حکومت عوام کو اعتماد میں لے
ملک میں پہلی بار ایک مخلص اور عوام دوست حکومت آئی ہے اور عوام کے بہتر مستقبل کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
ہمارے ملک کے عوام کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ برسوں تک برسر اقتدار میں رہنے والی اشرافیائی حکومتوں سے چھٹکارا پانے کے بعد ان کو پاکستان کے مستقبل سے ہمیشہ کے لیے الگ کردیں کیونکہ آج پاکستان کے عوام جس بھوک، افلاس،بیکاری، بیماری، جہل اور غیر یقینی مستقبل سے دو چار ہیں۔
اس کی ساری ذمے داری اشرافیائی حکومتوں پر عاید ہوتی ہے، ساری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے جمہوریت کو دنیا کا واحد منصفانہ نظام قرار دے کر اشرافیہ کے ہاتھ میں ایک ایسا خطرناک ہتھیار دے دیا ہے کہ دنیا کے موقع پرست حلقے اس اشرافیائی حکومت کو دنیا کے تمام مسائل سے نجات کا واحد رویہ سمجھتے ہیں اور اس کے تحفظ کے لیے اپنی ساری فکری توانائیاں صرف کردیتے ہیں لیکن یہ مہان حلقے اس زندہ حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں جمہوریت کا مطلب لوٹ مار کی کھلی آزادی کے علاوہ کچھ نہیں اور لوٹ مار کی اس کھلی آزادی کے لیے جمہوریت کا پرچم ہاتھ میں ہونا ضروری ہے۔
یہ سیاسی نظر بندی کا کھیل تسلسل کے ساتھ کھیلا جارہاہے ۔اس حوالے سے حیرت کی بات یہ ہے کہ ہماری جمہوریت کی عاشق اشرافیہ جو ''جمہوریت کی سر بلندی'' کے لیے ہر حربہ استعمال کرتی ہے اور پاکستان کے سارے مسائل کا حل جمہوریت کو قرار دیتی ہے ۔
ملک میں نافذ رہنے والی تمام مارشل لائی حکومت کا اہم حصہ رہی ہے، ایوبی، یحییٰ حکومت، ضیائی مارشل لا اور مشرفی مارشل لا میں جمہوریت کے یہ عاشقین فرنٹ پر کھیلتے رہے اور دعوے یہ کرتے رہے کہ جمہوریت کے بغیر ملک چل نہیں سکتا، اگر ہماری اشرافیہ میں احساس ذمے داری ہوتی تو وہ اس حقیقت کا اعتراف کرتے کہ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق اور مشرف کے مارشل لائی دور میں ملک کس طرح چلتا رہا اور اشرافیہ ان حکومتوں میں کیوں شامل رہی۔ حتیٰ کہ بھٹو کے قاتل ضیا الحق کی مارشل لائی حکومت کا حصہ کیوں رہے۔
ملک میں پہلی بار ایک مخلص اور عوام دوست حکومت آئی ہے اور عوام کے بہتر مستقبل کے لیے اقدامات کر رہی ہے تو ساری اشرافیہ اربوں کی کرپشن کے تمغے پیشانیوں پر سجاکر عمران حکومت کو بدنام کرنے کی مہم میں مصروف ہے۔
جمہوریت کے چیمپئن اپنے سارے ادوار میں اربوں کی کرپشن کا ارتکاب کرتے رہے آج کل احتساب کی زد میں ہیں اور احتسابی عدالتوں میں اپنی قیمتی گاڑیوں پرگلاب پھیلاکر اس طرح جا رہے ہیں جیسے کہ دلہا سسرال جاتا ہے، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ اربوں کی کرپشن کے تمغے سجاکر گلاب سے لدی گاڑیوں میں احتساب عدالتوں میں جا کر بیٹھ رہے ہیں۔
ایک مڈل کلاس کلاس کی حکومت پہلی بار اقتدار میں آئی ہے ،اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حکومت ناتجربہ کار ہے اور سابقہ حکومتوں کی اربوں کی لوٹ مار سے دبی ہوئی ہے۔ اس لوٹ مار کی وجہ سے آج اسے ملک چلانے میں جو دشواریاں پیش آرہی ہیں انھیں کرپٹ حکومت عمران حکومت کی ناکامی قرار دے کر بدنام کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
بلاشبہ سابقہ کرپٹ حکومتوں کی اربوں روپوں کی لوٹ مار کی وجہ سے آج عمران حکومت کو سخت دشواریوں کا سامنا ہے جس کی سو فی صد ذمے داری سابقہ حکومتوں پر عاید ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا اوپن سیکریٹ ہے جس سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے۔ لیکن عالم یہ ہے کہ سابقہ ان حالات کا ذمے دار عمران حکومت کو ٹھہرایا جارہاہے۔ عمران حکومت کو اقتدار سنبھالے ہوئے ابھی مشکل سے تین ماہ ہورہے ہیں اور ہماری سابقہ حکومتیں حال اپوزیشن عمران حکومت پر الزام لگارہی ہیں کہ عمران حکومت عوام اور ملک کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔
اس حوالے سے حقیقی صورتحال یہ ہے کہ سابقہ حکومتوں نے ملک کو لوٹ کر اس طرح کنگال کردیا ہے کہ اسے ان لوٹ مار کے غاروں سے نکالنے میں دس سال بھی لگ سکتے ہیں۔ اس حقیقت کو سابقہ حکومتیں اچھی طرح سمجھتی ہیں لیکن عمران حکومت کو بدنام کرنے اور عوام کو مایوس کرنے کے لیے اپنے گناہ عمران حکومت کے سرمنڈھ رہے ہیں اور بد قسمتی یہ ہے کہ عمران حکومت کا میڈیا فرنٹ نا اہل اور ناتجربہ کار ہے۔
عوام کے سامنے نہ سابقہ حکومتوں کی ''کارگزاریاں'' بھرپور طریقے سے پیش کی جارہی ہیں نہ اربوں کی کرپشن کی تفصیلات عوام کے سامنے پیش کی جارہی ہیں جس کی وجہ سے عوام ایک نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہیں ۔''اپوزیشن'' آج بھی جھوٹے پروپیگنڈے پر بھرپور کام کررہی ہے اور حکومت اس میڈیائی مہم کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے۔
ملک میں مہنگائی کا جو طوفان آیا ہوا ہے حکومت اس کی وجوہات بتانے میں ناکام ہے۔ اس بار مسئلہ صرف عمران کی ذات یا جماعت کا نہیں بلکہ ملک کے عوام کے مستقبل کا ہے، ایماندار اور عوام دوست حکومت کو کام کرنے کا موقع دیا جائے گا۔
صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف ایک ناتجربہ کار لیکن عوام سے مخلص حکومت ہے اور دوسری طرف پرانی سیاسی طاقتیں ہیں۔ عمران خان کی دلی خواہش ہے کہ جتنی جلد ہوسکے عوام کو ریلیف مل سکے، اسی نیک خواہش کے پس منظر میں سادگی لیکن خلوص کے ساتھ عمران خان نے 100 دن میں ملک کے اہم مسائل حل کرنے کا وعدہ کیا لیکن سر سے پاؤں تک کرپشن میں ڈوبا ہوا ملک 100 دن میں کس طرح ٹھیک ہوسکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ جذبات کے زیر اثر نہ رہے بلکہ باقی کی حکومتوں کے گند کو سامنے رکھ کر کوئی قابل عمل منصوبے کا اعلان کرے عوام کو وہ حقائق بتائے جو مسائل کے حل کی راہ میں دیوار بنے ہوتے ہیں۔