عورت کی تعلیم دین کا حکم بھی سماج کی خدمت بھی

اگر عورت تعلیم اور انسانیت سے عاری ہو تو اس کی موجودگی اچھے خاصے گھر کو جہنم بنادیتی ہے


انعم وصی December 20, 2018
اگر عورت تعلیم اور انسانیت سے عاری ہو تو اس کی موجودگی اچھے خاصے گھر کو جہنم بنادیتی ہے۔ (فوٹو: یو این ایچ سی آر)

LONDON: دنیا میں وہی قوم ترقی کرتی ہے جس کے مرد و زن، دونوں ہی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں۔ تعلیم انسان میں شعور پیدا کرتی ہے اور اسے اخلاق کے ساتھ ساتھ اچھے برے کی تمیز بھی سکھاتی ہے۔ تعلیم ہی وہ بنیادی چیز ہے جس کی وجہ سے اللہ پاک نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ عہدِ جاہلیت میں عورت کو کوئی مقام و اہمیت نہیں دی جاتی تھی بلکہ بیٹی کی پیدائش کو اپنے لئے آزمائش سمجھ کر اُسے زندہ دفن کردینے کا رواج عام تھا۔

دینِ اسلام نے ایسے تمام رواج کا قلع قمع کیا اور عورتوں کے حقوق واضح کرتے ہوئے نہ صرف معاشرے میں عورت کو عزت و مقام دیا بلکہ علم کے میدان میں عورت و مرد کی تفریق بھی ختم کرکے عورتوں کےلیے بھی دینی و دنیاوی تعلیم کے حصول پر زور دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے فرمانِ عالیشان ''علم حاصل کرنا ہر مرد و عورت پر فرض ہے'' کی تکمیل ہمیں عہدِ رسالتﷺ میں یوں نظر آتی ہے کہ حضرت خدیجہؓ کا شمار اس عہد کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس احادیث کا ذخیرہ موجود تھا اور لوگ ان سے اپنے معاملات میں مدد مانگا کرتے تھے۔

افسوس کہ پاکستان میں، جسے ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' کہا جاتا ہے، آج بھی ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو مسلمان ہونے کے باوجود عورتوں کی تعلیم کو تنگ نظری سے دیکھتے ہیں اور عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے، اپنی دقیانوسی سوچ کے ذریعے، زمانۂ جاہلیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں ایسے بہت سے والدین بھی موجود ہیں جو اپنی بیٹیوں کی نہ صرف بنیادی تعلیم بلکہ اعلیٰ تعلیم تک کے حق میں ہیں اور انہیں تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کےلئے ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وہ لوگ جو عورت کی تعلیم کے حوالے سے آج تک دقیانوسیت میں پڑے ہیں، وہ ان والدین کو آزاد خیال اور ایسے بہت سے غلط القابات سے نوازتے ہوئے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ افسوس ان میں صرف اَن پڑھ اور جاہل افراد نہیں بلکہ کچھ پڑھے لکھے افراد بھی شامل ہیں جو عورت کی تعلیم کے خلاف نظر آتے ہیں۔ مگر انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں عورت کی تعلیم کس حد تک ضروری ہے۔

وہ قوم کسی شان کی حقدار نہیں
جس قوم کی عورت ابھی بیدار نہیں


جس طرح مرد اور عورت معاشرے کے جزوِ لازم اور ایک دوسرے کےلیے لازم و ملزوم ہیں، اسی طرح کسی قوم کی ترقی کا انحصار عورت کی تعلیم پر ہے کیونکہ ایک مرد کی تعلیم صرف اسے فائدہ پہنچاتی ہے جبکہ ایک عورت کی تعلیم کئی نسلوں کو سنوار دیتی ہے۔ ہر انسان کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے جہاں سے وہ بنیادی علوم سیکھنا شروع کرتا ہے۔ یہاں پر سوچنے کی بات ہے کہ علم سے عاری ماں، علم کی شمع کیسے روشن کر سکتی ہے جبکہ وہ خود اندھیرے میں ہے؟ لہٰذا ایک تعلیم یافتہ ماں ہی اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرسکتی ہے؛ اور معاشرے کو امن کا گہوارہ بنا سکتی ہے۔

اس ذیل میں نپولین بونا پارٹ کا قول مشہور ہے: ''تم مجھے تعلیم یافتہ مائیں دو، میں تمہیں ایک مہذب اور تعلیم یافتہ معاشرہ دوں گا۔''

آنے والی نسل کی اچھی تربیت ایک پڑھی لکھی ماں ہی بہتر انداز سے کر سکتی ہے۔ پاکستان کی آبادی کا تقریباً 51 فیصد عورتوں پر مشتمل ہے، اسی وجہ سے ان کا تعلیم یافتہ ہونا بھی بہت ضروری ہے تاکہ وہ ملک کی خوشحالی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ ایک پڑھی لکھی ماں جانتی ہے کہ بچہ اپنے ماحول میں بہت کچھ سیکھتا ہے اس لئے وہ اپنے بچوں کو صاف ستھرا اور پاک ماحول دینے کے لئے اس پر نظر رکھتی ہے اور بچوں کو ایسے ماحول سے دور رکھتی ہے جن سے ان پر برے اثرات پڑیں اور وہ اس ماحول میں خود کو ڈھال لیں جہاں گالی گلوچ، نشہ اور دیگر غلط کام عام ہوں۔ اس کے برعکس بہت سی مائیں ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کو ایسے ماحول سے نہیں روکتیں جس کی مثال آج ہمارے معاشرے میں تیزی سے نظر آرہی ہے۔

اس کے علاوہ سائنس، انٹرنیٹ اور نت نئی ٹیکنالوجی کے اس دور میں عورتوں کے لئے تعلیم حاصل کرنا اور بھی ضروری ہوگیا ہے کیونکہ یورپی ثقافت کا اثر معصوم بچوں کے اذہان کو مسموم کررہا ہے۔ اگر والدہ اَن پڑھ یا کم پڑھی لکھی ہے تو وہ اس کے ذریعے سے بچوں میں ہونے والے بگاڑ سے انہیں محفوظ نہیں رکھ سکتی؛ جبکہ باشعور اور تعلیم یافتہ ماں ہی اپنے بچوں کو ان تمام اثرات سے بچا سکتی ہے کیونکہ باشعور اور تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے وہ اچھے اور برے میں تمیز کرسکتی ہے، جو اس کے بچوں کو ایک اچھا انسان اور ایک اچھا شہری بنانے میں معاون ثابت ہوتاہے۔

اس کے علاوہ پڑھی لکھی مائیں اپنے بچوں کی صحت، تعلیم اور تربیت کا خیال زیادہ بہتر طور پر کرسکتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کے بچے زیادہ توانا اور تعلیم کے میدان میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

آج کے اس ترقی یافتہ دور میں جو بھی ملک تعمیر و ترقی کے لئے کوشاں ہے، وہ اپنی ترقی کے سفر میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی شمولیت کا بھی متلاشی ہے، کیونکہ کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کا کردار بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ تعلیم نسواں کے ذریعے کسی ملک میں معاشی و اقتصادی تبدیلی رونما ہوتی ہے، جہاں عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کرتی ہے۔ تعلیم عورت میں خود اعتمادی اور ذات شناسی کی لہرپیدا کرتی ہے جس سے وہ معاشرے میں اپنی بقاء کی جنگ لڑتی ہے اور اپنے وجود کو برقرار رکھتی ہے۔ اسی تعلیم کے ذریعے عورت نہ صرف اپنے لئے ذریعۂ معاش پیدا کرسکتی ہے بلکہ غربت کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کرسکتی ہے؛ اور اپنی اور اپنے بچوں کی کفالت کا بوجھ بھی اٹھاسکتی ہے۔ تعلیم کے ذریعے ہی عورت اپنے قانونی حقوق اور ان کی دستیابی سے آشنا ہوپاتی ہے۔

اگر عورت تعلیم اور انسانیت سے عاری ہو تو اس کی موجودگی اچھے خاصے گھر کو جہنم بنادیتی ہے۔ اس کے برعکس، پڑھی لکھی اور اچھی تربیت کی حامل عورت کا اعلیٰ کردار پورے گھر کے لئے نعمت ثابت ہوسکتا ہے۔ اس معاملے میں تعلیم مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔ یہی موجودہ وقت کا تقاضا بھی ہے کہ عورتیں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں کیونکہ تعلیم انسان کو بہتر زندگی گزارنا سکھاتی ہے۔ مزید یہ کہ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ عورت کو زندگی میں مختلف کردار نباہنے پڑتے ہیں، کبھی ماں کے روپ میں تو کبھی بیٹی کے روپ میں، کبھی بیوی کے روپ میں تو کبھی بہن کے روپ میں۔ البتہ ان تمام مدارج میں اس کی ذمہ داری بھی بدلتی رہتی ہیں۔ زندگی کے ان کردار و مدارج کو کامیابی کے ساتھ گزارنے اور ملک و قوم کی ترقی کے لئے عورت کا تعلیم یافتہ ہونا نہایت ضروری ہے۔

حکومت کو عورتوں کی تعلیم و تربیت کے خصوصی ادارے قائم کرنے چاہئیں اور ان کے تحفظ کی یقین دہانی کروانی چاہئے۔ اس کے علاوہ عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لئے پروگرام تشکیل دینے چاہئیں تاکہ عورتوں کے لئے تعلیم کی راہ ہموار ہوسکے اور وہ ملک و قوم کی ترقی میں اپنا نمایاں کردار ادا کرسکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں