میٹرو بس منصوبہاخراجات زیادہ آمدن کم لیکن سہولت بڑی

ماہانہ خرچ 20کروڑ ریونیو پونے 8کروڑ،20 روپے کے ٹکٹ پر 29 روپے سبسڈی دی جاتی ہے.

ڈیڑھ گھنٹے سے زائد کا سفر 45 منٹ پر آگیا، خسارہ بھی منافع میں بدل سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

ٹریفک کا دبائو کسی ایک ملک یا شہرکا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا کے بڑے بڑے شہروں کو اس نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس مشکل سے نکلنے کے لئے آئے روز دنیا بھر میں نت نئے تجربات کئے جا رہے ہیں۔

1974ء میں ایک ایسا ہی نیا تجربہ پہلی بار برازیل نے کیا جہاں بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم (BRTS) متعارف کروایا گیا۔ دنیا کے تمام بڑے شہروں کے باسیوں کو محفوظ، بااعتماد اور تیز رفتار سفری سہولیات کی فراہمی کے لئے بنائے جانے والے منصوبے کو بس ریپڈ ٹرانزٹ (میٹرو بس) کا نام دیا گیا جو ریل ٹرانزٹ سے لیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت چلنے والی بسوں کو دیگر ٹریفک سے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے یعنی ان کے لئے جو روٹ تیار کیا جاتا ہے وہاں کوئی اور گاڑی نہیں چل سکتی۔ اس کے علاوہ اس روٹ پر چلنے والی گاڑی جسے میٹرو بس کہا جاتا ہے عام بس سے لمبائی اور چوڑائی میں بھی بڑی ہونے کے ساتھ زیادہ آرام دہ ہوتی ہے۔

اس پراجیکٹ سے منسوب نام بس ریپڈ ٹرانزٹ (BRT)کا زیادہ تر استعمال امریکہ، چین اور بھارت میں کیا جاتا ہے جبکہ یورپ اور آسٹریلیا میں BRTکے ساتھ Sکا اضافہ کرکے اسے بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کہا جاتا ہے، دنیا کے متعدد ممالک میں یہ سسٹم، بس وے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کے برعکس روایتی ٹریفک بار بار سٹاپ پر رکنے کی وجہ سے انتہائی سست روی کا شکار رہتی ہے جس کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حال ہی میں سامنے آنے والی ایک تحقیق کے مطابق لندن میں چلنے والی روایتی پبلک ٹرانسپورٹ کی اوسط رفتار 14 کلومیٹر (8.7 میل) فی گھنٹہ تھی جبکہ اس کے مقابلے میں بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کی عمومی رفتار 17سے30 میل (27سے48کلومیٹر) فی گھنٹہ بنتی ہے۔

بی آر ٹی ایس یا میٹرو بس کی افادیت کے باعث آج یہ سسٹم دنیا کے36 سے زائد ممالک میں چل رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سابق دور حکومت میں ترکی کے دورے پر گئے تو استنبول میٹرو بس پراجیکٹ ان کے دل میں گَھر کر گیا اور انہوں نے فوری طور پر لاہور میں بھی ایسی ہی بس سروس شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ چنانچہ 2012ء کے اوائل میں پنجاب کے دل لاہور کی اہم ترین شاہراہ فیروز پور روڈ کے سینے کو چیر کر بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کا آغاز کیا گیا اور ریکارڈ مدت میں تکمیل کے بعد 10فروری2013ء کو اس منصوبے کا افتتاح کر دیا گیا۔ گجومتہ سے فیروز پورروڈ، لٹن روڈ، حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار کے سامنے سے راوی روڈ کے راستے شاہدرہ تک ٹریک تعمیر کرنے کا فیصلہ ایک غیر ملکی کمپنی کے سروے کی روشنی میں کیا گیا کیونکہ کمپنی کے سروے کے مطابق یہ لاہور کے وہ دو سرے ہیں جہاں سے سب سے زیادہ لوگ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرکے شہر پہنچتے ہیں۔

شہریوں کو بہترین سفری سہولیات کی فراہمی کے لئے بنائے جانے والے اس منصوبے کا کُل تخمینہ لاگت (حکومت کے مطابق) 30 ارب روپے بتایا جاتا ہے۔ شاہدرہ سے گجومتہ 30 کلو میٹر لمبائی اور 10میٹر چوڑائی پر محیط دو طرفہ ٹریک میں تقریباً سوا 8 کلومیٹر ایریا میں فلائی اوور بنایا گیا ہے جسے ایشاء کا سب سے بڑا فلائی اوور بھی کہا جاتا ہے۔ روٹ پر آنے والے بعض چوک شمع، قرطبہ چوک، قینچی، حیرا ڈسٹری بیوٹری وغیرہ کی توسیع کرنے کے علاوہ ماڈل ٹائون انڈر پاس بھی بنایا گیا۔ ٹریک پر27 سٹاپ بنائے گئے ہیں جبکہ ہر 3 سے5 منٹ بعد دوسری بس آتی ہے۔ ابتدائی طور پر45 بسیں چلائی گئی ہیں جن کی لمبائی عام بس سے 6 میٹر زیادہ یعنی 18میٹر ہے۔ بسیں چلانے کی ذمہ دار ترک کمپنی ہے، ریپڈ بس سروس کے روٹ پرکسی دوسری گاڑی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں، ایک بس میں120سے 140 تک مسافروں کی گنجائش ہے۔

روزانہ سولہ گھنٹے چلنے والی یہ بس صبح ساڑھے6 بجے شروع ہو کر رات ساڑھے 10بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہتی ہے۔ مسافروں کے لئے ای ٹکٹ نظام متعارف کروایا گیا ہے، بس میں سوار ہونے سے قبل سمارٹ کارڈر یا کوپن کے ذریعے کرایہ کی ادائیگی کی جاتی ہے اور اسی وجہ سے بس میں کنڈیکٹر نہیں ہیں بلکہ بس سٹاب پر نصب مشین پر ہی سمارٹ کارڈر یا پھر کوپن سے کرایہ کی مطلوبہ رقم ادا ہو جاتی ہے۔ ابتدائی طور پر فکس کرایہ 20 روپے رکھا گیا ہے یعنی آپ گجومتہ سے بیٹھیں اور شاہدرہ تک کہیں بھی اتر جائیں کرایہ 20 روپے ہی ہو گا۔

اس پراجیکٹ کے لئے پنجاب میٹرو بس اتھارٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ یہ اتھارٹی صوبائی دارالحکومت لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں پراجیکٹ پر عملدرآمد، کنٹرول، تعمیر ومرمت، انتظامی امور، آٹو میٹڈ فیئر کولیکشن سسٹم اور دیگر امور کیلئے ذمہ دار بنائی گئی ہے۔ میٹرو بس ایکٹ کی خلاف ورزی پر اتھارٹی کو تین سال تک قید اور جرمانہ یا دونوں سزائیں اکٹھی دینے کا اختیار بھی حاصل ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب اتھارٹی کے چیئرمین اور وزیرٹرانسپورٹ کو وائس چیئرمین بنایا گیا۔ اتھارٹی کے امور انجام دینے کیلئے منیجنگ ڈائریکٹر کی تقرری کی گئی ہے جس کے تحت سٹاف کام کرتا ہے۔ اتھارٹی کے تاحال 49 ملازمین ہیں جن کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا ہے اور ان کی تنخواہ سمیت دیگر مراعات پر ماہانہ27لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کے تمام اثاثہ جات، بس کوریڈور اور پراپرٹیز اتھارٹی کی ملکیت تصورکئے جاتے ہیں۔

میٹرو بس چلانے کے لئے اتھارٹی کو ہر ماہ 18 سے 20کروڑ روپے کے اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں جبکہ یہاں سے ریونیو صرف پونے 8کروڑ حاصل ہوتا ہے، یعنی تقریباً 12کروڑ روپے کا ماہانہ بنیادوں پر خسارہ ہو رہا ہے۔ مسافروں کی تعداد میں اضافہ و کمی اور کم یا زیادہ جنریٹر چلنے جیسے معاملات کی وجہ سے اخراجات اور ریونیو گھٹتا اور بڑھتا تو رہتا ہے لیکن اس میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، مثال کے طور پر اپریل کے مہینے میں میٹرو بس پراجیکٹ پر 19کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ میٹرو بسیں چلانے کا ٹھیکہ ترک کمپنی البراک کو دیا گیا ہے اور میٹرو بس اتھارٹی فی کلومیٹر کے حساب سے اسے ادائیگی کرتی ہے، گاڑیوں میں ڈیزل ڈلوانا اور ڈرائیورز کی تنخواہ کی ذمہ دار اتھارٹی نہیں بلکہ ترک کمپنی ہے۔ اس وقت میٹرو پر سفر کرنے والے شہریوں کی تعداد ایک لاکھ 29 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ اخراجات اور ریونیو کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو حقائق کچھ یوں سامنے آتے ہیں کہ ماہانہ خرچ کو اگر روزانہ پر تقسیم کیا جائے تو یہ 63 لاکھ 33 ہزار کے قریب بنتا ہے اور ریونیو پونے 39 لاکھ، یوں روزانہ کی بنیاد پر 24لاکھ روپے سرکار کی طرف سے سبسڈی فراہم کی جا رہی ہے۔ اس حساب سے فی مسافر کرایہ 49 روپے بنتا ہے جبکہ موجودہ کرایہ صرف 20 روپے ہے یوں سرکار کو ہر مسافر پر 29 روپے اپنی جیب سے دینے پڑتے ہیں۔



بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم حقیقتاً مفاد عامہ کا حامل منصوبہ ہے، اس لئے خسارہ کے باوجود اس کا چلتے رہنا ضروری ہے۔ لیکن ایمانداری اور خلوص کے ساتھ چند اقدامات اس خسارہ پر قابو پانے کے ساتھ اسے منافع بخش بھی بنا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر میٹرو بس کے طویل ٹریک پر قائم شدہ سٹیشن پر اے ٹی ایم، فوڈ آؤٹ لیٹس، شاپنگ سٹورز اور آؤٹ ڈور ایڈور ٹائزنگ کے مقامات کو ٹھیکہ پر دے کر آمدن میں اچھا خاصا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے نمبر پر جب لوگ اپنی ٹرانسپورٹ کو مکمل یا جزوی طور پر ترک کرکے اس سروس پر سفر کریں گے تو ماحولیاتی آلودگی میں نمایاں کمی آئے گی اور اسی کی بناء پر بین الاقوامی سطح پر مالی فائدہ بھی حاصل ہوگا، جیسے دہلی میٹرو نے ماحولیاتی آلودگی میں نمایاں کمی لاکر اقوامِ متحدہ سے 4 لاکھ کاربن کریڈٹ جیتے یعنی اقوامِ متحدہ سے کروڑوں روپے کا انعام ملا۔

لاہور میٹرو بس سسٹم کو بھی اس پراجیکٹ کے ذریعے اضافی آمدنی ہو سکتی ہے اور یہ ممکن ہے کہ اخراجات کا بڑا حصہ اسی طرح واپس مل جائے۔ اس کے علاوہ ششماہی بنیادوں پر 10 میٹرو بسوں اور کرایہ میں صرف 5 روپے اضافہ کرکے 3 سال یعنی جون 2016ء تک موجودہ ماہانہ ریونیو پونے 8کروڑ کو 15کروڑ 69 لاکھ تک لایا جا سکتا ہے۔ بسوں میں اضافہ سے 3 سال بعد مسافروں کی تعداد روزانہ کی بنیاد پر3 لاکھ تک پہنچ جائے گی اور انفراسٹرکچر پہلے ہی موجود ہونے کے باعث اخراجات بھی کم ہوتے ہوئے 14 کروڑ 76لاکھ تک آ جائیں گے۔ میٹرو بس کا فکس کرایہ 20 روپے ہے، اگر کلومیٹرز کے حساب سے مناسب کرایہ نامہ مقرر کر دیا جائے تو اس سے بھی آمدن میں اضافہ ہو سکتا ہے یعنی میٹرو روٹ 30کلومیٹر پرمشتمل ہے، اگر پہلے10کلومیٹر پر20 ، 20کلومیٹر پر30 اور 30کلومیٹر پر 40 روپے کرایہ کر دیا جائے تو اس سے فوری طور پر ریونیو دوگنا اور خسارہ نصف سے بھی کم رہ جائے گا اور کرائے میں یہ معمولی اضافہ شہریوں کے لئے بھی قابل برداشت ہو گا۔

بلاشبہ میٹرو بس سروس کسی بھی ملک کے غریب باسیوں کے لئے بہترین سفری سہولت اور مہذب معاشروں کی پہچان ہے کیوں کہ مہذب معاشرے میں پبلک ٹرانسپورٹ، پرائیویٹ ٹرانسپورٹ سے اعلیٰ اور کم وقت میں پہنچانے والی ہونی چاہیے تاکہ غریب اور امیرکے سفر میں کوئی امتیاز نہ ہو۔ یہ ایک جدید اور جامع پبلک ٹرانسپورٹ نظام ہے جو شہریوں کے طرزِ زندگی کو ہی بدل کے رکھ دیتا ہے۔ لہٰذا یہ صرف میٹرو بس نہیں بلکہ ایک پورے کلچر کی تبدیلی ہے۔ لاہور جیسے شہر میں جہاں لوگ ملازمت اور پڑھائی کے لئے ایک کونے سے دوسرے تک پہنچنے میں گھنٹوں سفر کرنے کا عذاب برداشت کرتے ہیں، وہاں ریپڈ بس سروس ان کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ شاہدرہ سے گجومتہ کا سفر جو پہلے ڈیڑھ گھنٹے سے بھی زائد وقت لے لیتا تھا، اب میٹرو بس پر صرف 45 منٹ میں طے ہو جاتا ہے۔ لیکن۔۔۔! جدید بس سروس کی تمام تر اچھائیوں کے ساتھ اس منصوبے کے قیام کے دوران سامنے آنے والے منفی پہلوئوں کا بھی بطور خاص جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔

مثال کے طور پر لاہور میں میٹرو بس روٹ میں آنے والی دکانوں اور دیگر اراضی کے مالکان کو تاحال مکمل معاوضہ کی ادائیگی نہیں ہو سکی اور تاجروں کی طرف سے متعدد بار مختلف فورمز پر صدائے احتجاج بلند کی جا رہی ہے کہ ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا جا رہا۔ تاجروں کے مطابق ایک دکان جس کی مالیت ایک کروڑ تھی اس کی ادائیگی33 لاکھ روپے میں ہوئی جبکہ ایک مرلہ جس کی مارکیٹ قیمت 35 لاکھ بنتی تھی مگر مالک کو 13 لاکھ روپے کے حساب سے ادائیگی کی گئی۔ لاہور میٹرو روٹ میں آنے والے کچھ گھر اور دکانیں ایسی بھی تھیں جہاں پر کئی عشروں سے بسنے والوں کے پاس اراضی کے سرکاری کاغذات نہیں تھے، منصوبہ شروع ہونے سے قبل ایسے لوگوں کو مکمل معاوضہ کی ادائیگی کا وعدہ کیا گیا لیکن متاثرین کے مطابق اب یہ وعدہ ایفا نہیں ہو رہا اور معاوضہ لینے کے لئے رجسٹری یا نقل انتقال کو لازمی قرار دیا جا رہا ہے۔ میٹرو بس چلنے سے فیروز پور روڈ پر چلنے والے رکشائوں اور دیگر گاڑیوں کے ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کا ذریعہ معاش بہت زیادہ متاثر ہوا ہے، بعض گاڑیوں کے تو روٹ ہی بند کر دیئے گئے ہیں۔

بی آر ٹی ایس منصوبے کا ٹریک تعمیر کرنے کے لئے فیروز پور روڈ اور راوی روڈ پر کی جانے والی اکھاڑ پچھاڑ سے اردگرد کے رہائشیوں اور تاجر برادری کو تو اُس وقت شدید مشکلات کا سامنا رہا ہی لیکن اس کے ساتھ ایک اور طبقہ بھی بری طرح متاثر ہوا اور وہ ہے ہماری نوجوان نسل، جس کے کھیلوں کے گرائونڈز پر قبضہ کرلیاگیا۔ ٹھیکیداروں نے حکومتی اجازت سے راستہ میں آنے والے کھیلوں کے تاریخی میدانوں میں ریت، بجری، سریا سمیت کنسٹرکشن کا دیگر سامان رکھ لیا۔ گرائونڈز میں دندناتے ٹرکوں اور بلڈوزروں نے گرائونڈ تباہ کردیئے، یہاں پریکٹس کرنے والے کلب اجڑ گئے اور کھلاڑی دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے۔ حکام نے اُس وقت کھلاڑیوں سے وعدہ کیا تھا کہ ان گرائونڈز کو ان کی اصل شکل میں بحال کیا جائے گا لیکن اس پر بھی تاحال مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ بہرحال ایک اندازہ کے مطابق حکومتی دعوئوں کے برعکس منصوبہ کی حکمت عملی میں چند نقائص کے باعث 7 لاکھ سے زائد آبادی متاثر ہوئی۔ ریپڈ بس سروس خالصتاً عوامی فلاح کا منصوبہ ہے اسے حکومتی اعلانات کے مطابق کراچی، اسلام آباد/راولپندی، ملتان اور فیصل آباد میں بھی شروع کیا جائے لیکن اس شروعات سے قبل متعلقہ حکام کو پہلے تجربے(لاہور میٹرو بس) سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ سابق تجربے کی روشنی میں فزیبلٹی رپورٹ تیار اور حکمت عملی طے کی جائے تاکہ وہاں کے مکینوں کو کم سے کم تکلیف پہنچے۔



دنیا بھر میں پھیلا میٹرو بس منصوبہ۔۔۔!

دنیا بھر میں اس امر پر اتفاق ہے کہ میٹرو بس سسٹم یا بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم دیگر منصوبوں سے تین اہم وجوہات کی بناپر بہتر ہے۔ (1) کم لاگت، (2) کم آپریشنل اخراجات (3) کم عرصے میں تکمیل، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے متعدد ممالک میں اب میٹرو ریل کے بجائے میٹرو بس کا نظام پسند کیا جارہا ہے۔ امریکا میں میٹرو بس سروس کو چلانے کی ذمہ دار واشنگٹن میٹروپولیٹن ایریا ٹرانزٹ اتھارٹی(WMATA) ہے۔ 1480میٹرو بسوں پر مشتمل یہ بیڑا واشنگٹن، میری لینڈ اور ورجینیا کے 15سو مربع میل کے علاقہ کا احاطہ کرتا ہے۔ 3 سو میٹرو بس روٹس پر 12ہزار 216 سٹاپ اور 2 ہزار 398 شیلٹر بنائے گئے ہیں۔ 2009ء میں 133ملین سے زائد افراد نے ان بسوں پر سفر کیا۔ امریکہ میں شہریوں کی سہولت کے لئے لوکل کے ساتھ ایکسپریس میٹرو بسیں بھی چلائی جاتی ہیں۔ لوکل بس ڈیڑھ ڈالر جبکہ ایکسپریس میٹرو بس کا کرایہ تقریباً ساڑھے3 ڈالر ہے، کرایہ کی ادائیگی کیش اور سمارٹ کارڈ دونوں طرح سے کی جاتی ہے۔ ڈبلیو ایم اے ٹی اے مزید 100میٹرو بسوں کی خریداری کر رہی ہے جن سے 2000ء کی بسوں کو تبدیل کیا جائے گا، ان گاڑیوں کا رنگ سرخ اور سلور ہے۔


برازیل میں بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کی کامیابی سے متاثر ہو کر2000ء میں بھارت نے بھی اپنی پبلک ٹرانسپورٹ کی حالت سدھارنے کے لئے اس منصوبے کا آغاز کیا۔ انڈیا کے شہر دہلی، احمد آباد، پونا، ممبئی اور جے پور میں آج بی آر ٹی سسٹم کامیابی سے چل رہا ہے جبکہ اس کی افادیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اب اسے کولکتہ، حیدرآباد، لکھنو اور بنگلور میں بھی شروع کیا جا رہا ہے۔ لاہور اور دہلی میں فرق صرف اتنا ہے کہ لاہور میں میٹرو بس اوور ہیڈ برج پر دوڑتی ہے تو دہلی میں اسے انڈر گرائونڈ گزارا جاتا ہے۔ استنبول (ترکی) میں 50 کلو میٹر پر مشتمل میٹرو بس کے روٹ پر 45 سٹیشن ہیں۔ روٹ کی تعمیر کا آغاز2005ء میں ہوا اور 2 سال بعد 2007ء میں اسے فعال کر دیا گیا۔ استبنول میں 3 اقسام کی میٹرو بسیں چلتی ہیں جن میں لمبائی اور مسافروں کی گنجائش بالترتیب 18میٹر، 150مسافر، 19.54میٹر، 193مسافر اور 26 میٹر، 230 مسافر ہے۔ ان بسوں پر روزانہ 8 لاکھ مسافر سفر کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق کیورتیبا (برازیل) میں تیز رفتار بس سروس سے روزانہ سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد 23لاکھ (یہ ریکارڈ آج تک نہیں ٹوٹ سکا) بوگوٹا 16لاکھ، گوانگ ژو(چین) 10لاکھ، جکارتہ ساڑھے 3لاکھ جبکہ نیو جرسی میں یہ تعداد 62 ہزار ہے۔

بدانتظامی کے باعث روزانہ تقریباً 20گاڑیوں کا ڈیزل راستے میں ہی ختم ہو جاتا ہے: میٹرو بس ڈرائیور

اس فیچر کے لئے میٹرو بس کے ڈرائیورز سے بات کرنے کی کوشش کی گئی لیکن نوکری کھو دینے کے ڈر سے کوئی بھی بات کرنے پر راضی نہ ہوا۔ بہرحال 2 روز کی مسلسل کوششوں سے ایک ڈرائیور نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ میٹرو بس ڈرائیور نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ غیر ملکی کمپنی کی یہ ملازمت جلد سرکاری نوکری میں بدل جانے اور 40 ہزار روپے تنخواہ کے ساتھ دیگر مراعات کے جھانسے میں آکر اپنی 60 ہزار کی نوکری کھو چکا ہوں۔ میں نے سوچا آج نہیں تو کل یہ سرکاری نوکری بن جائے گی اور دوسرا طویل سفر کی مصیبتوں سے چھٹکارا مل جائے گا لیکن یہاں ڈیوٹی زیادہ اور پیسے کم ہیں۔ میٹرو شروع ہوئی تو 15،15گھنٹے ڈیوٹی لی گئی اوور ٹائم کا مطالبہ کیا تو ڈیوٹی 9گھنٹے کر دی گئی لیکن دیا کچھ نہیں گیا۔ تنخواہ بھی وعدوں کے برعکس 10سے15تاریخ کے دوران ملتی ہے۔ ڈرائیور کا کہنا تھا کہ کمپنی کی بدانتظامی کے باعث روزانہ تقریباً 20گاڑیوں کا ڈیزل راستے میں ہی ختم ہو جاتا ہے، رش زیادہ اور اے سی کام نہیں کرتے، ٹائر جلد پھٹ جاتے ہیں جس کے باعث لوگ پریشانی میں ہم سے لڑائی جھگڑا کرتے ہیں۔

راستے میں گاڑی خراب ہو جائے تو لوگ پیدل چل کر قریبی کوریڈور تک جاتے ہیں، جہاں سے انہیں دوسری بس لے کر جاتی ہے۔ راوی ٹول پلازہ کے قریب متعدد بار ایسا ہوا ہے کہ ڈیزل ختم ہونے یا کسی اور فنی خرابی کے باعث میٹرو بس رک گئی تو سائیڈ پر چلنے والی ٹریفک کی لمبی لائنیں لگ جاتی ہیں پھر پولیس کی گاڑی سے میٹرو کو کھینچ کر آگے لے جایا جاتا ہے تاکہ دیگر ٹریفک کا راستہ کھل سکے۔میٹرو بس ڈرائیور کا کہنا تھا کہ دیگر کمپنیوں میں جو ہیلپر تھے وہ یہاں میکینک بنے ہوئے ہیں جن سے جلد گاڑی ہی مرمت نہیں ہوتی۔ ان تمام پریشانیوں کی وجہ سے تقریباً 25تجربہ کار ڈرائیور کمپنی کو چھوڑ کر جا چکے ہیں اور اتنے ہی جانے کے لئے پر تول رہے ہیں، اب ان کی جگہ عام بسوں کے ناتجربہ کار ڈرائیور بھرتی کئے جا رہے ہیں جو اس آسان ڈرائیونگ کو بھی مشکل بنا دیتے ہیں۔یہ ڈرائیور کمپنی نے کم تنخواہوں پر تو رکھ لیے ہیں لیکن ان کی وجہ سے قیمتی میٹرو گاڑیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے ، یہ ناتجربہ کار ڈرائیور اکثر پلیٹ فارم پر گاڑی کو پارک کرتے ہوئے کسی نہ کسی چیز سے رگڑ دیتے ہیں۔



لاہور کے علاوہ آئندہ میٹرو بس کہاں کہاں چلانے کے دعوے۔۔؟

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے نہ صرف الیکشن مہم کے دوران کراچی، اسلام آباد/راولپنڈی، فیصل آباد اور ملتان میں بھی لاہور کی طرز پر میٹرو بس منصوبہ چلانے کے اعلانات کئے بلکہ الیکشن کے بعد بھی 26 مئی کو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کراچی میں پیر پگارا سے ملاقات کے بعد ایک بار پھر کراچی میٹرو بس چلانے کے عزم کا اظہار کیا، لیکن کراچی میٹرو بس کا معاملہ کچھ کھٹائی میں پڑتا محسوس ہو رہا ہے۔ انگریزی میڈیا رپورٹس کے مطابق وفاقی بجٹ کی دستاویزات میں ابتدائی طور پر پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ ڈویژن کے تحت کراچی اور اسلام آباد میں میٹرو بس چلانے کے لئے 10ارب روپے بھی رکھے گئے تھے مگر بعدازاں جب بجٹ پیش کیا گیا تو اس میں کراچی میٹرو بس کا کہیں ذکر ہی نہیں کیا گیا بلکہ جاپان کی معاونت سے جاری کراچی سرکلر ریلوے کو مکمل کرنے کا عندیا دیدیا گیا۔ تاہم پنجاب حکومت نے اپنے بجٹ میں راولپنڈی، فیصل آباد اور ملتان میں میٹرو بس چلانے کے عزم اعادہ کیا ہے لیکن یہ کب شروع ہوگا، کیا لاگت آئے گی اور حکومت نے بجٹ میں اس کے لئے کتنا پیسہ مختص کیا ہے؟ اس بارے میں تاحال کوئی تفصیلات سامنے نہیں لائی جا سکیں۔ ذرائع کے مطابق صوبائی بجٹ میں راولپنڈی، فیصل آباد اور ملتان میں میٹرو بس چلانے کے لئے تاحال ایک روپیہ بھی مختص نہیں کیا گیا۔ ان شہروں میں میٹرو چلانے کے لئے فی الحال متعلقہ ادارے فزیبلٹی رپورٹ تیار کر رہے ہیں جس کے بعد تخمینہ لاگت بنے گا اور رقم مختص کی جائے گی۔

میٹرو بس کے بارے میں شہری کیا کہتے ہیں۔۔۔!

ملکی تاریخ میں پہلی بار شروع ہونے والے بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کے بارے میں شہریوں کی عمومی رائے میں اچھا تاثر پایا جاتا ہے۔ شہری ثاقب وسیم خان کا کہنا ہے کہ لاہور کی بے ہنگم ٹریفک سے یہاں کے شہری ذہنی اذیت کا شکار رہتے ہیں لیکن میٹرو بس منصوبہ ہمارے لئے کسی نعمت خداوندی سے کم نہیں۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذاتی گاڑی کی سہولت سے نواز رکھا ہے لیکن پھر بھی میں اپنے نہایت اہم کام نمٹانے کے لئے میٹرو بس پر ہی سفر کرتا ہوں کیوں کہ مجھے معلوم ہے جو سفر میں اپنی گاڑی پر سوا گھنٹے میں کرتا ہوں وہ میٹرو بس کے ذریعے میں صرف آدھے گھنٹے میں طے کرلوں گا۔ ابھی کل شام ہی کی بات ہے میں جب آفس سے نکل کر گھر کی جانب جا رہا تھا کہ مجھے کلمہ چوک کے قریب ایک دوست کی کال آئی کہ ہمارا مشترکہ دوست سخت بیمار ہے، اس کی تیمارداری کے لئے ہمیں مینارِپاکستان چلنا ہے، میں نے کلمہ چوک میں میٹرو کی پارکنگ میں ہی اپنی گاڑی کھڑی کی اور بس پر بیٹھ کر چند منٹوں میں اپنی منزل پر پہنچ گیا حالانکہ اگر میں اپنی گاڑی پر جاتا تو یہ کبھی بھی ممکن نہیں تھا۔

ہاں اس منصوبے میں کچھ چھوٹی چھوٹی خامیاں بھی ہیں جیسے تیمارداری کے بعد ہم جلد ہی دوست کے پاس سے صرف اس لئے اٹھ آئے کہ 10بجے کے بعد کوئی گاڑی نہیں ملے گی، یعنی میٹرو بس کا ٹائم رات کے وقت کچھ بڑھانا چاہیے۔ اسی طرح جہاں اوور ہیڈ برج نہیں وہاں بس کی کراسنگ محفوظ نہیں، ایسے مقامات پر کوئی نہ کوئی چھوٹا موٹا حادثہ ہو جاتا ہے اس پر قابو پانے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ حسن اشفاق کے مطابق منصوبہ بہت اچھا ہے لیکن بسوں کی کمی کے باعث رش بہت زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے کچھ پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ویٹنگ روم اور ٹوکن کے حصول کا عمل بھی بہت مناسب ہے، اس کے علاوہ ہر سٹاپ سے پہلے گاڑی میںہونے والے اعلان سے بچوں، ضعیف العمر اور اجنبیوں کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ میری رائے میں حکومت پنجاب بسوں کی تعداد میں اضافہ کرے تاکہ شہریوں کے لئے مزید آسانیاں پیدا ہو سکیں۔ ایک اور شہری شیخ شفیق کے لئے میٹروبس منصوبہ نقصان کا باعث بن رہا ہے، ان کا کہنا ہے کہ مجھے اپنے کام کے سلسلہ میں روزانہ ملتان روڈ سے ریلوے سٹیشن آنا پڑتا ہے۔

پہلے میں ایک ہی گاڑی میں بیٹھتا تھا اور سٹیشن پہنچ جاتا تھا لیکن اب گاڑیاں میٹرو بس کے اوورہیڈ کے قریب پر پہنچ کر رک جاتی ہیں جہاں سے مجھے تھوڑا پیدل چل کر پھر دوسری ویگن پکڑنی پڑتی ہے، اس مشقت کی وجہ سے جہاں میرا وقت ضائع ہو رہا ہے وہاں پیسے بھی زیادہ لگتے ہیں۔ حکومت اس پریشانی کا خاتمہ کے لئے جلد اقدامات کرے۔ طالب علم عاقب محمود کی رائے میں اس پراجیکٹ میں کچھ قباحتیں ہیں جو اسے کبھی کبھی پریشان کر دیتی ہیں۔ ''میں طالبعلم ہوں تو مجھے وقت کی پابندی کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے، کبھی کبھار میٹرو بس شیڈول سے ہٹ کر تاخیر سے آتی ہے، اس وجہ سے جہاں میرا وقت ضائع ہوتا ہے وہاں رش بھی بڑھ جاتا ہے۔ بہرحال مجموعی طور پر یہ منصوبہ بہت اچھا ہے، مجھے روزانہ کلمہ چوک سے داتا دربار جانا ہوتا ہے، پہلے میرا یہ سفر تقریباًایک سے سوا گھنٹے کا تھا لیکن اب میں میٹرو پر سفر کرتا ہوں تومجھے اپنی منزل پر پہنچنے میں صرف 25 سے30 منٹ لگتے ہیں۔'' تنویر احمد کہتے ہیںکہ میٹرو بس نے ہمیں جہاں ٹریفک جام کی اذیت سے چھٹکارا دیا وہاں اس کا کرایہ بھی نہایت مناسب ہے، صرف 20 روپے میں شاہدرہ سے گجومتہ کا سفر بہت کم وقت میں طے کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں اس بہترین پراجیکٹ کو پورے لاہور میں پھیلایا جائے کیوں کہ ابھی تک بہت کم لوگ اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اوور ہیڈ برج کے بجائے انڈر گرائونڈ کا تجربہ بھی کیا جائے، دہلی میں یہ منصوبہ کامیابی سے انڈر گرائونڈ چلایا جا رہا ہے۔



منصوبے سے متاثرہ تاجروں کے نقصان کے حوالے سے تاجر رہنمائوں کی آراء

صدر انجمن تاجران لاہور میاں طارق فیروز نے میٹرو بس پراجیکٹ کے بارے میں ''ایکسپریس'' سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم بہت اچھا ہے جس سے شہریوں کو بہترین سفری سہولیات مل رہی ہیں، لیکن اس منصوبہ کی تعمیر میں تاجروں کے ہونے والے نقصان کا مکمل ازالہ بھی ضروری ہے۔ میاں شہباز شریف کی طرف سے مفاد عامہ کے لئے میٹرو بس پراجیکٹ بنایا گیا مگر اس کی تعمیر میں متعلقہ محکموں نے کسی حد تک ناقص منصوبہ بندی کا مظاہرہ کیا۔ مثال کے طور پر مزنگ چونگی (جہاں سے میٹرو بس گزرتی ہے) میں عابد مارکیٹ کو تعمیراتی میٹریل اور پانی سے بچانے کے لئے صرف 13انچ کی دیوار بنائی گئی جو گر گئی اور نتیجتاً سارا پانی مارکیٹ میں چلا گیا، 6،6فٹ تک پانی مارکیٹ میں جمع ہوگیا جس سے الیکٹرونکس اشیاء کے تاجروں کا لاکھوں روپے کا نقصان ہوا۔ یہ دیوار دوبارہ بھی آدھی بنا کر چھوڑ دی گئی اور تاجروں کے نقصان کا ازالہ بھی نہیں کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میٹرو بس روٹ میں آنے والی دکانوں کے مالکان کو ادائیگیاں نہیں کی جا رہیں، جو اثر و رسوخ والے تاجر ہیں وہ ٹیپا آفس جاتے ہیں جہاں سے انہیں تو رقم مل جاتی ہے لیکن کمزور تاجروں کا کوئی پُرسان حال نہیں۔

پھر تاجروں کو مارکیٹ ریٹ کے مطابق رقم نہیں دی جا رہی، مزنگ چونگی میں تقریباً 40 لاکھ روپے مرلہ ہے لیکن تاجر کو ادائیگی 11سے15لاکھ روپے کی جا رہی ہے۔ متعدد تاجروں کے کاروبار تباہ ہو چکے ہیں لیکن انہیں کچھ نہیں ملا۔ اب راولپنڈی، ملتان اور فیصل آباد میں بھی میٹرو بس منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے تو میری وہاں کی اپنی تاجر برادری سے درخواست ہے کہ وہ دکانوں اور دیگر اراضی کی رجسٹریاں اور انتقال وغیرہ پہلے کروالیں تاکہ بعد میں ادائیگی کے وقت پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ صدر انجمن تاجران لٹن روڈ ملک ناظم نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے تصویر کا دوسرا رخ پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مانتے ہیں کہ میٹرو پراجیکٹ کی وجہ سے تاجروں کا نقصان ہوا لیکن اس کا ازالہ بھی کیا گیا ہے۔ باقاعدہ تخمینہ لگا کر نقصان سے زیادہ ادائیگیاں کی گئی ہیں۔ میاں شہباز شریف کی خصوصی توجہ کے باعث یہاں جس تاجر کی دکان 70 لاکھ کی تھی اسے سوا کروڑ روپے تک ادا کئے گئے۔ ادائیگی صرف اس تاجر کو نہیں ہو رہی جس کے پاس اپنی دکان کی رجسٹری یا انتقال نہیں۔ اس سلسلہ میں بھی ہم کام کر رہے ہیں جلد ایسے تاجروں کے لئے بھی کوئی راستہ نکال لیا جائے گا۔ ہاں ایک چیز ضرور ہے کہ ایل ڈی اے کے کچھ حکام تاجروں کو رقم کی ادائیگی کے معاملہ میں رشوت دینے پر مجبور کر رہے ہیں جس کا فوری طور پر صوبائی حکومت کو نوٹس لینا چاہیے۔

میٹرو بس چلنے سے رکشہ چلانے والے کی دیہاڑی نصف ہو گئی صدر آٹو رکشہ ڈیلرز ایسوسی ایشن حاجی باغی جان

قومی تاجر اتحاد آٹو رکشہ ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر حاجی باغی جان خان نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم بھلے ہی اچھا پراجیکٹ ہے لیکن اس کی وجہ سے رکشہ، ہائی ایس ویگن اور مزدا چلانے والے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ ویگن چلانے والوں کے لئے کئی روٹ بند کر دیئے گئے ہیں تو رکشہ والوں کو وارڈنز تنگ کرتے ہیں۔ کبھی چھوٹی سی غلطی پر اور کبھی جان بوجھ کر رکشہ ڈرائیوروں کا چالان کر دیا جاتا ہے جس کا مقصد صرف یہ ہے کہ میٹرو بس کے روٹ کے ساتھ رکشہ نہ چلے اور یہ منصوبہ کامیاب ہو۔ ایک طرف میٹرو چلنے سے رکشہ چلانے والوں کے لئے سواری کم ہو گئی ہے تو دوسری طرف وارڈنز کے بلاوجہ تنگ کرنے سے ہماری مشکلات میں اضافہ ہو چکا ہے۔ جو رکشہ ڈرائیور پہلے 6 سو روپے کی دیہاڑی لگاتا تھا آج اس کی آمدن 3 سو سے ساڑھے 3 سو تک آگئی ہے، آج کے اس دور میں جہاں ایک غریب، بچوں کی فیسیں اور بجلی کے بل ہی ادا نہیں کر پا رہا وہاں دوسری جانب اس کے ذریعہ آمدن کو بھی محدود کیا جا رہا ہے، ان حالات میں غریب اپنے بچوں کے ساتھ خودکشیاں نہیں کریں گے تو پھر کیا کریں؟ باغی جان خان کا کہنا تھا کہ میری متعلقہ حکام سے اپیل ہے کہ خدارا! رکشہ والوں کو تنگ نہ کیا جائے، جس بندے نے بس پرسفر کرنا ہے وہ اسی پر جائے گا لیکن جو جلدی میں ہے اسے تو رکشہ کی سہولت ملے کیوں کہ بس تو اپنے وقت پر ہی جائے گی لیکن رکشہ کبھی بھی کہیں بھی جا سکتا ہے۔
Load Next Story