معزول صدر محمد مرسی کے حق میں مظاہرے
اب دارالحکومت قاہرہ کےتحریراسکوائر میں صدرمرسی کےحامیوں نےہزاروں کی تعدادمیں جمع ہوکراحتجاجی مظاہرے شروع کر دیے ہیں۔
KARACHI:
مصر میں مرسی حکومت کے فوجی بغاوت کے ذریعے معزول کرنے پر اب دارالحکومت قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں صدر مرسی کے حامیوں نے ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو کر احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے ہیں۔ ادھر افریقی یونین نے مصر کو اپنی رکنیت سے خارج کر دیا ہے۔ التحریر چوک کے تازہ ہنگاموں میں بھی بعض افراد کی ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ غیرملکی میڈیا کے مطابق فائرنگ کی آوازیں اخوان المسلمون کے آرمی ہیڈکوارٹر کے گھیراؤ کے بعد سنی گئیں۔ یہ مظاہرین مرسی کا تختہ الٹنے والے جرنیل فتح کے خلاف اور مرسی ہمارا صدر ہے کے نعرے بلند کر رہے تھے۔
فوجی ہیڈ کوارٹرز کا گھیراؤ کرنے والے مظاہرین پر گولیاں چلائی گئی ہیں۔ادھر فوج نے اپنے طور پر ایک عبوری صدر عدل منصور کا تقرر کر دیا ہے جنھوں نے اپنے پہلے صدارتی حکم میں پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا ہے۔ انھوں نے نیا انٹیلی جنس چیف بھی مقرر کر دیا ہے۔ التحریر اسکوائر میں فوجی ٹینکوں نے گشت کیا اور طیاروں نے پروازیں کیں مگر صدر مرسی کے حامی تحریر اسکوائر میں موجود رہے اور منتشر نہیں ہوئے۔ مصر کے معزول صدر محمد مرسی نے جو بدھ کے بعد سے منظر عام پر نہیں آئے ہیں، انھوں نے ایک ریکارڈڈ بیان کے ذریعے مصری عوام پر زور دیا ہے کہ وہ جمہوری انتخاب کے نتیجے میں بننے والی حکومت کا (جس میں کہ ڈاکٹر مرسی صدر منتخب ہوئے تھے) دفاع کریں۔ ان کی ریکارڈ شدہ تقریر ان کی معزولی کے کئی گھنٹے بعد نشر کی گئی۔
دارالحکومت قاہرہ ہی نہیں بلکہ مصر کے دوسرے شہروں سے بھی مظاہروں کی اطلاعات ملی ہیں۔ اخبارات میں یہ اطلاع بھی شائع ہوئی ہے کہ صحرائے سینائی میں مظاہرین نے ایک فوجی کو مشین گن سے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا، اس واقعے کے بعد دریائے نیل کے ڈیلٹے پر واقع صوبہ شرفیہ میں فوج اور مظاہرین میں تصادم شروع ہو گیا۔ آرمی چیف جنرل عبدالفتح السیسی نے بدھ کی رات صدر مرسی کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔ اخوان المسلمون کے سربراہ محمد بدیع نے حامیوں کے ہجوم سے خطاب میں کہا منتخب صدر کی بحالی کی تحریک بھرپور انداز میں جاری رکھیں۔
انھوں نے کہا صدر مرسی کی واپسی تک تحریر چوک میں رہیں۔ انھوں نے کہا فوجی بغاوت کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں۔ ادھر ملٹری پولیس اخوان المسلمون کے لیڈروں کو گرفتار کرنے کی کوشش میں چھاپے مار رہی ہے۔مصر میں اخوان المسلمون کے مظاہرے جاری رہے تو اس ملک میں حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔ پہلے ملک کا معتدل مزاج اور ماڈریٹ طبقہ مرسی حکومت کی سخت گیر پالیسیوں کے خلاف میدان میں آیا، جس کے نتیجے میں مرسی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اب صدر مرسی کے حق میں اخوان المسلمون نے مظاہرے شروع کر دیے ہیں۔
اس سے ملک میں قتل وغارت بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ شام میں بھی اصل میں نظریاتی گروہوں کے درمیان بالادستی کی لڑائی ہو رہی ہے۔ اس کا فائدہ امریکا اور دیگر بڑی طاقتیں اٹھا رہی ہیں۔ مصر کی قیادت کو عالمی حالات کا ادراک کرتے ہوئے باہمی جنگ وجدل سے اجتناب برتنا چاہیے۔ نئی حکومت کو ملک میں جلد ازجلد شفاف، غیرجانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے چاہئیں تاکہ مصر میں جمہوریت بحال ہو سکے۔