راستہ الگ کرنے سے پہلے سوچ لیں
ازدواجی زندگی میں تلخیوں کا واحد حل علیحدگی ہے؟
باہمی اختلافات، شوہر کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کے علاوہ معاشی پریشانی بھی زندگی میں زہر گھول دیتی ہے۔ اسی طرح بعض شادی شدہ خواتین سسرال میں نامناسب سلوک اور تکلیف دہ رویے کا سامنا کرتے ہوئے اس قدر تنگ آجاتی ہیں کہ علیحدگی کا فیصلہ کر لیتی ہیں۔
خصوصاً میاں بیوی کے درمیان محبت اور ذہنی ہم آہنگی نہ ہو تو ناچاقیاں جنم لینے لگتی ہیں اور لڑکیاں خلع لینے پر غور کرنے لگتی ہیں۔ گو کہ سماج میں طلاق کو ناپسندیدہ تصور کیا جاتا ہے مگر اس کے باوجود طلاق/ خلع کی شرح میں کمی نہیں آئی ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں عدم برداشت اور حقیقت سے نظریں چراتے ہوئے لڑکیوں کا اپنے شوہر سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلینا بھی شامل ہے۔ خصوصاً لڑکیاں شادی کے بعد ایک ایسی زندگی کے خواب دیکھتی ہیں جو ڈراموں اور فلموں کی حد تک تو سمجھ آتی ہے، لیکن حقیقی زندگی اس سے یکسر مختلف ہے۔
رشتوں کو نبھانے سے لے کر معاملات و فرائض کی احسن انداز میں انجام دہی ہی کام یاب زندگی کی متقاضی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ برداشت کا مظاہرہ، تحمل سے کام لینا اور درگزر کرنا بھی ضروری ہے۔ تاہم علیحدگی کا فیصلہ کرنا ہو یا برداشت اور درگزر سے کام لینا ہو یہ ایک شادی شدہ خاتون ہی زیادہ بہتر سمجھتی ہے، اور اگر حالات بہت بگڑ چکے ہوں تو اپنی عقل اور فہم سے کام لینے کے ساتھ بڑوں کے مشورے سے علیحدگی کا فیصلہ بھی کرسکتی ہے جس کی شریعت اور قانون نے اجازت بھی دی ہے، لیکن غیرضروری ردعمل ظاہر کرنے کی عادت اور جذباتی ہو کر کوئی بھی فیصلہ کرنا یقیناً ایک اور مسئلے کو جنم دے سکتا ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں کئی جوڑے مشترکہ خاندانی نظام کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں۔
لہٰذا ایک خاتون کو بیوی کے ساتھ بہو، بھابھی، دیورانی، جٹھانی، چاچی، ممانی وغیرہ کے سسرالی رشتوں کو بھی نبھانا پڑتا ہے، جس میں نامناسب رویوںٕ کی وجہ سے تلخیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں اور لڑائی جھگڑے بڑھ جاتے ہیں۔ کبھی میاں بیوی کے درمیان تلخیاں بڑھنے لگتی ہیں، کبھی ساس، نند، دیورانی، جٹھانی کا وجود ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ کبھی اپنے اور سسرالی عزیزوں کے بچوں کے درمیان ہونے والی لڑائیاں، بڑوں میں تلخیوں اور جھگڑوں کی وجہ بنتی ہیں تو کہیں گھریلو کام کاج پر بات بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
غرض وجہ کوئی بھی ہو لیکن علیحدگی کے متعلق سوچنے یا طلاق کا مطالبہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لیں۔ کیوں کہ اکثر اوقات علیحدگی کے بعد لاحق ہونے والے مسائل کے آگے اس فیصلے کی وجہ بننے والے جھگڑے اور تلخیاں معمولی معلوم ہوتی ہیں۔ بسا اوقات محض اپنی انا کی جنگ جیت کر عمر بھر کے پچھتاوے مول لینے پڑتے ہیں۔ کسی بھی جذباتی فیصلے سے قبل اگر اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو مد نظر رکھا جائے تو زندگی بھر کے پچھتاووں سے بچا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ خود سے چند سوال کریں۔
طلاق/خلع لینے کی وجوہات کیا ہیں؟
آپ اس فیصلے کی وجوہات لکھیں یا سوچیں کہ کیا وہ وجوہات اتنی بڑی ہیں کہ اس پیار بھرے رشتے کو اس طرح ختم کردیا جائے۔ عمر بھر کے لیے بچوں کو باپ اور ماں کے درمیان بانٹ دیا جائے یا ان کو ننھیال اور ددھیال کے درمیان جھولتے رہنے کے لیے چھوڑ دیا جائے؟ عموماً ساس، نندوں، دیورانی، جٹھانی سے ہونے والے جھگڑے یا بچوں کے آپس کے جھگڑے بھی اس فیصلے کی وجہ قرار پاتے ہیں۔ ذرا سوچیں کیا کسی اور کی وجہ سے اپنے شوہر سے ہمیشہ کے لیے الگ ہو جانا چاہیے جب کہ وہ آپ کا بہترین رفیق اور حامی بھی ہو۔ دوسری طرف بعض خواتین کو شوہر کی مصروفیت کا گلہ رہتا ہے۔ اگر یہ معاشی مصروفیات ہیں اور شوہر آپ کی اور اپنے بچوں کی آسائشوں کے لیے، گھریلو اخراجات سے لے کر بچوں کی اسکول کی فیسوں تک تمام بوجھ اٹھا رہا ہے تو کیا اس پر روٹھ کر میکے چلے جانا اور طلاق کا مطالبہ کرنا عقل مندی ہے؟
اکثر خواتین کو یہ شک ہوتا ہے کہ (کچھ خواتین کو یقین بھی ہوتا ہے) کہ شوہر کی دوسری عورتوں سے دوستی یا روابط ہیں۔ اس ضمن میں بیش تر گھرانوں میں جھگڑے طول پکڑ جاتے ہیں اور علیحدگی تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ کوئی بھی عورت یقیناً یہ سب برداشت نہیں کرے گی، مگر فوری ردعمل دینے اور طلاق کا مطالبہ کرنے سے پہلے سوچیں کہ آپ نے کبھی کچن سے باہر نکل کر اور شاپنگ کے لیے رقم کا مطالبہ کرنے کے علاوہ بھی شوہر پر توجہ دی ہے۔ اس کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط بنانے کی فکر کی ہے؟ اپنی شخصیت پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ لب و لہجے میں مٹھاس پیدا کریں۔ یاد رکھیں نکاح کے بندھن میں رب کریم نے بہت طاقت رکھی ہے۔ شوہروں سے شکوہ کرنے کے بجائے محبت کے میٹھے بول سے اس کا دل جیت لیں۔ اپنا گھر چھوڑنے کی غلطی نہ کریں۔
معاشی خوش حالی نہ رہے تو بھی میاں بیوی کے درمیان کشیدگی پیدا ہونے لگتی ہے۔ حالاں کہ ایسے موقع پر بیوی کو شوہر کا ساتھ دینا چاہیے، اس کی ہمت بندھانے کے علاوہ اگر بیوی تعلیم یافتہ یا ہنر مند ہے تو مالی بوجھ بانٹنے کے لیے تگ دو کرے۔ یہ عمل اس رشتے کو مزید مضبوط کرسکتا ہے۔ چھوٹے بچوں کے ساتھ گھر میں بھی بہت سے کام کیے جاسکتے ہیں۔ اب تو آن لائن بھی کام کرکے پیسے کماسکتے ہیں۔ ان تمام باتوں کے ساتھ اپنے بچوں کے جذبات اور ان کے مستقبل کے بارے میں ضرور سوچیں۔ بچوںکی جگہ خود کو رکھ کر سوچیں۔ علیحدگی کی صورت میں وہ جس ذہنی خلفشار کا شکار ہوںگے، ان کی شخصیت میں جو ٹوٹ پھوٹ ہوگی اسکول کے دوستوں سے لے کر اپنے کزنز تک وہ سب کے سوالات کا کیا جواب دیںگے۔ چند لمحوں کے لیے بچوں میں شرمندگی اور احساس کمتری کا تصور کریں۔ گھر ٹوٹنے سے بچوں کی شخصیت میں عمر بھر کے لیے خلا رہ جاتا ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود اگر آپ کی نظر میں علیحدگی ہی آخری حل ہے تو اس کے بعد کے مسائل کا بھی ادراک کرلیں۔
''میکے میں کیا مسائل پیش آسکتے ہیں''
بسا اوقات خواتین کا میکے روٹھ کر جانے کا مقصد طلاق یا خلع لینا نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ محض کچھ دن رہنا چاہتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ بعد میں شوہر مناکر لے جائے گا لیکن اس موقع پر اکثر اوقات والدین بیٹی کی شکایت اور رونے دھونے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور بیٹی کو گھر میں روک لیتے ہیں۔ ادھر کبھی شوہر اپنی بیوی کے روٹھ کر میکے جانے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لے اور اسے منانے نہ جائے تو بات بڑھتے بڑھتے طلاق تک جا پہنچتی ہے۔ لہٰذا کبھی اپنا گھر چھوڑنے کی غلطی نہ کریں۔ ٹھنڈے دل سے سوچیں اگر خلع کے ارادے سے ہی میکے جاتی ہیں تو کیا میکے والے آپ کے فیصلے کی تائید کریںگے؟ میکے میں والدین کے علاوہ بھائی، بھابھیاں، بہنیں وغیرہ کیا آپ کے مستقل قیام سے خوش ہوں گے؟ کیا آپ میکے میں بچوں کے مابین ہونے والی لڑائیوں یا اپنے ہی رشتوں کے بدلتے تیوروں والے ماحول میں رہ پائیںگی؟ چند گھنٹوں یا چند دنوں کے لیے آپ کے میکے آنے پر جس طرح استقبال کیا جاتا ہے وہ جذبہ اور گرم جوشی آپ کی اس طرح آمد پر ہرگز نہیں نظر آئے گی۔
پھر وقت گزرنے کے ساتھ اخراجات سب سے اہم مسئلہ بن جاتے ہیں۔ خلع کے مقدمے سے لے کر بچوں کی حوالگی کے کیس تک خطیر رقم درکار ہوگی۔ خلع کے بعد بھی جہیز کا سامان، نان نفقہ، بچے کس کے پاس رہیںگے۔ یہ تمام معاملات شرعی و قانونی تقاضوں کو مد نظر رکھ کر طے کیے جاتے ہیں۔ چند لمحوں کے لیے یہ سوچیں کہ اگر بچے شوہر کے پاس رہیں تو کیا آپ ان کے بغیر رہ پائیںگی۔ میاں بیوی کے درمیان ہونے والے جھگڑوں کی سزا بچے کیوں بھگتیں؟ بچے بہت حساس ہوتے ہیں۔ آپ جذباتی فیصلہ ان کی شخصیت میں ٹوٹ پھوٹ اور ان کا اعتماد مجروح کرسکتا ہے۔
بچوں کے تعلیمی اخراجات سے لے کر دیگر اخراجات تک ہر ماہ خاص رقم درکار ہوگی۔ اگر نان نفقہ نہیں ملتا یا ناکافی ہو تو والدین یا بھائی کی طرف دیکھنا پڑے گا۔ ابتدا میں اکثر والدین خرچہ اٹھانے کی حامی بھرلیتے ہیں مگر گزرتے وقت کے ساتھ یہ ممکن نہیں رہتا اور اخراجات ایک مسئلہ بن جاتے ہیں۔ اگر خود ملازمت کرنا چاہتی ہیں تو کیا تعلیم یا ہنر سے اتنا کمالیںگی کہ بچوں کا اور اپنا خرچہ اٹھاسکیں۔ عموماً والدین دوسری شادی پر زور دیتے ہیں۔ آپ نے ان کی خواہش کے آگے ہتھیار ڈال دیے تو سوچیں دوسرا شوہر آپ کے بچوں کو قبول کرے گا۔ ان تمام باتوں پر غور کرنے کے بعد شوہر کی چند خوبیوں اور خامیوں پر بھی نظر ڈالیں اور پوری دیانت داری اس کا تجزیہ کریں۔ اگر بہت سے خوبیوں کے ساتھ چند خامیاں بھی ہیں تو انہیں نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ اب اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔ جھگڑے کی وجوہات سے لے کر اپنی اور اپنے شریکِ حیات خوبیوں اور خامیوں کو مد نظر رکھتے اور علیحدگی کی صورت میں میکے میں ہونے والے مسائل ہوئے کوئی فیصلہ کریں۔
ماضی کی تلخ یادوں کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیجیے۔ حوصلے اور ہمت سے کام لے کر نئی زندگی کا آغاز کیجیے اور محبت و خلوص سے اس رشتے کو مضبوط کیجیے۔
خصوصاً میاں بیوی کے درمیان محبت اور ذہنی ہم آہنگی نہ ہو تو ناچاقیاں جنم لینے لگتی ہیں اور لڑکیاں خلع لینے پر غور کرنے لگتی ہیں۔ گو کہ سماج میں طلاق کو ناپسندیدہ تصور کیا جاتا ہے مگر اس کے باوجود طلاق/ خلع کی شرح میں کمی نہیں آئی ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں عدم برداشت اور حقیقت سے نظریں چراتے ہوئے لڑکیوں کا اپنے شوہر سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلینا بھی شامل ہے۔ خصوصاً لڑکیاں شادی کے بعد ایک ایسی زندگی کے خواب دیکھتی ہیں جو ڈراموں اور فلموں کی حد تک تو سمجھ آتی ہے، لیکن حقیقی زندگی اس سے یکسر مختلف ہے۔
رشتوں کو نبھانے سے لے کر معاملات و فرائض کی احسن انداز میں انجام دہی ہی کام یاب زندگی کی متقاضی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ برداشت کا مظاہرہ، تحمل سے کام لینا اور درگزر کرنا بھی ضروری ہے۔ تاہم علیحدگی کا فیصلہ کرنا ہو یا برداشت اور درگزر سے کام لینا ہو یہ ایک شادی شدہ خاتون ہی زیادہ بہتر سمجھتی ہے، اور اگر حالات بہت بگڑ چکے ہوں تو اپنی عقل اور فہم سے کام لینے کے ساتھ بڑوں کے مشورے سے علیحدگی کا فیصلہ بھی کرسکتی ہے جس کی شریعت اور قانون نے اجازت بھی دی ہے، لیکن غیرضروری ردعمل ظاہر کرنے کی عادت اور جذباتی ہو کر کوئی بھی فیصلہ کرنا یقیناً ایک اور مسئلے کو جنم دے سکتا ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں کئی جوڑے مشترکہ خاندانی نظام کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں۔
لہٰذا ایک خاتون کو بیوی کے ساتھ بہو، بھابھی، دیورانی، جٹھانی، چاچی، ممانی وغیرہ کے سسرالی رشتوں کو بھی نبھانا پڑتا ہے، جس میں نامناسب رویوںٕ کی وجہ سے تلخیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں اور لڑائی جھگڑے بڑھ جاتے ہیں۔ کبھی میاں بیوی کے درمیان تلخیاں بڑھنے لگتی ہیں، کبھی ساس، نند، دیورانی، جٹھانی کا وجود ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ کبھی اپنے اور سسرالی عزیزوں کے بچوں کے درمیان ہونے والی لڑائیاں، بڑوں میں تلخیوں اور جھگڑوں کی وجہ بنتی ہیں تو کہیں گھریلو کام کاج پر بات بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
غرض وجہ کوئی بھی ہو لیکن علیحدگی کے متعلق سوچنے یا طلاق کا مطالبہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لیں۔ کیوں کہ اکثر اوقات علیحدگی کے بعد لاحق ہونے والے مسائل کے آگے اس فیصلے کی وجہ بننے والے جھگڑے اور تلخیاں معمولی معلوم ہوتی ہیں۔ بسا اوقات محض اپنی انا کی جنگ جیت کر عمر بھر کے پچھتاوے مول لینے پڑتے ہیں۔ کسی بھی جذباتی فیصلے سے قبل اگر اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو مد نظر رکھا جائے تو زندگی بھر کے پچھتاووں سے بچا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ خود سے چند سوال کریں۔
طلاق/خلع لینے کی وجوہات کیا ہیں؟
آپ اس فیصلے کی وجوہات لکھیں یا سوچیں کہ کیا وہ وجوہات اتنی بڑی ہیں کہ اس پیار بھرے رشتے کو اس طرح ختم کردیا جائے۔ عمر بھر کے لیے بچوں کو باپ اور ماں کے درمیان بانٹ دیا جائے یا ان کو ننھیال اور ددھیال کے درمیان جھولتے رہنے کے لیے چھوڑ دیا جائے؟ عموماً ساس، نندوں، دیورانی، جٹھانی سے ہونے والے جھگڑے یا بچوں کے آپس کے جھگڑے بھی اس فیصلے کی وجہ قرار پاتے ہیں۔ ذرا سوچیں کیا کسی اور کی وجہ سے اپنے شوہر سے ہمیشہ کے لیے الگ ہو جانا چاہیے جب کہ وہ آپ کا بہترین رفیق اور حامی بھی ہو۔ دوسری طرف بعض خواتین کو شوہر کی مصروفیت کا گلہ رہتا ہے۔ اگر یہ معاشی مصروفیات ہیں اور شوہر آپ کی اور اپنے بچوں کی آسائشوں کے لیے، گھریلو اخراجات سے لے کر بچوں کی اسکول کی فیسوں تک تمام بوجھ اٹھا رہا ہے تو کیا اس پر روٹھ کر میکے چلے جانا اور طلاق کا مطالبہ کرنا عقل مندی ہے؟
اکثر خواتین کو یہ شک ہوتا ہے کہ (کچھ خواتین کو یقین بھی ہوتا ہے) کہ شوہر کی دوسری عورتوں سے دوستی یا روابط ہیں۔ اس ضمن میں بیش تر گھرانوں میں جھگڑے طول پکڑ جاتے ہیں اور علیحدگی تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ کوئی بھی عورت یقیناً یہ سب برداشت نہیں کرے گی، مگر فوری ردعمل دینے اور طلاق کا مطالبہ کرنے سے پہلے سوچیں کہ آپ نے کبھی کچن سے باہر نکل کر اور شاپنگ کے لیے رقم کا مطالبہ کرنے کے علاوہ بھی شوہر پر توجہ دی ہے۔ اس کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط بنانے کی فکر کی ہے؟ اپنی شخصیت پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ لب و لہجے میں مٹھاس پیدا کریں۔ یاد رکھیں نکاح کے بندھن میں رب کریم نے بہت طاقت رکھی ہے۔ شوہروں سے شکوہ کرنے کے بجائے محبت کے میٹھے بول سے اس کا دل جیت لیں۔ اپنا گھر چھوڑنے کی غلطی نہ کریں۔
معاشی خوش حالی نہ رہے تو بھی میاں بیوی کے درمیان کشیدگی پیدا ہونے لگتی ہے۔ حالاں کہ ایسے موقع پر بیوی کو شوہر کا ساتھ دینا چاہیے، اس کی ہمت بندھانے کے علاوہ اگر بیوی تعلیم یافتہ یا ہنر مند ہے تو مالی بوجھ بانٹنے کے لیے تگ دو کرے۔ یہ عمل اس رشتے کو مزید مضبوط کرسکتا ہے۔ چھوٹے بچوں کے ساتھ گھر میں بھی بہت سے کام کیے جاسکتے ہیں۔ اب تو آن لائن بھی کام کرکے پیسے کماسکتے ہیں۔ ان تمام باتوں کے ساتھ اپنے بچوں کے جذبات اور ان کے مستقبل کے بارے میں ضرور سوچیں۔ بچوںکی جگہ خود کو رکھ کر سوچیں۔ علیحدگی کی صورت میں وہ جس ذہنی خلفشار کا شکار ہوںگے، ان کی شخصیت میں جو ٹوٹ پھوٹ ہوگی اسکول کے دوستوں سے لے کر اپنے کزنز تک وہ سب کے سوالات کا کیا جواب دیںگے۔ چند لمحوں کے لیے بچوں میں شرمندگی اور احساس کمتری کا تصور کریں۔ گھر ٹوٹنے سے بچوں کی شخصیت میں عمر بھر کے لیے خلا رہ جاتا ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود اگر آپ کی نظر میں علیحدگی ہی آخری حل ہے تو اس کے بعد کے مسائل کا بھی ادراک کرلیں۔
''میکے میں کیا مسائل پیش آسکتے ہیں''
بسا اوقات خواتین کا میکے روٹھ کر جانے کا مقصد طلاق یا خلع لینا نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ محض کچھ دن رہنا چاہتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ بعد میں شوہر مناکر لے جائے گا لیکن اس موقع پر اکثر اوقات والدین بیٹی کی شکایت اور رونے دھونے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور بیٹی کو گھر میں روک لیتے ہیں۔ ادھر کبھی شوہر اپنی بیوی کے روٹھ کر میکے جانے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لے اور اسے منانے نہ جائے تو بات بڑھتے بڑھتے طلاق تک جا پہنچتی ہے۔ لہٰذا کبھی اپنا گھر چھوڑنے کی غلطی نہ کریں۔ ٹھنڈے دل سے سوچیں اگر خلع کے ارادے سے ہی میکے جاتی ہیں تو کیا میکے والے آپ کے فیصلے کی تائید کریںگے؟ میکے میں والدین کے علاوہ بھائی، بھابھیاں، بہنیں وغیرہ کیا آپ کے مستقل قیام سے خوش ہوں گے؟ کیا آپ میکے میں بچوں کے مابین ہونے والی لڑائیوں یا اپنے ہی رشتوں کے بدلتے تیوروں والے ماحول میں رہ پائیںگی؟ چند گھنٹوں یا چند دنوں کے لیے آپ کے میکے آنے پر جس طرح استقبال کیا جاتا ہے وہ جذبہ اور گرم جوشی آپ کی اس طرح آمد پر ہرگز نہیں نظر آئے گی۔
پھر وقت گزرنے کے ساتھ اخراجات سب سے اہم مسئلہ بن جاتے ہیں۔ خلع کے مقدمے سے لے کر بچوں کی حوالگی کے کیس تک خطیر رقم درکار ہوگی۔ خلع کے بعد بھی جہیز کا سامان، نان نفقہ، بچے کس کے پاس رہیںگے۔ یہ تمام معاملات شرعی و قانونی تقاضوں کو مد نظر رکھ کر طے کیے جاتے ہیں۔ چند لمحوں کے لیے یہ سوچیں کہ اگر بچے شوہر کے پاس رہیں تو کیا آپ ان کے بغیر رہ پائیںگی۔ میاں بیوی کے درمیان ہونے والے جھگڑوں کی سزا بچے کیوں بھگتیں؟ بچے بہت حساس ہوتے ہیں۔ آپ جذباتی فیصلہ ان کی شخصیت میں ٹوٹ پھوٹ اور ان کا اعتماد مجروح کرسکتا ہے۔
بچوں کے تعلیمی اخراجات سے لے کر دیگر اخراجات تک ہر ماہ خاص رقم درکار ہوگی۔ اگر نان نفقہ نہیں ملتا یا ناکافی ہو تو والدین یا بھائی کی طرف دیکھنا پڑے گا۔ ابتدا میں اکثر والدین خرچہ اٹھانے کی حامی بھرلیتے ہیں مگر گزرتے وقت کے ساتھ یہ ممکن نہیں رہتا اور اخراجات ایک مسئلہ بن جاتے ہیں۔ اگر خود ملازمت کرنا چاہتی ہیں تو کیا تعلیم یا ہنر سے اتنا کمالیںگی کہ بچوں کا اور اپنا خرچہ اٹھاسکیں۔ عموماً والدین دوسری شادی پر زور دیتے ہیں۔ آپ نے ان کی خواہش کے آگے ہتھیار ڈال دیے تو سوچیں دوسرا شوہر آپ کے بچوں کو قبول کرے گا۔ ان تمام باتوں پر غور کرنے کے بعد شوہر کی چند خوبیوں اور خامیوں پر بھی نظر ڈالیں اور پوری دیانت داری اس کا تجزیہ کریں۔ اگر بہت سے خوبیوں کے ساتھ چند خامیاں بھی ہیں تو انہیں نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ اب اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔ جھگڑے کی وجوہات سے لے کر اپنی اور اپنے شریکِ حیات خوبیوں اور خامیوں کو مد نظر رکھتے اور علیحدگی کی صورت میں میکے میں ہونے والے مسائل ہوئے کوئی فیصلہ کریں۔
ماضی کی تلخ یادوں کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیجیے۔ حوصلے اور ہمت سے کام لے کر نئی زندگی کا آغاز کیجیے اور محبت و خلوص سے اس رشتے کو مضبوط کیجیے۔