16دسمبر ہم ناکام رہے
مجرمانہ غفلت تو ہم سے مرحوم مشرقی پاکستان میں بھی ہوئی۔
16دسمبر آئی اور گزر گئی۔ معصوم اور مظلوم لہو کا سوگ منایا گیا۔ آرمی پبلک اسکول، پشاور کے معصوم اور سیاست سے ناآشنا بچے دن دھاڑے ذبح کر دیے گئے۔ ان کے ذبیحے کا منظر نامہ دل ہلادینے والا ہے۔ وہ بچے جو سبزۂ نورستہ تھے انتہا پسندی کے ناپاک قدموں نے روند دیے۔ اس سانحے کو چار برس گزر چکے ہیں لیکن دل ماننے کو تیار نہیں ہوتا کہ ظالموں کی ایک قسم یہ بھی ہوتی ہے جو باپ کا نام اور عہدہ پوچھ کر بیٹوں اور بیٹیوں کی گردنوں پر چھری پھیرتی ہے۔
اخباروں میں ان بچوں کی تصویریں شایع ہوئیں، غیروں نے دل تھام لیا اور مائیں اپنے لاڈلوں کے عکس چوم کر جگر خون کرتی رہیں۔ہمارے یہاں مرد آنسو بہانے کو مردانگی کی توہین سمجھتے ہیں، اسی لیے ہمیں نہیں معلوم کہ ان بچوںکے باپ، بھائی، ماموں اور چچا رات کے اندھیرے میں چھپ کرکس قدر روئے اورکتنے تکیے ان کے آنسوؤں سے نم ہوئے۔
اسکول کی وہ جی دار پرنسپل جنہوں نے زندگی کی مہلت مل جانے کو اپنی توہین جانا، وہ اپنے مظلوم بچوں کے ساتھ ختم ہوئیں۔ موت کا ایسا شاندار انتخاب توکم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ وہ مجھے اکثر یاد آتی ہیں اور میری آنکھوں سے ان کے لیے آنسو گرتے ہیں۔ان بچوں کا یہ قتل عام اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ افراد اورادارے جو ان کی حفاظت پر مامور ہوتے تھے،ان سے مجرمانہ غفلت ہوئی تھی۔
مجرمانہ غفلت تو ہم سے مرحوم مشرقی پاکستان میں بھی ہوئی۔ بنگالیوں کے اکثریتی ووٹ سے پاکستان وجود میں آیا تھا لیکن پہلے دن سے ہم نے انھیں وہ حیثیت نہ دی جو ان کا جائز حق تھا۔ ایک طرف خوفناک سیلاب ان کی بستیاں ڈبوتے رہے، دوسری طرف مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی حکمران اشرافیہ تھی، جس نے انھیں دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری سمجھا۔
عوام کی اکثریت کے ووٹ حاصل کرنے والی جماعت اور منتخب پارلیمنٹ کو اقتدار منتقل نہ کرنے کے نتیجے میں جو کشت و خوں ہوا،اس میں بنگالی، بہاری، پنجابی اور دوسرے ناحق جان سے گئے۔ لاکھوں گھر اجڑگئے، لوگ در بدر ہوئے۔ وہ لوگ جو اس یقین سے باریسال، چٹاگانگ، سید پور، کرنا فلی اور دوسرے قصبوں اور شہروں میں آباد ہوئے تھے کہ اب ان کی پشتیں یہیں پھولیں پھلیں گی، صرف 25 برس کے اندر سر پر اپنا سامان اٹھائے ایک بار پھر جائے امان کی تلاش میں نکلے، در بہ در خاک بسر ہوتے ہوئے نئے پاکستان پہنچے۔ الطاف فاطمہ کے ناول ''چلتا مسافر'' میں ان کا احوال کچھ یوں بیان ہوا ہے :
''میںیہاںاجنبی پردیسی ہوں۔ غریب الدّیار ہوں۔ ہم تو بس بستیوں اور شہروں کے ہجوم میں گھوم پھر رہے ہیں۔ نہ کوئی ہمیں پہچانتا ہے نہ ہم کسی کو جانتے ہیں۔ بس روشنیوں کے شہر میں گھومتے ہیں۔ اسلام آباد واقعی روشنیوں کا شہر ہے۔بڑی رونق میلے ہیں یہاں۔ منسٹروں کے گھر اور گاڑیاں دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ اب جس خطے میں آکر ہم نے قیام کیا ہے وہ بڑا آسودہ ہے اور بہت باوقار ہے۔ بڑی شان وشکوہ ہے، لوگ ہنستے بولتے ہیں، خوب رج کرکھاتے پیتے ہیں، دیس دیس کی چیزوں کی خریداری کرتے ہیں اور خوب خوش رہتے ہیں۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس قوم کے ساتھ کوئی حادثہ ہوگیا ہے، اس کا بازوکٹ گیا ہے۔ یہاں پہنچ کر لگتا ہے کہ ہم جس تجربے اور واردات سے گزرے تھے، وہ سب ایک وہم اور خیال تھا اور جوکچھ بھی جس کے ساتھ ہوگیا، وہ تو ایک پریشان خواب ہے یا چند اخبارات کا اسسٹنٹ ہے۔ اچھا خیر، جو کچھ بھی ہوا ٹھیک ہوا ہے ۔ شاید اب انسان بھاری بوجھ اُٹھانے کا اہل ہی نہیں رہا۔''
اس وقت نگاہوں میں کتنے آشنا چہرے گھوم گئے ہیں۔ ادیب سہیل، شاہد کامرانی، علی حیدر ملک، ام عمارہ، بانو خوشنود،محمود واجد ...... یہ سب ادیب برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ متوسط طبقے کے قانع اور مطمئن لوگ۔ انھیں کوٹھی اورکارکی ہوس نہ تھی۔ ان کے گھروں کی چھتوں پر ترئی اورکدو کی بیلیں تھیں، ان کے آنگن میں کٹھل اور آم کے پیڑوں کا سایہ تھا۔ حوادثِ زمانہ نے انھیں کس طرح تتر بترکیا۔ نئے پاکستان آنے کے بعد یہ کن آلام سے گزرے۔ ادب کا سودا پھر بھی سر سے نہ گیا۔ ان لوگوں کا حوصلہ دیکھ کر دل خون ہوتا تھا۔ ان میں سے کئی اب تہِ خاک سوتے ہیں۔
اپنا حق مانگنے والے بنگالی پاکستانیوں پر جو قیامت گزری اسے جہاں آراء امام نے ڈائری کی صورت تحریرکیا۔ وہ ڈائری بنگلہ اور انگریزی میں شایع ہوئی پھر ''اکہتر کے وہ دن''، کے عنوان سے اردو میں سامنے آئی۔ جہاں آرا امام پڑھی لکھی، ہر بنگالی کی طرح سیاسی طور پر باشعور، گھرگرہستی میں مصروف خاتون تھیں لیکن جب ان پر اور ان کے لوگوں پر قیامت گزرنے لگی تو انھوںنے ہر واقعہ قلم بند کرنا شروع کیا۔ اس دوران ان کے شوہر اور بیٹا مار دیے جاتے ہیں۔ وہ صدمے سے نڈھال ہیں لیکن بچ جانے والے نوجوان بیٹے کے ساتھ وہ بھی جنگ آزادی میں شریک ہیں۔ ان کے بارے میں احمد سلیم نے لکھا ہے :
''جہاں آرا امام ایک خاتون خانہ اپنے شوہر اور دو بیٹوں کے ساتھ اپنی چھوٹی سی جنت میں مگن ہیں کہ اچانک یکم مارچ 1971ء طلوع ہوتا ہے۔ یکم مارچ سے سولہ دسمبر تک ان سارے دنوں اور راتوں سے گزرتی ہیں۔ اس عرصہ میں اپنے بڑے بیٹے اور اپنے شوہرکوکھونے کا صدمہ برداشت کرتی ہیں۔ 17دسمبر سے اپنے چھوٹے بیٹے کو وطن کی خدمت کے لیے وقف کرتی ہیں اور پھر اپنی زندگی بھی بنگلہ دیش کی نذرکردیتی ہیں۔ ایک خاتون خانہ سے امن و انصاف کی مشعل بننے تک انھیں آگ اور خون کا دریا پارکرنا پڑتا ہے۔ جس کے بعد وہ ایک جان لیوا اور مہلک بیماری سے نبرد آزما ہوتی ہیں لیکن آرام و آسائش کو ایک طرف رکھ کر قاتلوں اور ان کے آلہ کاروں کو بے نقاب کرنے اور انھیں انصاف کے کٹہرے تک لانے کی جدوجہد میں مصروف ہوجاتی ہیں۔ وہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی اور جنون کے سامنے تن کرکھڑی ہوجاتی ہیں اور اپنے نحیف و نزار بدن اور طاقتور روح کے ساتھ غیر مسلم اقلیتوں کی حفاظت کا پرچم بلند کرتی ہیں اور اسی جدوجہد میں اپنی جان، جاں آفرین کے سپرد کردیتی ہیں۔ قوم انھیں عزت و احترام کے طور پر شہید جنانی (شہید خاتون) کے خطاب سے یاد کرتی ہے اور آج ڈھاکا میں ان کے نام سے قائم ''شہید جنانی جہاں آرا امام میوزیم'' اس جدوجہد اور ان قربانیوں کا زندہ ثبوت ہے جو اس بہادر خاتون نے اپنے وطن کے لیے دیں۔''
جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے کی توہین برداشت کرتے ہوئے کئی فوجی افسروں نے وہاں وقوع پذیر ہونے والے حالات کے بارے میں بلاکم و کاست لکھا۔ ان ہی میں سے میجر جنرل شوکت رضا نے لکھا کہ :
''ہمارے ہاں یہ تصور جڑ پکڑ چکا ہے کہ آمرانہ حکومتیں اہل اور دیانتدار اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور انھیں اہم عہدوں پر تعینات کیا جاتا ہے۔ درحقیقت آمرانہ حکومتوں کے ڈھانچے میں ایک بنیادی سقم پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ انھیں عوامی احتساب کا کوئی خوف نہیں ہوتا جب کہ اس کی حیثیت ریاست کے لیے ایک دفاعی حصار جیسی ہوتی ہے۔ اسی لیے آمریتوں میں کرپشن تیزی سے پنپتی ہے۔ ول دیوراں نے کہا تھا ، ''اختیار اور طاقت کا نشہ کرپٹ کرنے سے کہیں زیادہ ذہنی خلل اور خلفشارکا باعث بنتا ہے جس کے سبب بلا سوچے سمجھے عجلت میں فیصلہ سازی بڑھتی چلی جاتی ہے اور دور اندیشی کا حفاظتی حصارکمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔''
مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر ان کا تجزیہ کچھ اس طرح سے ہے :
''1971ء کا برس پاکستان کے لیے اندوہناک رہا۔ ممتاز جرمن ماہر عسکری امور کارل وان کلازویٹنر نے کہا تھا ''جنگ اپنی پالیسی کے مقاصد حاصل کرنے کا ایک دوسرا ذریعہ ہوتی ہے '' فوج نے 1971ء کی جنگ میں کود پڑنے کا فیصلہ کیا جس سے عہدہ برآہونا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ ہم اس زعم باطل کی بنیاد پر مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں فوجی آپریشن کی فاش غلطی کا ارتکاب کر بیٹھے کہ وہاں کے شہریوں کی اکثریت ہمارے ساتھ ہے۔ ہم وہاں کے لوگوں اور جغرافیہ کو سمجھنے سے قاصر رہے۔''
16دسمبر کی تاریخ سے جڑے ہوئے یہ دل دوز واقعات ہم پر عیاںکرتے ہیں کہ ہم نہ اپنی سرحدوں کی اور ان میں رہنے والوں کی حفاظت کرسکے اور نہ ہم ایک اسکول میں پڑھنے والے بچوں کی جان بچا سکے، ہم کچھ بھی نہ کرسکے ۔
اخباروں میں ان بچوں کی تصویریں شایع ہوئیں، غیروں نے دل تھام لیا اور مائیں اپنے لاڈلوں کے عکس چوم کر جگر خون کرتی رہیں۔ہمارے یہاں مرد آنسو بہانے کو مردانگی کی توہین سمجھتے ہیں، اسی لیے ہمیں نہیں معلوم کہ ان بچوںکے باپ، بھائی، ماموں اور چچا رات کے اندھیرے میں چھپ کرکس قدر روئے اورکتنے تکیے ان کے آنسوؤں سے نم ہوئے۔
اسکول کی وہ جی دار پرنسپل جنہوں نے زندگی کی مہلت مل جانے کو اپنی توہین جانا، وہ اپنے مظلوم بچوں کے ساتھ ختم ہوئیں۔ موت کا ایسا شاندار انتخاب توکم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ وہ مجھے اکثر یاد آتی ہیں اور میری آنکھوں سے ان کے لیے آنسو گرتے ہیں۔ان بچوں کا یہ قتل عام اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ افراد اورادارے جو ان کی حفاظت پر مامور ہوتے تھے،ان سے مجرمانہ غفلت ہوئی تھی۔
مجرمانہ غفلت تو ہم سے مرحوم مشرقی پاکستان میں بھی ہوئی۔ بنگالیوں کے اکثریتی ووٹ سے پاکستان وجود میں آیا تھا لیکن پہلے دن سے ہم نے انھیں وہ حیثیت نہ دی جو ان کا جائز حق تھا۔ ایک طرف خوفناک سیلاب ان کی بستیاں ڈبوتے رہے، دوسری طرف مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی حکمران اشرافیہ تھی، جس نے انھیں دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری سمجھا۔
عوام کی اکثریت کے ووٹ حاصل کرنے والی جماعت اور منتخب پارلیمنٹ کو اقتدار منتقل نہ کرنے کے نتیجے میں جو کشت و خوں ہوا،اس میں بنگالی، بہاری، پنجابی اور دوسرے ناحق جان سے گئے۔ لاکھوں گھر اجڑگئے، لوگ در بدر ہوئے۔ وہ لوگ جو اس یقین سے باریسال، چٹاگانگ، سید پور، کرنا فلی اور دوسرے قصبوں اور شہروں میں آباد ہوئے تھے کہ اب ان کی پشتیں یہیں پھولیں پھلیں گی، صرف 25 برس کے اندر سر پر اپنا سامان اٹھائے ایک بار پھر جائے امان کی تلاش میں نکلے، در بہ در خاک بسر ہوتے ہوئے نئے پاکستان پہنچے۔ الطاف فاطمہ کے ناول ''چلتا مسافر'' میں ان کا احوال کچھ یوں بیان ہوا ہے :
''میںیہاںاجنبی پردیسی ہوں۔ غریب الدّیار ہوں۔ ہم تو بس بستیوں اور شہروں کے ہجوم میں گھوم پھر رہے ہیں۔ نہ کوئی ہمیں پہچانتا ہے نہ ہم کسی کو جانتے ہیں۔ بس روشنیوں کے شہر میں گھومتے ہیں۔ اسلام آباد واقعی روشنیوں کا شہر ہے۔بڑی رونق میلے ہیں یہاں۔ منسٹروں کے گھر اور گاڑیاں دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ اب جس خطے میں آکر ہم نے قیام کیا ہے وہ بڑا آسودہ ہے اور بہت باوقار ہے۔ بڑی شان وشکوہ ہے، لوگ ہنستے بولتے ہیں، خوب رج کرکھاتے پیتے ہیں، دیس دیس کی چیزوں کی خریداری کرتے ہیں اور خوب خوش رہتے ہیں۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس قوم کے ساتھ کوئی حادثہ ہوگیا ہے، اس کا بازوکٹ گیا ہے۔ یہاں پہنچ کر لگتا ہے کہ ہم جس تجربے اور واردات سے گزرے تھے، وہ سب ایک وہم اور خیال تھا اور جوکچھ بھی جس کے ساتھ ہوگیا، وہ تو ایک پریشان خواب ہے یا چند اخبارات کا اسسٹنٹ ہے۔ اچھا خیر، جو کچھ بھی ہوا ٹھیک ہوا ہے ۔ شاید اب انسان بھاری بوجھ اُٹھانے کا اہل ہی نہیں رہا۔''
اس وقت نگاہوں میں کتنے آشنا چہرے گھوم گئے ہیں۔ ادیب سہیل، شاہد کامرانی، علی حیدر ملک، ام عمارہ، بانو خوشنود،محمود واجد ...... یہ سب ادیب برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ متوسط طبقے کے قانع اور مطمئن لوگ۔ انھیں کوٹھی اورکارکی ہوس نہ تھی۔ ان کے گھروں کی چھتوں پر ترئی اورکدو کی بیلیں تھیں، ان کے آنگن میں کٹھل اور آم کے پیڑوں کا سایہ تھا۔ حوادثِ زمانہ نے انھیں کس طرح تتر بترکیا۔ نئے پاکستان آنے کے بعد یہ کن آلام سے گزرے۔ ادب کا سودا پھر بھی سر سے نہ گیا۔ ان لوگوں کا حوصلہ دیکھ کر دل خون ہوتا تھا۔ ان میں سے کئی اب تہِ خاک سوتے ہیں۔
اپنا حق مانگنے والے بنگالی پاکستانیوں پر جو قیامت گزری اسے جہاں آراء امام نے ڈائری کی صورت تحریرکیا۔ وہ ڈائری بنگلہ اور انگریزی میں شایع ہوئی پھر ''اکہتر کے وہ دن''، کے عنوان سے اردو میں سامنے آئی۔ جہاں آرا امام پڑھی لکھی، ہر بنگالی کی طرح سیاسی طور پر باشعور، گھرگرہستی میں مصروف خاتون تھیں لیکن جب ان پر اور ان کے لوگوں پر قیامت گزرنے لگی تو انھوںنے ہر واقعہ قلم بند کرنا شروع کیا۔ اس دوران ان کے شوہر اور بیٹا مار دیے جاتے ہیں۔ وہ صدمے سے نڈھال ہیں لیکن بچ جانے والے نوجوان بیٹے کے ساتھ وہ بھی جنگ آزادی میں شریک ہیں۔ ان کے بارے میں احمد سلیم نے لکھا ہے :
''جہاں آرا امام ایک خاتون خانہ اپنے شوہر اور دو بیٹوں کے ساتھ اپنی چھوٹی سی جنت میں مگن ہیں کہ اچانک یکم مارچ 1971ء طلوع ہوتا ہے۔ یکم مارچ سے سولہ دسمبر تک ان سارے دنوں اور راتوں سے گزرتی ہیں۔ اس عرصہ میں اپنے بڑے بیٹے اور اپنے شوہرکوکھونے کا صدمہ برداشت کرتی ہیں۔ 17دسمبر سے اپنے چھوٹے بیٹے کو وطن کی خدمت کے لیے وقف کرتی ہیں اور پھر اپنی زندگی بھی بنگلہ دیش کی نذرکردیتی ہیں۔ ایک خاتون خانہ سے امن و انصاف کی مشعل بننے تک انھیں آگ اور خون کا دریا پارکرنا پڑتا ہے۔ جس کے بعد وہ ایک جان لیوا اور مہلک بیماری سے نبرد آزما ہوتی ہیں لیکن آرام و آسائش کو ایک طرف رکھ کر قاتلوں اور ان کے آلہ کاروں کو بے نقاب کرنے اور انھیں انصاف کے کٹہرے تک لانے کی جدوجہد میں مصروف ہوجاتی ہیں۔ وہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی اور جنون کے سامنے تن کرکھڑی ہوجاتی ہیں اور اپنے نحیف و نزار بدن اور طاقتور روح کے ساتھ غیر مسلم اقلیتوں کی حفاظت کا پرچم بلند کرتی ہیں اور اسی جدوجہد میں اپنی جان، جاں آفرین کے سپرد کردیتی ہیں۔ قوم انھیں عزت و احترام کے طور پر شہید جنانی (شہید خاتون) کے خطاب سے یاد کرتی ہے اور آج ڈھاکا میں ان کے نام سے قائم ''شہید جنانی جہاں آرا امام میوزیم'' اس جدوجہد اور ان قربانیوں کا زندہ ثبوت ہے جو اس بہادر خاتون نے اپنے وطن کے لیے دیں۔''
جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے کی توہین برداشت کرتے ہوئے کئی فوجی افسروں نے وہاں وقوع پذیر ہونے والے حالات کے بارے میں بلاکم و کاست لکھا۔ ان ہی میں سے میجر جنرل شوکت رضا نے لکھا کہ :
''ہمارے ہاں یہ تصور جڑ پکڑ چکا ہے کہ آمرانہ حکومتیں اہل اور دیانتدار اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور انھیں اہم عہدوں پر تعینات کیا جاتا ہے۔ درحقیقت آمرانہ حکومتوں کے ڈھانچے میں ایک بنیادی سقم پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ انھیں عوامی احتساب کا کوئی خوف نہیں ہوتا جب کہ اس کی حیثیت ریاست کے لیے ایک دفاعی حصار جیسی ہوتی ہے۔ اسی لیے آمریتوں میں کرپشن تیزی سے پنپتی ہے۔ ول دیوراں نے کہا تھا ، ''اختیار اور طاقت کا نشہ کرپٹ کرنے سے کہیں زیادہ ذہنی خلل اور خلفشارکا باعث بنتا ہے جس کے سبب بلا سوچے سمجھے عجلت میں فیصلہ سازی بڑھتی چلی جاتی ہے اور دور اندیشی کا حفاظتی حصارکمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔''
مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر ان کا تجزیہ کچھ اس طرح سے ہے :
''1971ء کا برس پاکستان کے لیے اندوہناک رہا۔ ممتاز جرمن ماہر عسکری امور کارل وان کلازویٹنر نے کہا تھا ''جنگ اپنی پالیسی کے مقاصد حاصل کرنے کا ایک دوسرا ذریعہ ہوتی ہے '' فوج نے 1971ء کی جنگ میں کود پڑنے کا فیصلہ کیا جس سے عہدہ برآہونا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ ہم اس زعم باطل کی بنیاد پر مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں فوجی آپریشن کی فاش غلطی کا ارتکاب کر بیٹھے کہ وہاں کے شہریوں کی اکثریت ہمارے ساتھ ہے۔ ہم وہاں کے لوگوں اور جغرافیہ کو سمجھنے سے قاصر رہے۔''
16دسمبر کی تاریخ سے جڑے ہوئے یہ دل دوز واقعات ہم پر عیاںکرتے ہیں کہ ہم نہ اپنی سرحدوں کی اور ان میں رہنے والوں کی حفاظت کرسکے اور نہ ہم ایک اسکول میں پڑھنے والے بچوں کی جان بچا سکے، ہم کچھ بھی نہ کرسکے ۔