جانور بھی موت کا سوگ مناتے ہیں

لیکن ان کا انداز مختلف ہوسکتا ہے ،ہاتھی موت پر سب سے زیادہ غمگین ہونے والا جانور ہے.

لیکن ان کا انداز مختلف ہوسکتا ہے ،ہاتھی موت پر سب سے زیادہ غمگین ہونے والا جانور ہے۔ فوٹو: فائل

کوا ایک ہمہ خور پرندہ ہے جو دنیا کے ہر کونے میں پایا جاتا ہے۔

کالے بھدے رنگ اور عجیب و غریب خصوصیات کے باعث عام طور پرکوئی اس کو پسند نہیں کرتا۔یہ اپنے گھونسلے کی بہت حفاظت کرتے ہیں اور کوئی اس کے قریب بھی آئے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں لیکن یہ بہت ذہین اور سوشل پرندہ ہے۔ کوے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بہت جلد آپ سے گھل مل جاتا ہے خاص طورپر اس وقت جب آپ اسے کھانے کو کچھ دیں۔کوے میں ایسی بہت سی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو انسانوں کا خاصہ سمجھی جاتی ہیں جن میں ایک اوزار بنانے کا وصف اور دوسرا کسی ساتھی کی ''فوتیدگی'' پر بالکل ایسا برتائو جیسا انسان کرتے ہیں۔ صدیوں سے کوئوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ طاعون ، ساحری اور برائی کا نشان ہوتا ہے۔لیکن اصل میں کوے بھی بہت سے جانداروں ، بشمول یہاں تک کہ انسان، کی طرح بہت حساس مخلوق ہیں۔یہ روح رکھتے ہیں۔

کووں کا سوگ

جب کوئوں کا کوئی ساتھی مرتا ہے ، تو ان کاسوگ قابل د ید ہوتا ہے۔آپ نے کبھی دیکھا ہوگا کہ جب کوئی کوا مرتا ہے تو بہت سے کوے اس کے ارد گرد اکٹھے ہوجاتے ہیں ۔ وہ اس کے ارد گرد منڈلاتے ہوئے اس طرح کا ئیں کائیں کرتے ہیں جیسے انسان اپنے کسی پیارے کے مرنے پر آہ وبکا کرتے یا بین کرتے ہیں۔وہ اس کے قریب آتے اور اس کو چونچیں مارتے ہیں جیسے اسے چوم رہے ہوں یا اٹھانے کی کوشش کررہے ہوں۔ان کی دیکھا دیکھی اور بھی بہت سے کوے وہاں جمع ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ دائرے کی شکل میں اس کے قریب بیٹھ جاتے ہیں اور خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔کچھ کوے تنکے یا کوئی پھول وغیرہ مردہ کوے کے قریب یا اس کے اوپر رکھتے ہیں۔اس طرح ایک مخصوص انداز میں خراج تحسین پیش کرنے کے بعد وہ اڑ جاتے ہیں۔کیا مردہ پرندے کے ساتھ ان کا یہ برتائو ہو بہو انسانوں جیسا نہیں؟ یقیناً ایسا ہی ہے۔

''صاف دکھائی دیتا ہے کہ وہ کسی سانحے پر غم کا اظہار کررہے ہیں۔''یونیورسٹی آف واشنگٹن کے جنگلی حیات کے سائنس دان جان مرزلوف کا کہنا تھا۔''کووں کی طرح بہت سے جاندار مختلف طریقوں سے غم کا اظہار کرتے ہیں۔''

عام طورپر جانوروں کے بارے میں ہمارا علم بہت محدود ہوتا ہے۔محققین اور حیاتیات دانوں سے قطع نظر ، زیادہ تر انسان جانوروں کو محض گوشت پوست کے چلتے پھرتے تودے سمجھتے ہیںاور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ان کے نزدیک جانور صرف کھاتے پینے ، بچے پیدا کرنے اور ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے والی مخلوق ہیں۔یا زیادہ سے زیادہ ان میں خود کو زندہ رکھنے والی چند خصوصیات ہوتی ہیں اوراس کے بعد وہ محض جانور ہوتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جانوروں کو زندگی اور موت کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ یعنی جس طرح انہیں اور بہت سی چیزوں کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہوتا اسی طرح وہ آخری حقیقت یعنی موت سے بھی لاعلم ہوتے ہیں۔لیکن اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو حیاتیات دانوں کے بقول آپ غلطی پر ہیں۔ اپنی سوچ کو درست کریں۔

چمپنزیوں کا ''سیاپا''

جانوروں اور پرندوں پر کیے جانے والے فیلڈ ورک سے پتہ چلتا ہے کہ بے شمار واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ جب کسی مادہ چمپنزی کا بچہ مرجاتا ہے تو وہ اس کی لاش کو بازوئوں میں جکڑ لیتی ہے اوراسے چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتی۔وہ کئی کئی دنوں بلکہ ہفتوں تک بچے کی لاش کو نہیں چھوڑتی حتیٰ کہ وہ بالکل ٹھنڈا ہوکر گلنے سڑنے لگتا ہے۔اسی طرح ہاتھیوں کے جھنڈ کاکوئی ساتھی مرجائے تو وہ کئی دنوں تک اس کی لاش کے پاس رہتے ہیں اور ٹلنے کا نام نہیں لیتے۔وہ اس کو دیکھتے رہتے ہیں۔ اس طرح اگر انہیں کسی ہاتھی کی ہڈیاں ملیں تو وہ اس کو پہچان لیتے ہیں اور ان کو چھوتے اور محسوس کرتے ہیں۔اس طرح کتوں اور بلیوں کا کوئی ساتھی مرجائے تو وہ مردہ دل ہوجاتے ہیں اور کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں۔وہ ساتھی کی موت پر ڈرائونی آواز میں روتے دکھائی دیتے ہیں۔اس طرح بابون بندر ساتھی کی موت پر روتے اور چیختے ہیں۔غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ مردہ ساتھی کا سینہ پیٹتے ہیں اور پھر اپنا سینہ بھی پیٹنے لگتے ہیں۔اس طرح مویشیوں کے فارم ہائوسز میں بھی مویشیوں جیسے بکری ، گائے ، بھینس اور سور کے مرنے پر ان کے ساتھیوں میں سوگ کی کیفیت دیکھی جاچکی ہے۔ سمندر میں ڈولفن مچھلیوں میں ان کے بچے یا کسی ہم جولی کے مرنے پر غم و اندوہ کے اظہار کا پتہ چلتا ہے۔

سائنس کی غلطی

یہ ناممکن ہے کہ جانوروں کے اس قسم کے رویے کو دیکھا جائے اور اسے سو گ کے بجائے کوئی اور نام دیا جائے جیسا کہ سائنس عام طورپر کرتی آئی ہے ۔ مثال کے طور پر بعض سائنس دان کہہ دیتے ہیں کہ جانوروں کا یہ ردعمل سوگ نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ مثال کے طور پر اگر وہ غم زدہ ہیں تو اصل میں وہ خوفزدہ ہیں کہ جس شکاری نے ان کے ساتھی کو مارا ہے ، کہیں وہ ان کو بھی نہ ماردے ۔ اس طرح اگر وہ غصے کا اظہارکررہے ہیں تو اصل میں یہ اس سبب کے خلاف غصے کا اظہار ہے جس کی وجہ سے ان کے ساتھی کی جان گئی ہے۔اس طرح جب تک نفسیات کے بنیادی اصولوں کے تحت جب تک کوئی جاندار اپنے احساسات کے بارے میں خود نہ بتائے ، تب تک یہ جاننا ممکن نہیں کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔ اس سلسلے میں سائنس کے کچھ شکوک تو مانے جاسکتے ہیں لیکن کہیں پر کوئی بات ہے جس میں سائنس کسی حد تک ''غلطی'' پر ہوسکتی ہے۔

جانور بھی ہماری طرح معاشرتی مخلوق ہیں۔وہ بھی رشتے بناتے ہیں اوران کے رشتے بھی ان کے لیے اتنے ہی اہم ہوتے ہیں جتنے ہم انسانوں کے لیے ہمارے رشتے اہم ہوتے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ کسی نہ کسی مرحلے پر انہیں بھی موت کی حقیقت کا ایسے ہی احساس ہوتا ہے جیسے ہم انسانوں کو ہوتا ہے۔کالج آف ولیم اینڈ میری کی پروفیسر آف انتھروپولوجی باربرا کنگ کا کہنا ہے کہ جانور بھی انسانوں کی طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔باربرا نے جانوروں میں سوگ کی کیفیت اوراس کے اظہار کے لیے حال ہی میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان"How Animals Griev" ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم سب سماجی حیوان ہیں۔ہمارے دماغ لگ بھگ ایک طرح سے بنائے گئے ہیں۔ پھر بھلا جانور سوگ کیوں نہیں مناسکتے! پروفیسر آف ایوولوشنری بائیالوجی یونیورسٹی آف کولوریڈو مارک بیکوف کا کہنا ہے کہ اگر جانور سوگ مناتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ یہ ہم انسانوں کے سوگ منانے کے انداز کا کوئی ارتقائی عمل ہو۔ہم آسانی سے دیکھ سکتے ہیں کہ سوگ منانے کے مختلف انداز کس طرح ارتقاء پذیر ہوئے۔

انسان اور حیوان کی مشترکہ خصوصیت

مارک بیکوف اور باربرا کنگ ان حیاتیاتی محققین میں صف اول میں شامل ہیں جو اس سوال کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ جانور بھی سوگ مناتے ہیں۔ یہ کوئی ایسا سوال نہیں ہے جس کا جواب عقلی تجربے جیسے لیبارٹری ٹیسٹ یا دماغ کا سکین وغیرہ کرکے حاصل کیا جاسکے۔اس کے بجائے اس کا جواب مختلف مشاہدات، جو دنیا بھر میں جانوروں کے ساتھ رہنے والے ا فراد جیسے پالتو جانور رکھنے والے یا چڑیا گھروں کے منتظمین وغیرہ حتیٰ کہ عام شہریوں کے دیکھنے میں بھی آتے ہیں، کی روشنی میں حاصل کیا جاسکتا ہے۔ان تمام لوگوں کو اس قسم کے تجربات سے واسطہ پڑچکا ہے جن میں ان کے مشاہدے میں آتا رہا ہے کہ جانور بھی اپنے ساتھیوں کے مرنے پر سوگ اور الم کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ اس طریقے سے اپنے سوگ کااظہار کرتے ہیں کہ صاف دکھائی دیتا ہے۔

سوگ اور غم کی کیفیت جانوروں کی اکثر انواع میں جنم لیتی ہے اور انسانوں اور جانوروں میں دیگر بہت سی مشترک چیزوں کی طرح یہ بھی ایک مشترک اور پیچیدہ خصوصیت ہے۔اس حوالے سے کنگ ایک صحافی راجر روزن بلیٹ کی کتاب کا حوالہ دیتی ہیں جو اپنی جوان بیٹی کی اچانک موت پر اپنا تجربہ لکھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ جوان بیٹی کی موت نے انہیں دکھ کی اتھاہ گہرائیوں میں گم کردیا تھا۔''مجھے یوں لگتا تھا جیسے دکھ کی تیز دھار کاٹ سے میرے بدن کی ہڈیاں میری جلد سے باہر نکل آئی ہیں۔'' ان کا کہنا ہے کہ اس غم کو الفاظ میں بیان کرنا ان کے لیے ناممکن ہے۔اس غم کو ایک تصویر کی شکل میں دکھایا جائے تو یہ ایک ایسی تصویر ہوگی جس کو دیکھنے کا کسی میں یارا نہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ بیٹی کی موت پر جو رسومات ہوئی تھیں ، وہ ان کے ذہن پر اس طرح نقش ہیں کہ زندگی میں کوئی بھی شے کبھی اس طرح ان کے ذہن پر نقش نہیں ہوئی۔اذیت کے ان دنوں میں جس طرح رسومات ہوئیں ۔ جس طرح سب لوگ گھر میں اکٹھے ہوئے تھے ، جھکے ہوئے سر، غم کو کم کرنے کے لیے مراقبے کی کیفیت میں جانا ، سپرد خاک کیے جانے کے لمحات ، اس کے بعد کے دن اور ہفتے ، بیٹی کا کمرہ اور اس کا سامان ، یہ سب چیزیں ان کے ذہن پر نقش ہیں۔

مشاہدے کی سائنس

آیا جانوروں میں بھی غم کی کیفیت اسی طرح پیچیدہ ہوتی ہے؟ جانوروں کے دماغ میں اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ واقعات کے عکس کو دیکھ سکیں اور نہ ہی ان کی یادداشت اس قدر طویل المعیاد ہوتی ہے جو ہمارے سوگ کے عمل کو دھیرے دھیرے آگے بڑھاتی ہے۔دوسری اہم بات جانور دکھ اور غم میں زیادہ عرصے تک مبتلا رہنے کے متحمل نہیں ہوتے۔مرزلوف کا کہنا ہے کہ زیادہ تر جانوروں میں سب سے بڑی عقلی صفت خود کو ز ندہ رکھنے کی جدوجہد ہی ہوتی ہے۔مرزلوف جو کتاب''گفٹس آف دی کرو''Gifts of the Crow کے شریک مصنف بھی ہیں،کہتے ہیں کہ مادرانہ فطرت سخت ہوتی ہے۔ اگر اپنے کسی پیارے کی موت پر سوگ اورغم میں رہنے کی کوئی اہمیت ہے تو اس کیفیت پر جلد ازجلد قابو پانے کی بھی اہمیت ہے۔بصورت دیگر آپ خود بھی خاتمے سے دوچار ہوجائیں گے۔

محققین کی کوشش ہے کہ حیوانوں میں غم و اندوہ کی کیفیت پر تحقیق کے لیے ان کے پاس ایسی زیادہ سے زیادہ مثالیں ہوں جن میں جانوروں کے اس رویے کا واضح ترین اظہار ہوتا ہو۔جانور روتے نہیں۔ تو پھر کس طرح پتہ چلتا ہے کہ وہ غم زدہ اور اداس ہیں۔ اس کا پتہ ان میں ڈپریشن کی علامات سے بھی لگایا جاسکتا ہے جیسے سست ہوجانا ، بھوک نہ لگنا اور وزن میں کمی وغیرہ۔اس طرح ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ آیا جانور موت کی سمجھ رکھتے ہیں یا نہیں ۔ لہذا اب ایک ہی طریقہ ہے کہ ان کا مشاہدہ کیا جائے۔



ہاتھیوں کا افسوس

دلچسپ امر یہ ہے کہ جو جانور بظاہر موت کی سب سے زیادہ سمجھ رکھنے والے اور سوگ منانے والے پائے گئے ، وہ انسانوں سے ملتے جلتے جانور بندر نہیںبلکہ ہاتھی ہیں۔لٹریچر میں ایسے واقعات کی بھرمار ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ ہاتھی باقاعدہ موت کی رسومات جیسا رویہ اپناتے ہیں اور جس جگہ ان کا ساتھی مرتا ہے ، اس کو ''قبر'' سمجھتے ہوئے اس کی تعظیم کرتے ہیں۔کینیا کے ایک نیشنل پارک میں کام کرنے والے ایک برطانوی ماہر حیاتیات آئن ڈگلس ہیملٹن اس سلسلے میں ایک ہتھنی ''ایلیانور'' کی موت کا واقعہ بیان کرتے ہیں۔

ایلیانور اپنے جھنڈ کی سربراہ تھی اور موت سے چھ ماہ قبل اس نے ایک بچے کو جنم دیا تھا۔وہ بیمار ہوئی اور ایک دوسری ہتھنی ''گریس'' کے سامنے زمین پر گرگئی۔وہ جیسے ہی گری ،گریس نے چیخنا چلانا شروع کردیا۔وہ اسے ہلانے جلانے لگی۔ اپنے دانت اس کے نیچے دے کر اسے اٹھانے کی کوشش کرنے لگی۔اگلے روز جب ایلنا نور نے دم توڑ یا تو جھنڈ کی ایک اور ہتھنی ''مائی '' آگے بڑھی اور اس کی لاش کے قریب کھڑی ہوگئی۔ وہ بھی اسے ہلانے اور اس کا معائنہ کرنے لگی۔ایک ہفتے تک ایلیانور کا بچہ اور دیگر ہاتھی اس کی لاش کو دیکھنے آتے رہے۔اس کی لاش سے دانت نکال لیے گئے تو تب بھی وہ اس کی لاش پر آتے رہے۔ مردار خور جانور اس کی لاش کو نوچنے کھسوٹنے آئے تو دیگر ہاتھی تب بھی لاش کو لاوارث چھوڑنے پر تیار نہ ہوئے۔ہتھنی کا بچہ اپنی مردہ ماں سے لپٹتا ، اسے اٹھانے اور اس کا دودھ پینے کی کوشش کرتا رہا۔لیکن دودھ آیا نہ ماں کے جسم میں کوئی حرکت ہوئی۔کچھ دن بعد بچہ بھی مرگیا۔


بابرا کنگ کے بقول ایلیا نور کی موت پر انہوں نے جو جذباتی بھونچال دیکھا وہ بہت واضح تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ و ہ اس بات کا دعویٰ نہیں کرتیں کہ ایلیانور کی لاش کے قریب آنے والے تمام ہاتھی اس کی موت کا سوگ منارہے تھے ۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کچھ متجسس ہوں۔لیکن ہاتھیوں میں جو شدید مایوسی اور سوگ کی کیفیت دیکھی گئی وہ ان کی نسل میں عام پائی جاتی ہے۔

جانور موت کو جانتے ہیں

اس سلسلے میں بندروں کا ردعمل کچھ مختلف ہوتا ہے۔چونکہ بندر ایک ایسا جانور ہے جس کادماغ دیگر حیوانوں سے برتر ہوتا ہے اس لیے وہ موت کی حقیقت اور ناگزیریت کو اس طریقے سے سمجھ جاتا ہے جس طرح باقی جانور نہیں سمجھتے۔ایموری یونیورسٹی کی ڈائریکٹر برائے لیونگ لنک سنٹر کی پرائماٹولوجسٹ فرانس ڈی وال ایک واقعہ بیان کرتی ہیں جب بندروں کے ایک گروہ کا ایک زہریلے سانپ گیبون وائپر سے سامنا ہوا۔بندر اس سانپ کے قریب آنے کے بجائے درخت کی ایک شاخ کے ذریعے اس کو چھونے اور پکڑنے کی کوشش کرتے رہے حتیٰ کہ ایک بندریا نے اس کوپکڑلیا اور زور زور سے زمین پر مارکر اسے ہلاک کردیا۔سانپ مرتے ہی ان بندروں کے لیے ایک بے ضرر وجود بن گیا حتیٰ کہ نوجوان بندر اس کے دانتوں کا معائنہ کرنے اور اسے ہار کی طرح گلے میں پہننے لگے۔ڈی وال کا کہنا ہے کہ بندروں میں سے کوئی بھی اس بات کی امید نہیں کرتا تھا کہ سانپ زندہ ہوجائے گا۔

موت کے حوالے سے یہ آگاہی جس طرح انسانوں کو کئی مہینوں اور سالوں تک سوگوار رکھتی ہے، وہی حال بندروں کا ہے۔ارنہیم ہالینڈ کے ایک چڑیا گھر میں ایک مادہ چمپنزی ''اورٹجی'' کو انفیکشن ہوگئی اوراسے انفیکشن کے لیے دی جانے والی ادویات نے کام نہ کیا۔ایک دوپہر جب سب جانور اپنے اپنے پنجروں میں تھے اور اورٹجی بھی بہت بیمار دکھائی دے رہی تھی تو ایک اور مادہ بندر اس کے قریب آئی اور اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگی۔ اس کے بعد وہ چیخیں مارنے اور اپنا سینہ پیٹنے لگی۔اور ٹجی کھڑی ہوئی اور اس نے بھی کچھ بولنے کی کوشش کی لیکن پھر وہ گری اور مرگئی۔وہاں پر موجود ایک اور چمپنزی نے زبردست چیخ ماری اور اس کے بعد بڑے پنجرے میں بند تمام چمپنزی ایک دم ساکت سے ہوگئے۔

سائنس اس حوالے سے حتمی طور پر یہ بتانے سے قاصر ہے کہ آیا جو چمپنزی اورٹجی کے قریب ترین تھی ، اسے پتہ چل چکا تھا کہ وہ مرنے والی ہے۔تاہم جو شعوری مشاہدہ ہے وہ اس حوالے سے کچھ اور کہتا ہے۔اورٹجی کی موت اور سانپ کی موت سے پتہ چلتا ہے کہ بندروں کو دوسرے جانوروں کی موت کا علم ہوتا ہے اور یہ علم انہیں بہت متاثر کرتا ہے۔شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ جب کوئی جانور بہت دیر تک حرکت نہیں کرتا تو انہیں اس بات کی بہت کم امید ہوتی ہے کہ وہ اب حرکت میں آئے گا۔

موت کو تسلیم کرنے سے انکار

تاہم کم امید ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ سرے سے امید نہیں ہوتی۔انسانوں میں موت کو تسلیم نہ کرنے کا رویہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈ میں موجود حادثے میں زخمی ہونے والے افراد جن کے اندر زندگی کے تمام آثار ختم ہوچکے ہوتے ہیں ، ان کے ورثاء ڈاکٹروں سے مسلسل التجائیں کررہے ہوتے ہیں کہ وہ ان کے مریض کو ہارٹ شاک دیتے رہیں ۔ جانوروں میں اس رویے کا اظہار اس وقت ہوتا ہے جب وہ مردہ جانور کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتے جبکہ مردہ بچوں کی مائیں انہیں سینے سے چمٹائے رکھتی ہیں۔ چمنپزی ، لنگور اور بابون اپنے مردہ بچوں کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتیں حتیٰ کہ وہ گلنے سڑنے اور بدبو چھوڑنے لگتے ہیں حالانکہ جانور اس بدبو سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔جنگل میں جہاں ہروقت مختلف قسم کے شکاری جانوروں کی گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں، وہاں پر جانوروں کا اس طرح اپنے مردہ بچوں کو اٹھائے پھرتے رہنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی موت کے غم میں اپنے آپ سے کس قدر لاپروا ہوجاتے ہیں۔گیانا کے علاقے میں اسی طرح کے ایک واقعے میں ایک مادہ بندر اڑسٹھ دن تک اپنا مردہ بچہ اٹھائے پھرتی رہی تھی۔

حیاتیاتی سائنس دان وینیسا ووڈکاکہنا ہے کہ ہم ایسے منظر اکثر دیکھتے رہتے ہیں۔وینیسا ووڈ کانگو کے دارالحکومت کنساشا میں چمپنزیوں اور بندروں کے ایک پچھتر ایکڑ پر پھیلے باڑے میں تحقیقی کام میں مشغول ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مائیں نہ صرف اپنے مردہ بچوں کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتیں بلکہ وہ ان کا بہت خیال رکھتی ہیں۔انسانی مائیں جب قبل ازوقت اپنے بچوں کو دودھ پلانا چھوڑ دیتی ہیں تو ان میں ڈپریشن کا خدشہ بڑھ جاتا ہے ، شاید مادہ بندروں میں بھی اس وقت اس قسم کا مسئلہ ہوتا ہے جب ان کا بچہ مرجاتا ہے۔



چند جانوروں کے واقعات

وینیسا نے جانوروں میں سوگ منانے کے رویے کے بارے میں کتاب ''Bonobo Handshake'' تحریر کی ہے جس میں انہوں نے جانوروں میں سوگ اور موت کو تسلیم نہ کرنے کے کئی واقعات بیان کیے ہیں۔ولا نامی ایک سیامی بلی ہر وقت اپنے گھر میں ادھر ادھر گھومتی رہتی ہے اور اپنی مردہ بہن کارسن کو ڈھونڈتی رہتی ہے۔جاپان میں ہاکیکو نامی کتا ہے جس کی سوگ منانے کی کیفیت لازوال داستان بن چکی ہے۔ہاکیکو کی عادت تھی کہ اس کا مالک جب کام پر جاتاتھا تو ہاکیکو اسے ٹرین تک چھوڑنے جاتا تھا اور پھر واپسی پر شام کو پھر سٹیشن پر جاکر مالک کا استقبال کرتا تھا۔جب اس کا مالک انتقال کرگیا تو تب بھی ہاکیکو کا یہی معمول رہا۔ وہ دس سال تک اسی طرح سٹیشن پر جاتا اور اکیلا واپس آتا رہا۔کتاب میں ایسے گھوڑوں کے بارے میں لکھا گیا جو اپنے ساتھی کے مرنے پر طویل عرصے تک ڈپریشن کا شکار رہے۔ یہاں تک کہ ایک خرگوش کا ساتھی مرگیا تو وہ بڑے دلدوز انداز میں کئی ہفتوں تک پورے گھر میں اسے ڈھونڈتا رہا۔

سائنس کہاں تک یہ معلوم کرسکتی ہے کہ اس موقع پر جانوروں کے دماغ میں کیا چل رہا ہوتا ہے۔ابتدائی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ان میں غم و اندوہ کا ردعمل ہوتا ہے۔کسی پیارے کی موت پر جو دبائو پیدا ہوتا ہے ، اس کے نتیجے میں جانوروں اور انسانوں میں ایک ہارمون ''کورٹی سول'' خارج ہوتا ہے ۔ کورٹی سول جواب میں ایک اور ہارمون ''آکسی ٹوسن'' کے اخراج کا سبب بنتا ہے جسے ''کڈل کیمیکل'' بھی کہتے ہیں۔یہ ''اوکسی ٹوسن'' ہی ہے جو اس وقت والدین میں پیدا ہوتا ہے جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے اور انہیں ایک نئے انداز میں ڈھلنے میں مدد دیتا ہے۔

چمپنزی بندروں پر تحقیق کرنے والی این اینج نے بوٹسوانا میں بابون بندروں پر اس حوالے سے تحقیق کی کہ جب ان کے جھنڈ میں سے کوئی بندر کسی شکاری یا بیماری کے ہاتھوں ہلاک ہوتا ہے تو باقی بندروں کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ جب اس قسم کا واقعہ ہوتا تو این بابون بندروں کے ''مل'' کے نمونے اکٹھی کرتی اور ان کا تجزیہ کرکے ان میں گلوکو کورٹی سوئیڈ (جی ایل) میں اضافے کا پتہ چلاتی۔گلوکو کورٹی سائیڈ ایسا ایک کیمیکل ہے جس سے دبائو کا پتہ چلتا ہے۔تجزیے سے پتہ چلا کہ تمام بندروں میں ایک ماہ تک جی ایل کی شرح زیادہ رہی لیکن ان بائیس بندروں میں یہ شرح اور بھی زیادہ تھی جن کامارے جانے والے بابون بندر سے زیادہ قریبی تعلق تھا۔اگر اس کے نتیجے میں اوکسی ٹوسن خارج ہوتا تو جانور بالکل اس طرح کی سرگرمیوں میں مصروف دیکھے جاتے جس طرح انسان اپنے کسی پیارے کی مرگ کے موقع پر دیکھے جاتے ہیں۔یہ دبائو اور ایک بامقصد سوگ کی شکل ہوتی۔

بندروں کی مابعدالطبعیات

یونیورسٹی آف پنسلوینیا کی ماہرحیاتیات اور ''بابون میٹافزکس'' کی مصنف ڈوروتھی چینی کا کہنا ہے کہ اگرچہ بابون بندر اپنے ردعمل سے آگاہ نہیں ہوتے تاہم ان کا ردعمل تطابقی ہوتا ہے۔انسانوں کی طرح طاقتور سوشل سپورٹ نیٹ ورک رکھنے والے جانور بھی دبائو کے اثرات کے خلاف حفاظتی حصار رکھتے ہیں۔دماغ کے حوالے سے سٹڈیز سے بھی جانوروں میں سوگ منانے کے خیال کو تقویت ملتی ہے۔انسانوں میں سوگ کا عمل دماغ کے سامنے والے حصے فرنٹل کورٹیکس ، نیوکلیس اکمبنز اور ایمڈگالا سے شروع ہوتا ہے جو ایک ایسا سٹرکچر ہے جو جذبات کو پیدا کرتا ہے۔ہمارے دماغ کا بنیادی ڈھانچہ باقی جانوروں جیسا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ ان میں یہ سٹرکچر زیادہ ترقی یافتہ نہیں ہوتا۔پرندوں کا دماغ ہمارے جیسا نہیں ہوتا لیکن ایمڈ گالا ان میں بھی ہوتا ہے۔خاص طورپر کوئوں میں دماغ کا سامنے والا حصہ خاصا بڑا ہوتا ہے اور ہپوکیمپس بھی خاصا ترقی یافتہ ہوتا ہے جو یادداشت کو تیار کرتاہے۔

کووں پر انوکھے تجربات

مرزلوف نے اس سلسلے میں کووں پر ایک تجربہ کیا۔جس کے تحت ایک محقق کی جانب سے ماسک پہن کر کووں کو پکڑا گیا ۔ پھر ان کووں کو کھلانے پلانے کا کام کیا گیا اور اس کے لیے مختلف قسم کاماسک پہنا گیا۔اس کے بعد کووں میں ایک تابکاری ڈائی انجیکٹ کی گئی اور ساتھ ہی انہیں تین قسم کے ماسک دکھائے گئے۔ایک ماسک وہ جسے پہن کر انہیں پکڑا گیا تھا (یہ ان میں دبائو پیدا کرنے والا ماسک تھا)، دوسرا وہ جسے پہن کر انہیں کھلانے پلانے کاکام کیا گیا تھا(یہ کووں میں خوشگوار احساس پیدا کرتا تھا)اور تیسرا ماسک نیا تھا جسے کووں نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔اس کے بعد کوئوں کو بے ہوش کیا گیا اور پیٹ سکینر کے نیچے رکھا گیا جس نے یہ دیکھنا تھا کہ تابکاری ڈائی دماغ میں کس جگہ پر تھی۔جو کوے مسلسل ڈرائونے ماسک کی طرف دیکھ رہے تھے ، ان کے ایمڈگالا میں باقی کووں کے مقابلے میں زیادہ تحریک تھی۔جب تجریہ دہرایا گیا لیکن اس بار انہیں ایک بے ہوش کوا مردہ کوے کے طورپر دکھایا گیا تو ایمڈگالا کے بجائے ہپوکیمپس میں تحریک پیدا ہوئی جس کا مطلب تھا کہ ان میں لوکیشن میموری تشکیل پارہی ہے جو کہتی ہے کہ ''یہ جگہ خطرناک ہے ، اس سے بچو'' مرزلوف دیکھنا چاہتے تھے کہ اگرمردہ کوا ان کا ساتھی یا بچہ تھا تو آیا ان کے ایمڈگالا اور ہپوکیمپس دونوں میں تحریک پیدا ہوئی۔

مرزلوف کا کہنا ہے کہ کوے عام طور پر تمام عمر ایک ہی ساتھی سے تعلقات رکھتے ہیں اور بیس بیس سال تک ساتھ رہتے ہیں۔جب ساتھی مرتا ہے تو زندہ بچنے والا کو ا اس کے اوپر کھڑا اسے دیکھتا رہتا ہے۔کسی کوے کو مارکر اس قسم کا تجربہ کرنا غیراخلاقی دکھائی دیتا تھا ، اس لیے کووں کو مارنے کے بجائے انہیں بے ہوش کرکے ایسا کیا گیا۔اس کے بعد ان کووں کو دوبارہ ہوش میں لاکر آزاد کردیا گیا۔اس تجربے نے بھی کووں میں اسی طرح دبائو پیدا کیا جس طرح کہ مردہ ساتھی کوے کو دیکھ کر پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح کسی کوے کو ہلاک کیے بغیر تجربے کامقصد حاصل کرلیا گیا۔

کچھ سوالات

تاہم ان تمام شواہد کے باوجود کچھ لوگ اس حوالے سے سوالات اٹھاتے ہیں کہ آیا یہ جانور واقعی سوگ مناتے ہیں؟ کچھ لو گ اس بحث کو پیچیدہ بناتے ہوئے سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر ایک طرف بابون بندریا اپنے مردہ بچے کو اٹھائے پھرتی ہے تو دوسری طرف وہ ملاپ کرتی بھی دکھائی دیتی ہے جو سکتہ طاری کردینے والے غم سے متضاد عمل دکھائی دیتا ہے۔باربراکنگ کہتی ہے کہ اس کی وجہ ''نیچرل سلیکشن'' کی تھیوری بھی ہوسکتی ہے کیونکہ اگر بندریا غم میں ہی ڈوب کر رہ جائے گی تو اس سے اس کا رتبہ متاثر ہوگا یا ہوسکتا ہے کہ وہ سرے سے کوئی غم محسوس نہ کرتی ہو۔ اس طرح بابون کے بچوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنی مردہ ماں کے قریب کھڑے اس کے جسم کو پیٹ رہے ہیں ۔ کیا یہ غم ہے؟ ہوسکتا ہے کہ وہ بھوکے ہوں اور مردہ ماں سے دودھ نہ ملنے کی وجہ سے ایسا کررہے ہوں۔کوے جب اپنے مردہ ساتھی کے ارد گرد جمع ہوتے ہیں تو کیا یہ بھی غم ہے یا وہ محض یہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھی کی موت کی وجہ کیا ہے۔

بہرحال کچھ بھی کہا جائے ، اس حوالے سے مزید تحقیق ہوسکتی ہے اور مزید مطالعات سے کام لیا جاسکتا ہے۔تاہم ایک بات تو یقینی ہے کہ جانور بھی ہم انسانوں کی طرح احساسات رکھتے ہیں۔ ان کے یہ احساسات کمزور ہوسکتے ہیں یا ملے جلے ہوسکتے ہیں لہذا یہ خیال کرلینا کسی حماقت سے کم نہیں کہ جانور اپنے ساتھیوں کی موت پر بالکل ویسا ردعمل اختیار کریں گے جیسا ہم انسان کرتے ہیں۔وہ سوگ مناتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ نیچرل سلیکشن کی تھیوری کی وجہ سے مجبور بھی ہوتے ہیں کہ جلد ازجلد اس غم کو بھلائیں اور اپنی جان بچانے کی فکر کریں۔ نئے بچے پیدا کریں ۔ خوراک تلاش کریں۔ ہوسکتا ہے کہ ان تمام سرگرمیوں کے باوجود ان کے دماغ میں اپنے مردہ ساتھیوں کا خیال زندہ رہتا ہو، وہ ان کو یاد کرتے ہوں۔اس حوالے سے حتمی طورپر جاننے کے لیے ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ چنانچہ تحقیق کا یہ سلسلہ جاری رکھنا ہوگا۔
Load Next Story