بجلی کی قلت پر ورلڈ بینک کی رپورٹ
توانائی کی ضرورت جدید دور کے ہر انسان کو ہے، لیکن توانائی پیدا کرنے کے لیے ہم نے ماحول کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
عالمی بینک کے مطابق پاکستانی معیشت کو 2015ء میں بجلی کی قلت سے17.17 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے، دوسری جانب ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں پچیس کروڑ افراد بجلی کے بغیر رہ رہے ہیں۔ خطے میں بجلی کا استعمال عالمی اوسط کا ایک چوتھائی بھی نہیں۔ توانائی کی ضرورت جدید دور کے ہر انسان کو ہے، لیکن توانائی پیدا کرنے کے لیے ہم نے ماحول کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق کہ اس صدی میں عالمی سطح پر اوسطاً درجہ ِ حرارت میں دو ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ اضافہ نہیں ہونا چاہیے، ورنہ عالمی سطح پر موسم بدل جائیں گے، فصلیں تباہ ہو جائیں گی اورگلیشئیرز پگھلنا شروع ہو جائیں گے، لیکن اس سب کے لیے ضروری ہے کہ 2020ء تک فضاء میں عالمی سطح پرکاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو مجموعی طور پر 44بلین ٹن کی سطح تک لایا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ توانائی کے متبادل ذرائع اختیار کیے جائیں۔
دنیا کی تمام اقوام ان مسائل کو حل کرنے کے لیے سرجوڑ کر بیٹھیں اور ہر ملک نے اپنی اپنی سطح پر اقدامات اٹھائے بھی ہیں لیکن اصل مسئلہ چالیس سے زائد غریب، پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کا ہے۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق خطے میں توانائی منصوبوں کے آٹھ اعشاریہ چھ ارب ڈالرکے مالی تعاون کے معاہدے کیے گئے، عالمی بینک کی توجہ کم کاربن اخراج اور متبادل توانائی کے ذرائع پر ہے۔ متبادل ذرائع توانائی جس میں پانی، ہوا، شمسی اور جیو تھرمل توانائی کے ایسے ذرائع ہیںجن سے کم سے کم کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے اور اس طرح کم سے کم ماحول خراب ہوتا ہے۔
رب کائنات نے پاکستان کو بے تحاشا متبادل ذرائع توانائی سے نوازا ہے، مگر افسوس کی بات ہے کہ ہم توانائی کے متبادل ذرائع استعمال نہیں کرتے۔ توانائی کے ان متبادل ذرائع میں پانی سے بجلی، شمسی توانائی، ہوا سے بجلی اور اس کے علاوہ دیگر اور ذرائع ہیں۔
تھر میں کوئلے سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے، قدرتی گیس سے بھی بجلی پیدا کی جا رہی ہے لیکن آبی ذخائر موجود نہ ہونے کے سبب سستے ترین ذریعے پانی کو ہم استعمال نہیں کر رہے ہیں، دو ڈیمز کے علاوہ ہم ابھی تک ڈیمز نہیں بنا سکے۔ پاکستان میں توانائی کے شعبے میں اصلاحات کرنے سے بجلی کی قیمت کم، آمدنی میں اضافہ، ماحولیاتی آلودگی کم اور محصولات بڑھیں گی۔ ہمیں آنے والی نسلوں کی بقا کے لیے توانائی کے متبادل ذرائع کو اختیار کرنا ہو گا ۔
سائنسدانوں کے مطابق کہ اس صدی میں عالمی سطح پر اوسطاً درجہ ِ حرارت میں دو ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ اضافہ نہیں ہونا چاہیے، ورنہ عالمی سطح پر موسم بدل جائیں گے، فصلیں تباہ ہو جائیں گی اورگلیشئیرز پگھلنا شروع ہو جائیں گے، لیکن اس سب کے لیے ضروری ہے کہ 2020ء تک فضاء میں عالمی سطح پرکاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو مجموعی طور پر 44بلین ٹن کی سطح تک لایا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ توانائی کے متبادل ذرائع اختیار کیے جائیں۔
دنیا کی تمام اقوام ان مسائل کو حل کرنے کے لیے سرجوڑ کر بیٹھیں اور ہر ملک نے اپنی اپنی سطح پر اقدامات اٹھائے بھی ہیں لیکن اصل مسئلہ چالیس سے زائد غریب، پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کا ہے۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق خطے میں توانائی منصوبوں کے آٹھ اعشاریہ چھ ارب ڈالرکے مالی تعاون کے معاہدے کیے گئے، عالمی بینک کی توجہ کم کاربن اخراج اور متبادل توانائی کے ذرائع پر ہے۔ متبادل ذرائع توانائی جس میں پانی، ہوا، شمسی اور جیو تھرمل توانائی کے ایسے ذرائع ہیںجن سے کم سے کم کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے اور اس طرح کم سے کم ماحول خراب ہوتا ہے۔
رب کائنات نے پاکستان کو بے تحاشا متبادل ذرائع توانائی سے نوازا ہے، مگر افسوس کی بات ہے کہ ہم توانائی کے متبادل ذرائع استعمال نہیں کرتے۔ توانائی کے ان متبادل ذرائع میں پانی سے بجلی، شمسی توانائی، ہوا سے بجلی اور اس کے علاوہ دیگر اور ذرائع ہیں۔
تھر میں کوئلے سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے، قدرتی گیس سے بھی بجلی پیدا کی جا رہی ہے لیکن آبی ذخائر موجود نہ ہونے کے سبب سستے ترین ذریعے پانی کو ہم استعمال نہیں کر رہے ہیں، دو ڈیمز کے علاوہ ہم ابھی تک ڈیمز نہیں بنا سکے۔ پاکستان میں توانائی کے شعبے میں اصلاحات کرنے سے بجلی کی قیمت کم، آمدنی میں اضافہ، ماحولیاتی آلودگی کم اور محصولات بڑھیں گی۔ ہمیں آنے والی نسلوں کی بقا کے لیے توانائی کے متبادل ذرائع کو اختیار کرنا ہو گا ۔