سزائے موت کے قانون پر عملدرآمد بحال کیا جائیگا وفاق
اعلان کے بعد اْن قیدیوں کی سزائے موت کے احکامات پر عمل درآمد شروع کردیا گیا جن کی تمام تر اپیلیں مسترد ہوچکی ہیں
لاہور:
وفاقی حکومت نے کہا ہے کہ وہ سزائے موت کے قانون پر عمل درآمد بحال کر دے گی تاہم قانونی ماہرین کے مطابق صدر کے پاس اب بھی اختیار ہے کہ وہ قیدیوں کوسْنائی جانے والی سزائے موت پر عمل درآمد رکوانے کے علاوہ سزاکو عمر قید میں تبدیل اور اس میں تخفیف کرسکتے ہیں۔
حکومتی اعلان کے بعد اْن قیدیوں کی سزائے موت کے احکامات پر عمل درآمد شروع کردیا گیا ہے جن کی تمام تر اپیلیں مسترد ہوچکی ہیں۔ سنہ دو ہزار آٹھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد لیکر پانچ جولائی دو ہزار تیرہ تک صرف دو افراد کو پھانسی دی گئی تھی۔ اس وقت آٹھ ہزار کے قریب سزائے موت کے قیدی پاکستان کی مختلف جیلوں میں قید ہیں جن میں سے سب سے زیادہ تعداد، آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ہیں جن کی تعداد چھ ہزار کے قریب ہے۔ قانونی ماہرین کی رائے حتمی فیصلہ صدر مملکت کو ہی کرنا ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل45 کے تحت اْنہیں یہ مکمل اختیار ہے کہ وہ کسی کی سزا میں تخفیف کریں، معافی دیں یا سزا پر عمل درآمد روک دیں۔
وفاقی حکومت نے کہا ہے کہ وہ سزائے موت کے قانون پر عمل درآمد بحال کر دے گی تاہم قانونی ماہرین کے مطابق صدر کے پاس اب بھی اختیار ہے کہ وہ قیدیوں کوسْنائی جانے والی سزائے موت پر عمل درآمد رکوانے کے علاوہ سزاکو عمر قید میں تبدیل اور اس میں تخفیف کرسکتے ہیں۔
حکومتی اعلان کے بعد اْن قیدیوں کی سزائے موت کے احکامات پر عمل درآمد شروع کردیا گیا ہے جن کی تمام تر اپیلیں مسترد ہوچکی ہیں۔ سنہ دو ہزار آٹھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد لیکر پانچ جولائی دو ہزار تیرہ تک صرف دو افراد کو پھانسی دی گئی تھی۔ اس وقت آٹھ ہزار کے قریب سزائے موت کے قیدی پاکستان کی مختلف جیلوں میں قید ہیں جن میں سے سب سے زیادہ تعداد، آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ہیں جن کی تعداد چھ ہزار کے قریب ہے۔ قانونی ماہرین کی رائے حتمی فیصلہ صدر مملکت کو ہی کرنا ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل45 کے تحت اْنہیں یہ مکمل اختیار ہے کہ وہ کسی کی سزا میں تخفیف کریں، معافی دیں یا سزا پر عمل درآمد روک دیں۔