محبت کرنا مشکل ہے

ہمارے معاشرے میں محبت کے مفہوم میں عورت کو حتی الامکان رومانویت اور تصور پرستی کی تصویر میں ڈھالا گیا ہے

ہمارے معاشرے میں محبت کے مفہوم میں عورت کو حتی الامکان رومانویت اور تصور پرستی کی تصویر میں ڈھالا گیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

محبت ایک طرح کا جُنون و سودا ہے جو صورت انسانی کو دیکھنے سے دِل میں پیدا ہوتا ہے۔ محبت کی بنیاد تجربے یا مشاہدے پر نہیں بلکہ تخیل کے تعاقب پر ہوتی ہےـ یہ ایک فریب ہے، جو معقولیت پسندی کو ایسا زہر پلائے گا کہ عقل اس کے جواز میں عقلی تعبیریں تراشنا شروع کردیتی ہے۔ چنانچہ محبت ایک وجدانی جذبہ ہے گو کہ اس سے بڑا دھوکہ فطرت قائم نہیں کرسکتی۔

لیکن یہ محبت متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کےلیے ایک بے حد پیچیدہ معاملہ ہے۔ خاص طور پر ہمارے معاشرے میں یہ ایسا طبقہ ہے جو نمائشی تو ہے مگر ناقابلِ عمل اخلاقیات کا اسیر ہوتا ہے۔ اِس طبقے کےلیے مذہب اور معاشرہ ایک ایسی مجبوری ہوتے ہیں جنہیں نہ تو یہ پوری طرح اپنا سکتا ہے؛ اور نہ ہی ترک کر سکتا ہے۔ بس یوں جانیے کہ اِس طبقے کے افراد اس کی دُم پکڑے گھسٹتے رہتے ہیں۔

کیونکہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں محبت کے مفہوم میں عورت کو حتی الامکان رومانویت اور تصور پرستی کی تصویر میں ڈھالا ہے، مَرد کی نظر میں عورت کی جو شبیہ پیدا کی ہے، وہ رُومانویت اور جِنسی تسکین حاصل کرنے تک ہی محدود ہے جبکہ مذہبی اور ثقافتی اقدار کے ذریعے مردوں اور عورتوں میں ناروا دوری قائم رکھی جاتی ہے۔ یہی دوری عورت اور مَرد کو ایک دوسرے کےلیے معما بنا دیتی ہے؛ اور یوں ایک دوسرے کےلیے تجسس اور کشش غیر ضروری حد تک انگیخت ہونے لگتی ہے۔


عورت اور مرد کے تعلقات کے درمیان دوریاں ہوتی ہیں۔ جب کبھی کسی بہانے سے رابطے کا موقع ملتا ہے، تو وہ اِس بے جا کشش کے باعث فوراً ہی ایک دوسرے پر دِل و جان سے مَر مٹتے ہیں۔ یہ ایک عام بات ہے کہ جس چیز سے انسان کو دور رکھا جائے گا، تو اِس چیز کو دیکھنے کا اشتیاق دِل میں وجود پاتا ہے۔ انگريزی زبان میں اِس کیفیت کو delusion (فریب) کہتے ہیں۔ یہ ایسی کیفیت ہے جس میں اِنسان نہایت استقامت کے ساتھ اپنا نظریہ بنا لیتا ہے جس کے برخلاف اعلی اور ناقابل تردید شواہد موجود ہوتے ہیں۔ دارصل delusion میں اِنسان صرف وہی دیکھتا ہے، جو وہ دیکھنا چاہتا ہے۔ انسان کے دل میں موجود بے چینی اُسے delusion میں مبتلا کر دیتی ہے۔

کئی مرتبہ تو اِس طرح کا سانحہ صرف ایک فریق کے ساتھ ہی پیش آتا ہے جس کے باعث اسے طویل عرصے تک یک طرفہ محبت کا عذاب جھیلنا پڑتا ہے۔ یہ معاملہ دو طرفہ بھی ہو، تو بے جا کشش انہیں ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع نہیں دیتی۔ ویسے تو سماجی پابندیوں کے باعث براہِ راست ملاقات کے مواقع کم ہی نصیب ہوتے ہیں۔

ایسی صورتحال میں دونوں فریق اپنے بیچ موجود خلا کو ایک دوسرے کے تخیلاتی محاسن سے بھرنا شروع کر دیتے ہیں؛ اور یوں خود کو اِس یقین کا اسیر کر لیتے ہیں کہ اِن کا محبوب دنیا کا نایاب ترین فرد ہے۔ یہی تخیلاتی محاسن جب شادی کے بعد ناپید ملتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آہ! ہم جسے سونا سمجھے تھے، وہ تو پیتل نکل آیا۔ اب ایسے حالات میں بھلا شادی سے پہلے کی افسانوی محبت کیونکر باقی رہ سکتی ہے؟ جبکہ اِس میں ایک دوسرے کی شخصیت کے بارے میں خود ساختہ خیالات اور مایوسی کا عنصر بھی شامل ہوچکا ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story