دشت تنہائی…

جون کے ’’شفاء نیوز‘‘ میں ایک مضمون چھپا ہے ’’والدین اور اولاد، دونوں تنہا‘‘ کے عنوان سے، جس میں ایک ایسی خاتون کا...


Raees Fatima July 06, 2013

ISLAMABAD: جون کے ''شفاء نیوز'' میں ایک مضمون چھپا ہے ''والدین اور اولاد، دونوں تنہا'' کے عنوان سے، جس میں ایک ایسی خاتون کا ذکر ہے جو تنہا رہتی ہیں اور اسی سبب وہ سخت ڈیپریشن کا شکار ہیں۔ حالانکہ ان کے دس بچے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی ان کی دیکھ بھال کے لیے ان کے پاس نہیں، البتہ بچے اخراجات کے لیے کچھ رقم ہر ماہ انھیں بھجوا دیتے ہیں لیکن پاس کوئی نہیں رہتا اور یہی ان کا اصل مرض ہے کہ دس بچوں میں سے کوئی ان کے پاس نہیں۔

سب کی اپنی اپنی فیملی ہے اور وہ ان میں مگن ... یقیناً بیٹیاں اپنے گھر کی ہوں گی اور بہوؤں کو ساس کا وجود گوارا نہیں ہو گا۔ اس لیے بیویوں کی خوشنودی کی خاطر بیٹوں نے بھی دوری اختیار کر لی ہو گی... کیونکہ اب تو یہی کچھ ہو رہا ہے ہر طرف۔ یہ صرف ان اکیلی خاتون کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اب تو ہر چوتھے گھر کی کہانی ہے، خاندانی نظام کو مغرب سے درآمد کردہ ''پرائیویسی'' کھا گئی۔ اب 80 فیصد گھروں میں بیٹوں کی شادی کی خوشی کے ساتھ ماں باپ کو ایک دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کیا پتہ جس دن ان کے بیٹوں کے سر پہ سہرا سجے، اسی دن وہ والدین کے لیے اجنبی ہو جائیں۔

ڈپریشن اب ایسی عام بیماری ہے جس کی لپیٹ میں وہ معمر افراد زیادہ ہیں جن کی اولاد اب ان کے پاس نہیں... کوئی کمانے چلا گیا، کوئی پڑھنے... کہ جو یہاں سے جاتا ہے وہ واپس نہیں آنا چاہتا۔ کہ یہاں ان کے لیے بے روزگاری کے سوا کچھ نہیں۔ ہر حکومت کا دسترخوان صرف اقربا پروری تک محدود ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ نوجوان نسل اتنی خود غرض اور بے حس کیوں ہے۔

کیا وہ یہ کبھی نہیں سوچتے کہ کل ان کی اولاد بھی ان کے ساتھ یہی کچھ کرے گی۔ وہ کمبل والا قصہ تو غالباً سب کو پتہ ہو گا کہ ایک شخص جب بڑھاپے میں تنہا رہ گیا تو اس کے بیٹے اور بہو نے اسے ایک کوٹھری میں ڈال دیا، اوڑھنے کو ایک کمبل دے دیا، جو بہت پرانا تھا، بغور دیکھنے پر یاد آیا کہ یہ تو وہ کمبل تھا جو اس شخص نے اپنے بوڑھے باپ کو آخری عمر میں اوڑھنے کو دیا تھا۔ اس نے بیٹے کو بلا کر جواب طلب کیا تو بیٹے نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہاں یہ وہی ہے اور اس نے دادا کے مرنے کے بعد اس لیے سنبھال کر رکھ لیا تھا تا کہ باپ کو وہی لوٹا سکے۔ آپ اسے مکافات عمل کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اب کوئی اس سے نہیں ڈرتا۔

آج کے دور میں بڑھاپے کی معذوری، ڈپریشن اور تنہائی ان معمر افراد کا مسئلہ ہے جن کی اولاد ان سے بوجوہ دور ہے۔ کوئی بیرون ملک ہے تو کوئی وطن میں ہوتے ہوئے بھی کوسوں دور کہ ملازمتوں کا جبر ان کا مقدر ہے۔ والدین اپنا شہر چھوڑ کر جا نہیں سکتے کہ ایک عمر اپنی مرضی سے اپنے شہر اور اپنے وطن میں گزارنے والے آسانی سے دوسری جگہ ایڈجسٹ نہیں ہو سکتے، کہ تناور درختوں کو اگر ان کی جگہ سے اکھاڑ کر کہیں اور لگانے کی کوشش کی جائے تو وہ مرجھا کر مر جاتے ہیں۔ ایک المیہ اس دور کا یہ بھی ہے کہ ایک ہی شہر میں ہونے کے باوجود ماں باپ اور اولاد الگ الگ رہ رہے ہیں۔

نئی شادی شدہ لڑکیوں کو سسرال والوں کا وجود بالکل گوارا نہیں، کیونکہ انھیں اپنے گھر سے وہ صحت مند تربیت نہیں ملی جس میں ہوش سنبھالتے ہی لڑکیوں کے کانوں میں ساس سسر کی خدمت اور احترام کے الفاظ ڈالے جاتے تھے۔ معاملہ آج بالکل برعکس ہے۔ اب تو رشتہ طے ہوتے ہی لڑکوں کو علیحدہ گھر کا پابند بنانے کے لیے مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ اب پہلے والی بات تو ہے نہیں کہ نہ لڑکے اور لڑکی کا آپس میں رابطے کا کوئی ذریعے ہے اور نہ ہی تہذیب اجازت دیتی ہے کہ شادی سے پہلے تعلقات بڑھائے جائیں۔ اب تو رشتہ طے ہوتے ہی موبائل فون سب سے آسان ذریعہ ہے اپنی بات منوانے کا۔ میں نے کئی لڑکیوں کو دیکھا جو رشتہ طے ہونے کے بعد اپنے ہونیوالے شوہر کو اس کی ماں کے خلاف باتیں کرتے پایا۔

پتہ چلا کہ والدہ محترمہ اور والد دونوں اس کار خیر میں برابر کے شریک ہیں تا کہ شادی ہوتے ہی ان کی چہیتی بیٹی الگ گھر میں رہ سکے، جہاں ساس اور نندوں کا گزر نہ ہو۔ میں ایک ایسی خاتون سے بھی واقف ہوں جن کے دونوں بیٹے دو بہنوں سے بیاہے ہوئے ہیں۔ خاتون پروفیسر تھیں بڑے چاؤ سے جاننے والوں میں شادیاں کیں اور ولیمے کے فوراً بعد دونوں بیٹوں کو کھو دیا۔ ان دونوں میاں بیوی کا گزارہ پنشن پر ہے۔ انھوں نے آج تک اپنے بیٹوں سے کچھ نہیں لیا۔ بلکہ ہمیشہ بیٹا بہو اور پوتا پوتی کو تحائف بھیجتی ہی رہتی ہیں لیکن آج تک بیٹوں نے ماں کو کبھی کچھ نہیں دیا، بیشک وہ صاحب حیثیت ہیں لیکن ایک بار نہایت دکھ سے انھوں نے مجھ سے کہا کہ وہ آئے دن بچوں کو کچھ نہ کچھ بھجواتی رہتی ہیں لیکن دونوں بیٹوں میں سے کسی نے کبھی یہ نہ سوچا کہ وہ ماں ہیں ان کا بھی کبھی جی چاہتا ہے کہ بیٹے انھیں کوئی تحفہ دیں، خواہ پرفیوم کی ایک ننھی سی شیشی ہی سہی۔

کہ تحفے دوریاں دور کرتے ہیں لیکن ان کے مقدر میں شاید ایک پرفیوم کی شیشی بھی نہیں... دراصل اس مادہ پرست ماحول میں جہاں بیٹے ایک جھٹکے میں پرائے بن جاتے ہیں ان کے ذہنوں کو اس طرح آلودہ کر دیا جاتا ہے کہ وہ انتظار کرنے لگتے ہیں کہ کب ماں باپ مریں گے اور کب جائیداد اور روپیہ پیسہ ان کا ہو گا... میں ایک ایسی لڑکی سے بھی واقف ہوں جو اپنے شوہر کو اس کے ماں باپ کے خلاف کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی اور اس کا شوہر اس کی ہر بات ایسے سنتا ہے جیسے قرآن و حدیث۔ اس ناخلف بیٹے کو نہ تو ماں باپ کی فکر ہے کہ وہ کرایے کے مکان میں کس طرح رہ رہے ہیں، نہ ان سے ملنے جاتاہے البتہ بیوی کے ساتھ ساس، سسر، سالے اور سالیوں کے لیے تحائف دل کھول کر خریدتا ہے لیکن ماں باپ کے لیے اس کے پاس فیصل آباد سے کراچی تک کا ریل کا کرایہ بھی نہیں۔

عطیہ فیضی کی کوئی اولاد نہیں تھی، آخری عمر ان کی بڑی کسمپرسی میں کٹی۔ ایک بار ان سے کسی نے پوچھا کہ انھیں افسوس نہیں ہوتا کہ ان کا کوئی بیٹا نہیں جو آج کام آتا۔ اس پر اس عظیم اور نامور خاتون نے کہا کہ ''اگر بیٹا ہوتا اور نالائق ہوتا تو کیا ہوتا'' اسی طرح ڈاکٹر بی بی قریشی نے بھی مرنے سے چند دن پہلے کسی صحافی کو یہی جواب دیا تھا کہ ''اگر میری اولاد ہوتی اور نافرمان نکل جاتی تو کیا مجھے زیادہ دکھ نہ ہوتا؟''

کالم اختتام پذیر تھا کہ اچانک طارق محمود میاں کے جمعرات والے کالم پر نظر پڑی... اتفاق سے انھوں نے بھی یہی مسئلہ اٹھایا ہے۔ دراصل یہ دور ہر طرح سے بے حسی کا دور ہے۔ ہم سب بہت اکیلے ہو گئے ہیں۔ رشتے دار، پاس پڑوس، دوستیاں سب کو ٹی وی، موبائل فونز، فیکس بک اور انٹرنیٹ کھا گیا۔ ہم مشینوں کے درمیان سانس لے رہے ہیں اور زندہ لوگوں سے دور ہو گئے ہیں۔ ضعیف والدین، دادا، دادی، اب خاندانوں سے نکل کر ایدھی ہومز میں پناہ لینے پر مجبور ہیں لیکن کیا وہاں کا ماحول ایسا سازگار ہے جہاں لوگ اپنی مرضی کے ماحول میں زندگی گزار سکیں...؟ اولڈ پیپلز ہوم کے لیے حکومت کے پاس نہ وقت ہے نہ پیسہ کہ قومی خزانہ صدور اور وزرائے اعظم کے علاوہ ارکان اسمبلی کی ناز برداریاں اٹھانے کے لیے خرچ کیا جاتا ہے۔

کم از کم ایدھی صاحب کو چاہیے کہ مخیر حضرات کے تعاون سے ہر شہر میں ایسے گھر بنائے جائیں جہاں ایسے صاحب حیثیت لوگ معقول معاوضہ دے کر رہ سکیں جو اپنی اولاد کے ہوتے ہوئے تنہا ہیں، یا صاحب اولاد نہیں ہیں۔ آج کے دور میں اولاد اس صورت میں والدین کو ساتھ رکھنے پر آمادہ ہوتی ہے جب باپ باہر کے کام سنبھال لے اور ماں پوتوں کی آیا گیری کرنے کے علاوہ کچن بھی سنبھالے۔ ایسے بہت سے تکلیف دہ واقعات ہیں جو سننے والے کا دل دہلا دیتے ہیں۔ سچ ہے دس بچے ایک ماں کے پیٹ سے جنم لیتے ہیں۔ ان دس بچوں کو دو ماں باپ مل کر پالتے ہیں۔ دنیا کی ہر وہ خوشی دیتے ہیں جو ان کے اختیار میں ہو لیکن جوان ہو کر دس بچوں میں سے کوئی بچہ بھی ماں باپ کو ایک ساتھ رکھنے پر آمادہ نہیں ہوتا... باپ کہیں پڑا ہے اور ماں کہیں۔ بہت سے ایسے تکلیف دہ واقعات ہیں جنھیں آیندہ کسی کالم میں قارئین کی نذر کرونگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔