کشمیری تو قابو میں نہیں آ رہے
بھارت کو ان کشمیری جماعتوں اور شخصیات پر بھی کبھی اعتماد نہیں رہا کہ جن کی زبان اٹوٹ انگ کا ورد کرتے کرتے خشک ہوگئی۔
ستر برس میں پانچویں نسل ہے جسے نہیں معلوم کہ اپنی زندگی میں آزادی دیکھ پائے گی کہ چھٹی پیڑھی کو مایوسی کا پرامید چراغ سونپ کر چلی جائے گی۔یہ بات جتنی فلسطینیوں کے لیے سچ ہے اتنی ہی کشمیریوں کے لیے بھی۔
فلسطینیوں نے بے گھری دیکھی، قتلِ عام دیکھا، ہتھیاراٹھائے،انھیں یقین دلایا گیا کہ ہتھیار رکھ دو، اسرائیل کا حقِ وجود تسلیم کر لو،بات چیت کا راستہ اختیار کرو،ہم تمہاری ایک آزاد و خود مختار علیحدہ ریاست بنوا دیں گے۔فلسطینیوں نے یہ سب تسلیم کر لیا، تحریری سمجھوتوں پر بھی دستخط کر دیے لیکن آج ڈھائی عشرے گذر گئے ہتھیار رکھے، بدلے میں کیا ملا ؟
غزہ کی اوپن ائیر جیل کہ جس میں ایک ملین قیدی ہیں اور غربِ اردن میں فلسطینی اتھارٹی کے نام پر ایک لولی لنگڑی حکومت کہ جس کے پاس اپنا ائیرپورٹ تک نہیں ، کہ جس کے تمام راستے اسرائیل سے ہو کر گذرتے ہیں،کہ جس کی حدود میں یہودی آباد کار بستیاں جا بجا چیچک کے داغوں کی طرح پھیلی ہیں۔اور اب کہا جا رہا ہے کہ یروشلم سے بھی دستبردار ہو جاؤ ورنہ جو ملا ہے شائد وہ بھی پلے نہ بچے۔ ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات۔
پاکستان کا کشمیر کے بارے میں کیا موقف ہے اسے ایک منٹ کے لیے سائیڈ پر رکھ دیں اور مسئلہ کشمیر بھارت کے موقف کی روشنی میں دیکھیں۔جب ستائیس اکتوبر انیس سو اڑتالیس کو مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے بھارتی نمایندے وی پی مینن کی تیار کردہ دستاویزِ الحاق پر دستخط کے نتیجے میں بھارتی دستے سری نگر ائیرپورٹ پر اترے تو گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن اور وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کشمیریوں کو یقین دلایا کہ وادی سے پاکستانی قبائلی لشکر کو پسپا کرنے کے فوراً بعد حالات سازگار ہوتے ہی رائے شماری کرائی جائے گی تاکہ کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں۔بھارت نے الحاقی دستاویز میں تحریراً یقین دلایا کہ دفاع اور امورِ خارجہ کو چھوڑ کے کشمیر اپنے معاملات میں خود مختار ہوگا۔اس کا اپنا جھنڈا، وزیرِ اعظم اور مجلسِ قانون ساز ہوگی جو ریاستی سطح پر منطبق ہونے والی قانون سازی کر پائے گی۔
پاکستان نہیں بلکہ بھارت مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ میں لے کر گیا اور رضامندی ظاہر کی کہ جو بھی استصوابِ رائے ہوگا وہ اقوامِ متحدہ کے تحت ہوگا۔اس کے بعد دھوکا دہی کی وہ تاریخ شروع ہوتی ہے جو آج اس موقف پر منتج ہے کہ کشمیر بھی بھارت کی دیگر ریاستوں کی طرح ایک ریاست ہے اور یہ بھارت نہیں بلکہ پاکستان ہے جس نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور یہ کہ مسئلہِ کشمیر کا بس ایک ہی حل ہے کہ پاکستان اپنے زیرِ قبضہ کشمیر،گلگت اور بلتستان بھارت کو واپس کرے۔رائے شماری کے وعدے سے لے کر پاکستان سے علاقے کی واپسی کے مطالبے تک بھارت کا موقف ستر برس میں تین سو ساٹھ ڈگری پر گھوم چکا ہے۔
ستر برس کے عرصے میں فلسطینیوں کی طرح کشمیریوں نے بھی ہر بھارتی و بین الاقوامی فرمائش پوری کر کے دیکھ لی مگر آزادی کا پھل آج بھی اتنی ہی دور ہے جتنا پہلے کبھی تھا۔شیخ عبداللہ نے مکمل آزادی کے نہیں داخلی خودمختاری کے سمجھوتے کے احترام کی بات کی تھی۔اس کا صلہ بھی دو بار طویل جیل کی صورت میں ملا۔شیخ عبداللہ نہرو خاندان کی طوطا چشمی کے سبب اس دنیا سے نہایت مایوسی سے رخصت ہوئے اور سری نگر کی ڈل جھیل کے کنارے دفن ہو گئے۔
بھارت کو ان کشمیری جماعتوں اور شخصیات پر بھی کبھی اعتماد نہیں رہا کہ جن کی زبان اٹوٹ انگ کا ورد کرتے کرتے خشک ہوگئی۔قوم پرست فاروق عبداللہ تک کو برداشت نہیں کیا گیا اور انیس سو نواسی کے ریاستی انتخابات میں کمر توڑ دھاندلی کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ کر فاروق عبداللہ کی شکست کا سامان کیا گیا۔یہ واقعہ اونٹ کی کمر پے آخری تنکہ ثابت ہوا اور کشمیر کی گردن سے بھارتی جوا اتار پھیکنے کے لیے وہ مسلح تحریک شروع ہوئی جس نے اگلے سات برس میں خونریزی کی نئی روایات رقم کیں۔اس کے بعد یوں لگا کہ طوفان تھک گیا۔
پاکستان میں پرویز مشرف حکومت نے بھی اپنی کشمیر پالیسی کو بدلا اور آؤٹ آف باکس حل پیش کیا کہ جس کے تحت کشمیر کے دونوں حصوںکے شہریوں کو میل جول اور تجارت کی آزادی دی جائے اور ایک مرحلہ ایسا آئے کہ لائن آف کنٹرول محض ایک علامتی لکیر یا سافٹ بارڈر میں بدل جائے۔مگر بھارت کو یوں لگا کہ کم ازکم ایک نسل کے لیے کشمیر میں سکون ہو گیا۔لہذا پاکستان کی خاموش مدد کے ذریعے زخموں سے چور کشمیریوں کا اعتماد بحال کرنے کا جو سنہری موقع ملا وہ پھر ضایع کر دیا گیا۔اس کا ثبوت دس برس کے وقفے کے بعد دو ہزار دس میں کشمیر میں ایک بار پھر اچانک پھٹ پڑنے والے جذبات سے ملا۔ایک بار پھر طاقت کا بھرپور استعمال کیا گیا اور آزادی کی تڑپ دبانے کے لیے مزید بارہ سو سے زائدکشمیریوں کو قبر میں اتار دیا گیا۔پھر چار برس کا وقفہ آیا۔مگر بھارتی افواج اور نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں کشمیریوں کی عزتِ نفس روزانہ کچلی جاتی رہی۔
اور پھر آٹھ جولائی دو ہزار سولہ کو برہان وانی کی شہادت کے ساتھ ہی کشمیر میں آزادی کی مشعل پانچویں پیڑھی کے ہاتھوں میں آ گئی۔یہ پیڑھی اپنے پیشرؤوں سے زیادہ پڑھی لکھی، نئی مواصلاتی ٹیکنالوجی کی عادی، سوشل میڈیا کے ہتھیار سے واقف اور پہلے سے زیادہ بے خوف ہے۔اس پیڑھی کی لڑکیاں اور ان کی مائیں ہر مرحلے میں نوجوانوں کے شانہ بشانہ ہیں۔عورتوں کے جتنے بڑے بڑے جلوس اب نکلتے ہیں پہلے ان کا تصور بھی نہیں تھا۔حریت پسندوں اور بھارتی فوج کے درمیان نوعمر کشمیری جس بے خوفی سے اپنے سینوں کی ڈھال بناتے ہیں پہلے ایسے کہاں تھا ؟ بالاخر کشمیری بچے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ زندہ رہنے کی ذلت سے موت بہتر ہے۔
تحریک کچلنے کے لیے پیلٹ گنز کا جس اندھا دھند طریقے سے پچھلے آٹھ برس سے استعمال ہو رہا ہے۔اس کا تازہ ترین ثبوت بیس ماہ کی حبہ جان ہے۔جسے یہی نہیں معلوم کہ اس کی آنکھیں کیوں ضایع ہو گئیں۔پیلٹ گن میں جو کارتوس استعمال ہوتے ہیں ان سے بیک وقت چھ سو چھرے نکلتے ہیں۔بھارت پیلٹ گن کو نان لیتھل ہتھیاروں میں شمار کرتا ہے۔مگر اب تک چھ سو سے زائد کشمیری پیلٹ گن کے ذریعے ہلاک کیے جاچکے ہیں۔چھ ہزار سے زائد کے چہرے داغدار ہو چکے ہیں۔گزشتہ برس ہی دنیا کا پہلا پیلٹ وائلنس وکٹم ٹرسٹ وجود میں آ گیا۔
اب تک اٹھارہ سو کے لگ بھگ کشمیری ٹرسٹ کے ممبر بن چکے ہیں۔ان میں سے بیشتر کی دونوں آنکھیں ضایع ہو چکی ہیں۔یہ غیر متشدد ہتھیار کتنی شدت سے استعمال ہو رہا ہے اس کا انداز بھارت کی نیم فوجی سینٹرل ریزرو فورس کی جانب سے دو ہزار سولہ میں ایک عدالت میں جمع کرائے گئے بیان سے ہو سکتا ہے۔اس میں اعتراف کیا گیا کہ صرف بتیس دن میں تیرہ لاکھ چھرے استعمال کیے گئے۔مگر معاملہ پیلٹ گن سے بھی قابو میں نہیں آ رہا۔اسی لیے اب فوج مظاہرین پر سیدھی گولیاں چلا رہی ہے۔پلواما میں اس طرح سے سات مظاہرین کو لٹا دیا گیا۔جب تک آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں گے جانے اور کتنے کشمیری جاں بحق ہو چکے ہوں گے۔
بھارتی میڈیا کے ذریعے باور کرایا جا رہا ہے کہ یہ کشمیری نہیں بلکہ سرحد پار سے بھیجے گئے دہشت گرد ہیں جو پیسے دے کر مظاہرے کرا رہے ہیں اور عام کشمیریوں کو اکسا رہے ہیں۔اگر یہ بات سچ ہے تو کشمیر کو چھوڑ کے کسی بھی بھارتی ریاست میں ہزار نہیں صرف ایک خاندان سامنے لے آئیں جو پیسے لے کر اپنے اور اپنے بچوں کے چہرے چھروں سے چھدوانے پر آمادہ ہو۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)