فرانس کے مظاہرے اورعالمی معاہدۂ ماحولیات
بیشک ماحولیات کا تحفظ انسانی بقا کے لیے ناگزیربن چکاہے لیکن کیا کیجیے وقت کا کہ یہ منصوبہ میکرون کے گلے کی ہڈی بن گیا۔
گزشتہ سال جب ایمیل میکرون نے فرانس کا اقتدار سنبھالا، اس وقت ان کے ذہن میں فرانس کو بدلنے کا پورا نقشہ موجود تھا ، وہ فرانس کو پوری دنیا کے سامنے مزید جدت کے ساتھ پیش کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے سب سے پہلے ماحولیات کے عالمی معاہدہ پیرس پر عمل کرتے ہوئے لوکاربن پالیسی بنائی اور2040 تک پٹرول اور ڈیزل گاڑیوں پر مکمل پابندی عائد کرنے کا منصوبہ پیش کیا جسے بلاشبہ دنیا نے ایک انقلابی قدم قرار دیا۔
یوں نوجوان اور خوبرو میکرون معدنیاتی ایندھن سے فرانس کو پاک کرنے کا عزم لیے میدان میں اترے اور دعویٰ کیا کہ2050 تک فرانس کاربن نیوٹرل ہوجائے گا۔ فرانس میں اس وقت 3.5فیصد گاڑیاں ہائبرڈ جب کہ 1.2 فیصد الیکٹرک ہیں۔
میکرون نے اگرچہ اپنے منصوبے میں یہ واضح نہیں کیا تھا کہ کاربن نیوٹرل فرانس میں ان گاڑیوں کا کیا بنے گا جو معدنیاتی ایندھن سے چلتی ہیں البتہ فرانس کے وزیر ماحولیات نے اتنا ضرور کہا کہ غریب عوام کو الیکٹرک گاڑیاں دلوانے میں مالی مدد فراہم کی جائے گی۔ اس بیان کو فرانسیسی عوام نے دیوانے کی بڑ قرار دیا مگر حکومت فرانس اس دعویٰ پر قائم رہی اور کہا کہ فرانسیسی کارکمپنیاں جن میں پرجو، اسٹروئن اور رینو شامل ہیں، وہ اس بڑے چیلنج سے یقینا نمٹ لیں گی۔
ساتھ ہی 2022 تک کوئلے کے تمام پلانٹس بند کرنا، ایٹمی بجلی گھروں کی پیداوار 2050ء تک نصف کرنا اور تیل وگیس کی دریافت کے لیے لائسنسوں کے اجراء پر مکمل پابندی عائد کرنا بھی میکرون کے بڑے منصوبے کا حصہ تھا ۔ صرف یہی نہیں بلکہ سال بھرکے اندر اندر پیرس سے لندن تک الیکٹرک جہازکی کمرشل پرواز شروع کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا گیا۔ الیکٹرک جہاز اگرچہ اب تک بنا نہیں لیکن فرانسیسی طیارہ ساز کمپنی نے برطانوی کمپنی کے تعاون سے اس کی تیاری میں دلچسپی ظاہرکی ہے۔ کمپنی کے مطابق اس طیارے میں ڈیڑھ سو مسافروں کی گنجائش ہوگی اور یہ بیٹری سے چلایا جائے گا۔ اس سے نہ صرف ایندھن کا خرچ بچے گا بلکہ سفرکی لاگت بھی کم ہو جائے گی۔
میکرون کا یہ پورا منصوبہ بظاہر قابل تحسین تھا ۔ بیشک ماحولیات کا تحفظ انسانی بقا کے لیے ناگزیر بن چکا ہے لیکن کیا کیجیے وقت کا کہ یہ منصوبہ میکرون کے گلے کی ہڈی بن گیا اور اس کی تکمیل کے لیے اٹھنے والا ہر قدم فرانسیسی عوام کے بنیادی حقوق پر پڑنے لگا۔ میکرون جو ماحولیات کے تحفظ کے لیے بے چین تھے، اب اپنی صدارت کے تحفظ کی فکر میں سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ اس وقت فرانس کی سڑکیں کسی جنگ زدہ خطے کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ مظاہروں میں اب تک ایک ارب یورو کا نقصان ہوچکا ہے۔
لاکھوں لوگوں نے گھروں سے نکل کر آن کی آن میں نظامِ مملکت مفلوج کردیا ۔ یہ مظاہرے ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے شروع ہوئے تھے۔ فرانس میں ڈیزل کا استعمال بہت زیادہ ہے جس پر پہلے سے ہی کافی ٹیکس عائد ہے۔ گزشتہ بارہ مہینوں میں ڈیزل کی قیمتوں میں 23 فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور اب پھر 6.5 سینٹ ڈیزل پر اور 2.9 پیٹرول پر بڑھا دیے گئے جس سے عوام آپے سے باہر ہوگئے۔ حکومت نے اس ٹیکس کا یہ موقف پیش کیا کہ حاصل ہونیوالے ٹیکسوں سے ہم توانائی کے متبادل ذرایع پر سرمایہ کاری کرینگے لیکن میکرون حکومت یہ اب بھی بتانے میں ناکام رہی کے عوام سے سالوں سے وصول کیے جانے والے بھاری ٹیکسوں کا کیا، کیا گیا؟
فرانس کے قانون کے مطابق ڈرائیورز کے لیے پیلے رنگ کی جیکٹ کو لازمی قرار دیا گیا ہے تاکہ وہ گاڑی چلاتے وقت دور سے ہی نمایاں نظر آئیں۔ حالیہ ہنگاموں میں مظاہرین یہی پیلی جیکٹ پہنے سڑکوں پر آگئے اور فرانس کی تاریخ میں یلو ویسٹ مظاہروں کا آغاز ہوگیا۔ ابتدا میں یہ مظاہرے صرف ایندھن کی قیمتوں میں ہونیوالے اضافے کے خلاف تھے لیکن میکرون کے یہ اضافہ موخر کرنے کے اعلان کے بعد بھی ہنگامے نہ رکے بلکہ بڑھتے بڑھتے دیگر معاملات کو بھی لپیٹ میں لیتے چلے گئے جن میں اجرتوں کی کمی، یونیورسٹی کی بڑھتی ہوئی فیسیں، پنشنوں پر بھاری ٹیکس اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلوں کا کڑا معیار شامل ہے۔
ان مظاہروں کے بعد دنیا نے میکرون کی جدت خیالی کا جو بیڑا غرق ہوتے دیکھا اسے تاریخ کبھی فراموش نہ کریگی۔ ایک طرف فرانسیسی عوام کی خستہ حالی اور گرتا ہوا معیارِزندگی دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال گیا تو دوسری طرف فرانسیسیوں کا میکرون حکومت پر عدم اعتماد بھی صاف دکھائی دیا۔ یلو ویسٹ تحریک بلاشبہ فرانس کے غریب عوام کی تحریک بن گئی جسکی حمایت دیکھتے ہی دیکھتے پورے فرانس حتیٰ کہ فرانس سے باہر بھی پھیل گئی۔ غم وغصے کے عالم میں لوگ سرخ چہروں اور پیلی جیکٹوں کے ساتھ لاکھوں کی تعداد میں نکل آئے۔ ان مظاہروں میں لوگ زخمی ہوئے، ہلاک بھی ہوئے اور گرفتاریاں بھی بڑے پیمانے پر ہوئیں۔
میکرون نے جب سے اقتدار سنبھالا وہ کئی اعتبار سے بین الاقوامی خبروں کا مرکز بنے رہے۔ اب بھی نظریں انھی کی جانب اٹھی ہوئی ہیں۔ لوگ حیران کن حد تک سوالات میں گھرے ہوئے ہیں لیکن ایک ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جنکے من میں لڈو پھوٹ رہے ہیں۔ انھوں نے حسب عادت ٹوئیٹر کا سہارا لیا اور میکرون سے اپنی پرانی بے عزتیوں کا بدلہ چکانے کو مستعد ہوگئے۔
لکھتے ہیں،''فرانس میں یہ ہنگامے ماحولیاتی معاہدے کی وجہ سے شروع ہوئے'' جسکے جواب میں فرانسیسی وزیرخارجہ نے بہت سخت ٹوئیٹ کیا اور کہا، ''میں اور فرانس کے صدر چاہتے ہیں کہ ٹرمپ ہماری قوم کا پیچھا چھوڑ دیں'' لیکن ٹرمپ نے اس سخت جواب کو ہرگز دل پر نہ لیا بلکہ وزیرخارجہ کی جھنجھلاہٹ سے خوب لطف اندوز ہوتے ہوئے ایک اور ٹوئیٹ کیا کہ ''مجھے خوشی ہے کہ میرے عزیز دوست میکرون اور مظاہرین آج جس نتیجے پر آپہنچے میں اس پر دو سال پہلے پہنچ گیا تھا۔ انھوں نے مزید کہا ''پیرس معاہدہ ایک بد ترین غلطی تھا اور توانائی کے حصول کے بنیادی ذرایع کی قیمتوں میں اضافے کے موجب کے سوا کچھ نہ تھا۔''یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ یلو ویسٹ تحریک فرانس کی داخلہ اور خارجہ پالیسی پر برے اثرات مرتب کر رہی ہے۔
امریکا اور فرانس کے درمیان متحارب ٹوئیٹس ان کے رہے سہے تعلقات پر آخری وار ثابت ہورہے ہیں۔ دونوں کی باہمی چپقلش بھلا اب کس سے ڈھکی چھپی ہے۔ گزشتہ سال میکرون نے امریکی شمولیت کے بغیر بین الاقوامی one planet کانفرنس کی اور make our planet great again کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا تھا جس کے لیے انھوں نے تیرہ امریکی ماحولیاتی سائنسدانوں کو ہزاروں ڈالرزکی پیشکش کی کہ وہ اس کے عوض فرانس آکر اس پروگرام پر کام کریں۔ امریکی میڈیا اب میکرون کا ٹھٹھا اڑا رہا ہے کہ ان ڈالروں کی ضرورت امریکی سائنسدانوں سے زیادہ فرانسیسی غریب عوام کو ہے حتی کہ وال اسٹریٹ جنرل جسکے ادارتی صفحے پر ہمیشہ میکرون کی اقتصادی اصلاحات کی مدح سرائی ہوتی تھی اب وہاں بھی یلوویسٹ تحریک کی حمایت میں لکھا جا رہا ہے۔
یوں میکرون کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور انھیں پسپائی اختیار کرتے ہوئے دعوؤں سے وعدوں کی طرف آنا پڑا لیکن معاملہ وعدوں کے باوجود بھی گمبھیر ہوچکا ہے۔ اگرچہ یلو ویسٹ تحریک کے مظاہرین نے کہیں یہ نہیں کہا کہ وہ عالمی ماحولیاتی معاہدے کے خلاف ہیں، ان کا مطمع نظر صرف مہنگائی اور گرتا ہوا معیارِزندگی ہے لیکن ان مسائل کی کڑیاں گھوم پھر کر میکرون کے کاربن نیوٹرل منصوبے سے ہی جا ملتی ہیں۔ یوں میکرون شش و پنج میں ہیں کہ ماحول کو بچائیں یا اپنی ساکھ، ووٹوں اورکرسی کو۔
یوں نوجوان اور خوبرو میکرون معدنیاتی ایندھن سے فرانس کو پاک کرنے کا عزم لیے میدان میں اترے اور دعویٰ کیا کہ2050 تک فرانس کاربن نیوٹرل ہوجائے گا۔ فرانس میں اس وقت 3.5فیصد گاڑیاں ہائبرڈ جب کہ 1.2 فیصد الیکٹرک ہیں۔
میکرون نے اگرچہ اپنے منصوبے میں یہ واضح نہیں کیا تھا کہ کاربن نیوٹرل فرانس میں ان گاڑیوں کا کیا بنے گا جو معدنیاتی ایندھن سے چلتی ہیں البتہ فرانس کے وزیر ماحولیات نے اتنا ضرور کہا کہ غریب عوام کو الیکٹرک گاڑیاں دلوانے میں مالی مدد فراہم کی جائے گی۔ اس بیان کو فرانسیسی عوام نے دیوانے کی بڑ قرار دیا مگر حکومت فرانس اس دعویٰ پر قائم رہی اور کہا کہ فرانسیسی کارکمپنیاں جن میں پرجو، اسٹروئن اور رینو شامل ہیں، وہ اس بڑے چیلنج سے یقینا نمٹ لیں گی۔
ساتھ ہی 2022 تک کوئلے کے تمام پلانٹس بند کرنا، ایٹمی بجلی گھروں کی پیداوار 2050ء تک نصف کرنا اور تیل وگیس کی دریافت کے لیے لائسنسوں کے اجراء پر مکمل پابندی عائد کرنا بھی میکرون کے بڑے منصوبے کا حصہ تھا ۔ صرف یہی نہیں بلکہ سال بھرکے اندر اندر پیرس سے لندن تک الیکٹرک جہازکی کمرشل پرواز شروع کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا گیا۔ الیکٹرک جہاز اگرچہ اب تک بنا نہیں لیکن فرانسیسی طیارہ ساز کمپنی نے برطانوی کمپنی کے تعاون سے اس کی تیاری میں دلچسپی ظاہرکی ہے۔ کمپنی کے مطابق اس طیارے میں ڈیڑھ سو مسافروں کی گنجائش ہوگی اور یہ بیٹری سے چلایا جائے گا۔ اس سے نہ صرف ایندھن کا خرچ بچے گا بلکہ سفرکی لاگت بھی کم ہو جائے گی۔
میکرون کا یہ پورا منصوبہ بظاہر قابل تحسین تھا ۔ بیشک ماحولیات کا تحفظ انسانی بقا کے لیے ناگزیر بن چکا ہے لیکن کیا کیجیے وقت کا کہ یہ منصوبہ میکرون کے گلے کی ہڈی بن گیا اور اس کی تکمیل کے لیے اٹھنے والا ہر قدم فرانسیسی عوام کے بنیادی حقوق پر پڑنے لگا۔ میکرون جو ماحولیات کے تحفظ کے لیے بے چین تھے، اب اپنی صدارت کے تحفظ کی فکر میں سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ اس وقت فرانس کی سڑکیں کسی جنگ زدہ خطے کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ مظاہروں میں اب تک ایک ارب یورو کا نقصان ہوچکا ہے۔
لاکھوں لوگوں نے گھروں سے نکل کر آن کی آن میں نظامِ مملکت مفلوج کردیا ۔ یہ مظاہرے ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے شروع ہوئے تھے۔ فرانس میں ڈیزل کا استعمال بہت زیادہ ہے جس پر پہلے سے ہی کافی ٹیکس عائد ہے۔ گزشتہ بارہ مہینوں میں ڈیزل کی قیمتوں میں 23 فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور اب پھر 6.5 سینٹ ڈیزل پر اور 2.9 پیٹرول پر بڑھا دیے گئے جس سے عوام آپے سے باہر ہوگئے۔ حکومت نے اس ٹیکس کا یہ موقف پیش کیا کہ حاصل ہونیوالے ٹیکسوں سے ہم توانائی کے متبادل ذرایع پر سرمایہ کاری کرینگے لیکن میکرون حکومت یہ اب بھی بتانے میں ناکام رہی کے عوام سے سالوں سے وصول کیے جانے والے بھاری ٹیکسوں کا کیا، کیا گیا؟
فرانس کے قانون کے مطابق ڈرائیورز کے لیے پیلے رنگ کی جیکٹ کو لازمی قرار دیا گیا ہے تاکہ وہ گاڑی چلاتے وقت دور سے ہی نمایاں نظر آئیں۔ حالیہ ہنگاموں میں مظاہرین یہی پیلی جیکٹ پہنے سڑکوں پر آگئے اور فرانس کی تاریخ میں یلو ویسٹ مظاہروں کا آغاز ہوگیا۔ ابتدا میں یہ مظاہرے صرف ایندھن کی قیمتوں میں ہونیوالے اضافے کے خلاف تھے لیکن میکرون کے یہ اضافہ موخر کرنے کے اعلان کے بعد بھی ہنگامے نہ رکے بلکہ بڑھتے بڑھتے دیگر معاملات کو بھی لپیٹ میں لیتے چلے گئے جن میں اجرتوں کی کمی، یونیورسٹی کی بڑھتی ہوئی فیسیں، پنشنوں پر بھاری ٹیکس اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلوں کا کڑا معیار شامل ہے۔
ان مظاہروں کے بعد دنیا نے میکرون کی جدت خیالی کا جو بیڑا غرق ہوتے دیکھا اسے تاریخ کبھی فراموش نہ کریگی۔ ایک طرف فرانسیسی عوام کی خستہ حالی اور گرتا ہوا معیارِزندگی دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال گیا تو دوسری طرف فرانسیسیوں کا میکرون حکومت پر عدم اعتماد بھی صاف دکھائی دیا۔ یلو ویسٹ تحریک بلاشبہ فرانس کے غریب عوام کی تحریک بن گئی جسکی حمایت دیکھتے ہی دیکھتے پورے فرانس حتیٰ کہ فرانس سے باہر بھی پھیل گئی۔ غم وغصے کے عالم میں لوگ سرخ چہروں اور پیلی جیکٹوں کے ساتھ لاکھوں کی تعداد میں نکل آئے۔ ان مظاہروں میں لوگ زخمی ہوئے، ہلاک بھی ہوئے اور گرفتاریاں بھی بڑے پیمانے پر ہوئیں۔
میکرون نے جب سے اقتدار سنبھالا وہ کئی اعتبار سے بین الاقوامی خبروں کا مرکز بنے رہے۔ اب بھی نظریں انھی کی جانب اٹھی ہوئی ہیں۔ لوگ حیران کن حد تک سوالات میں گھرے ہوئے ہیں لیکن ایک ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جنکے من میں لڈو پھوٹ رہے ہیں۔ انھوں نے حسب عادت ٹوئیٹر کا سہارا لیا اور میکرون سے اپنی پرانی بے عزتیوں کا بدلہ چکانے کو مستعد ہوگئے۔
لکھتے ہیں،''فرانس میں یہ ہنگامے ماحولیاتی معاہدے کی وجہ سے شروع ہوئے'' جسکے جواب میں فرانسیسی وزیرخارجہ نے بہت سخت ٹوئیٹ کیا اور کہا، ''میں اور فرانس کے صدر چاہتے ہیں کہ ٹرمپ ہماری قوم کا پیچھا چھوڑ دیں'' لیکن ٹرمپ نے اس سخت جواب کو ہرگز دل پر نہ لیا بلکہ وزیرخارجہ کی جھنجھلاہٹ سے خوب لطف اندوز ہوتے ہوئے ایک اور ٹوئیٹ کیا کہ ''مجھے خوشی ہے کہ میرے عزیز دوست میکرون اور مظاہرین آج جس نتیجے پر آپہنچے میں اس پر دو سال پہلے پہنچ گیا تھا۔ انھوں نے مزید کہا ''پیرس معاہدہ ایک بد ترین غلطی تھا اور توانائی کے حصول کے بنیادی ذرایع کی قیمتوں میں اضافے کے موجب کے سوا کچھ نہ تھا۔''یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ یلو ویسٹ تحریک فرانس کی داخلہ اور خارجہ پالیسی پر برے اثرات مرتب کر رہی ہے۔
امریکا اور فرانس کے درمیان متحارب ٹوئیٹس ان کے رہے سہے تعلقات پر آخری وار ثابت ہورہے ہیں۔ دونوں کی باہمی چپقلش بھلا اب کس سے ڈھکی چھپی ہے۔ گزشتہ سال میکرون نے امریکی شمولیت کے بغیر بین الاقوامی one planet کانفرنس کی اور make our planet great again کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا تھا جس کے لیے انھوں نے تیرہ امریکی ماحولیاتی سائنسدانوں کو ہزاروں ڈالرزکی پیشکش کی کہ وہ اس کے عوض فرانس آکر اس پروگرام پر کام کریں۔ امریکی میڈیا اب میکرون کا ٹھٹھا اڑا رہا ہے کہ ان ڈالروں کی ضرورت امریکی سائنسدانوں سے زیادہ فرانسیسی غریب عوام کو ہے حتی کہ وال اسٹریٹ جنرل جسکے ادارتی صفحے پر ہمیشہ میکرون کی اقتصادی اصلاحات کی مدح سرائی ہوتی تھی اب وہاں بھی یلوویسٹ تحریک کی حمایت میں لکھا جا رہا ہے۔
یوں میکرون کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور انھیں پسپائی اختیار کرتے ہوئے دعوؤں سے وعدوں کی طرف آنا پڑا لیکن معاملہ وعدوں کے باوجود بھی گمبھیر ہوچکا ہے۔ اگرچہ یلو ویسٹ تحریک کے مظاہرین نے کہیں یہ نہیں کہا کہ وہ عالمی ماحولیاتی معاہدے کے خلاف ہیں، ان کا مطمع نظر صرف مہنگائی اور گرتا ہوا معیارِزندگی ہے لیکن ان مسائل کی کڑیاں گھوم پھر کر میکرون کے کاربن نیوٹرل منصوبے سے ہی جا ملتی ہیں۔ یوں میکرون شش و پنج میں ہیں کہ ماحول کو بچائیں یا اپنی ساکھ، ووٹوں اورکرسی کو۔