گناہ ٹیکس یا ’’ ثواب ‘‘
اسحاق ڈار کا لگایا ہوا ٹیکس ہم ادا کر رہے ہیں مگر پتا نہیں یہ کس چیز کا ٹیکس ہے۔
SINٹیکس مطلب گناہ ٹیکس ، نام کوئی اور بھی رکھا جا سکتا تھا، مگر ''گناہ ٹیکس'' رکھ کر مخالفین اور تنقید کاروں کو حکومت نے ایک بار پھر برسنے کا موقع دے دیا۔ نام اس لیے ٹھیک نہیں کیوں کہ ابھی حال ہی میں پورے ملک نے قومی املاک، بدتمیزی، لاقانونیت اور معاشرتی عدم توازن کا جو حال دیکھا تھا وہ معذرت کے ساتھ ''گنا ہ اور ثواب'' ہی کا چکر تھا۔ لیکن شاید ہمارے عوام اور خصوصاً تنقید کاروں کو یہ بات سمجھ آجائے کہ اس ''گناہ''ٹیکس کا حقیقت میں ثواب ہی ملتا ہے۔
کیوں کہ جو بری چیز معاشرے میں جبر کے ساتھ نہ روکی جاسکے اسے بتدریج روکنے کے لیے ریاست کی جانب سے کیے گئے اقدامات ''انسانی خدمت'' ہی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس سے بڑی انسانی خدمت اور کیا ہوسکتی ہے کہ جولوگ زہر پینے پر بضد ہیں، انھیں روکا جائے۔ ایسے لوگوں پر جتنا بھی ٹیکس لگایا جائے کم ہی سمجھا جائے گا۔ اس ٹیکس کو گناہ ٹیکس کا نام دیں یا ثواب ٹیکس کا، مگر ٹیکس کا خیال اچھا ہے، جس پر فوراََعمل ہونا چاہیے۔
ویسے بھی سابقہ حکومتوں نے عوام پر جو ٹیکس لگا رکھے ہیں، اُن کی تعداد 45ہے، جب ٹیکس کے سارے نام ختم ہو جاتے ہیں تو حکومت کی مجبوری بن جاتی ہے کہ کسی نئے نام سے نیا ٹیکس لگایا جائے۔ سابق وزیر خزانہ کافی پروفیشنل آدمی تھے۔ انھوں نے ایڈوانس ٹیکس کے نام سے ایسا ٹیکس متعارف کرا دیا کہ عوام دیکھتے رہ گئے۔ بڑے بڑوں کو سمجھ نہیں آئی کہ ایڈوانس ٹیکس ہوتا کیا ہے۔ یہ ہوتی ہے فنکاری۔ اسحاق ڈار کا لگایا ہوا ٹیکس ہم ادا کر رہے ہیں مگر پتا نہیں یہ کس چیز کا ٹیکس ہے۔
ہم ٹیکس کو جانے اور سمجھے بغیر اتنا جانتے ہیں کہ یہ واجب الادا ہے۔ جب ٹیکس کے بارے میں ہمارا معاشی عقیدہ اتنا اٹل ہے تو وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزیر خزانہ اسدعمر کو کیا ضرورت پیش آئی کہ وہ نئے ٹیکس کو گناہ ٹیکس کا نام دیں اسے کوئی ایسا نام بھی تو دیا جا سکتا تھا جو ایڈوانس ٹیکس کی طرح سمجھ ہی نہ آتا۔
گناہ ٹیکس کی اصطلاح کے استعمال کے شواہد 1957 سے ملے ہیں۔یہ ٹیکس دنیا کے تقریباََ 45 ممالک میں تمباکو اور شکر دار مشروبات پر عائد ہے، جن میں متحدہ عرب امارات اور برطانیہ بھی شامل ہیں۔یہ اصطلاح بین الاقوامی ہے، جو اُن چیزوں پر لگائی جاتی ہے جو معاشرے کے لیے نقصان دہ سمجھی جاتی ہیں، جیسے تمباکو، کینڈی، سافٹ ڈرنکس، فاسٹ فوڈز، کافی اور چینی وغیرہ ۔متحدہ عرب امارات میں گزشتہ سال کاربونیٹڈ اور میٹھے مشروبات پر 50 فیصد ٹیکس اور انرجی ٹیکس اور تمباکو کی مصنوعات پر 100 فیصد ٹیکس عائد کیے گئے تھے۔
تھائی لینڈ اور دیگر کئی ممالک میں ہیلتھ کیئر سروسز پر اسی طرح کے ٹیکسز عائد ہیں۔بھارت میں گٹکا اور پان مصالحہ پرؔؔ'گناہ ٹیکس' عائد کیے گئے ہیں اور اس سے جمع ہونے والے پیسوں کو صحت کے شعبے میں خرچ کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ مصنوعات بیماریاں پیدا کرتی ہیں جو قومی خزانے پر بوجھ کا باعث بنتی ہیں۔فلپائن سگریٹ پر ''گناہ ٹیکس'' لگانے والا دنیا کا پہلا ملک ہے۔2017 میں عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ فلپائن میں عائد گناہ ٹیکس تمباکو مصنوعات کے خلاف اقدامات کے حوالے سے مؤثر ترین اقدامات میں سے ایک ہے جس سے نہ صرف حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوا بلکہ تمباکو نوشی کرنے والے افراد کی تعداد بھی کم ہوئی۔
آپ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو کی مثال لے لیں، کئی برس پہلے کی بات ہے۔ٹورنٹو میں بھی سگریٹ نوشی عام تھی، شہر میں 10ہزار چھوٹے بڑے ریسٹورینٹ میں سگریٹ نوشی فیشن تھا۔ حکومت نے ایک دن اٹل فیصلہ کیا کہ وہ اس پر گناہ ٹیکس لگا ئے گی ۔ پھر سگریٹ کی اصل قیمت سے 2گنا زیادہ ٹیکس وصول کیا جانے لگا۔ پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی لگا دی گئی۔لیکن مجھے یقین ہے کہ کینیڈا ترقی یافتہ ملک ہے، وہ قانون کو نافذ کرنا جانتا ہے۔ اس لیے میں نے کہا، یہ قانون پوری طرح نافذ ہو گا، اور دو تین ماہ بعد آپ کو اس ٹورنٹو کے کسی بھی ریسٹورنٹ پر کوئی شخص سگریٹ نوشی کرتے ہوئے نہیں ملے گا۔
ترقی یافتہ ممالک میں کسی چیز سے روکنے کے لیے مکمل ہوم ورک کرناپڑتا ہے، اُس کے بعد اُسے لاگو کیا جاتا ہے جب کہ یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ بہرکیف اگلے تین چار ماہ بعد دوبارہ دوست کی کال آئی تو اُس نے کہا یار واقعی یہاں سگریٹ نوشی برائے نام رہ گئی ہے۔ اس قدم کی سو فیصد کامیابی کے بعد حکومت کا اگلا قدم اس سے بھی سخت تھا۔ حکومت نے سگریٹ نوشی کی روک تھام کے لیے تمباکو پر ٹیکس میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ حالاں کہ تمباکو کمپنیاں حکومت کو کروڑوں ڈالر ٹیکس دیتی ہیں۔
کچھ عرصہ تک اسمگلنگ کے واقعات ہوتے رہے، لیکن رفتہ رفتہ حکومت نے اس پر بھی قابو پالیا۔ حکومت کے ان اقدمات سے سگریٹ پینے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی ہوئی۔ اب بھی کچھ لوگ اس شہر میں نجی مقامات پر سگریٹ پیتے ہیں۔ مگر پبلک مقامات پر نہیں۔ حکومت بھاری ٹیکسوں کے ذریعے اربوں روپے وصول کرتی ہے۔ یہ آمدنی صحت عامہ پر خرچ کی جاتی ہے۔
حکومت کو اس طرح کے ضروری، مشکل اور دلیرانہ قدم اٹھانے کا کریڈٹ تو جاتا ہی ہے، مگر اس سے بھی زیادہ بڑا کریڈٹ عوام اورقانون پسند شہریوں کی اکثریت کوجاتا ہے، جو جب ایک قانون بن جائے تو اسے پسند نہ کرتے ہوئے بھی ہماری طرح اس کی خلاف وزی کے نت نئے طریقے ڈھونڈنے کے بجائے دل و جان سے اس کا احترام کرتے ہیں۔لہٰذااگر حکومت کے ٹیکس لگانے سے عام آدمی سگریٹ پینے سے گریز کرتا ہے تو یہ اقدام واقعی ثواب کا کام ہے۔ جسے شاید Representصحیح انداز میں نہیں کیا گیا مگر اس اقدام سے شاید بہت سے لوگ اس لت سے نجات حاصل کرلیں اور ہمارے اسپتالوں میں پھیپھڑوں اور کینسر کے مریضوں کی تعداد کم سے کم ہوجائے تو شاید موجودہ حکومت کی یہی انسانی خدمت ہو!
کیوں کہ جو بری چیز معاشرے میں جبر کے ساتھ نہ روکی جاسکے اسے بتدریج روکنے کے لیے ریاست کی جانب سے کیے گئے اقدامات ''انسانی خدمت'' ہی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس سے بڑی انسانی خدمت اور کیا ہوسکتی ہے کہ جولوگ زہر پینے پر بضد ہیں، انھیں روکا جائے۔ ایسے لوگوں پر جتنا بھی ٹیکس لگایا جائے کم ہی سمجھا جائے گا۔ اس ٹیکس کو گناہ ٹیکس کا نام دیں یا ثواب ٹیکس کا، مگر ٹیکس کا خیال اچھا ہے، جس پر فوراََعمل ہونا چاہیے۔
ویسے بھی سابقہ حکومتوں نے عوام پر جو ٹیکس لگا رکھے ہیں، اُن کی تعداد 45ہے، جب ٹیکس کے سارے نام ختم ہو جاتے ہیں تو حکومت کی مجبوری بن جاتی ہے کہ کسی نئے نام سے نیا ٹیکس لگایا جائے۔ سابق وزیر خزانہ کافی پروفیشنل آدمی تھے۔ انھوں نے ایڈوانس ٹیکس کے نام سے ایسا ٹیکس متعارف کرا دیا کہ عوام دیکھتے رہ گئے۔ بڑے بڑوں کو سمجھ نہیں آئی کہ ایڈوانس ٹیکس ہوتا کیا ہے۔ یہ ہوتی ہے فنکاری۔ اسحاق ڈار کا لگایا ہوا ٹیکس ہم ادا کر رہے ہیں مگر پتا نہیں یہ کس چیز کا ٹیکس ہے۔
ہم ٹیکس کو جانے اور سمجھے بغیر اتنا جانتے ہیں کہ یہ واجب الادا ہے۔ جب ٹیکس کے بارے میں ہمارا معاشی عقیدہ اتنا اٹل ہے تو وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزیر خزانہ اسدعمر کو کیا ضرورت پیش آئی کہ وہ نئے ٹیکس کو گناہ ٹیکس کا نام دیں اسے کوئی ایسا نام بھی تو دیا جا سکتا تھا جو ایڈوانس ٹیکس کی طرح سمجھ ہی نہ آتا۔
گناہ ٹیکس کی اصطلاح کے استعمال کے شواہد 1957 سے ملے ہیں۔یہ ٹیکس دنیا کے تقریباََ 45 ممالک میں تمباکو اور شکر دار مشروبات پر عائد ہے، جن میں متحدہ عرب امارات اور برطانیہ بھی شامل ہیں۔یہ اصطلاح بین الاقوامی ہے، جو اُن چیزوں پر لگائی جاتی ہے جو معاشرے کے لیے نقصان دہ سمجھی جاتی ہیں، جیسے تمباکو، کینڈی، سافٹ ڈرنکس، فاسٹ فوڈز، کافی اور چینی وغیرہ ۔متحدہ عرب امارات میں گزشتہ سال کاربونیٹڈ اور میٹھے مشروبات پر 50 فیصد ٹیکس اور انرجی ٹیکس اور تمباکو کی مصنوعات پر 100 فیصد ٹیکس عائد کیے گئے تھے۔
تھائی لینڈ اور دیگر کئی ممالک میں ہیلتھ کیئر سروسز پر اسی طرح کے ٹیکسز عائد ہیں۔بھارت میں گٹکا اور پان مصالحہ پرؔؔ'گناہ ٹیکس' عائد کیے گئے ہیں اور اس سے جمع ہونے والے پیسوں کو صحت کے شعبے میں خرچ کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ مصنوعات بیماریاں پیدا کرتی ہیں جو قومی خزانے پر بوجھ کا باعث بنتی ہیں۔فلپائن سگریٹ پر ''گناہ ٹیکس'' لگانے والا دنیا کا پہلا ملک ہے۔2017 میں عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ فلپائن میں عائد گناہ ٹیکس تمباکو مصنوعات کے خلاف اقدامات کے حوالے سے مؤثر ترین اقدامات میں سے ایک ہے جس سے نہ صرف حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوا بلکہ تمباکو نوشی کرنے والے افراد کی تعداد بھی کم ہوئی۔
آپ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو کی مثال لے لیں، کئی برس پہلے کی بات ہے۔ٹورنٹو میں بھی سگریٹ نوشی عام تھی، شہر میں 10ہزار چھوٹے بڑے ریسٹورینٹ میں سگریٹ نوشی فیشن تھا۔ حکومت نے ایک دن اٹل فیصلہ کیا کہ وہ اس پر گناہ ٹیکس لگا ئے گی ۔ پھر سگریٹ کی اصل قیمت سے 2گنا زیادہ ٹیکس وصول کیا جانے لگا۔ پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی لگا دی گئی۔لیکن مجھے یقین ہے کہ کینیڈا ترقی یافتہ ملک ہے، وہ قانون کو نافذ کرنا جانتا ہے۔ اس لیے میں نے کہا، یہ قانون پوری طرح نافذ ہو گا، اور دو تین ماہ بعد آپ کو اس ٹورنٹو کے کسی بھی ریسٹورنٹ پر کوئی شخص سگریٹ نوشی کرتے ہوئے نہیں ملے گا۔
ترقی یافتہ ممالک میں کسی چیز سے روکنے کے لیے مکمل ہوم ورک کرناپڑتا ہے، اُس کے بعد اُسے لاگو کیا جاتا ہے جب کہ یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ بہرکیف اگلے تین چار ماہ بعد دوبارہ دوست کی کال آئی تو اُس نے کہا یار واقعی یہاں سگریٹ نوشی برائے نام رہ گئی ہے۔ اس قدم کی سو فیصد کامیابی کے بعد حکومت کا اگلا قدم اس سے بھی سخت تھا۔ حکومت نے سگریٹ نوشی کی روک تھام کے لیے تمباکو پر ٹیکس میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ حالاں کہ تمباکو کمپنیاں حکومت کو کروڑوں ڈالر ٹیکس دیتی ہیں۔
کچھ عرصہ تک اسمگلنگ کے واقعات ہوتے رہے، لیکن رفتہ رفتہ حکومت نے اس پر بھی قابو پالیا۔ حکومت کے ان اقدمات سے سگریٹ پینے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی ہوئی۔ اب بھی کچھ لوگ اس شہر میں نجی مقامات پر سگریٹ پیتے ہیں۔ مگر پبلک مقامات پر نہیں۔ حکومت بھاری ٹیکسوں کے ذریعے اربوں روپے وصول کرتی ہے۔ یہ آمدنی صحت عامہ پر خرچ کی جاتی ہے۔
حکومت کو اس طرح کے ضروری، مشکل اور دلیرانہ قدم اٹھانے کا کریڈٹ تو جاتا ہی ہے، مگر اس سے بھی زیادہ بڑا کریڈٹ عوام اورقانون پسند شہریوں کی اکثریت کوجاتا ہے، جو جب ایک قانون بن جائے تو اسے پسند نہ کرتے ہوئے بھی ہماری طرح اس کی خلاف وزی کے نت نئے طریقے ڈھونڈنے کے بجائے دل و جان سے اس کا احترام کرتے ہیں۔لہٰذااگر حکومت کے ٹیکس لگانے سے عام آدمی سگریٹ پینے سے گریز کرتا ہے تو یہ اقدام واقعی ثواب کا کام ہے۔ جسے شاید Representصحیح انداز میں نہیں کیا گیا مگر اس اقدام سے شاید بہت سے لوگ اس لت سے نجات حاصل کرلیں اور ہمارے اسپتالوں میں پھیپھڑوں اور کینسر کے مریضوں کی تعداد کم سے کم ہوجائے تو شاید موجودہ حکومت کی یہی انسانی خدمت ہو!