے ملک اور اس کے رہنے والوں کو زیادہ فائدہ پہنچتا۔ میںاس بات پر حیران ہوں کہ حکومت میں بہت سے لندن پلٹ افراد بھی موجود ہونے کے باوجود کسی نے ہمارے وزیر اعظم کو یہ مشورہ نہیں دیا کہ مسماری کی بجائے معماری پر توجہ دی جائے۔
بالکل ویسے ہے جیسے برطانیہ میں یہاں کی مقامی کونسلزکرتی ہیں۔ برطانیہ میں کونسلزکی بتائی ہوئی حدود یا بنائے ہوئے گھروں کے نقشوںسے تجاوز کرتے ہوئے جب بھی کسی نے اپنے گھرکی مزید تعمیر کی،اس کے نتیجے میں کونسلز نے تعمیر شدہ کوئی بھی عمارت کبھی نہیں گرائی بلکہ کونسل کی حدود سے تجاوز کرنے والے گھروں یا دکانات کے مالکان کو بھاری جرمانہ ادا کرنے کا کہا جاتا ہے۔ یہی اصول اگر ہم بھی اپنے یہاں اپنا لیتے، خصوصاََ اس وقت جب ہمارا قومی خزانہ خالی بتایا جا رہا ہے اور ہمیں ڈیم کی تعمیرات کے لیے فنڈز کی اشد ضرورت ہے توکیا ہی اچھا ہوتا کہ ملک بھر میں لوگوں کے کاروبار تباہ بھی نہ ہوتے یا تعمیر شدہ گھرگرانے پڑتے، بلکہ ہمارے حکومتی ارکان کو چاہیے تھا کہ لوگوں سے ہر اس جگہ کی موجودہ مارکیٹ ویلیو کے حساب سے قیمت وصول کرنے کی ڈیل کرتے اور تمام پیسہ ڈیم فنڈز میں جمع کرا دیا جاتا۔
تجاوزات کو ہٹانے کا عمل وہاںسے آغاز ہونا چاہیے تھا جہاں جہاں بڑے بڑے کارو باری اور سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے افراد نے پلازے یا ہوٹل بلدیہ کی زمینوں پر تعمیرکر رکھے ہیں۔ ایسی عمارتیں اگرکسی شہرکی خوبصورتی کو متاثر نہیں کر رہیں تو ان کو بھی مسمار کرنے کی بجائے ان سے مارکیٹ ویلیو کے مطابق رقم کی وصولی کی کوشش کی جائے۔ اس سے ایک طرف تو تخریب کاری سے بچا جاسکتا ہے کیونکہ عمارتیں گرانے سے حکومت کے خزانے میں نہ تو کوئی اضافہ ہورہا ہے اور نہ ہی شہروں کی خوبصورتی میں، خصوصاَ اس وقت جب ملبے کے ڈھیر وہیں کہ وہیں چھوڑ دیے جاتے ہیں اور ان کے سمیٹنے کا کوئی بھی بندوبست نہیں کیا گیا اور اگر ان کو سمیٹنے کا بندو بست کیا بھی جائے تو اس کام پر مزید اخراجات ہونگے۔ اس لیے وہ راستہ اپنایا جانا چاہیے جس میں معماری کا عمل لازمی اور بنیادی عنصر بن جائے۔
تجاوزات کا حکم دینے کے بعد حکومت کو چاہیے تھا کہ اس بات کا بھی خاص خیال رکھتی کہ اس پر عمل درآمد کرنے والے ملازمین اور بیوروکریٹس کے سیاسی رحجانات کیا ہیں کیونکہ شہروں کی دیکھ بھال اور ترقیاتی کام انھی کے تحت عمل پذیر ہوتے ہیں۔ ان کے سیاسی رحجانات اور سیاسی وابستگیاں یقیناَ ان کے کاموں پر نہ چاہتے ہوئے بھی اثر انداز ہوتی ہیں ۔ اس کی مثال ہمارے مختلف شہروں میں گرائے جانے والے غریب عوام کے مکانات، جھونپڑے اورکاروباری کھوکھے ہیں جن کو بڑی بیدردی سے سب سے پہلے نشانہ بنایا گیا ہے۔
جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ (جیسا کہ وزیرِ اعظم کا لوگوں سے وعدہ تھا) سب سے پہلے بڑے ـ''چوروں اور لٹیروں'' کا احتساب کیا جاتا اور تجاوزات بھی سب سے پہلے انھی کی مسمار کی جاتیں تو غریب طبقہ اتنی محرومی اور غصے کا شکار نہ ہوتا، مگر جس طرح سے غریب طبقے کی املاک کو بیدردی سے مسمار کیا گیا ہے اس سے یہی تاثر ملتا ہے جیسے اکثر شہروں میں تعینات کمشنر اور ڈپٹی کمشنروں کی سیاسی وابستگیاں گزشتہ حکومت سے ہیں۔
اسی لیے انھوں نے سب سے پہلے غریب طبقے کی املاک کو نشانہ بنایا ہے، تاکہ غریب طبقہ اس حکومت سے نفرت کرنے لگے کیونکہ یہی غریب طبقہ ہمارے ملک کی اکثریت بھی ہے اور پی ٹی آئی کی محبت میں مبتلا بھی اسی طبقے نے پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہونے میں مرکزی کردار ادا کیاتھا۔
بیوروکریٹس نے تجاوزات کے حوالے سے کیے گئے حکومتی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کی آڑ میں عوام کے دلوںمیں موجودہ حکومت اور حکمرانوں کے لیے نفرت کے بیچ بونے میں کوئی کثر نہیں اٹھا رکھی۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے عمارتوں اور غریب لوگوں کے کاروبار کو تباہ کرنے کی بجائے ان سے جرمانہ وصول کرے اور ڈیم فنڈز میں جمع کرائے۔اس فیصلے کے نتیجے میں ملک بھی خوشحال ہوگا اور اس ملک کے رہنے والے بھی۔ اس سے ایک طرف تو غریب لوگوں کے بنے بنائے کاروبار جو ان کے بچوں کے پالنے کا واحد ذریعہ بھی ہیں۔
تباہ ہونے سے بچ جائیں گے اور بہت سے افراد بے گھر بھی نہیں ہونگے، تو دوسری طرف عوام میں اس حکومت کے لیے نفرت بھی نہیں بڑھے گی اور جرمانے کی مد میں وصول کیا جانے والہ پیسہ ڈیم کی تعمیر میں کام آسکے گا۔ اگر کچھ ہٹانا ہے تو جگہ جگہ سے ریڑھی بان اور کھوکھے والوں کوہٹا کر ان کے لیے ہر شہر کی بلدیہ کھلے پلاٹوں کا بندوبست کرکے ان کو ایک مخصوص جگہ پر ریڑھیاں یا کھوکھے لگا کرکاروبارکرنے کا موقع دے۔