امن امان کی تشویشناک صورتحال ٹیلی ویژن اور فلم انڈسٹری کا مستقبل کیا ہوگا
کراچی میں امن امان کی صورت حال نے جہاں معیشت کو بہت بری طریقہ سے نقصان پہنچایا۔
کراچی میں امن امان کی صورت حال نے جہاں معیشت کو بہت بری طریقہ سے نقصان پہنچایا۔
وہاں بہت سے شعبوں کو بھی کام کرنے کا موقع نہیں مل رہا،سرمایہ کاری کرنے والے بہت سے ادارے پاکستان سے شفٹ ہوکر دوسرے ممالک چلے گئے ہیں، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ جیسی خطرناک وارداتوں نے سارا نظام درہم برہم کردیا۔ فلم،تھیٹر اور ٹیلی ویژن انڈسٹری کے لوگ جو اس سے ابھی تک بچے ہوئے تھے وہ بھی اس کی لپیٹ میں آگئے،گزشتہ دنوں فنکاروں کو دھمکی آمیز ٹیلی فون موصول ہوئے۔ جس میں بھتہ خوروں نے بھاری رقم کا مطالبہ کیا اور نہ دینے کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ چند فنکاروں اور پروڈیوسرز کو اغوا برائے تاوان کی بھی دھمکی ملی،ا س صورت حال نے فنکاروں کو خوف میں مبتلا کردیا ہے ۔
کچھ لوگوں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ان دھمکیوں کا تذکرہ میڈیا پر نہ کریں ورنہ بھتہ خوروں کے حوصلے بڑھ جائیں گے، جنہیں ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ فنکاروں کی آمدنی کیا ہے اور وہ کس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں، چند ماہ قبل معروف گلوکار علی حیدر کو اغواء کرنے اور ان کے اہل خانہ سے رقم کے لیے فون پر دھمکی دی گئی۔علی حیدر ان دنوں بھارت کے دورے پر تھے انہوں نے حکومت کو اس واقعہ سے آگاہ کیا وہ اس دھمکی کے بعد اپنا بھارت کا دورہ نا مکمل چھوڑکر پاکستان آگئے انہوں نے عدم تحفظ کی وجہ سے اپنی سرگرمیاں کم کردیں۔ ٹیلی ویژن کی ایک اور ادکارہ سجل کو بھی گزشتہ دنوں بھتہ خوروں نے دھمکی آمیز فون کرکے بھاری رقم کا مطالبہ کیا رقم نہ ملنے پر انھیں اور ان کے اہل خانہ کو قتل کی بھی دھمکی دی گئی۔
جس کے بعد انہوں نے دوسرے شہر جاکر سکون کا سانس لیا لیکن وہ اب بھی خوف زدہ ہیں ،اس واقعہ کے بعد فنکاروںمیں بہت زیادہ خوف پایا جاتا ہے۔ فنکاروں نے اس بارے حکومت سے بارہا اپیل کی کہ وہ ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کریں، لیکن تاحال حکومت بے بس نظر آتی ہے۔ کراچی میں روز انہ ایک درجن سے زائد افراد بے گناہ قتل کیے جارہے ہیں، لیکن ٹارگٹ کلنگ کو اب تک نہیں روکا جاسکا، کراچی میں ایک دور وہ بھی تھا جب اس شہر کی راتیںجاگتی تھی، لوگ رات گئے تفریح کی غرض سے اپنے گھروں سے نکلتے تھے اور بلا خوف خطر ہوٹلوں اور تفریح مقامات جاکر لطف اندوز ہوتے تھے لیکن نہ جانے اس شہر کو کس کی نظر لگ گئی دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہرخوف کی علامت بن گیا، جہاں دہشت گرد،بھتہ خور اور ٹارگٹ کلر جدید اسلحہ لیے دندناتے پھر رہے ہیں اور ان کو روکنے والا کوئی نہیں۔
حکومت بھی بے بس ہے کراچی کے شہری حکومت سے یہ سوال کرررہے ہیں کہ ہماری حفاظت کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے ہمارا تحفظ کون کرے گا، کراچی میں سنیما کا بزنس مکمل طور پر تباہ ہوگیا، سنیماؤں میں ہونے والا آخری شو اب نہیں ہوتا ،اس لیے کہ لوگ رات کو اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلتے، کراچی میں تھیٹر کی سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں، گزشتہ دوسال سے کراچی میں کمرشل تھیٹر نہیں ہورہا شہر میں جہاں روز انہ میوزیکل پروگرام اور بڑے بڑے کنسرٹ ہوا کرتے تھے اب ان کا بھی وجود ختم ہوگیا۔ فنکاروں کو مالی طور سے بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، خاص طور سے روز انہ کی بنیادپرکام کرنے والوں کے گھروں میں فاقوں کی نبوت آچکی ہے۔ کراچی میں اب صرف آرٹس کونسل کے تھیٹر آڈیٹوریم میں ڈرامے ہورہے ہیں۔
سٹی اور نیوی آڈیٹوریم میں اب کوئی ثقافتی پروگرام نہیں ہورہا، بہت سے فنکار دوسرے شہر منتقل ہوگئے ہیں ،کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی وجہ سے بھی فنکار بہت خوف زدہ ہیں وہ جب رات گئے کسی ریکارڈنگ یا پروگرام سے نکلتے ہیں تو گن پوائنٹ پر ان سے موبائل اور نقدی چھین لی جاتی ہے ان وار داتوں کی وجہ سے بہت سے فنکار متاثر ہوئے جو خوف زدہ ہوکر پولیس میں رپورٹ بھی نہیں درج کراتے، گزشتہ چند سالوں سے پاکستان کے بہت سے نامور اداکار گلوکار بیرون ملک منتقل ہوگئے، انہوں نے اپنی فیملی کو بھی پاکستان سے منتقل کرلیا، فنکاروں کا کہنا ہے ہمارا کسی سیاسی جماعت یا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہم تو صرف اپنے کام سے کام رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود اگر ہمیں بھی خوف زدہ کیا جائے گا تو پھر کام کرنا مشکل ہوجائے گا۔
کراچی میں ان دنوں ٹیلی ویژن انڈسٹری نہ صرف ترقی کی طرف گامزن ہے بلکہ یہاں بہت زیادہ کام ہورہا ہے، لاہور اور اسلام آباد کے بہت سے نامور فنکار اسی وجہ سے کراچی منتقل ہوچکے ہیں اگر یہی صورت حال رہی تھی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ٹیلی ویژن اندسٹری کا مستقبل کیا ہوگا، اب جبکہ کراچی میں فلمیں بنانے کا بھی عمل شروع ہوچکا ہے اس صورتحال میں جبکہ حالات بہت تشویشناک ہیں فلم سازی کا عمل کیسے جاری رہ سکے گا۔ کراچی میںان دنوں تھیٹر بھی بہت کامیابی سے ہورہا ہے، امن و امان کی اس خراب صورتحال میں بھی اگر شہر کراچی میں لوگ عوام کی تفریح کے لیے کام کررہے ہیں اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس عزم سے کام کررہے ہیں کہ شہر کی رونقیں واپس آجائیں، تو یہ بہت جرات اور ہمت کی بات ہے لیکن اس خوفناک صورتحال کا وہ کب تک مقابلہ کرسکیں گے،اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
حکومت وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فنکاروں کو اور شو بز سے تعلق رکھنے والوں کو مکمل تحفظ فراہم کرے،کیونکہ شو بز سے تعلق رکھنے والے یہی لوگ سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں اور انہیںبھی کوئی تحفظ نہ مل سکا تو یہ بہت بڑا المیہ ہوگا۔ اب جبکہ گزشتہ کی سالوں سے بحران کا شکار فلم انڈسٹری کے اچھے دور کا آغاز ہونے والا ہے اور لوگ فلم انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہیں ان حالات میں یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوگا، ٹیلی ویژن انڈسٹری کا مستقبل بھی متاثر ہوسکتا ہے،فلم سازی کا عمل بھی رک سکتا ہے، اس بارے میں اب فنکاروںاور شوبز سے وابستہ افراد کو کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا، ایک بڑے وفد کی صورت میں گورنر سندھ ڈاکٹرعشرت العباد اور وزیر اعلیٰ سندھ قائم علیشاہ سے ملاقات کرکے ان اپنے تحفظات پر بات کرنا ہوگی کیونکہ اب آنے ولا وقت مزیدخطرناک صورت حال کی نشاندہی کررہا ہے !!
وہاں بہت سے شعبوں کو بھی کام کرنے کا موقع نہیں مل رہا،سرمایہ کاری کرنے والے بہت سے ادارے پاکستان سے شفٹ ہوکر دوسرے ممالک چلے گئے ہیں، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ جیسی خطرناک وارداتوں نے سارا نظام درہم برہم کردیا۔ فلم،تھیٹر اور ٹیلی ویژن انڈسٹری کے لوگ جو اس سے ابھی تک بچے ہوئے تھے وہ بھی اس کی لپیٹ میں آگئے،گزشتہ دنوں فنکاروں کو دھمکی آمیز ٹیلی فون موصول ہوئے۔ جس میں بھتہ خوروں نے بھاری رقم کا مطالبہ کیا اور نہ دینے کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ چند فنکاروں اور پروڈیوسرز کو اغوا برائے تاوان کی بھی دھمکی ملی،ا س صورت حال نے فنکاروں کو خوف میں مبتلا کردیا ہے ۔
کچھ لوگوں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ان دھمکیوں کا تذکرہ میڈیا پر نہ کریں ورنہ بھتہ خوروں کے حوصلے بڑھ جائیں گے، جنہیں ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ فنکاروں کی آمدنی کیا ہے اور وہ کس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں، چند ماہ قبل معروف گلوکار علی حیدر کو اغواء کرنے اور ان کے اہل خانہ سے رقم کے لیے فون پر دھمکی دی گئی۔علی حیدر ان دنوں بھارت کے دورے پر تھے انہوں نے حکومت کو اس واقعہ سے آگاہ کیا وہ اس دھمکی کے بعد اپنا بھارت کا دورہ نا مکمل چھوڑکر پاکستان آگئے انہوں نے عدم تحفظ کی وجہ سے اپنی سرگرمیاں کم کردیں۔ ٹیلی ویژن کی ایک اور ادکارہ سجل کو بھی گزشتہ دنوں بھتہ خوروں نے دھمکی آمیز فون کرکے بھاری رقم کا مطالبہ کیا رقم نہ ملنے پر انھیں اور ان کے اہل خانہ کو قتل کی بھی دھمکی دی گئی۔
جس کے بعد انہوں نے دوسرے شہر جاکر سکون کا سانس لیا لیکن وہ اب بھی خوف زدہ ہیں ،اس واقعہ کے بعد فنکاروںمیں بہت زیادہ خوف پایا جاتا ہے۔ فنکاروں نے اس بارے حکومت سے بارہا اپیل کی کہ وہ ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کریں، لیکن تاحال حکومت بے بس نظر آتی ہے۔ کراچی میں روز انہ ایک درجن سے زائد افراد بے گناہ قتل کیے جارہے ہیں، لیکن ٹارگٹ کلنگ کو اب تک نہیں روکا جاسکا، کراچی میں ایک دور وہ بھی تھا جب اس شہر کی راتیںجاگتی تھی، لوگ رات گئے تفریح کی غرض سے اپنے گھروں سے نکلتے تھے اور بلا خوف خطر ہوٹلوں اور تفریح مقامات جاکر لطف اندوز ہوتے تھے لیکن نہ جانے اس شہر کو کس کی نظر لگ گئی دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہرخوف کی علامت بن گیا، جہاں دہشت گرد،بھتہ خور اور ٹارگٹ کلر جدید اسلحہ لیے دندناتے پھر رہے ہیں اور ان کو روکنے والا کوئی نہیں۔
حکومت بھی بے بس ہے کراچی کے شہری حکومت سے یہ سوال کرررہے ہیں کہ ہماری حفاظت کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے ہمارا تحفظ کون کرے گا، کراچی میں سنیما کا بزنس مکمل طور پر تباہ ہوگیا، سنیماؤں میں ہونے والا آخری شو اب نہیں ہوتا ،اس لیے کہ لوگ رات کو اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلتے، کراچی میں تھیٹر کی سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں، گزشتہ دوسال سے کراچی میں کمرشل تھیٹر نہیں ہورہا شہر میں جہاں روز انہ میوزیکل پروگرام اور بڑے بڑے کنسرٹ ہوا کرتے تھے اب ان کا بھی وجود ختم ہوگیا۔ فنکاروں کو مالی طور سے بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، خاص طور سے روز انہ کی بنیادپرکام کرنے والوں کے گھروں میں فاقوں کی نبوت آچکی ہے۔ کراچی میں اب صرف آرٹس کونسل کے تھیٹر آڈیٹوریم میں ڈرامے ہورہے ہیں۔
سٹی اور نیوی آڈیٹوریم میں اب کوئی ثقافتی پروگرام نہیں ہورہا، بہت سے فنکار دوسرے شہر منتقل ہوگئے ہیں ،کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی وجہ سے بھی فنکار بہت خوف زدہ ہیں وہ جب رات گئے کسی ریکارڈنگ یا پروگرام سے نکلتے ہیں تو گن پوائنٹ پر ان سے موبائل اور نقدی چھین لی جاتی ہے ان وار داتوں کی وجہ سے بہت سے فنکار متاثر ہوئے جو خوف زدہ ہوکر پولیس میں رپورٹ بھی نہیں درج کراتے، گزشتہ چند سالوں سے پاکستان کے بہت سے نامور اداکار گلوکار بیرون ملک منتقل ہوگئے، انہوں نے اپنی فیملی کو بھی پاکستان سے منتقل کرلیا، فنکاروں کا کہنا ہے ہمارا کسی سیاسی جماعت یا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہم تو صرف اپنے کام سے کام رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود اگر ہمیں بھی خوف زدہ کیا جائے گا تو پھر کام کرنا مشکل ہوجائے گا۔
کراچی میں ان دنوں ٹیلی ویژن انڈسٹری نہ صرف ترقی کی طرف گامزن ہے بلکہ یہاں بہت زیادہ کام ہورہا ہے، لاہور اور اسلام آباد کے بہت سے نامور فنکار اسی وجہ سے کراچی منتقل ہوچکے ہیں اگر یہی صورت حال رہی تھی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ٹیلی ویژن اندسٹری کا مستقبل کیا ہوگا، اب جبکہ کراچی میں فلمیں بنانے کا بھی عمل شروع ہوچکا ہے اس صورتحال میں جبکہ حالات بہت تشویشناک ہیں فلم سازی کا عمل کیسے جاری رہ سکے گا۔ کراچی میںان دنوں تھیٹر بھی بہت کامیابی سے ہورہا ہے، امن و امان کی اس خراب صورتحال میں بھی اگر شہر کراچی میں لوگ عوام کی تفریح کے لیے کام کررہے ہیں اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس عزم سے کام کررہے ہیں کہ شہر کی رونقیں واپس آجائیں، تو یہ بہت جرات اور ہمت کی بات ہے لیکن اس خوفناک صورتحال کا وہ کب تک مقابلہ کرسکیں گے،اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
حکومت وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فنکاروں کو اور شو بز سے تعلق رکھنے والوں کو مکمل تحفظ فراہم کرے،کیونکہ شو بز سے تعلق رکھنے والے یہی لوگ سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں اور انہیںبھی کوئی تحفظ نہ مل سکا تو یہ بہت بڑا المیہ ہوگا۔ اب جبکہ گزشتہ کی سالوں سے بحران کا شکار فلم انڈسٹری کے اچھے دور کا آغاز ہونے والا ہے اور لوگ فلم انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہیں ان حالات میں یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوگا، ٹیلی ویژن انڈسٹری کا مستقبل بھی متاثر ہوسکتا ہے،فلم سازی کا عمل بھی رک سکتا ہے، اس بارے میں اب فنکاروںاور شوبز سے وابستہ افراد کو کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا، ایک بڑے وفد کی صورت میں گورنر سندھ ڈاکٹرعشرت العباد اور وزیر اعلیٰ سندھ قائم علیشاہ سے ملاقات کرکے ان اپنے تحفظات پر بات کرنا ہوگی کیونکہ اب آنے ولا وقت مزیدخطرناک صورت حال کی نشاندہی کررہا ہے !!