پاکستان کرکٹ کو پیچیدہ مسائل سے نکلنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے

قومی ٹیم کا دورۂ ویسٹ انڈیز کئی کھلاڑیوں کے مستقبل کا تعین کرے گا


Saleem Khaliq July 06, 2013
’’کرکٹ ٹیم کی کارکردگی پاکستان کی آئینہ دار ہے، جب تک ملک میں بہتری نہیں آتی کھیل میں بھی مسائل کا سامنا رہے گا۔‘‘ فوٹو : فائل

کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ ''کرکٹ ٹیم کی کارکردگی پاکستان کی آئینہ دار ہے، جب تک ملک میں بہتری نہیں آتی کھیل میں بھی مسائل کا سامنا رہے گا۔''

ملک میں دہشت گردی عروج پر ہے جس کی وجہ سے انٹرنیشنل مقابلے نہیں ہو رہے، کرپشن زوروں پر رہی جس کی وجہ سے کرکٹرز و امپائرز بھی بے لگام ہو گئے اور بغیر کسی خوف کے فکسنگ کی، اسی طرح دیگر کئی ملکی معاملات کا تعلق بھی کرکٹ کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے، اس لیے ایک بات تو طے ہے کہ جب تک ملک میں معاملات نہیں سدھرتے کھیل کے معاملات میں کسی ڈرامائی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ان دنوں چیئرمین پی سی بی کا منصب عبوری طور پر نجم سیٹھی نے سنبھالا ہوا ہے، انھیں نئے بورڈ چیف کا انتخاب کرنے کے لیے تین ماہ کا وقت دیا گیا یقینا ً اتنے کم وقت میں وہ سب کچھ ٹھیک نہیں کر سکتے، البتہ معروف صحافی ہونے کے ناطے وہ بعض بولڈ فیصلے کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ نجم سیٹھی نے آغاز دفاعی انداز میں کیا شائد وہ خود اس حقیقت سے واقف ہیں کہ کرکٹ بورڈ کے پیچیدہ معاملات سنبھالنا آسان نہیں۔ اسی لیے گذشتہ دنوں یہ بیان دیاکہ ''پاکستان کرکٹ بہت پیچھے چلی گئی، کئی مسائل کا سامنا ہے۔'' اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یہ باور کرا رہے ہیں کہ مجھ سے غیر معمولی توقعات نہ رکھی جائیں۔

آئی سی سی میٹنگ میں انھوں نے دیگر بورڈ آفیشلز کے ہمراہ پاکستان کی نمائندگی کی۔ اس دوران آئندہ 10سال تک کسی انٹرنیشنل ایونٹ کی میزبانی نہ ملنے کا حکم صادر ہوا۔ ایسا کسی صورت نہیں ہونا چاہیے تھا، یہ درست ہے کہ ملک کے حالات اچھے نہیں لیکن دس سال بہت بڑا عرصہ ہوتا ہے، کیا پتا اس دوران کوئی بہتری آ جائے۔ اگر انٹرنیشنل کونسل کو یہ باور کرا کے کسی ایونٹ کی مشروط میزبانی حاصل کر لی جاتی تو اچھا رہتا جیسے5سال بعد فلاں ٹورنامنٹ ہو رہا ہے۔ اگر اس وقت تک پاکستان میں حالات سازگار ہوئے تو میزبانی کرے گا ورنہ ایونٹ کسی دوسرے ملک منتقل کر دیا جائے گا لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا۔

اب شائقین کرکٹ کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔ وہ نوجوان جو اسٹیڈیم میں انٹرنیشنل میچ دیکھ کر ہلا گلا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں انھیں اب شائد اس عمر میں یہ موقع ملے جب وہ شور شرابہ کرتے اچھے نہیں لگیں گے، جس طرح پاکستان سے کرکٹ دور جانے لگی، خدشہ ہے کہ کہیں ہم جیسے لوگ اپنی اگلی نسلوں کوفخر سے یہ کہانیاں نہ سنایا کریں کہ ''یہ وہ نیشنل اسٹیڈیم ہے جہاں بیٹھ کر میں نے شاہدآفریدی، یونس خان اور مصباح الحق کو ایکشن میں دیکھا تھا''۔ آئی سی سی کے حالیہ فیصلے نے دیگر بورڈز کو بھی جواز فراہم کر دیا، اب کئی سال بعد بھی کوئی ٹیم پاکستان آنے کو تیار نہ ہو گی، یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر حکومت کو ہی کچھ کرنا پڑے گا، وزیر اعظم میاں نواز شریف خود کرکٹر رہ چکے ہیں، یقیناً ان کی بھی خواہش ہو گی کہ کسی ملکی اسٹیڈیم میں جا کر پلیئرز کو ایکشن میں دیکھیں، اگر حکومتی سطح پر دیگر ممالک کو سیکیورٹی کی یقین دہانی کرائی گئی تب ہی کچھ بہتری آئے گی، ابتدا بنگلہ دیش یا زمبابوے سے ہی کر لی جائے توشائد معاملہ آگے بڑھے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر حالات کو کوسنے سے کچھ نہیں ہو گا۔

اسپاٹ فکسنگ کیس میں سزا یافتہ عامر کے لیے جس طرح عالمی سطح پر آواز اٹھائی گئی اسے درست قرار نہیں دیا جا سکتا، وہ کوئی مچھیرا نہیں تھا جسے غلطی سے سمندری حدود پار کرنے پر بھارت نے گرفتار کر لیا تو رحم کی درخواست کی جائے، نوجوان پیسر نے جانتے بوجھتے ہوئے رقم کے عوض نوبال کی، اس پر جتنی سزا سلمان بٹ اور آصف کو ملنی چاہیے اس کا عامر بھی حقدار ہے۔ '' بچہ'' قرار دے کر معافی دلانے کی کوشش درست نہیں، ذرا ٹیم میں شامل دیگر کھلاڑیوں سے پوچھا جائے کہ اس ''بچے'' کی کیا حرکتیں تھیں، بڑے بھی جو کام کرنے سے ڈرتے وہ آرام سے کر جاتا تھا، باؤنڈری لائن پر لڑکیوں کے قریب فیلڈنگ کرنے کے لیے ساتھی کرکٹر سے لڑائی کوئی '' بچہ'' نہیں کر سکتا،اگر کونسل کی قائم شدہ کمیٹی نے عامر کی سزا میں کمی کر دی تو اسے پاکستانی کامیابی نہیں سمجھنا چاہیے،نجم سیٹھی اپنے ٹی وی پروگرامز میں تو کرپٹ لوگوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں مگر نجانے کیوں عامر کے لیے ہمدردی کے جذبات رکھتے ہیں، وہ یہ سوچیں کہ عامر اور دیگر نے جو کچھ کیا اس سے ملک کی کتنی بدنامی ہوئی، ہمارے کرکٹرز پر بے ایمانوںکا لیبل لگ گیا، ایسے لوگوں کی حمایت جیسے نان ایشوز میں پڑنے کے بجائے وہ ملکی کرکٹ کو درپیش اصل مسائل پر توجہ دیں گے تو مناسب ہو گا،ٹیلنٹ کی کمی کے باوجود اب بھی پاکستان میں ایسے پیسرز موجود ہیں جو عامر کی کمی پوری کر دیں ، جنید خان پر محنت کی جائے تو وہ اچھا بولربن سکتا ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی، حادثات اور کئی بڑے بڑے واقعات ہوتے ہیں مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے عہدہ چھوڑ دیا ہو، کرکٹ بھی ظاہر ہے ایسے ہی لوگ چلا رہے ہیں، اس لیے کچھ بھی ہو جائے کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی، اسپاٹ فکسنگ کیس سامنے آیا سابق چیئرمین بورڈ اعجاز بٹ الٹا انگلینڈ کے پیچھے پڑ گئے، یہ اور بات ہے کہ بعد میں شرم سے سر جھکانا پڑا، اسی طرح ٹیم چیمپئنز ٹرافی کے تینوں میچز میں شرمناک شکست کا شکار ہوئی کسی کا کچھ نہ بگڑا، البتہ ملکی کرکٹ سے حقیقی محبت کرنے والے خون کے آنسو روتے رہے، وہ لوگ جو کروڑوں روپے کماتے ہیں وہ ویسے ہی خوش رہے، کئی نے اہل خانہ کے ساتھ انگلینڈ میں ہی مزید چھٹیاں گزارنے کا پلان بنا لیا اور پھر ڈھٹائی سے چیونگم چباتے ہوئے ایئرپورٹ سے ایسے باہر آئے جیسے کوئی قلعہ فتح کر لیا ہو،

کپتان مصباح الحق نے بعد میں میڈیا پر آکر ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کیا مگر اس سے کیا فرق پڑا، ماضی میں آسٹریلیا میں جب ٹیم کو شرمناک شکست ہوئی تو اس وقت چیف سلیکٹر اقبال قاسم مستعفی ہو گئے تھے، اب انھوں نے ایسا نہ کیا اور جب انھیں یقین ہو گیا کہ نئے چیئرمین نجم سیٹھی مزید کام کرانے کے موڈ میں نہیں ہیں تو نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے عہدہ چھوڑ دیا، ماضی میں چیف سلیکٹر کی ذمہ داری انجام دینے والے کئی سابق کرکٹرز اب ایک بار پھر تصور میںاپنے آپ کو میڈیا کے کیمروں کے سامنے انٹرویوز دیتے دیکھ رہے ہیں، بعض نے اپنے نام اخبارات میں بھی چھپوا دیے تاکہ چیئرمین کو یاد رہے کہ یہ بھی دوڑ میں شامل ہیں، نیا چیف سلیکٹر ایسا ہونا چاہیے جو فٹ اورمتحرک ہو، وہ گراؤنڈ میں جا کر خود کھلاڑیوں کی کارکردگی کا جائزہ بھی لے سکے،اسے پیسے کی لالچ نہ ہو اور کسی کے دباؤ میں بھی نہ آتا ہو، پاکستان ابھی اچھے لوگوں سے خالی نہیں ہوا، چیئرمین بورڈ کو بس تلاش کرنا ہو گی کئی لوگ مل جائیں گے۔

اسپاٹ فکسر سلمان بٹ کو سچ زبان پر لانے میں تین سال لگے، دراصل جو لوگ اس لیول پر ملک کا نام ڈبو چکے ہوتے ہیں ان میں شرم نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہوتی، اگر اس کا ثبوت چاہیے تو سلمان بٹ کی وہ تصویر دیکھ لیں جس میں وہ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہوئے مسکرا رہے ہیں،کاش ان کی یہ جھوٹی معافی پاکستان کرکٹ کا کھویا ہوا وقار واپس لا سکتی، کاش اس مسکراہٹ سے جو طعنے انگلینڈ میں مقیم پاکستانیوں کو سننے پڑے ان کا مداوا ہو جاتا، دنیا میں معافی مانگتے ہوئے انسان رو پڑتا ہے ہمارے یہاں معاملہ ہی الٹ ہے۔ اب دانش کنیریا بھی انہی کی راہ پر چلتے ہوئے خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، گذشتہ دنوں ایڈیٹر ایکسپریس طاہر نجمی صاحب کو جب صفحہ دکھانے گیا تو کنیریا کی خبر دیکھ کر انھوں نے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ ''یہ وہی صاحب ہیں ناں جنھوں نے آپ کی مجھ سے شکایت کرتے ہوئے لیگل نوٹس بھیجنے کی دھمکی دی تھی'' میں نے جواب دیا کہ '' جی سر یہ وہی ہیں مگر آپ نے بھی انھیں خوب جواب دیا تھا کہ پلٹ کر ان کا دوبارہ فون نہ آیا'' کنیریا نے ابتدا سے ہی میڈیا کو جھوٹا اور خود کو سچا ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہوا تھا، اب بھی ان کی ڈھٹائی برقرار ہے بلکہ اب انھوں نے اپنا آخری کارڈ شو کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ '' اقلیت میں ہونے کی وجہ سے انھیں سپورٹ نہیں کیا جا رہا'' کوئی ان سے یہ پوچھے کہ اگر کسی نے ہندو ہونے کے سبب ان سے امتیاز برتا ہوتا تو کیا وہ پاکستان کے لیے 61ٹیسٹ اور18 ون ڈے کھیل سکتے تھے،اگر کسی لمحے ان کی بات مان بھی لے جائے تو سلمان بٹ، عامر اور آصف تو اکثریت سے تعلق رکھتے ہیں، اسپاٹ فکسنگ کیس میں انھیں سزا کی کیوں حمایت کی گئی، دانش کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے، جس پاکستان نے انھیں سولجر بازار سے کراچی کے پوش علاقے کلفٹن تک پہنچایا، جس کی وجہ سے وہ بیرون ملک فائیواسٹارز ہوٹلز میں پُرآسائش زندگی گذارنے کے قابل ہوئے، جہاز میں بزنس کلاس میں سفر کیا، کروڑوں جائز روپے بھی کمائے، اس کے ساتھ انھوں نے کیا سلوک کیا؟ دنیا بھر میں نام ڈبو دیا، اب انھیں ہوش کے ناخن لیتے ہوئے معافی مانگ لینی چاہیے، یہ قوم بڑے دل کی مالک ہے ایک آنسو بہاؤ گے سب بھول جائے گی ہاں اگر سلمان کی طرح تین سال بعد ڈھٹائی سے مسکراتے ہوئے معافی مانگی تو مزید رسوائی ہی مقدر بنے گی۔

عبوری چیئرمین نجم سیٹھی کی آمد سے پی سی بی میں بغیر کچھ کیے بھاری تنخواہیں بٹورنے والوں کو اپنی کرسی ہلتے محسوس ہونے لگی ہے، ڈائریکٹر جنرل جاوید میانداد نے بھی گذشتہ دنوں میڈیا کو اپنی سیلری سلپ بھی دکھا دی کہ دیکھو مجھے تو 5لاکھ21ہزار682روپے ماہانہ ہی ملتے ہیں،یہ وہ تنخواہ ہے جو شائد بڑے ایگزیکٹیوز کو بھی نہ ملتی ہو، مفت کے پیٹرول، کار، موبائل فون اور دیگر سہولتوں کا انھوں نے ذکر نہیں کیا، اب تک کروڑوں روپے وہ اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کرا چکے مگر بدلے میں بورڈ میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جس پر فخر کر سکیں، البتہ کرکٹ فیلڈ میں ان کی جو خدمات ہیں ان سے کوئی انکار نہیں کرے گا مگر اس بنیاد پر بھاری تنخواہ دینے کا کوئی جوازنہیں ہے، شارجہ میں آخری گیند پر چھکے اور ورلڈکپ 1992میں فتح پر ان پر انعامات کی بارش بھی تو ہوئی تھی، سابقہ خدمات کی بنیاد پر ماہانہ تنخواہ لینے کے لیے اگر ظہیر عباس، عمران خان اور ماجد خان بھی اٹھ کھڑے ہوئے تو بورڈ کا کیا ہو گا؟میانداد کو اپنے اصل کام کی طرف آنا چاہیے، ٹھنڈے کمرے میں آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر منصوبے بنانے سے کچھ حاصل نہیں ہونا، ان دنوں ملک میں ٹیلنٹ کی کمی ہے میانداد کو نئے پلیئرز تلاش کرنے چاہئیں جس سے ٹیم کو فائدہ ہو گا۔

پاکستان کرکٹ ٹیم ویسٹ انڈیز روانہ ہو رہی ہے، یہ دورہ آسان نہیں، چیمپئنز ٹرافی میں بدترین شکست کے بعد بحالی ساکھ کے لیے مصباح الحق الیون کو خاصی محنت کرنا ہو گی، کوچ ڈیوواٹمور بھی خاصے دباؤ میں ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس طرح پلیئرز کی کارکردگی میں نکھار لاتے ہیں، میزبان سائیڈ خاصی مضبوط اور کرس گیل جیسے کئی جلاد صفت بیٹسمین موجود ہیں، انھیں قابو کرنے میں نوجوان پیس اٹیک کو دشواری پیش آ سکتی ہے، سلیکشن کمیٹی جاتے جاتے ایک اچھا کام شاہدآفریدی کو ٹیم میں واپس لانے کی صورت میں کر گئی، یہ درست ہے کہ اعدادوشمار ان کا ساتھ نہیں دے رہے مگر پاکستان کو ان جیسے دلیر کرکٹرز کی ضرورت ہے، جب ان کا بیٹ چلا یا گیند گھومی تو ٹیم کو فتح دلا کر ہی دم لیں گے، ایسی خوبی کتنے موجودہ پلیئرز میں ہے؟ اسی طرح عمر اکمل اور احمد شہزاد بھی جارح انداز سے کھیلتے والے پُراعتماد کرکٹرز ہیں، ان تینوں کی موجودگی سے یقینا کارکردگی میں مثبت فرق آنے کا امکان ہے، یہ سیریز محمد حفیظ کے کیریئر کا بھی تعین کرے گی، مزید ناکامیوں کی صورت میں نہ صرف انھیں ٹی ٹوئنٹی کی قیادت بلکہ ٹیم میں جگہ سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں، دوسروں کے کھیل میں بہتری کے لیے '' پروفیسری'' جھاڑنے کے بجائے انھیں خود اپنی کارکردگی ٹھیک کرنے پر توجہ دینی چاہیے، حالیہ تبدیلیوں کے بعد قومی ٹیم اب زیادہ متوازن نظر آتی ہے، ویسٹ انڈیز میں فتح کی بدولت شائقین کا کھویا ہوا اعتماد کچھ واپس لایا جا سکتا ہے،اگر متواترشکستوں کا سلسلہ جاری رہا تو کرکٹ کا حال بھی ہاکی جیسا ہو گا جس میں ٹیم جیتے یا ہارے کسی کو دلچسپی ہی نہیں ہوتی۔n

[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

تشویشناک صورتحال

Dec 28, 2024 01:16 AM |

چاول کی برآمدات

Dec 28, 2024 01:12 AM |

ملتے جلتے خیالات

Dec 28, 2024 01:08 AM |