یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا
پاکستانی سیاست ایسے اندوہناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔ حقائق تاریخ کے صفحات پر درج ہو ہی جاتے ہیں۔
یہ نوے کی دہائی کا زمانہ تھا جب گیارہ سالہ طویل آمرانہ دورکے بعد جمہوریت نے اِس ملک میں ایک بار پھر نئے سرے سے جنم لیا اور عوام کے ووٹوں سے کسی سیاسی پارٹی نے عنان حکومت سنبھالی۔
سیاست اور جمہوریت کو اپنی منشاء کے تابع رکھنے والوں کے لیے یہ لمحہ شاید بہت ناگوار تھا، لہذا کوشش کی گئی کہ کوئی حکومت بھی اپنی دستوری مدت پوری نہ کر پائے۔ اِس مقصد کے لیے جنرل ضیاء کے آئین کی آٹھویں ترمیم کا بے رحمانہ استعمال کیا جاتا رہا۔ 58-2Bکی تلوار سے جمہوری حکومتوں کا قتل ہوتا رہا اور کہ نظام کی ناکامی کا الزام بھی جمہوری حکومتوں کے سر تھوپا جاتا رہا۔
بد عنوانیوں کے الزامات لگا مسلسل چار حکومتوں کو فارغ کیا گیا، لیکن کرپشن کا کوئی الزام ثابت کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی،کچھ سیاستدانوں کو جیل میں ڈال دیاگیا لیکن ضرورت پڑنے پر جیل سے وزارت کا حلف اُٹھانے کے لیے ایوان صدر بھی لایا جاتا رہا۔ میاں صاحب اُن دنوں سیاست میں نئے نئے وارد ہوئے تھے وہ مہربانوں کی اِن چالوں کو سمجھ نہیں سکے۔ انھیں قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ جوگیم وہ آج کسی کے خلاف کھیل رہے ہیں ،کل خود بھی اُس کا شکار ہوسکتے ہیں اور پھر ہوا بھی یونہی، چند سال میں حقیقت میاں صاحب پر واضح ہوگئی۔
1993ء میں جب اُن کی پہلی حکومت معزول کی گئی تو عدلیہ گرچہ میاں صاحب کی حمایت میں کھڑی بھی ہوگئی لیکن صدر اسحاق خان ابھی کہاں ہمت ہار نے والے تھے۔ پنجاب میں مسلم لیگی وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں کے خلاف اپنے ہی ساتھیوں نے منظور وٹوکے ساتھ مل کر عدم اعتماد کی تحریک سے نقشہ ہی بدل ڈالا اور پھر منظور وٹو کے ہاتھوں پنجاب اسمبلی کا توڑے جانا اور لاہور ہائی کورٹ کا اُسے بحال کرتے جانا،طاقتور اورکمزور حلقوں کے بیچ محاذ آرائی کا یہ افسوسناک دور بھی موجود ہے۔
محترمہ بینظیر بھٹو نے وفاقی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کردیا جس کی کمک کے لیے منظور وٹو پہلے سے تیار بیٹھے تھے۔نتیجتاً ڈکٹیشن نہ لینے کا مسمّم ارادہ کرنے والے میاں صاحب نہ صرف ڈکٹیشن لینے پر مجبور ہوئے بلکہ اپنے ہاتھوں سے استعفیٰ لکھ کر تین ماہ کے نگراں دورکے وزیراعظم کے لیے معین قریشی کے نام پر بھی رضا مندی ظاہرکر دی۔
پاکستانی سیاست ایسے اندوہناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔ حقائق تاریخ کے صفحات پر درج ہو ہی جاتے ہیں۔ یہاں کب کون کسی کا منظور نظر بن جائے اور کب کسی کی نظروں سے گرجائے کہ سنبھلنے کا موقعہ بھی نہ ملے اور وہ ہنسنا تو دورکی بات ہے کھل کر رونے بھی نہیںدیا جاتا۔
آج خان صاحب بھی اُنہی اداروں کے منظور نظر ہیں جنکے کبھی خود میاں صاحب ہوا کرتے تھے۔مقتدر قوتوں سے عہد وفا نبھانے کے دعوے جس طرح آج خان صاحب کر رہے ہیں کبھی نواز شریف بھی کیاکرتے تھے ۔ اپنے مخالفوں کے لیے نظروں میں نفرت اور لہجے میں تلخی بھی بالکل اُسی طرح ہے جیسے کبھی میاں صاحب کے انداز تکلم میں ہواکرتی تھی ۔
حالات کی سختی اور زمانے کی سنگینی نے میاں صاحب کو بہت عاجز،کمزور اورکم گو بنادیا ہے لیکن خان صاحب کا جوش اور جذبہ ابھی تازہ تازہ ہے۔ انھیں اقتدارکے مزے لوٹتے ہوئے ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں۔ اداروں کی بھرپور تائیدوحمایت کے جھولے وہ بڑی مسرت اور شادمانی سے جھول رہے ہیں اور اقتدار واختیارات کی ندی میں خوب ڈبکیاں لگا رہے ہیں وہ طاقت کے نشے میں کسی کو خاطر میں بھی نہیں لارہے۔
'' کسی کو این آر او نہیں دوں گا اور سب کو جیلوں میں بند کردوں گا'' جیسے دلفریب جملوں سے وہ اپوزیشن کو خوفزدہ کرنے سے زیادہ خود کو اپنے وزیراعظم بن جانے کا یقین دلا رہے ہوتے ہیں، لیکن شاید انھیں پتہ نہیں کہ یہاں تو دو تہائی اکثریت رکھنے والے حکمراں بھی جب نظروں سے گر جاتے ہیں تودور دور تک اُن کا پتہ نہیں ہوتا۔ یہ بے چارے تو صرف سات ووٹوں کی اکثریت سے نوازے گئے ہیں۔ یہ سات ووٹ کب کسی غیبی اشارے کے ملتے ہی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں کسی معلوم نہیں، ابھی تو نیا نیا معاملہ ہے۔ اِس لیے ہاتھ ہلکا رکھا گیا ہے۔
مزاج اور تیور بدلنے میں دیر نہیں لگا کرتی۔ملک کے معاشی و اقتصادی حالات اتنے کٹھن اوردشوار ہیں کہ خان صاحب پہلے اُنہی سے نمٹ جائیں تو بڑی بات ہے۔ حساس معاملات کو چھیڑنا تو دورکی بات ہے۔ جب وہ وقت آئے گا تو ہم بھی دیکھیں گے کہ خان صاحب کی قابلیت اور لیاقت کیا جوہر اورکرشمہ دکھاتی ہے۔ یہ قوم کا المیہ ہے کہ ایک مضبوط ، ترقی یافتہ اور مستحکم پاکستان کی اُس کی حسرت کبھی پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ دوسروں کا دست نگر، مجبور اور لاچار پاکستان شاید اُس کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے۔
مایوسیوں اور نا امیدیوں کے بادل اُس کے سر سے شاید کبھی چھٹیں گے ہی نہیں۔ لگتا ہے کہ روشن اور خوشحال مستقبل کے خواب ہمیشہ تشنہ تعبیر ہی رہیں گے۔ دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بن جانے اور پاک چائنہ کوریڈور کی تعمیر کے باوجود ہمیں اپنے دیوالیہ ہو جانے کا خوف اور ڈر ہمیشہ ہی لگا رہے گا۔ستر سال سے ہم یہی دیکھتے آئے ہیں۔جب کبھی بھی حالات سازگار ہونے لگتے ہیں، کوئی ناگہانی مصیبت اور آفت دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ہم پر مسلط کر دی جاتی ہے۔
بڑی عالمی طاقتیں تو ہماری دشمن ہیں ہی لیکن ہم خود بھی اپنے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ہم بہت جلد اپنے جمہوری حکمرانوں سے بد دل اور بیزار ہو جاتے ہیں جنھیں ہم بڑی محبت اور چاہ کے ساتھ اپنے ووٹوں سے منتخب کر کے لاتے ہیں، لیکن غیر جمہوری حکمرانوں کو بلا چوں وچرا دس دس سال تک برداشت کرتے رہتے ہیں۔ جمہوریت اور سیاست کی اِس کمزوری اور ناپائیداری کے سبب ہماری پالیسیاں بھی عدم استحکام کا شکار ہوجاتی ہیں۔
ہمارا کوئی منصوبہ اور پروجیکٹ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ پاتا یا پھراُس کے مکمل ہونے میں اتنی تاخیر ہو جاتی ہے کہ اُس کی تمام تر اہمیت وافادیت بے مقصد اور بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کوئی غیر ملکی سرمایہ کار توکجا خود اپنے لوگ بھی سرمایہ کاری سے اجتناب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک شخص آتا ہے جو موٹر ویز اور بڑی بڑی شاہراہوں کو ملک کی ترقی کے لیے ضروری اور اہم قرار دیتا ہے جب کہ دوسرا شخص اِسے غیر ضروری اور فضول کہہ کریکسر مسترد کردیتا ہے۔
ہمارے قیمتی پچیس سال اِسی کشمکش میں گزر جاتے ہیں اور ہمیں شاہراہوں کی اہمیت اُس وقت سمجھ میں آتی ہے جب کوئی دوسرا ملک ہمیں ''سی پیک'' کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کرتا ہے۔ ہمارا اپنا کوئی ذہن اور وژن نہیں ہے۔ ہم یونہی دوسروں کے رحم وکرم پر اپنی زندگیاں گزارتے رہیں گے۔ یہی اِس ملک وقوم کا نوحہ ہے جسے ہم ہرچار پانچ سال بعد اپنے آپ کو سنا سنا کر چپ چاپ رو لیتے ہیں لیکن آگے بڑھ کر اُسے ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔