ہمارا کیا واسطہ

خالہ کلوعرف بی بی سی لڑ کھراتے قدموں سے رضیہ کی ماں کے کوارٹر میں داخل ہوئیں ۔ ٹوپی والا برقعہ جو صرف سر اور۔۔۔


S Nayyer July 06, 2013
[email protected]

خالہ کلوعرف بی بی سی لڑ کھراتے قدموں سے رضیہ کی ماں کے کوارٹر میں داخل ہوئیں ۔ ٹوپی والا برقعہ جو صرف سر اور ان کی کمر کے پردے کا کام دیتا تھا ، اتارکر چار پائی پر پھینکا اور خود بھی ہانپتی ہوئی چارپائی پر ڈھے سے گئیں۔ رضیہ کی ماں نے خالہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا ۔کیونکہ وہ محلے میں ان کی دشمن نمبر 1 شازیہ کی ماں کے گھر سے آرہی تھیں۔ پانی کا ایک گلاس پی کر خالہ کے ہوش وحواس بحال ہوئے تو وہ ریکارڈ کی طرح بجنے لگیں ۔ خالہ نے نان اسٹاپ شازیہ کی ماں کی غیبت شروع کی اور بات غیبت سے بڑھ کر بہتان تک جا پہنچی ۔ رضیہ کی ماں بڑی دلچسپی کے ساتھ اپنی حریف کی برائیاں سن رہی تھیں اور خودکوئی تبصرہ کرنے سے حتی الامکان گریز بھی کر رہی تھیں ۔ کیونکہ وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ خالہ ڈبل ایجنٹ ہیں ، ان کے تبصرے کا ایک ایک لفظ مع تشریح آج نہیں تو کل شازیہ کی ماں کے کانوں تک پہنچ جائے گا ۔

یہ ایک احاطے میں واقع نچلے درجے کے سرکاری ملازمین کے کواٹرز کی آبادی تھی ۔ خالہ کلو تمام کواٹرز میں دن بھر گھومتی اور ہر گھر کی خبر تمام محلے میں رضاکارانہ طور پر پھیلاتی رہتی تھیں ۔ ایسا کردار ہر محلے میں موجود ہوتا ہے ۔ آپ غور کریں تو آپ کے علاقے میں بھی کوئی نہ کوئی خالہ کلو ضرور ہوں گی ۔ جن کا کام ہی ادھر کی ادھر کرنا ہوتا ہے ۔ سب کی غیبت کرنے کے بعد خالہ کلو اٹھتے ہوئے بولیں '' بہن اپنا سمجھ کر تمہیں سب کچھ بتا دیا ہے ، کسی کو اس کی بھنک بھی نہ پڑنے پائے ۔ اور میرا تو نام بھی نہ لینا '' ۔ '' ارے بیٹھو بھی خالہ ابھی کہاں چلیں ؟ چائے تو پیتی جاؤ '' رضیہ کی ماں محبت سے بولی ۔ '' اور کیا کہا اس کمینی نے '' ؟ خالہ کلو ناگواری سے بولیں ۔ '' بہن میں تو پہلے ہی تمہیں اس سے زیادہ بتا چکی ہوں جو کچھ شازیہ کی ماں نے تمہارے بارے میں کہا تھا ۔

اور کیا بتاؤں ؟ رہی چائے کی بات تو اگر تمہیں چائے پلانا ہی ہوتی تو کب کا رضیہ کو آواز لگا کر پانی رکھنے کے لیے کہہ چکی ہوتیں ۔'' اری رضیہ ذرا چائے تو بنا دے فٹافٹ خالہ کلو آئی ہوئی ہیں ۔'' رضیہ کی ماں نے فوراً آواز لگائی اورخالہ کلو مسکرا کر دوبارہ بیٹھتے ہوئے بولیں '' تمہارا یہی خلوص اور تمہاری یہی محبت تو میرے قدم تمہاری چوکھٹ سے پھرنے نہیں دیتی ۔'' پھر چائے کے آنے تک پورے علاقے کے تقریباً تمام گھروں کے اندرونی معاملات کو خالہ نے اپنے ذاتی تبصرے کے ساتھ رضیہ کی ماں کے گوش گزار کیا ۔ غیبت اور بہتان کا ایک نیا دور چلا اور آخر میں حسب معمول خالہ نے اٹھتے ہوئے کہا '' بہن تم تو جانتی ہو کہ دوسروں کے معاملات میں ، میں تو کوئی ٹانگ اڑاتی نہیں ۔ ہمیں دوسروں سے کیا لینا ۔ وہ جانیں اور ان کا کام جانے ، ہم بیچ میں بولنے والے کون ہوتے ہیں '' ؟ یہ کہہ کر خالہ دروازے کی طرف چل دیں ۔ ان کے پیٹ میں اب اپھارہ ہونے لگا تھا کہ جو کچھ رضیہ کے گھر گفتگو ہوئی تھی ، وہ اسے کہیں اور سیاق و سباق کے ساتھ جلد از جلد بیان کردیں اور آخر میں یہ کہہ کر اٹھ جائیں کہ '' بہن ہمیں دوسروں کے ذاتی معاملات سے کیا لینا دینا وہ جانیں اور ان کا کام جانے''۔

میرا دل بھی حکمرانوں سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہے ، مگر میں بھی خالہ کلو کی اس تھیوری سے متفق ہوں کہ حکمرانوں کے معاملات حکمران ہی بہتر سمجھتے ہیں ہمیں ان سے کیا لینا؟ لیکن دل ہے کہ مانتا نہیں ۔ مثلاً اب سی این جی کی قلت جب سے پیدا ہوئی ہے اور پچھلی اور موجودہ حکومت کی جانب سے جو تجاویز میڈیا کے ذریعے سامنے آرہی ہیں انھیں سن سن کر بے اختیار پہلے ہنسنے اور پھر رونے کو دل چاہتا ہے ۔ ایک تجویز یہ سامنے آئی ہے کہ سی این جی کی قیمت میں 80 فیصد اضافہ کردیا جائے تاکہ سی این جی کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جاسکے ۔ گویا قیمت پٹرول کے برابر کردی جائے ۔ اگر ایسا ہوگیا تو وہ کون بے وقوف ڈرائیور یا گاڑی کا مالک ہوگا جو پٹرول کی قیمت میں سی این جی خرید کر پٹرول کے پک اپ سے محروم ہونا پسند کرے گا ؟ پٹرول سے چلنے والی گاڑی کا جو پک اپ ہے وہ کسی اور فیول میں موجود نہیں ہے ۔ پھر ظاہر ہے پٹرول کی کھپت بڑھ جائے گی اور تیل باہر سے درآمد کیا جاتا ہے ۔ پھر درآمدی بل جو بڑھے گا تو زر مبادلہ کے ذخائر پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟ اس کا ذمے دار کون ہوگا ؟ مگر ہمیں کیا ؟ ہمیں حکمرانوں کے معاملات سے کیا لینا دینا ؟ ہم یہ سوال کیوں پوچھیں ؟ دوسری خبر یہ ہے کہ وہ تمام سی این جی اسٹیشنز بند کردیے جائیں جو آبادیوں کے درمیان، اسکولوں کے نزدیک ، اسپتالوں کے نزدیک اور دیگر حساس مقامات پر واقع ہیں ، تاکہ شہریوں کی جان کو لاحق ممکنہ خطرات سے انھیں حتی الا مکان بچایا جاسکے ۔ دل چاہتا ہے کہ ان صاحب کا نام حکومت سے معلوم کروں جنھوں نے ان سی این جی اسٹیشنز کو یہ لائسنس جاری کیے تھے ۔

ٹھیک ہے کہ رشوت کا لین دین چلتا ہی رہتاہے ، مگر وہ صاحب کیا رشوت کی چکا چوند میں اتنے ہی نابینا ہوگئے تھے کہ انھوں نے سی این جی اسٹیشنز کی لوکیشن پر ہی غور نہیں فرمایا ؟ اور موجودہ حکومت کو اچانک خیال آگیا کہ یہ اسٹیشنز تو غلط جگہ پر واقع ہیں ۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سی این جی اسٹیشنز بنانے والے کو تو سزا دی جا رہی ہے لیکن اجازت دینے والی اتھارٹی کا نہ تو احتساب کیا جارہا ہے اور نہ ہی ان صاحب کا نام سامنے لایا جا رہا ہے ، جنھوں نے یہ اجازت نامے جاری کیے تھے ۔ مگر ہمیں اس سے کیا ؟ ہم بیچ میں بولنے والے کون ہوتے ہیں ؟ یہ حکمرانوں کے معاملات ہیں وہ جانیں اور ان کا کام جانے ۔ ایک زمانے میں بڑے فخریہ انداز سے بتایا جاتا تھا کہ پاکستان میں سی این جی پر چلنے والی گاڑیوں کی تعداد پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے ۔ تقریباً تیس لاکھ گاڑیاں سی این جی پر منتقل ہوچکی ہیں ۔ لیکن اب یہ کہا جارہا ہے کہ سی این جی پر گاڑی چلالو یا پھر ، بجلی لے لو ۔ بے اختیار دل چاہتا ہے کہ یہ سوال ٹھونک ہی دیا جائے کہ وہ کون صاحب تھے جو سی این جی اسٹیشنز کے لائسنس ریوڑیوں کی طرح یہ جانے بغیر بانٹے جارہے تھے کہ ملک میں گیس کے ذخائر کتنے ہیں ؟ اور ان صاحب یا صاحبان کو کس نے اس کام پر تعینات کیا تھا ؟ اتنی بے خبر اتھارٹی ، جسے یہ نہ معلوم ہو کہ ہمارے پاس مال کتنا ہے ؟ اور وہ مسلسل مال فروخت کرتی رہی اب جب مال ختم ہوگیا تو قصور وار انھیں ٹھہرایا جا رہا ہے جنھوں نے یہ مال خریدا تھا اور مال فروخت کرنے والا مزے سے اب کسی اور دکان پر بیٹھا ہوگا اورکوئی دوسرا مال فروخت کر رہا ہوگا ۔

موجودہ حکمرانوں نے پچھلے کا اور پچھلے نے اپنے پچھلے کا احتساب کرنا گناہ کبیرہ سمجھ رکھا ہے ۔ جب تک قصوروار کا احتساب نہیں کیا جاتا یہ معاملات یونہی چلتے رہیں گے ۔ مگر ہمیں کیا ؟ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ دوسروں کے معاملات میں بولنے کی ہمیں تو عادت ہی نہیں ہے ۔ ہمیں حکمرانوں کی آپس میں ملی بھگت سے کیا لینا دینا ؟ وہ جانیں اور ان کا کام جانے ہم بیچ میں بولنے والے کون ہوتے ہیں ؟ اور نہ ہی ہمیں حکمرانوں کے معاملات سے کوئی دلچسپی ہے ۔ ہمیں کیا معلوم کہ ان سی این جی اسٹیشنز کے لائسنس حاصل کرنے کے لیے کس نے کتنی رشوت دی یا لی ۔ یہ رشوت سیاسی تھی یا مالی ؟ رشوت جیسی بھی تھی ۔ ہمیں اس سے کیا لینا دینا ؟ اور اگر موجودہ حکومت پچھلی حکومت کے کارناموں کو بے نقاب نہیں کر رہی تو یہ کہیں اس غیر تحریری معاہدے کا حصہ تو نہیں کہ '' تم اپنا منہ ادھر کر لو ، ہم اپنا منہ ادھر کر لیں '' ۔ مگر ہمارا کسی معاہدے سے کیا واسطہ؟ حکمرانوں کے معاملات حکمران ہی جانیں ۔ ہم ان کے معاملات میں بولنے والے کون ہوتے ہیں ؟اور ہمیں ویسے بھی خالہ کلو کی طرح دوسروں کے معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں