کرکٹ میں خراب موسم سے متاثرہ کرکٹ میچوں کونتیجہ خیز بنانے والا ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کیا ہے
محدود اوورز کے کھیل میں دو حساب دانوں کی کامیاب شراکت کا احوال.
ISLAMABAD:
1992ء کے ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ اور انگلینڈ کے مابین ٹورنامنٹ کا دوسرا سیمی فائنل کھیلا گیا۔
بارش سے متاثرہ اس میچ کو 45 اوورز تک محدود کر دیا گیا تھا۔ انگلینڈ نے مقررہ 45 اوورز میں چھ وکٹوں کے نقصان پر 252 رنز بنائے۔ اس کے جواب میں جنوبی افریقہ نے 42.5 اوورز میں چھ وکٹوں کے نقصان پر 231 رنز سکور کئے تھے کہ بارش کی وجہ سے میچ روک دیا گیا۔ اس مرحلے پر انہیں انگلینڈ کو ہرا کر فائنل میں پہنچنے کیلئے 13 گیندوں پر 22 رنز درکار تھے جبکہ چار وکٹیں ابھی باقی تھیں۔ 12 منٹ کی تاخیر کے بعد جب کھیل دوبارہ شروع ہوا تو جنوبی افریقہ کی اننگز میں سے دواوورز کم کر دیئے گئے اور اس وقت رائج موسٹ پروڈکٹو اوورز یا Highest Scoring Overs Method کے مطابق ساؤتھ افریقہ کو جیتنے کیلئے ایک گیند پر 21رنز کا نیا ہدف دیدیا گیا۔ برائن میک میلن نے کرس لیوس کی پھینکی گئی میچ کی آخری گیند کو آہستگی سے کھیل کر ایک رن لیا اور بے بسی اور افسردگی کے عالم میں پویلین کا رخ کیا۔
اس میچ کے فوراً بعد محدود اوورز کی کرکٹ میں بارش' کم روشنی یا خراب موسم کی صورت میں نظر ثانی شدہ ہدف دینے یا سکور ری ایڈجسٹ کرنے کے رائج طریقے پر شدید تنقید شروع ہوگئی۔ Highest Scoring Overs Method کے مطابق بعد میں بیٹنگ کرنے والی ٹیم کو دستیاب اووز میں وہ ٹارگٹ دیا جاتا تھا، جن میں پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم نے اتنے ہی اوورز میں اپنی پوری اننگز کے دوران زیادہ سے زیادہ رنز سکور کئے ہوتے۔ مثلاً مذکورہ بالا میچ میں بارش کی وجہ سے جب جنوبی افریقہ کی اننگز دو اوورز کم کر کے 43 اوورز تک محدود کر دی گئی تو انگلینڈ کی اننگز میں سے ایسے دو اوورز نکال دیئے گئے، جن میں انگلینڈ نے کم سے کم سکور کئے تھے۔ یہ ساؤتھ افریقہ کی طرف سے کئے جانے والے دو میڈن اوورز تھے، جن میں ایک اوور میں ایک ایکسٹرا سکور دیا گیا تھا۔ یوں جنوبی افریقہ کے 22 رنز کے ٹارگٹ میں سے ایک سکور کم کر کے اسے باقی ماندہ ایک گیند پر 21 رنز کا ناقابل حصول ہدف دے دیا گیا۔ اگرچہ یہ طریقہ عمومی طور پر بعد میں بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے لئے مددگار تھا لیکن مذکورہ میچ میں جنوبی افریقہ کی ٹیم اپنے ہدف کے قریب پہنچ چکی تھی اور میچ اپنے اختتام کی طرف گامزن تھا، جب بارش کی وجہ سے اسے روکنا پڑا۔ یوں بارش کے بعد جنوبی افریقہ کو ایک ایسا ٹارگٹ مل گیا جس سے میچ مکمل طور پر انگلینڈ کے حق میں چلا گیا۔
میچ کے اختتام پر برطانوی کرکٹ جرنلسٹ اور ریڈیو کمنٹیٹر کرسٹوفر مارٹن ریڈیو پر کہہ رہا تھا، ''لازمی طور پر کسی جگہ سے، کسی ایسے شخص کو سامنے آنا چاہئے جو اس سے بہتر طریقہ متعارف کرا سکے۔'' ہزاروں دوسرے کرکٹ شائقین کی طرح انگلینڈ میں ماہر شماریات فرینک ڈک ورتھ بھی ریڈیو پر یہ سن رہا تھا۔ جب اس نے اس مسئلے پر غور کرنا شروع کیا تو جلد ہی اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ یہ ایک حسابی مسئلہ ہے اور اس کا حسابی حل (Mathematical Solution) ہی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس نے ٹونی لوئس کے ساتھ مل کر موسم سے متاثرہ میچوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے ایک متبادل نظام وضع کیا، جسے ہم آج ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کے نام سے جانتے ہیں۔ 15سال سے زائد عرصے سے اسے محدود اوورز کی بین الاقوامی کرکٹ میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ حالیہ چیمپئنز ٹرافی میں بھی فائنل سمیت کئی میچ بارش سے متاثر ہوئے جن میں D/L کا استعمال کرنا پڑا۔ ایک طویل عرصے سے کرکٹ میں رائج ہونے کے باوجود بہت سے شایقین کرکٹ D/L سے زیادہ واقف نہیں ہیں۔ ہم یہاں ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کی تفہیم کے لیے اس کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
D/L میتھڈ کی بنیاد اس تصور پر رکھی گئی ہے کہ کسی بھی ٹیم کے پاس زیادہ سے زیادہ رنز سکور کرنے کے لئے اوورز اور وکٹوں کی صورت میں دو وسائل (Resources) ہوتے ہیں۔ اننگز کے کسی بھی مرحلے پر کسی ٹیم کے مزید رنز سکور کرنے کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ ٹیم کے پاس باقی اوور کتنے ہیں اور اس کی کتنی وکٹیں باقی ہیں۔ چنانچہ فرینک ڈک ورتھ اور ٹونی لوئس نے مل کر ایک حسابی فنکشنP(u,w) وضع کیا، جو اننگز کے کسی بھی مرحلے پر دستیاب اوسط وسائل (وکٹیں اور اوورز دونوں کو مدنظر رکھتے ہوئے) کے متعلق بتاتا ہے، جو کہ باقی ماندہ u اوورز میں w وکٹوں کے نقصان پر ٹیم کو ابھی میسر ہیں۔ جب ایک میچ شروع ہونے کے بعد خراب موسم کی وجہ سے تعطل کا شکار ہو جاتا ہے اور کھیل کو کم اوورز تک محدود کیا جاتا ہے، تو ایک یا دونوں ٹیموں کے وسائل کم ہو جاتے ہیں اور عام طور پر دونوں ٹیموں کی اننگز کے لئے دستیاب وسائل میں بھی فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں لازم ہو جاتا ہے کہ ہدف کا ازسرنو تعین کیا جائے۔ ڈک ورتھ لوئس میتھڈ دونوں ٹیموں کے وسائل کو برابری کی سطح پر لا کر نظرثانی شدہ ہدف دیتا ہے، جس سے کم وسائل والی ٹیم کے نقصان کی تلافی ہو جاتی ہے۔
نیچے دیا گیا ٹیبل مخصوص اوورز میں مخصوص وکٹوں کے نقصان پر کسی ٹیم کو دستیاب فیصد وسائل بتاتا ہے۔ (مکمل ٹیبل کرکٹ اتھارٹیز اور میچ آفیشلز کے پاس ہوتا ہے جو کہ اننگز کے کسی بھی مرحلے پر دستیاب فیصد وسائل بتاتا ہے، جبکہ انٹرنیشنل میچوں میں D/L کا پروفیشنل ایڈیشن، جو کہ ایک کمپیوٹر پروگرام کی شکل میں ترتیب دیا گیا ہے، استعمال کیا جاتاہے۔) یہ ٹیبل اپنی مکمل شکل میں انٹرنیشنل کرکٹ سے نچلی سطح کے مقابلوں میں استعمال کیا جاتا ہے، جن میں کمپیوٹر پروگرام کی دستیابی یقینی نہیں ہوتی۔ اس کو D/L سٹینڈرڈ ایڈیشن کا نام دیا گیا ہے۔ جس میں آپ ٹیبل کے کتابچے کی مدد سے ایک سادہ کیلکولیٹر کے ذریعے ہدف کا ازسرنو تعین کر سکتے ہیں۔
جیسا کہ ٹیبل سے ظاہر ہوتا ہے' میچ کے آغاز پر 50اوورز میں، کسی وکٹ کے نقصان کے بغیر ٹیم کو 100 فیصد وسائل دستیاب ہوتے ہیں، جبکہ 40 اوورز پر مشتمل اننگز کے آغازمیں ٹیم کو 89.3 فیصد وسائل دستیاب ہوں گے۔ کھیل کے کسی بھی مرحلے پر یہ جاننے کیلئے کہ بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے پاس کتنے وسائل باقی ہیں' باقی ماندہ اوورز کی تعداد کا علم ہونا چاہئے۔ ٹیبل میں باقی ماندہ اوورز کی تعداد اور بیٹنگ ٹیم کی گنوائی جانے والی وکٹوں کی تعداد کو دیکھ کر ٹیم کو دستیاب فیصد وسائل کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر فرض کریں کہ 50 اوورز کے ایک میچ میں، 20 اوورز میں ٹیم نے دو وکٹیں گنوائی ہیں۔ اب اس کے پاس 30 اوورز باقی ہیں۔ ٹیبل سے پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب ٹیم کے پاس 67.3 فیصد وسائل باقی ہیں۔ اب فرض کریں کہ اس مرحلے پر خراب موسم کی وجہ سے کھیل رک جاتا ہے اور دونوں ٹیموں کی اننگز سے دس دس اوورز کم کر دیئے جاتے ہیں۔ اب جب کھیل دوبارہ شروع ہو گا تو بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے پاس 20 اوور باقی رہ جائیں گے جبکہ وکٹوں کا نقصان پہلے کی طرح دو وکٹوں کو ہو گا۔ اب ٹیبل کے مطابق ٹیم کے پاس 52.4 فیصد وسائل باقی بچے ہیں۔ اس طرح اننگز کو مختصر کرنے سے بیٹنگ کرنے والی ٹیم کو) 52.4-(67.3 15.3 فیصد وسائل کا نقصان ہوا ہے۔ بیٹنگ کرنے والی ٹیم نے اپنی اننگز کا آغاز 100 فیصد وسائل سے کیا تھا لیکن میچ میں تعطل کی وجہ سے 15.3 فیصد وسائل گنوا دیئے۔ اب اگر وہ اپنی باقی ماندہ اننگز کو مزید کوئی اوور گنوائے بغیر مکمل کر لیتے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم (T1) کو اپنی اننگز کے لئے صرف) 15.3-(100 84.7 فیصد وسائل دستیاب تھے، جبکہ اس کے مقابلے میں بعد میں بیٹنگ کرنیوالی ٹیم) (T2 کو مقررہ 40 اوورمیں 89.3 فیصد وسائل میسر ہوں گے۔
٭ایسی صورت میں جب بعد میں بیٹنگ کرنے والی ٹیم) (T2 کو پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم) (T1 سے زیادہ وسائل دستیاب ہوں، تو وسائل کے اس فرق کو )225 2002ء کے ٹیبل کے مطابق بارش سے متاثر نہ ہونے والے انٹرنیشنل اور فرسٹ کلاس ون ڈے میچوں کی پہلی اننگز کا اوسط سکور) سے ضرب دے کر ٹیم) (1کے سکور میں جمع کر لیا جائے۔ اس کی مساوات کچھ یوں ہو گی:
T= S+G (R2-R1) For R1<R2
(مساوات میں S ٹیم (1) کے سکور' G=225 اور T نظرثانی شدہ ہدف کو ظاہر کرتا ہے)
اوپر بیان کی گئی مثال کے اعداد وشمار کے مطابق:
T= S+225 (0.893-0.847)
T= S+225(0.046)
T= S+ 10.35
اس طرح ٹیم2) ( کو میچ برابر کرنے کے لئے ٹیم (1) سے 11 (اعشاریہ والے عدد کو اگلے مکمل عدد میں تبدیل کر دیا جاتا ہے) سکور زیادہ کرنے پڑیں گے اور میچ جیتنے کے لئے اسے ایک رن مزید ]ٹیم 1) (کے سکور سے 12 رنز زیادہ[ درکار ہو گا۔
٭اگر ٹیم (1) کو ٹیم (2) سے زیادہ وسائل میسر آئے ہوں تو نظرثانی شدہ ہدف کے تعین کے لئے مساوات کچھ یوں ہو گی:
R1 (For R1 > R2)÷T= S x R2
٭اگر ٹیم (1) نے بغیر کسی تعطل کے اپنے اوور پورے کھیلے، یعنی سو فیصد وسائل اسے میسر آئے، اور ٹیم B کی اننگز کے اوور کم کرنے پڑے تو نئے ہدف کا تعین اس مساوات سے کیا جائے گا:
Team 2 Target/ Team 1 Score = Resources of Team 2/ Resources of Team 1
D/L میتھڈ T20 کرکٹ میں:
2009ء کے T20 ورلڈ کپ کے سپر ایٹ مرحلے کے ایک میچ میں انگلینڈ نے ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں 161 رنز سکور کئے۔ بارش کی وجہ سے میچ روک دیا گیا، بعدازاں D/L میتھڈ کے مطابق ویسٹ انڈیز کو جیتنے کیلئے نو اوورز میں 80 رنز کا نظرثانی شدہ ہدف دیا گیا۔ ویسٹ انڈیز ٹیم 5وکٹوں کے نقصان پر 8.2 اوورز میں 82 رنز بنا کر فاتح قرار پائی جبکہ میزبان انگلینڈ ورلڈ کپ سے باہر ہو گیا۔
اس میچ کے بعد 20 اوورز کے کھیل میں D/L میتھڈ کی موزونیت پر سوال اٹھائے گئے، فرینک ڈک ورتھ نے بھی تسلیم کیا کہ T20 کے لئے اس طریقے میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ انڈین VJD میتھڈ کے مطابق، جسے انڈین کرکٹ لیگ میں استعمال کیا گیا، اس میچ میں ویسٹ انڈیز کا نظرثانی شدہ ہدف 94 رنز ہوتا۔ اس پر ڈک ورتھ کا کہنا ہے،''وہ اپنے اعداد وشمار بدلتا رہتا ہے تاکہ لوگوں کو وہ ٹارگٹ دے سکے جسے وہ مناسب خیال کرتے ہیں۔ ICC نے 2005ء میں تمام طریقوں کا آزادانہ جائزہ لینے کے لئے ایک کمیشن تشکیل دیا اور آزادانہ تجزیے نے یہ ظاہر کیا کہ D/L میتھڈ سب سے زیادہ اس قابل ہے کہ میچ میں صورت حال کے مطابق تبدیل شدہ ہدف دے سکے۔''
کرکٹ کی تاریخ میں بہت سی یادگار شراکت داریاں قائم ہوئی ہیں، لیکن محدود اوووز کے کھیل میں فرینک ڈک ورتھ اور ٹونی لوئس کی شراکت داری کو 16 سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے اور اس کو مستقبل میں بھی بظاہر کسی بڑے چیلنج کاسامنا نہیں ہے۔ اس جیسی کامیاب شراکت کی مثال کرکٹ کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ جاتے جاتے آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ اگر 1992ء کے سیمی فائنل میں D/L میتھڈ کے مطابق ہدف ملتا تو سائوتھ افریقہ کو آخری بال پر میچ برابر کرنے کے لئے 4 رنز اور جیتنے کیلئے 5 رنز درکار ہوتے، اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ایسا بہرحال کرکٹ میں ممکن ہے!!
ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کے خالق فرینک ڈک ورتھ اور ٹونی لوئس دونوں انگلینڈ کے رہنے والے ہیں۔ یہ دونوں حساب دان ہونے کے علاوہ کرکٹ کے شیدائی بھی ہیں۔ فرینک ڈک ورتھ RSS News (رائل سٹیٹسکل سوسائٹی کا ماہانہ مجلہ) کے مدیر ہیں جبکہ ٹونی لوئس حساب کے مضامین کے ریٹائرڈ یونیورسٹی لیکچرر ہیں۔
انٹرنیشنل کرکٹ میں ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کا اطلاق پہلی دفعہ یکم جنوری 1997ء کو ہوا جب زمبابوے اور انگلینڈ کے میچ میں بارش کے بعد اس طریقے کے مطابق نظرثانی شدہ ہدف دیا گیا اور زمبابوے نے انگلینڈ کو چھ وکٹوں سے شکست دی۔ ڈک ورتھ میتھڈ کو پہلی مرتبہ ملائشیا میں منعقد ہونے والی ICC ٹرافی میں 1997ء میں استعمال کیا گیا۔ 1998ء میں اسے نیوزی لینڈ' جنوبی افریقہ' پاکستان' انڈیا اور ویسٹ انڈیز میں لاگو کر دیا گیا۔1999ء میں انگلینڈ میں منعقد ہونے والے ورلڈ کپ کے لئے بھی ICC نے اس طریقہ کار کو اختیار کیا، لیکن معجزاتی طور پر موسم ٹھیک رہا اور اسے استعمال کرنے کی نوبت ہی نہ آئی۔ 2001ء میں ICC نے رسمی طور پر اسے تین سال کے لئے ہر سطح کی کرکٹ کے لئے آزمائشی بنیادوں پر اختیار کیا اور تین سال بعد 2004ء میں اسے ایک مستقل طریقے کا درجہ دے دیا گیا۔
ہر تین برس بعد D/L میتھڈ پر نظرثانی کی جاتی ہے۔ 2004ء میں ایسے میچوں میں جن میں کمپیوٹر استعمال کیا جاتا ہے D/Lکے پروفیشنل ایڈیشن کو متعارف کرایا گیا جبکہ نچلے درجوں کے مقابلوں میں سٹینڈرڈ ایڈیشن استعمال کیا جاتا ہے جو کہ شائع شدہ ٹیبلز کی صورت میں دستیاب ہے۔ یاد رہے کہ D/L میتھڈ کا اطلاق اسی صورت میں ہوتا ہے جب ون ڈے میں دونوں ٹیمیں کم ازکم 20 اوورز اور T20 میں 5/5 اوور کھیل سکیں۔ ڈک ورتھ اور ٹونی لوئس کو آئی سی سی کی طرف سے رائلٹی کی شکل میں معاوضہ ملتا ہے۔ ڈک ورتھ کا کہنا ہے:
''کوئی نہیں پسند کرتا کہ میچ کا فیصلہ کھلاڑیوں کے بجائے حساب دان کریں' لیکن اگر کسی کو مجبور کیا جائے کہ وہ بتائے کہ میچ کے کسی خاص حصے میں کون سی ٹیم جیت رہی ہے' D/L میتھڈ آپ کو اس کا ایسا جواب دیتا ہے، جسے عمومی طور پر لوگ موزوں اور درست خیال کرتے ہیں۔''
1992ء کے ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ اور انگلینڈ کے مابین ٹورنامنٹ کا دوسرا سیمی فائنل کھیلا گیا۔
بارش سے متاثرہ اس میچ کو 45 اوورز تک محدود کر دیا گیا تھا۔ انگلینڈ نے مقررہ 45 اوورز میں چھ وکٹوں کے نقصان پر 252 رنز بنائے۔ اس کے جواب میں جنوبی افریقہ نے 42.5 اوورز میں چھ وکٹوں کے نقصان پر 231 رنز سکور کئے تھے کہ بارش کی وجہ سے میچ روک دیا گیا۔ اس مرحلے پر انہیں انگلینڈ کو ہرا کر فائنل میں پہنچنے کیلئے 13 گیندوں پر 22 رنز درکار تھے جبکہ چار وکٹیں ابھی باقی تھیں۔ 12 منٹ کی تاخیر کے بعد جب کھیل دوبارہ شروع ہوا تو جنوبی افریقہ کی اننگز میں سے دواوورز کم کر دیئے گئے اور اس وقت رائج موسٹ پروڈکٹو اوورز یا Highest Scoring Overs Method کے مطابق ساؤتھ افریقہ کو جیتنے کیلئے ایک گیند پر 21رنز کا نیا ہدف دیدیا گیا۔ برائن میک میلن نے کرس لیوس کی پھینکی گئی میچ کی آخری گیند کو آہستگی سے کھیل کر ایک رن لیا اور بے بسی اور افسردگی کے عالم میں پویلین کا رخ کیا۔
اس میچ کے فوراً بعد محدود اوورز کی کرکٹ میں بارش' کم روشنی یا خراب موسم کی صورت میں نظر ثانی شدہ ہدف دینے یا سکور ری ایڈجسٹ کرنے کے رائج طریقے پر شدید تنقید شروع ہوگئی۔ Highest Scoring Overs Method کے مطابق بعد میں بیٹنگ کرنے والی ٹیم کو دستیاب اووز میں وہ ٹارگٹ دیا جاتا تھا، جن میں پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم نے اتنے ہی اوورز میں اپنی پوری اننگز کے دوران زیادہ سے زیادہ رنز سکور کئے ہوتے۔ مثلاً مذکورہ بالا میچ میں بارش کی وجہ سے جب جنوبی افریقہ کی اننگز دو اوورز کم کر کے 43 اوورز تک محدود کر دی گئی تو انگلینڈ کی اننگز میں سے ایسے دو اوورز نکال دیئے گئے، جن میں انگلینڈ نے کم سے کم سکور کئے تھے۔ یہ ساؤتھ افریقہ کی طرف سے کئے جانے والے دو میڈن اوورز تھے، جن میں ایک اوور میں ایک ایکسٹرا سکور دیا گیا تھا۔ یوں جنوبی افریقہ کے 22 رنز کے ٹارگٹ میں سے ایک سکور کم کر کے اسے باقی ماندہ ایک گیند پر 21 رنز کا ناقابل حصول ہدف دے دیا گیا۔ اگرچہ یہ طریقہ عمومی طور پر بعد میں بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے لئے مددگار تھا لیکن مذکورہ میچ میں جنوبی افریقہ کی ٹیم اپنے ہدف کے قریب پہنچ چکی تھی اور میچ اپنے اختتام کی طرف گامزن تھا، جب بارش کی وجہ سے اسے روکنا پڑا۔ یوں بارش کے بعد جنوبی افریقہ کو ایک ایسا ٹارگٹ مل گیا جس سے میچ مکمل طور پر انگلینڈ کے حق میں چلا گیا۔
میچ کے اختتام پر برطانوی کرکٹ جرنلسٹ اور ریڈیو کمنٹیٹر کرسٹوفر مارٹن ریڈیو پر کہہ رہا تھا، ''لازمی طور پر کسی جگہ سے، کسی ایسے شخص کو سامنے آنا چاہئے جو اس سے بہتر طریقہ متعارف کرا سکے۔'' ہزاروں دوسرے کرکٹ شائقین کی طرح انگلینڈ میں ماہر شماریات فرینک ڈک ورتھ بھی ریڈیو پر یہ سن رہا تھا۔ جب اس نے اس مسئلے پر غور کرنا شروع کیا تو جلد ہی اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ یہ ایک حسابی مسئلہ ہے اور اس کا حسابی حل (Mathematical Solution) ہی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس نے ٹونی لوئس کے ساتھ مل کر موسم سے متاثرہ میچوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے ایک متبادل نظام وضع کیا، جسے ہم آج ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کے نام سے جانتے ہیں۔ 15سال سے زائد عرصے سے اسے محدود اوورز کی بین الاقوامی کرکٹ میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ حالیہ چیمپئنز ٹرافی میں بھی فائنل سمیت کئی میچ بارش سے متاثر ہوئے جن میں D/L کا استعمال کرنا پڑا۔ ایک طویل عرصے سے کرکٹ میں رائج ہونے کے باوجود بہت سے شایقین کرکٹ D/L سے زیادہ واقف نہیں ہیں۔ ہم یہاں ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کی تفہیم کے لیے اس کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
D/L میتھڈ کی بنیاد اس تصور پر رکھی گئی ہے کہ کسی بھی ٹیم کے پاس زیادہ سے زیادہ رنز سکور کرنے کے لئے اوورز اور وکٹوں کی صورت میں دو وسائل (Resources) ہوتے ہیں۔ اننگز کے کسی بھی مرحلے پر کسی ٹیم کے مزید رنز سکور کرنے کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ ٹیم کے پاس باقی اوور کتنے ہیں اور اس کی کتنی وکٹیں باقی ہیں۔ چنانچہ فرینک ڈک ورتھ اور ٹونی لوئس نے مل کر ایک حسابی فنکشنP(u,w) وضع کیا، جو اننگز کے کسی بھی مرحلے پر دستیاب اوسط وسائل (وکٹیں اور اوورز دونوں کو مدنظر رکھتے ہوئے) کے متعلق بتاتا ہے، جو کہ باقی ماندہ u اوورز میں w وکٹوں کے نقصان پر ٹیم کو ابھی میسر ہیں۔ جب ایک میچ شروع ہونے کے بعد خراب موسم کی وجہ سے تعطل کا شکار ہو جاتا ہے اور کھیل کو کم اوورز تک محدود کیا جاتا ہے، تو ایک یا دونوں ٹیموں کے وسائل کم ہو جاتے ہیں اور عام طور پر دونوں ٹیموں کی اننگز کے لئے دستیاب وسائل میں بھی فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں لازم ہو جاتا ہے کہ ہدف کا ازسرنو تعین کیا جائے۔ ڈک ورتھ لوئس میتھڈ دونوں ٹیموں کے وسائل کو برابری کی سطح پر لا کر نظرثانی شدہ ہدف دیتا ہے، جس سے کم وسائل والی ٹیم کے نقصان کی تلافی ہو جاتی ہے۔
نیچے دیا گیا ٹیبل مخصوص اوورز میں مخصوص وکٹوں کے نقصان پر کسی ٹیم کو دستیاب فیصد وسائل بتاتا ہے۔ (مکمل ٹیبل کرکٹ اتھارٹیز اور میچ آفیشلز کے پاس ہوتا ہے جو کہ اننگز کے کسی بھی مرحلے پر دستیاب فیصد وسائل بتاتا ہے، جبکہ انٹرنیشنل میچوں میں D/L کا پروفیشنل ایڈیشن، جو کہ ایک کمپیوٹر پروگرام کی شکل میں ترتیب دیا گیا ہے، استعمال کیا جاتاہے۔) یہ ٹیبل اپنی مکمل شکل میں انٹرنیشنل کرکٹ سے نچلی سطح کے مقابلوں میں استعمال کیا جاتا ہے، جن میں کمپیوٹر پروگرام کی دستیابی یقینی نہیں ہوتی۔ اس کو D/L سٹینڈرڈ ایڈیشن کا نام دیا گیا ہے۔ جس میں آپ ٹیبل کے کتابچے کی مدد سے ایک سادہ کیلکولیٹر کے ذریعے ہدف کا ازسرنو تعین کر سکتے ہیں۔
جیسا کہ ٹیبل سے ظاہر ہوتا ہے' میچ کے آغاز پر 50اوورز میں، کسی وکٹ کے نقصان کے بغیر ٹیم کو 100 فیصد وسائل دستیاب ہوتے ہیں، جبکہ 40 اوورز پر مشتمل اننگز کے آغازمیں ٹیم کو 89.3 فیصد وسائل دستیاب ہوں گے۔ کھیل کے کسی بھی مرحلے پر یہ جاننے کیلئے کہ بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے پاس کتنے وسائل باقی ہیں' باقی ماندہ اوورز کی تعداد کا علم ہونا چاہئے۔ ٹیبل میں باقی ماندہ اوورز کی تعداد اور بیٹنگ ٹیم کی گنوائی جانے والی وکٹوں کی تعداد کو دیکھ کر ٹیم کو دستیاب فیصد وسائل کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر فرض کریں کہ 50 اوورز کے ایک میچ میں، 20 اوورز میں ٹیم نے دو وکٹیں گنوائی ہیں۔ اب اس کے پاس 30 اوورز باقی ہیں۔ ٹیبل سے پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب ٹیم کے پاس 67.3 فیصد وسائل باقی ہیں۔ اب فرض کریں کہ اس مرحلے پر خراب موسم کی وجہ سے کھیل رک جاتا ہے اور دونوں ٹیموں کی اننگز سے دس دس اوورز کم کر دیئے جاتے ہیں۔ اب جب کھیل دوبارہ شروع ہو گا تو بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے پاس 20 اوور باقی رہ جائیں گے جبکہ وکٹوں کا نقصان پہلے کی طرح دو وکٹوں کو ہو گا۔ اب ٹیبل کے مطابق ٹیم کے پاس 52.4 فیصد وسائل باقی بچے ہیں۔ اس طرح اننگز کو مختصر کرنے سے بیٹنگ کرنے والی ٹیم کو) 52.4-(67.3 15.3 فیصد وسائل کا نقصان ہوا ہے۔ بیٹنگ کرنے والی ٹیم نے اپنی اننگز کا آغاز 100 فیصد وسائل سے کیا تھا لیکن میچ میں تعطل کی وجہ سے 15.3 فیصد وسائل گنوا دیئے۔ اب اگر وہ اپنی باقی ماندہ اننگز کو مزید کوئی اوور گنوائے بغیر مکمل کر لیتے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم (T1) کو اپنی اننگز کے لئے صرف) 15.3-(100 84.7 فیصد وسائل دستیاب تھے، جبکہ اس کے مقابلے میں بعد میں بیٹنگ کرنیوالی ٹیم) (T2 کو مقررہ 40 اوورمیں 89.3 فیصد وسائل میسر ہوں گے۔
٭ایسی صورت میں جب بعد میں بیٹنگ کرنے والی ٹیم) (T2 کو پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم) (T1 سے زیادہ وسائل دستیاب ہوں، تو وسائل کے اس فرق کو )225 2002ء کے ٹیبل کے مطابق بارش سے متاثر نہ ہونے والے انٹرنیشنل اور فرسٹ کلاس ون ڈے میچوں کی پہلی اننگز کا اوسط سکور) سے ضرب دے کر ٹیم) (1کے سکور میں جمع کر لیا جائے۔ اس کی مساوات کچھ یوں ہو گی:
T= S+G (R2-R1) For R1<R2
(مساوات میں S ٹیم (1) کے سکور' G=225 اور T نظرثانی شدہ ہدف کو ظاہر کرتا ہے)
اوپر بیان کی گئی مثال کے اعداد وشمار کے مطابق:
T= S+225 (0.893-0.847)
T= S+225(0.046)
T= S+ 10.35
اس طرح ٹیم2) ( کو میچ برابر کرنے کے لئے ٹیم (1) سے 11 (اعشاریہ والے عدد کو اگلے مکمل عدد میں تبدیل کر دیا جاتا ہے) سکور زیادہ کرنے پڑیں گے اور میچ جیتنے کے لئے اسے ایک رن مزید ]ٹیم 1) (کے سکور سے 12 رنز زیادہ[ درکار ہو گا۔
٭اگر ٹیم (1) کو ٹیم (2) سے زیادہ وسائل میسر آئے ہوں تو نظرثانی شدہ ہدف کے تعین کے لئے مساوات کچھ یوں ہو گی:
R1 (For R1 > R2)÷T= S x R2
٭اگر ٹیم (1) نے بغیر کسی تعطل کے اپنے اوور پورے کھیلے، یعنی سو فیصد وسائل اسے میسر آئے، اور ٹیم B کی اننگز کے اوور کم کرنے پڑے تو نئے ہدف کا تعین اس مساوات سے کیا جائے گا:
Team 2 Target/ Team 1 Score = Resources of Team 2/ Resources of Team 1
D/L میتھڈ T20 کرکٹ میں:
2009ء کے T20 ورلڈ کپ کے سپر ایٹ مرحلے کے ایک میچ میں انگلینڈ نے ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں 161 رنز سکور کئے۔ بارش کی وجہ سے میچ روک دیا گیا، بعدازاں D/L میتھڈ کے مطابق ویسٹ انڈیز کو جیتنے کیلئے نو اوورز میں 80 رنز کا نظرثانی شدہ ہدف دیا گیا۔ ویسٹ انڈیز ٹیم 5وکٹوں کے نقصان پر 8.2 اوورز میں 82 رنز بنا کر فاتح قرار پائی جبکہ میزبان انگلینڈ ورلڈ کپ سے باہر ہو گیا۔
اس میچ کے بعد 20 اوورز کے کھیل میں D/L میتھڈ کی موزونیت پر سوال اٹھائے گئے، فرینک ڈک ورتھ نے بھی تسلیم کیا کہ T20 کے لئے اس طریقے میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ انڈین VJD میتھڈ کے مطابق، جسے انڈین کرکٹ لیگ میں استعمال کیا گیا، اس میچ میں ویسٹ انڈیز کا نظرثانی شدہ ہدف 94 رنز ہوتا۔ اس پر ڈک ورتھ کا کہنا ہے،''وہ اپنے اعداد وشمار بدلتا رہتا ہے تاکہ لوگوں کو وہ ٹارگٹ دے سکے جسے وہ مناسب خیال کرتے ہیں۔ ICC نے 2005ء میں تمام طریقوں کا آزادانہ جائزہ لینے کے لئے ایک کمیشن تشکیل دیا اور آزادانہ تجزیے نے یہ ظاہر کیا کہ D/L میتھڈ سب سے زیادہ اس قابل ہے کہ میچ میں صورت حال کے مطابق تبدیل شدہ ہدف دے سکے۔''
کرکٹ کی تاریخ میں بہت سی یادگار شراکت داریاں قائم ہوئی ہیں، لیکن محدود اوووز کے کھیل میں فرینک ڈک ورتھ اور ٹونی لوئس کی شراکت داری کو 16 سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے اور اس کو مستقبل میں بھی بظاہر کسی بڑے چیلنج کاسامنا نہیں ہے۔ اس جیسی کامیاب شراکت کی مثال کرکٹ کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ جاتے جاتے آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ اگر 1992ء کے سیمی فائنل میں D/L میتھڈ کے مطابق ہدف ملتا تو سائوتھ افریقہ کو آخری بال پر میچ برابر کرنے کے لئے 4 رنز اور جیتنے کیلئے 5 رنز درکار ہوتے، اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ایسا بہرحال کرکٹ میں ممکن ہے!!
ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کے خالق فرینک ڈک ورتھ اور ٹونی لوئس دونوں انگلینڈ کے رہنے والے ہیں۔ یہ دونوں حساب دان ہونے کے علاوہ کرکٹ کے شیدائی بھی ہیں۔ فرینک ڈک ورتھ RSS News (رائل سٹیٹسکل سوسائٹی کا ماہانہ مجلہ) کے مدیر ہیں جبکہ ٹونی لوئس حساب کے مضامین کے ریٹائرڈ یونیورسٹی لیکچرر ہیں۔
انٹرنیشنل کرکٹ میں ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کا اطلاق پہلی دفعہ یکم جنوری 1997ء کو ہوا جب زمبابوے اور انگلینڈ کے میچ میں بارش کے بعد اس طریقے کے مطابق نظرثانی شدہ ہدف دیا گیا اور زمبابوے نے انگلینڈ کو چھ وکٹوں سے شکست دی۔ ڈک ورتھ میتھڈ کو پہلی مرتبہ ملائشیا میں منعقد ہونے والی ICC ٹرافی میں 1997ء میں استعمال کیا گیا۔ 1998ء میں اسے نیوزی لینڈ' جنوبی افریقہ' پاکستان' انڈیا اور ویسٹ انڈیز میں لاگو کر دیا گیا۔1999ء میں انگلینڈ میں منعقد ہونے والے ورلڈ کپ کے لئے بھی ICC نے اس طریقہ کار کو اختیار کیا، لیکن معجزاتی طور پر موسم ٹھیک رہا اور اسے استعمال کرنے کی نوبت ہی نہ آئی۔ 2001ء میں ICC نے رسمی طور پر اسے تین سال کے لئے ہر سطح کی کرکٹ کے لئے آزمائشی بنیادوں پر اختیار کیا اور تین سال بعد 2004ء میں اسے ایک مستقل طریقے کا درجہ دے دیا گیا۔
ہر تین برس بعد D/L میتھڈ پر نظرثانی کی جاتی ہے۔ 2004ء میں ایسے میچوں میں جن میں کمپیوٹر استعمال کیا جاتا ہے D/Lکے پروفیشنل ایڈیشن کو متعارف کرایا گیا جبکہ نچلے درجوں کے مقابلوں میں سٹینڈرڈ ایڈیشن استعمال کیا جاتا ہے جو کہ شائع شدہ ٹیبلز کی صورت میں دستیاب ہے۔ یاد رہے کہ D/L میتھڈ کا اطلاق اسی صورت میں ہوتا ہے جب ون ڈے میں دونوں ٹیمیں کم ازکم 20 اوورز اور T20 میں 5/5 اوور کھیل سکیں۔ ڈک ورتھ اور ٹونی لوئس کو آئی سی سی کی طرف سے رائلٹی کی شکل میں معاوضہ ملتا ہے۔ ڈک ورتھ کا کہنا ہے:
''کوئی نہیں پسند کرتا کہ میچ کا فیصلہ کھلاڑیوں کے بجائے حساب دان کریں' لیکن اگر کسی کو مجبور کیا جائے کہ وہ بتائے کہ میچ کے کسی خاص حصے میں کون سی ٹیم جیت رہی ہے' D/L میتھڈ آپ کو اس کا ایسا جواب دیتا ہے، جسے عمومی طور پر لوگ موزوں اور درست خیال کرتے ہیں۔''