کلارا بارٹن

تعلیم اور صحت کے شعبے کی ایک قابلِ قدر شخصیتتمام عمر بیماروں اور محتاجوں کا سہارا بنی رہیں۔

تعلیم اور صحت کے شعبے کی ایک قابلِ قدر شخصیتتمام عمر بیماروں اور محتاجوں کا سہارا بنی رہیں۔ فوٹو: فائل

مریضوں کی نگہداشت اور دیکھ بھال کے لیے نرسنگ کا شعبہ نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ کلارا بارٹن کا شمار ان خواتین میں ہوتا ہے جو نرسنگ کی بانی ہیں۔ یہ خاتون نہ صرف دنیا کی اولین نرس تھیں بلکہ انہوں نے امریکی ریڈ کراس کی بنیاد بھی رکھی۔ 25 دسمبر 1821 کو پیدا ہونے والی کلارا کے والد ایک سپاہی تھے۔

کلارا بارٹن تین سال کی تھیں جب اپنے بھائی کے ساتھ اسکول جانے لگیں، تعلیمی میدان میں انہوں نے ہمیشہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، لیکن شرمیلی طبیعت کی وجہ سے اسکول میں صرف ایک ہی دوست بنا سکیں۔ والدین کو بیٹی کی اس عادت کا علم ہوا تو انہوں نے کلارا اس پر توجہ دینے کی ٹھانی۔ والدین نے فیصلہ کیا اور اپنی بیٹی کو ہائی اسکول میں داخل کروایا لیکن یہاں کلارا مزید کم گو اور اپنی ذات میں سمٹ گئیں۔ یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ کلارا ملنے جلنے سے گریز کرنے کے ساتھ اب کھانا بھی نہیں کھاتی تھی۔ یہ جان کر والدین کی پریشانی بڑھ گئی اور انہیں اسکول سے واپس گھر بلا لیا۔

والدین نے اس مسئلے کو نظرانداز نہیں کیا بلکہ ایک بیماری تصور کرتے ہوئے اس سے بیٹی کو نجات دلانے کی کوشش کی۔ والدہ نے اس بیماری کو ختم کرنے کے لیے کلارا کی کزن سے مدد لی اور وقت کے ساتھ نہ صرف کلارا کا شرمیلا پن اور کم گوئی کی عادت ختم ہو گئی بلکہ اس کی صلاحیتیں بھی ظاہر ہونے لگیں۔ کلارا کی اس کزن کے کہنے پر اس کے والدین نے اپنی بیٹی کو اسکول ٹیچر بننے پر قائل کیا۔ اس طرح کلارا بارٹن نے سترہ سال کی عمر میں اس پیشے کا آغاز کیا۔ وہ اس میں گہری دل چسپی لینے لگیں اور انہوں نے ایک مہم چلائی جس کی وجہ سے کام کرنے والوں کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس نے کلارا بارٹن کا حوصلہ بڑھایا۔

وہ بارہ سال تک کینیڈا اور ویسٹ جارجیا کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتی رہیں۔ 1852 میں کلارا بارٹن نے بارڈن ٹاؤن میں ایسے اسکول کھولنے کا معاہدہ کیا جہاں بچوں کو مفت میں تعلیم دی جاسکے۔ اور یوں نیو جرسی کا پہلا مفت تعلیمی ادارہ قائم ہوا اور بہت کام یاب رہا۔ ایک سال بعد انہیں پرنسپل کے عہدے سے یہ کہہ کر برطرف کردیا گیا کہ اتنے بڑے عہدے کے لیے عورت موزوں نہیں ہے۔ 1855 میں وہ واشنگٹن چلی گئیں اور ایک ادارے میں بطور کلرک کام کرنے لگیں۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ ایک خاتون کو فیڈرل گورنمنٹ میں یہ عہدہ دیا گیا تھا۔

ساتھ ہی کسی مرد ملازم جتنی تنخواہ بھی دی جارہی تھی۔ وہ تین سال تک یہ ملازمت کرتی رہیں، لیکن اس دوران دفتر میں صنفی امتیاز اور مردوں کا ناروا سلوک اور توہین آمیز رویہ بھی برداشت کرنا پڑا۔ کلارا بارٹن یوں تو دس سال کی عمر میں ہی بیماروں کی خدمت اور تیمار داری کے فرائض انجام دے چکی تھیں، مگر بعد میں یہ ان کا جنون بن گیا۔ جب کلارا بارٹن دس سال کی تھی تو اس کا بھائی چھت سے گر گر شدید زخمی ہوگیا تھا اور وہی اس کی تیمار داری اور خدمت کرتی رہیں۔ انہوں نے کسی اسکول سے باقاعدہ نرسنگ کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ اس کی بنیادی وجہ تو یہ تھی کہ اس وقت نرسنگ کی تعلیم کو خاص اہمیت نہیں دی جاتی تھی اور ایسا کوئی ادارہ بھی موجود نہ تھا۔ کلارا نے اپنے بھائی کے زخمی ہونے کے بعد معالج سے سیکھ لیا تھا کہ وہ بھائی کا خیال کیسے رکھ سکتی ہے اور دواؤں کے علاوہ اس کو کھلانا پلانا اور کیا غذائیں دینا ہے۔


امریکا میں سول وار کے زمانے میں وہ وطن کی خدمت کرنا چاہتی تھیں اور اس وقت زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے اور ان کا خیال رکھنے کی ضرورت پڑی تو کلارا آگے بڑھیں۔ انہوں نے تیمار داری کے ساتھ بھوکوں کو کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرنے اور ان تک ضرورت کا سامان پہنچانے کا ذمہ اٹھایا۔ انہی دنوں بارٹن نے طبی اشیاء کو محفوظ کرنے اور زخمیوں کی ذہنی حالت اور جذباتی طور پر ان کو سہارا دینے کے بارے میں جانا اور سیکھا۔

یہ وہ دن تھے جب کلارا بارٹن نے اپنی پہچان فوجیوں کے ساتھ کام کر کے بنائی اور اپنی تمام صلاحیتوں کا سپاہیوں کے علاج اور ان کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں مدد دینے کے لیے استعمال کیا۔

جنگ کے بعد کلارا بارٹن نے فوجیوں کے اہل خانہ کے ہزاروں خط دریافت کیے جنھیں متعلقہ ڈپارٹمنٹ کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا تھا کیوں کہ وہ سپاہی یا تو مرچکے تھے یا لاپتا تھے۔ بارٹن نے اس وقت کے صدر لنکن سے رابطہ کیا اور ان سے التجا کی کہ اسے سرکاری طور پر ان تمام خطوط کے جواب دینے کی اجازت دی جائے۔ صدر نے بارٹن کو اس کی اجازت دے دی۔ کلارا بارٹن اور اس کے ساتھیوں نے 41855 خطوط کے جوابات لکھے اور بائیس ہزار سے زیادہ لاپتا سپاہیوں اور دیگر افراد کا کھوج لگایا اور 13000 لوگوں کی تدفین کی۔

کلارا بارٹن کو 1865 سے 66 تک کے جنگ کے تجربات پر اپنے لیکچرز کی وجہ سے ملک بھر میں بہت مقبولیت ملی۔ اسی دوران ان کی ملاقات سوسن بی انتھونی سے ہوئی اور دونوں نے مل کر خواتین اور شہریوں کے حقوق کی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی۔ 1868میں ناساز طبیعت کی وجہ سے وہ اپنا کام چھوڑ کر یورپ چلی گئیں۔

اس عرصے میں انہوں نیو ورلڈ ریلیف آرگنائزیشن، انٹرنیشنل ریڈ کراس کے ساتھ فرانس اور پرشیا کی جنگ کے دوران کام کیا۔ جنگ کی شروعات کے وقت انہوں نے ملٹری اسپتال بنانے میں مدد کی ساتھ ہی جنگ کے دوران ریڈ کراس سوسائٹی کے ساتھ مل کر لوگوں کی بھرپور مدد کی۔ جنگ کے خاتمہ پر کلارا بارٹن کو اعزازات سے نوازا گیا۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد وہ اپنے وطن امریکا لوٹیں اور 1881 میں امریکا میں امریکی ریڈ کراس سوسائٹی کی بنیاد رکھی اور اس کی پہلی صدر قرار پائیں۔ اس بینر تلے وہ قدرتی اور جنگی آفات کے شکار لوگوں کی آخری دم تک مدد کرتی رہیں۔

کلارا بارٹن نے 1904 میں ریڈ کراس سے استعفی دے دیا۔ انہوں نے اس ادارے سے کبھی تنخواہ نہیں لی بلکہ امدادی کاموں میں ذاتی رقم بھی لگا دی۔ 12 اپریل 1912 کو یہ باہمت اور بہادر خاتون اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ زندگی میں بیمار اور محتاج انسانوں کی بھلائی اور خدمت کرنے پر متعدد ایوارڈز اپنے نام کرنے والی اس خاتون کے نام پر آج بھی امریکا میں کئی تعلیمی ادارے اور سڑکیں موجود ہیں۔
Load Next Story