افسانے کالم اور ایک تقریب
شہناز پروین کے افسانے نسائیت کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں اور عورت پر ڈھائے جانے والے مظالم کا نوحہ بیان کرتے ہیں۔
''روشنی چاہیے'' ممتاز افسانہ نگار شہناز پروین کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ دوسری کتاب '' یادیں '' کے عنوان سے میرے کالم میں شامل ہے، اس کتاب میں تقریباً 58 کالم شامل ہیں اور اس کے مصنف تنویر ظہور ہیں جنھوں نے ایک مقامی روزنامے میں مختلف موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے اور ''یادیں'' کے حوالے سے کالم لکھے ہیں۔
ہم پہلے شہناز پروین کے افسانوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ شہناز پروین کا تخلیقی عمل چار عشروں پر مشتمل ہے ان کی تین کتابیں افسانوں کی اور ایک ایم فل کا مقالہ کتابی شکل میں اقبال شناسی اور ماہنامہ نگار / نگار پاکستان کے نام سے منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوچکا ہے۔ مذکورہ کتاب ''روشنی چاہیے'' میں بیس افسانے اور چھ افسانچے شامل ہیں یہ رنگ ادب پبلی کیشنز سے شایع ہوئی ہے۔ سرورق وصی حیدر نے بنایا ہے جوکہ دیدہ زیب ہے ۔کتاب پر ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر اسلم فرخی اور ڈاکٹر حنیف فوق کی آرا درج ہیں ۔
شہناز پروین افسانے لکھنے میں طاق ہوچکی ہیں وہ طالب علمی کے زمانے سے افسانے لکھ رہی ہیں۔ شہناز پروین نے اپنی زندگی کے بیشتر ماہ و سال مشرقی پاکستان میں گزارے ہیں۔ مشرقی پاکستان کو ٹوٹتے، لوگوں کو بکھرتے اورگھروں کو برباد ہوتے ہوئے دیکھا ہے، خون کی ندیاں اور انسانی اعضا کی بے حرمتی اور ظلم وستم کی اندھیر نگیری نے انھیں وہ حالات لکھنے پر مجبورکیا، جو انھوں نے وہاں دیکھے تھے، یہ درد اور احساس ان کے افسانوں میں جا بجا ملتا ہے، خصوصاً ان کے افسانوں کا مجموعہ ''سناٹا بولتا ہے'' میں خاص طور پر در آیا ہے ۔ مصنفہ نے کرب اور ستم کی کیفیت کو درد مندی کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ ان کے دوسرے مجموعے '' آنکھ سمندر'' کے افسانے ذرا مختلف ہیں اور معاشرتی ماحول کی عکاسی لوگوں کے دکھ، درد اور مسائل کو فنی باریکیوں کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔
ان کی تیسری کتاب جوکہ میرا موضوع خاص ہے، اس کتاب کے افسانے انسانی زندگی کے المیوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ افسانہ نگار کی نظرگہری ہوتی ہے، جس کے ذریعے وہ دور بینی کے ساتھ وہ کچھ دیکھ لیتا ہے جس سے عام انسان محروم رکھتا ہے۔ شہناز پروین کے افسانوں میں بھی یہ خصوصیت نمایاں ہے، انھوں نے کرداروں کی نفسیات، عادات اور روز مرہ کی زندگی کا بے حد سلیقے کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی رائے کے مطابق مواد اور موضوع تو خیر بعض دوسرے افسانہ نگاروں کے یہاں بھی مل جاتے ہیں لیکن حسن بیان آپ کا اپنا ہے اور ایسا تیکھا اور کارگر کہ قاری اپنے آپ کو آپ کے افسانوں کی داد دینے پر مجبور پوتا ہے اور یہ وصف تو ایسا ہے جو سب کو نہیں، کسی کسی افسانہ نگار کو نصیب ہوتا ہے۔''
شہناز پروین کی کتاب میں موجود افسانے مختلف اوقات میں ماہنامہ ، سہ ماہی اور سالانہ شایع ہونے والے ادبی رسائل میں اشاعت کے مرحلے سے گزرچکے ہیں۔ انھوں نے اپنے ماحول رسم و رواج کے حوالے سے نہ کہ افسانے لکھے ہیں بلکہ دیارِ غیر، خصوصاً مغربی ثقافت، آزادیٔ نسواں پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ ایک افسانہ '' ایلس ونڈر لینڈ میں'' مغرب کے مخلوط ماحول اور لامحدود آزادی کی داستان سناتا نظر آتا ہے جہاں مذہبی پابندیوں اور تہذیب و ثقافت کے معاملے میں مکمل آزادی ہو، وہاں پر اس قسم کے حالات جنم لیتے ہیں۔
شہناز پروین کے افسانے نسائیت کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں اور عورت پر ڈھائے جانے والے مظالم کا نوحہ بیان کرتے ہیں۔ عورت کے حقوق کی ادائیگی کے لیے اسلام نے اصول وضوابط مرتب کیے ہیں جن کی ادائیگی انھیں تحفظ اور عزت و احترام عطا کرتی ہے لیکن زیادہ تر گھرانوں میں اسلامی حقوق سلب کرلیے گئے ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی عورت محروم و مظلوم ہے۔ اپنی خوشیوں کے لیے ترس رہی ہے۔ لمبر لوٹ، کھلا پنجرہ، اپنا اپنا قفس، جیسے افسانوں کی تخلیق کار شہناز پروین بہترین افسانہ نگار کہلانے کی مستحق ہیں۔
گزشتہ دنوں سکھر کے معروف شاعر ڈاکٹر انیس الرحمن خان کراچی تشریف لائے تو ان کے اعزاز میں ایک تقریب کا انعقاد شجاع الدین غوری جوکہ طنز و مزاح نگاری کے حوالے سے اپنی شناخت رکھتے ہیں ان کے دولت کدے پر ہوا۔ پچھلی تقریب کی طرح اس بار بھی صدارت راقم کے حصے میں آئی، محفل کے ناظم عزیز جبران انصاری نے مہمانان گرامی کا تعارف کروایا،
انور احمد علوی ، ظہیر خان ، معین کمالی ، معراج جامی اورشجاع الدین غوری نے بہت دلچسپ مضامین نذر سامعین کیے ۔ شعرائے کرام میں عزیز جبران انصاری، کوثر ثمر، عاشق عاجز تینو اور ابو ایلیا نے اپنی شاعری سے حاضرین کو محظوظ کیا۔ ڈاکٹر انیس الرحمن نے آخر میں اپنی شاعری سنائی جوکہ قابل تحسین اور داد کی مستحق تھی۔ تقریب کے شرکا میں زیادہ تر قلمکار تھے جن کی اپنی حیثیت علم و ادب کے اعتبار سے مسلم تھی۔ انور علوی ''مزاح پلس کے مدیر ہیں، شجاع الدین غوری، عزیز جبران انصاری کی کئی کتابیں، مزاحیہ تحریروں کے حوالے سے اشاعت کے مرحلے سے گزر چکی ہیں۔ راقم السطور نے اپنے صدارتی خطبے میں محفل میں پڑھی جانے والی تحریروں کا جائزہ لیا اور رائے پیش کی۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر انیس الرحمن کے کلام اور ان کی ادبی خدمات کی تعریف و توصیف کی۔
اب کالموں کے مجموعے ''یادیں'' کی طرف چلتے ہیں۔ رانا احتشام ربانی نے ایک معلوماتی مضمون تنویر ظہور کے حوالے سے لکھا جو مصنف کے تعارف کے حوالے سے بہترین تحریر ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ '' تنویر ظہور ایک درویش صفت انسان ہیں، ان کی متعدد تصانیف ہیں ،کالم نگاری میں ان کا اسلوب منفرد ہے۔ انھوں نے اہم شخصیات کے انٹرویوز بھی لیے ہیں جن میں مولانا کوثر نیازی، اشفاق احمد، قتیل شفائی، حبیب جالب وغیرہ شامل ہیں۔ اقبال شناسی اور ڈاکٹر وزیر آغا کے عنوان سے جو کالم لکھا گیا ہے اسی کالم میں چند سطور ۔ فرزند اقبال جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان میں حقیقی اقبال شناسوں کی تعداد بہت کم ہے۔ حضرت علامہ اقبال کے افکارونظریات کو ان کی صحیح ہیئت میں پیش کیا جانا چاہیے۔
علامہ اقبال ایک پہلو دار شخصیت تھے ان کے افکار بھی پہلو دار تھے، میں سمجھتاہوں کہ ڈاکٹر وزیر آغا حقیقی اقبال شناس تھے ،ڈاکٹر وزیر آغا عالمی شہرت یافتہ شاعر، ادیب، نقاد اور انشائیہ نگار بھی تھے، ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے ''ڈاکٹر وزیر آغا بطور اقبال شناس'' کتاب مرتب کی ۔ جو 7 ستمبر 2014 کو ڈاکٹر وزیر آغا کی چوتھی برسی کے موقعے پر شایع ہوئی۔
''انتظار حسین اور منیر نیازی'' کے عنوان سے انھوں نے جوکالم لکھا ہے، وہ اس طرح رقم طراز ہیں، انتظار حسین (اصل نام منظر علی) بھارت کے بلند شہر میں پیدا ہوئے اور پاکستان میں شہرت کی بلندیوں تک پہنچے، وہ منیر نیازی کی شعری صلاحیتوں کے معترف تھے۔ قطر میں مقیم عبدالحمید مفتاح نے منیر نیازی کے لیے ''المفتاح '' ایوارڈ کا اعلان کیا تو اس کی تقریب شیزان ریسٹورنٹ لاہور میں منعقد ہوئی ۔انتظامی امور کی ذمے داری راقم الحروف یعنی تنویر ظہور کے حصے میں آئی، منیر نیازی کی خواہش کے مطابق تقریب کی نظامت انتظار حسین نے کی ۔انھوں نے اس بات کا اعتراف خلوصِ دل کے ساتھ کیا کہ میں منیر نیازی کی شاعری کا دیرینہ قاری اور مداح ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ اس عہد کا سب سے بڑا شاعر منیر نیازی ہے۔ اب اس دور میں ایسے بڑے لوگ موجود نہیں ہیں جو ایک دوسرے کے کمالِ ہنرکی تعریف کریں۔ 200 صفحات پر مشتمل کتاب پر بکھری تحریریں بہت سی معلومات کے در وا کرتی ہیں ۔