پناہ گاہیں ایک قابل تعریف کام لیکن
تحریک انصاف کے انداز حکومت اور سیاسی فلسفہ سے اختلاف اپنی جگہ لیکن پناہ گاہوں کی حمایت اور تعریف اپنی جگہ۔
لاہور:
ملک کا سیاسی منظر نامہ روز بروز دلچسپ سے دلچسپ ہوتا جا رہا ہے۔ خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر کے مسئلے پر حکومتی حلیفوں ایم کیو ایم اور بلوچستان مینگل پارٹی نے اپوزیشن کے ساتھ قومی اسمبلی سے واک آئوٹ کیا ہے۔ دوسری طرف شہباز شریف اور سابق صدر آصف زرداری کی قومی اسمبلی میں ملاقات بھی ممکن ہو گئی ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ حکومتی عددی اکثریت خطرے میں ہے لیکن پھر بھی فوری کچھ ممکن نہیں تاہم تحریک انصاف کی حکومت کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔ویسے تو تحریک انصاف کو کمزور حکومت چلانے کا بہت تجربہ ہے۔ گزشتہ دور میں کے پی میں پانچ سال ایک کمزور حکومت ہی چلائی گئی ہے۔ لیکن شاید وہاں حلیف جماعت اسلامی جیسی شریف جماعت تھی یہاں ایم کیو ایم اور مینگل سے واسطہ ہے۔
عمران خان کی تحریک انصاف کی حکومت کے دو بڑے مسائل ہیں۔ پہلا یہ کہ عددی اعتبار سے حکومت بہت کمزور ہے۔ دوسرا حکومت کی اب تک کی کارکردگی بھی اتنی اچھی نہیں ہے جس کی طاقت پر یہ حکومت قائم رہ سکے۔ تحریک انصاف کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس نے انتخابات تک خواب فروشی حد سے زیادہ کی ہے۔ 25جولائی تک تو کہا جا رہا تھا کہ ہم پہلے سو دن میں دودھ کی نہریں بہا دیں گے۔ مراد سعید حکومت ملتے ہی دو سو ارب ڈالر آنے کی نوید سنا رہے تھے۔
ایک ایسا ماحول بنا رہے تھے کہ بس ادھر حکومت ملے گی ادھر ڈالروں کی بارش ہوجائے گی۔ ہر مسئلہ حل ہو جائے گا۔ آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ تحریک انصاف کو حکومت سازی کا تجربہ نہیں تھا۔ پانچ سال کے پی میں حکومت کرنے سے انھیں حکومت کرنے کا سلیقہ توآہی جانا چاہیے تھا۔ آج تحریک انصاف کی کارکردگی کواس کے دکھائے گئے خوابوں کی روشنی میں ہی دیکھا جا رہا ہے۔ یہی تحریک انصاف کی سب سے بڑی مشکل بن گئی ہے۔ وہ اپنے ہی خوابوں کی قیدی بن گئی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی تک تحریک انصاف کی کارکردگی اچھی نہیں ہے۔ مہنگائی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ روپے کی قدر میں بہت کمی ہو گئی ہے۔کاروبار زندگی چلانا مشکل ہو گیا ہے۔ ایک طرف کروڑوں نوکریاں دینے کا وعدہ تھا۔ دوسری طرف بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جن اداروں نے پاکستان کی تاریخ میں کبھی ڈائون سائزنگ نہیں کی تھی، وہ ایک ایک دن میں سیکڑوں ملازمین کو فارغ کر رہے ہیں۔ ادارے بند ہو رہے ہیں۔ کاروبار بند ہو رہے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ ملک میں کاروباری ڈپریشن ہے۔ لیکن جہاں بہت کچھ غلط ہو رہا ہے۔ وہاں اچھا بھی ہو رہا ہے۔ جمہوری نظام حکومت کا حسن بھی یہی ہے کہ جہاں بہت کچھ غلط ہو رہا ہو وہاں اچھے کام بھی ہو رہے ہو تے ہیں۔ اس لیے جہاں تحریک انصاف کے پہلے سو دن میں بہت سے غلط کام ہوئے ہیں۔ وہاں چند اچھے کام بھی ہوئے ہیں۔ گو کہ ان کی تعداد بہت کم ہے۔ لیکن کہا جا سکتا ہے کہ ابھی وقت بھی کم ہی ہوا ہے۔ لیکن کم وقت میں مشکلات میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پناہ گاہوں کے قیام کا ایک بہت اچھا فیصلہ ہے۔ جمہوریت کی بنیادی تعریف ہی یہ ہے کہ عوام کی حکومت عوام کے ذریعے عوام کے لیے۔ جمہوریت کا بنیادی فلسفہ ہی یہ ہے کہ عوام کے وسائل عوام کو لوٹائے جائیں۔ اسی تناظر میں ہر وہ کام جس میں عوام کے وسائل عوام کی طرف لوٹائے جائیں، بہترین اور قابل تعریف ہے۔ بے گھر بے سہارا لوگ ہماری ذمے داری ہیں۔کوئی بھی جمہوری حکومت کسی بھی شکل میں عوامی خدمت کرے اس کی حوصلہ افزائی کی جا نی چاہیے۔پناہ گاہوں کا فلسفہ کوئی نیا نہیں ہے۔ صدیوں سے حکومتیں بے گھر اور بے سہارا لوگوں کے لیے پناہ گاہیں اور کسی نہ کسی شکل میں سرائے تعمیر کرتی رہی ہیں۔ افسوس کے بدلتے تقاضوں میں یہ روایت دم توڑ رہی تھی۔
لوگ روزگار کی تلاش میں بڑے شہروں میں ہجرت کرتے ہیں۔ لیکن یہ ہجرت کئی دفعہ اس لیے بھی رک جا تی ہے کہ غریب یہی سوچتا رہتا ہے کہ جب تک روزگار نہیں ملے گا۔کہاں رہوں گا کہاں سے کھائوں گا۔ غریب اور سفید پوش لوگوں کے لیے بھیک مانگنا ممکن نہیں۔اکثر سڑکوں پر ہاتھ میں مزدوری کے اوزار لیے جوان لوگ یہ کہتے ہوئے ملتے ہیں کہ آج مزدوری نہیں ملی اس لیے کھانے کو روٹی نہیں ہے، بس روٹی کھلا دیں۔ اسی طرح لوگ سڑکوں پر سوتے نظر آتے ہیں کہ مزدوری سے جو روزی ملتی ہے اس سے فوری طورپر چھت ممکن نہیں۔ اس تناظر میں پناہ گاہیں معاشرے کی ضرورت ہیں۔
تحریک انصاف کے انداز حکومت اور سیاسی فلسفہ سے اختلاف اپنی جگہ لیکن پناہ گاہوں کی حمایت اور تعریف اپنی جگہ۔ اس کی حوصلہ افزائی وقت کی ضرورت ہے۔ بھوکے کو روٹی دینا اور بے سہار ا کو سونے کی جگہ فراہم کرنا حکومت وقت کی ذمے داری ہے۔ یہ کوئی رعایت نہیں ہے۔ البتہ اس کے ساتھ حکومت کو چاہیے کہ جو لوگ ان پناہ گاہوں میں رہنے کے لیے آئیں۔ ان کو ایک ذمے دار اور فعال شہری بنانے کے لیے بھی مربوط حکمت عملی بنائے۔ بے روزگاروں کو روزگارفراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ پناہ گاہ میں آنے والے انسان نے حکومت کو مدد کے لیے پکارا ہے۔ ان کو فقیر نہیں سمجھنا ہو گا۔ بلکہ پاکستانی سمجھنا ہوگا۔
مجھے امید ہے کہ پاکستان کا مخیر طبقہ بھی ان پناہ گاہوں کی مدد کے لیے ضرور آگے آئے گا۔ حکومت کی کوشش ہونی چاہیے کہ انھیں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ میں چلا یا جائے۔ حکومت ان پناہ گاہوں کو قائم کرے۔ ان کو لاجسٹک فراہم کرے۔ اس کے بعد ان کو چلانے کی ذمے داری کے لیے معاشرہ میں درد دل رکھنے والے لوگوں کو منتخب کیا جائے۔ ان کو سرکاری انتظام سے چلانے سے کرپشن کی داستانیں سامنے آئیں گی۔پھر ان کے خلاف سازشیں شروع ہو جائیں گے اور پھر ان کو بند کرنے کی سازشیں بھی جنم لے لیں گی۔
پاکستان میں ایک بہت بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگلی آنے والی حکومت پچھلی حکومت کے اچھے کاموں کو بند کرنے کی کوشش کر تی ہے۔ آنے والا خود کو عقل کل سمجھنے لگتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس سے پہلے والے سب کرپٹ تھے۔ انھوں نے سب غلط کیا، ہونا تو یہ چاہیے کہ آنے والی حکومت پچھلی حکومت کے ا چھے کاموں کو خوش دلی اور بڑے دل کے ساتھ قبول کرے۔ ان کا نہ صرف تسلسل قائم رکھے بلکہ ان کو بہتر بھی کرے۔
آج دیکھیں تحریک انصاف کراچی میں سرکلر ریلوے تو شروع کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہے لیکن لاہور کی اورنج لائن کی مخالفت کر رہی ہے۔ پشاور میں میٹرو بنا رہی ہے لیکن پنجاب میں بننے والی میٹروز کو غلط قرار دے رہی ہے۔ کراچی کے گند کو صاف کرنے کی تو کوشش کر رہی ہے لیکن لاہور کی صفائی کو غلط قرار دیا جا رہا ہے۔ جنوبی پنجاب کو تر قی دینے کی تو بات کی جا رہی ہے لیکن وسطی پنجاب کی ترقی کو غلط قرار د یا جا رہا ہے۔ لاہور ملتان موٹر وے کو کھولا نہیں جا رہا کہ کہیں کریڈٹ ن لیگ کو نہ چلا جائے۔سی پیک کے نئے منصوبے تو ملک کی ضرورت ہیں لیکن پرانے غلط ہیں۔
آج بھارت سے دوستی اور تجارت ملک کے مفاد میں ہے، کل مودی سے دوستی تھی۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو مجھے خطرہ ہے کل آنے والی حکومت ان پناہ گاہوں کو ختم کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اس لیے میری تجویز ہے کہ ان پناہ گاہوں کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جائے۔ اپوزیشن کواس نیک کام میں شامل کیا جائے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ان کی مانیٹرنگ کا فول پروف نظام بنایا جائے تا کہ کل کو تحریک انصاف جیسے سیاسی انتقام کے جذبہ سے سرشارکوئی حکومت ان پناہ گاہوں کو ختم کرنے کی سازش نہ کر سکے۔ ان کو سیاسی جذبوں سے بالاتر قائم رکھنے کی حکمت عملی بھی بنا نا ہو گی۔
ملک کا سیاسی منظر نامہ روز بروز دلچسپ سے دلچسپ ہوتا جا رہا ہے۔ خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر کے مسئلے پر حکومتی حلیفوں ایم کیو ایم اور بلوچستان مینگل پارٹی نے اپوزیشن کے ساتھ قومی اسمبلی سے واک آئوٹ کیا ہے۔ دوسری طرف شہباز شریف اور سابق صدر آصف زرداری کی قومی اسمبلی میں ملاقات بھی ممکن ہو گئی ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ حکومتی عددی اکثریت خطرے میں ہے لیکن پھر بھی فوری کچھ ممکن نہیں تاہم تحریک انصاف کی حکومت کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔ویسے تو تحریک انصاف کو کمزور حکومت چلانے کا بہت تجربہ ہے۔ گزشتہ دور میں کے پی میں پانچ سال ایک کمزور حکومت ہی چلائی گئی ہے۔ لیکن شاید وہاں حلیف جماعت اسلامی جیسی شریف جماعت تھی یہاں ایم کیو ایم اور مینگل سے واسطہ ہے۔
عمران خان کی تحریک انصاف کی حکومت کے دو بڑے مسائل ہیں۔ پہلا یہ کہ عددی اعتبار سے حکومت بہت کمزور ہے۔ دوسرا حکومت کی اب تک کی کارکردگی بھی اتنی اچھی نہیں ہے جس کی طاقت پر یہ حکومت قائم رہ سکے۔ تحریک انصاف کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس نے انتخابات تک خواب فروشی حد سے زیادہ کی ہے۔ 25جولائی تک تو کہا جا رہا تھا کہ ہم پہلے سو دن میں دودھ کی نہریں بہا دیں گے۔ مراد سعید حکومت ملتے ہی دو سو ارب ڈالر آنے کی نوید سنا رہے تھے۔
ایک ایسا ماحول بنا رہے تھے کہ بس ادھر حکومت ملے گی ادھر ڈالروں کی بارش ہوجائے گی۔ ہر مسئلہ حل ہو جائے گا۔ آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ تحریک انصاف کو حکومت سازی کا تجربہ نہیں تھا۔ پانچ سال کے پی میں حکومت کرنے سے انھیں حکومت کرنے کا سلیقہ توآہی جانا چاہیے تھا۔ آج تحریک انصاف کی کارکردگی کواس کے دکھائے گئے خوابوں کی روشنی میں ہی دیکھا جا رہا ہے۔ یہی تحریک انصاف کی سب سے بڑی مشکل بن گئی ہے۔ وہ اپنے ہی خوابوں کی قیدی بن گئی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی تک تحریک انصاف کی کارکردگی اچھی نہیں ہے۔ مہنگائی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ روپے کی قدر میں بہت کمی ہو گئی ہے۔کاروبار زندگی چلانا مشکل ہو گیا ہے۔ ایک طرف کروڑوں نوکریاں دینے کا وعدہ تھا۔ دوسری طرف بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جن اداروں نے پاکستان کی تاریخ میں کبھی ڈائون سائزنگ نہیں کی تھی، وہ ایک ایک دن میں سیکڑوں ملازمین کو فارغ کر رہے ہیں۔ ادارے بند ہو رہے ہیں۔ کاروبار بند ہو رہے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ ملک میں کاروباری ڈپریشن ہے۔ لیکن جہاں بہت کچھ غلط ہو رہا ہے۔ وہاں اچھا بھی ہو رہا ہے۔ جمہوری نظام حکومت کا حسن بھی یہی ہے کہ جہاں بہت کچھ غلط ہو رہا ہو وہاں اچھے کام بھی ہو رہے ہو تے ہیں۔ اس لیے جہاں تحریک انصاف کے پہلے سو دن میں بہت سے غلط کام ہوئے ہیں۔ وہاں چند اچھے کام بھی ہوئے ہیں۔ گو کہ ان کی تعداد بہت کم ہے۔ لیکن کہا جا سکتا ہے کہ ابھی وقت بھی کم ہی ہوا ہے۔ لیکن کم وقت میں مشکلات میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پناہ گاہوں کے قیام کا ایک بہت اچھا فیصلہ ہے۔ جمہوریت کی بنیادی تعریف ہی یہ ہے کہ عوام کی حکومت عوام کے ذریعے عوام کے لیے۔ جمہوریت کا بنیادی فلسفہ ہی یہ ہے کہ عوام کے وسائل عوام کو لوٹائے جائیں۔ اسی تناظر میں ہر وہ کام جس میں عوام کے وسائل عوام کی طرف لوٹائے جائیں، بہترین اور قابل تعریف ہے۔ بے گھر بے سہارا لوگ ہماری ذمے داری ہیں۔کوئی بھی جمہوری حکومت کسی بھی شکل میں عوامی خدمت کرے اس کی حوصلہ افزائی کی جا نی چاہیے۔پناہ گاہوں کا فلسفہ کوئی نیا نہیں ہے۔ صدیوں سے حکومتیں بے گھر اور بے سہارا لوگوں کے لیے پناہ گاہیں اور کسی نہ کسی شکل میں سرائے تعمیر کرتی رہی ہیں۔ افسوس کے بدلتے تقاضوں میں یہ روایت دم توڑ رہی تھی۔
لوگ روزگار کی تلاش میں بڑے شہروں میں ہجرت کرتے ہیں۔ لیکن یہ ہجرت کئی دفعہ اس لیے بھی رک جا تی ہے کہ غریب یہی سوچتا رہتا ہے کہ جب تک روزگار نہیں ملے گا۔کہاں رہوں گا کہاں سے کھائوں گا۔ غریب اور سفید پوش لوگوں کے لیے بھیک مانگنا ممکن نہیں۔اکثر سڑکوں پر ہاتھ میں مزدوری کے اوزار لیے جوان لوگ یہ کہتے ہوئے ملتے ہیں کہ آج مزدوری نہیں ملی اس لیے کھانے کو روٹی نہیں ہے، بس روٹی کھلا دیں۔ اسی طرح لوگ سڑکوں پر سوتے نظر آتے ہیں کہ مزدوری سے جو روزی ملتی ہے اس سے فوری طورپر چھت ممکن نہیں۔ اس تناظر میں پناہ گاہیں معاشرے کی ضرورت ہیں۔
تحریک انصاف کے انداز حکومت اور سیاسی فلسفہ سے اختلاف اپنی جگہ لیکن پناہ گاہوں کی حمایت اور تعریف اپنی جگہ۔ اس کی حوصلہ افزائی وقت کی ضرورت ہے۔ بھوکے کو روٹی دینا اور بے سہار ا کو سونے کی جگہ فراہم کرنا حکومت وقت کی ذمے داری ہے۔ یہ کوئی رعایت نہیں ہے۔ البتہ اس کے ساتھ حکومت کو چاہیے کہ جو لوگ ان پناہ گاہوں میں رہنے کے لیے آئیں۔ ان کو ایک ذمے دار اور فعال شہری بنانے کے لیے بھی مربوط حکمت عملی بنائے۔ بے روزگاروں کو روزگارفراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ پناہ گاہ میں آنے والے انسان نے حکومت کو مدد کے لیے پکارا ہے۔ ان کو فقیر نہیں سمجھنا ہو گا۔ بلکہ پاکستانی سمجھنا ہوگا۔
مجھے امید ہے کہ پاکستان کا مخیر طبقہ بھی ان پناہ گاہوں کی مدد کے لیے ضرور آگے آئے گا۔ حکومت کی کوشش ہونی چاہیے کہ انھیں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ میں چلا یا جائے۔ حکومت ان پناہ گاہوں کو قائم کرے۔ ان کو لاجسٹک فراہم کرے۔ اس کے بعد ان کو چلانے کی ذمے داری کے لیے معاشرہ میں درد دل رکھنے والے لوگوں کو منتخب کیا جائے۔ ان کو سرکاری انتظام سے چلانے سے کرپشن کی داستانیں سامنے آئیں گی۔پھر ان کے خلاف سازشیں شروع ہو جائیں گے اور پھر ان کو بند کرنے کی سازشیں بھی جنم لے لیں گی۔
پاکستان میں ایک بہت بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگلی آنے والی حکومت پچھلی حکومت کے اچھے کاموں کو بند کرنے کی کوشش کر تی ہے۔ آنے والا خود کو عقل کل سمجھنے لگتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس سے پہلے والے سب کرپٹ تھے۔ انھوں نے سب غلط کیا، ہونا تو یہ چاہیے کہ آنے والی حکومت پچھلی حکومت کے ا چھے کاموں کو خوش دلی اور بڑے دل کے ساتھ قبول کرے۔ ان کا نہ صرف تسلسل قائم رکھے بلکہ ان کو بہتر بھی کرے۔
آج دیکھیں تحریک انصاف کراچی میں سرکلر ریلوے تو شروع کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہے لیکن لاہور کی اورنج لائن کی مخالفت کر رہی ہے۔ پشاور میں میٹرو بنا رہی ہے لیکن پنجاب میں بننے والی میٹروز کو غلط قرار دے رہی ہے۔ کراچی کے گند کو صاف کرنے کی تو کوشش کر رہی ہے لیکن لاہور کی صفائی کو غلط قرار دیا جا رہا ہے۔ جنوبی پنجاب کو تر قی دینے کی تو بات کی جا رہی ہے لیکن وسطی پنجاب کی ترقی کو غلط قرار د یا جا رہا ہے۔ لاہور ملتان موٹر وے کو کھولا نہیں جا رہا کہ کہیں کریڈٹ ن لیگ کو نہ چلا جائے۔سی پیک کے نئے منصوبے تو ملک کی ضرورت ہیں لیکن پرانے غلط ہیں۔
آج بھارت سے دوستی اور تجارت ملک کے مفاد میں ہے، کل مودی سے دوستی تھی۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو مجھے خطرہ ہے کل آنے والی حکومت ان پناہ گاہوں کو ختم کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اس لیے میری تجویز ہے کہ ان پناہ گاہوں کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جائے۔ اپوزیشن کواس نیک کام میں شامل کیا جائے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ان کی مانیٹرنگ کا فول پروف نظام بنایا جائے تا کہ کل کو تحریک انصاف جیسے سیاسی انتقام کے جذبہ سے سرشارکوئی حکومت ان پناہ گاہوں کو ختم کرنے کی سازش نہ کر سکے۔ ان کو سیاسی جذبوں سے بالاتر قائم رکھنے کی حکمت عملی بھی بنا نا ہو گی۔