تنازعہ کشمیر اور بھارت کا کردار
بھارت کو زمینی حقائق کا ادراک کرنا چاہیے ‘آج کی دنیا جنگوں کی دنیا نہیں ہے بلکہ تجارت کی دنیا ہے۔
بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں ایک بار پھر آزادی کی تحریک نے شدت اختیار کر لی ہے۔ویسے تو یہ تحریک 70برس سے جاری ہے لیکن وقفے وقفے سے اس کی شدت میں کمی اور اضافہ ہوتا رہتا ہے لیکن اس بار معاملہ خاصا سنگین ہو چکا ہے۔ بھارتی سیکیورٹی فورسز کے مظالم میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق بھارتی فوج کے ہاتھوں11 کشمیریوں کی شہادت پر گزشتہ روز وادی میں مکمل ہڑتال کی گئی جب کہ حریت رہنما یاسین ملک اور میر واعظ عمر فاروق کو گرفتار کر لیاگیا ہے۔مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر او آئی سی نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیریوں کا قتل عام دہشت گردی ہے جس کی مذمت کرتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق بھارتی مظالم کے خلاف حریت قیادت نے تین روزہ ہڑتال کی کال دی ہے جس کے باعث وادی میںپیر کو بھی مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی۔ حریت رہنما میر واعظ اور یاسین ملک کواس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ سرینگر میں بھارتی فوج کے ہیڈ کوارٹر کی طرف مارچ کر رہے تھے۔ احتجاجی مارچ کو روکنے کے لیے قابض حکام نے سرینگر کے بادامی باغ میں واقع فوجی چھاؤنی کے ارد گرد 10 کلومیٹر کے علاقے میں کرفیو نافذ کیے رکھا۔
مقبوضہ کشمیر کا تنازعہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے' دنیا کی طاقتور اقوام سے لے کر افریقہ اور ایشیا کے پسماندہ ممالک تک اس تنازعے سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ لیکن افسوسناک امر یہی ہے کہ اس تنازعے کے حل کے لیے طاقتور اقوام نے اپنا حقیقی کردار ادا نہیں کیا۔ یورپ میں بوسنیا کے ایشو کو کسی نہ کسی انداز میں حل کر لیا گیا ہے' مشرقی تیمور کے ایشو کو بھی فوراً حل کیا گیا 'جنوبی سوڈان کو بھی آزادی دلا دی گئی لیکن کشمیر کی طرف بڑی طاقتوں کی کوئی توجہ نہیں ہے۔
یہی حال تنازعہ فلسطین کا ہے 'یہ دو مسئلے ایسے ہیں جو اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر آج بھی موجود ہیں لیکن ان کے حل کی جانب حقیقی پیشرفت نہیں ہو رہی۔پاکستان اپنی بساط کے مطابق کشمیریوں کی سفارتی مدد کر رہا ہے لیکن اس حوالے سے بھارت دنیا میں منفی پروپیگنڈا کرتے ہوئے کشمیریوں کی تحریک کو دہشت گردی قرار دینے پر کمر بستہ ہے۔ پاکستان آج بھی کشمیریوں کا ہر ممکن ساتھ دے رہا ہے۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم وجارحیت کے خلاف مذمتی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کرلی۔قرارداد میں کہا گیاہے کہ قومی اسمبلی مقبوضہ کشمیر کے بہادر اور غیور عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے بھارتی فوج کے ہاتھوں14کشمیریوں کی شہادت کی سخت مذمت کرتی ہے۔ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت حق خوداردیت دیا جائے جب کہ بھارتی مظالم رکوانے کے لیے عالمی برادری کردار ادا کرے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے مظالم پر ٹویٹر پر جاری اپنے بیان میں کہا ہے معصوم کشمیریوں اور لائن آف کنٹرول کے پار سویلین آبادی کو نشانہ بنانے کی بھارتی مقبوضہ فورسز کی ریاستی دہشت گردی انتہائی قابل مذمت ہے، بھارتی فوج پیشہ وارانہ سپاہیوں کی اخلاقیات کا خیال رکھے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ بھارت پر جب تک حقیقی معنوں میں عالمی دباؤ نہیں پڑے گا وہ تنازعہ کشمیر کو حل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔
ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے جو بھی کوششیں ہوئیں 'انھیں سبوتاژ کیا ہے۔ بھارتی قیادت کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ جب تک کشمیر کا تنازعہ طے نہیں ہوتا 'جنوبی ایشیا میں امن کا قیام ممکن نہیں۔ بھارتی قیادت ہر وقت تجارت تجارت کا راگ الاپتی ہے 'تاہم اسے یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی چاہیے کہ تجارت اسی وقت ممکن ہے جب تنازعہ کشمیر طے ہو جائے۔
اگر تنازعہ کشمیر طے ہو جاتا ہے تو بھارت کے لیے وسط ایشیا تک تجارت کے دروازے خود بخود کھل جائیں گے۔ بھارت کی صنعتی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے وسط ایشیا تک تجارت کا محفوظ روٹ مل جائے' اگر تنازعہ کشمیر طے ہوجاتا ہے تو پاکستان بھارت کو یہ سہولت دے سکتا ہے۔ پاکستان اگر بھارت کو یہ سہولت دیتا ہے تو اس کے لیے افغانستان سے لے کر قازقستان تک اور چین کے صوبے سنکیانگ تک کے تجارتی راستے کھل جاتے ہیں۔
بھارت کو زمینی حقائق کا ادراک کرنا چاہیے 'آج کی دنیا جنگوں کی دنیا نہیں ہے بلکہ تجارت کی دنیا ہے۔ بھارتی قیادت کو اس حقیقت کا جلد از جلد ادراک کر لینا چاہیے ۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان نے تو کرتار پور کوریڈور کھول کر اپنی نیک نیتی ثابت کر دی ہے 'اب اس سلسلے میں بھارت کی باری ہے۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق بھارتی فوج کے ہاتھوں11 کشمیریوں کی شہادت پر گزشتہ روز وادی میں مکمل ہڑتال کی گئی جب کہ حریت رہنما یاسین ملک اور میر واعظ عمر فاروق کو گرفتار کر لیاگیا ہے۔مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر او آئی سی نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیریوں کا قتل عام دہشت گردی ہے جس کی مذمت کرتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق بھارتی مظالم کے خلاف حریت قیادت نے تین روزہ ہڑتال کی کال دی ہے جس کے باعث وادی میںپیر کو بھی مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی۔ حریت رہنما میر واعظ اور یاسین ملک کواس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ سرینگر میں بھارتی فوج کے ہیڈ کوارٹر کی طرف مارچ کر رہے تھے۔ احتجاجی مارچ کو روکنے کے لیے قابض حکام نے سرینگر کے بادامی باغ میں واقع فوجی چھاؤنی کے ارد گرد 10 کلومیٹر کے علاقے میں کرفیو نافذ کیے رکھا۔
مقبوضہ کشمیر کا تنازعہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے' دنیا کی طاقتور اقوام سے لے کر افریقہ اور ایشیا کے پسماندہ ممالک تک اس تنازعے سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ لیکن افسوسناک امر یہی ہے کہ اس تنازعے کے حل کے لیے طاقتور اقوام نے اپنا حقیقی کردار ادا نہیں کیا۔ یورپ میں بوسنیا کے ایشو کو کسی نہ کسی انداز میں حل کر لیا گیا ہے' مشرقی تیمور کے ایشو کو بھی فوراً حل کیا گیا 'جنوبی سوڈان کو بھی آزادی دلا دی گئی لیکن کشمیر کی طرف بڑی طاقتوں کی کوئی توجہ نہیں ہے۔
یہی حال تنازعہ فلسطین کا ہے 'یہ دو مسئلے ایسے ہیں جو اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر آج بھی موجود ہیں لیکن ان کے حل کی جانب حقیقی پیشرفت نہیں ہو رہی۔پاکستان اپنی بساط کے مطابق کشمیریوں کی سفارتی مدد کر رہا ہے لیکن اس حوالے سے بھارت دنیا میں منفی پروپیگنڈا کرتے ہوئے کشمیریوں کی تحریک کو دہشت گردی قرار دینے پر کمر بستہ ہے۔ پاکستان آج بھی کشمیریوں کا ہر ممکن ساتھ دے رہا ہے۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم وجارحیت کے خلاف مذمتی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کرلی۔قرارداد میں کہا گیاہے کہ قومی اسمبلی مقبوضہ کشمیر کے بہادر اور غیور عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے بھارتی فوج کے ہاتھوں14کشمیریوں کی شہادت کی سخت مذمت کرتی ہے۔ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت حق خوداردیت دیا جائے جب کہ بھارتی مظالم رکوانے کے لیے عالمی برادری کردار ادا کرے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے مظالم پر ٹویٹر پر جاری اپنے بیان میں کہا ہے معصوم کشمیریوں اور لائن آف کنٹرول کے پار سویلین آبادی کو نشانہ بنانے کی بھارتی مقبوضہ فورسز کی ریاستی دہشت گردی انتہائی قابل مذمت ہے، بھارتی فوج پیشہ وارانہ سپاہیوں کی اخلاقیات کا خیال رکھے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ بھارت پر جب تک حقیقی معنوں میں عالمی دباؤ نہیں پڑے گا وہ تنازعہ کشمیر کو حل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔
ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے جو بھی کوششیں ہوئیں 'انھیں سبوتاژ کیا ہے۔ بھارتی قیادت کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ جب تک کشمیر کا تنازعہ طے نہیں ہوتا 'جنوبی ایشیا میں امن کا قیام ممکن نہیں۔ بھارتی قیادت ہر وقت تجارت تجارت کا راگ الاپتی ہے 'تاہم اسے یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی چاہیے کہ تجارت اسی وقت ممکن ہے جب تنازعہ کشمیر طے ہو جائے۔
اگر تنازعہ کشمیر طے ہو جاتا ہے تو بھارت کے لیے وسط ایشیا تک تجارت کے دروازے خود بخود کھل جائیں گے۔ بھارت کی صنعتی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے وسط ایشیا تک تجارت کا محفوظ روٹ مل جائے' اگر تنازعہ کشمیر طے ہوجاتا ہے تو پاکستان بھارت کو یہ سہولت دے سکتا ہے۔ پاکستان اگر بھارت کو یہ سہولت دیتا ہے تو اس کے لیے افغانستان سے لے کر قازقستان تک اور چین کے صوبے سنکیانگ تک کے تجارتی راستے کھل جاتے ہیں۔
بھارت کو زمینی حقائق کا ادراک کرنا چاہیے 'آج کی دنیا جنگوں کی دنیا نہیں ہے بلکہ تجارت کی دنیا ہے۔ بھارتی قیادت کو اس حقیقت کا جلد از جلد ادراک کر لینا چاہیے ۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان نے تو کرتار پور کوریڈور کھول کر اپنی نیک نیتی ثابت کر دی ہے 'اب اس سلسلے میں بھارت کی باری ہے۔