وزیر اعظم کا دورۂ چین اقتصادی تعاون کے نئے دور کا آغاز
اقوام عالم کی تاریخ میں پاک چین دوستی کی کہانی کو ہمیشہ منفرد حیثیت حاصل رہے گی۔عالمی سیاست کی بدلتی رتوں اور۔۔۔
اقوام عالم کی تاریخ میں پاک چین دوستی کی کہانی کو ہمیشہ منفرد حیثیت حاصل رہے گی۔عالمی سیاست کی بدلتی رتوں اور ہر طرح کے اندرونی حالات میں دونوں ہمسایہ ممالک کے باہمی تعلقات مسلسل فروغ پزیر رہے ہیں اور آج بھی سیاسی ، تجارتی اور معاشی میدانوں میں ان تعلقات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے نتیجے میں خطے میں تعمیرو ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔اس تناظر میں وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کا حالیہ دورہ چین غیر معمولی اہمیت کاحامل ہے جس اکا اندازہ اس امر سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ وزیر پاکستان کا اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔اس امر سے دونوں ممالک کی حکومتی سطح پر ترجیحات کا اندازہ بھی بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ چین اقتصادی اور تجارتی اعتبار سے پاکستان کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔اس وقت پاکستان میں اقتصادی بہتری اور توانائی کے بحران کے حل کے تناظر میں چین کے تعاون سے شروع ہونے والے منصوبوں سے بہت سی توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں۔واضح رہے کہ اس وقت نو منتخب حکومت کو کمزور اقتصادیات، سست روی کی شکار ملکی پیداوار، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، کرنسی کی گرتی ہوئی قیمت اور توانائی کے بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان مسائل کے حل کے لیے بین الاقوامی تعاون کا میدان بہت اہم ہے۔قومی سطح پر درپیش ان مسائل کے پیش نظر اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی موجودہ حکمران سیاسی جماعت پی ایم ایل (این) کی جانب سے ملک کی اقتصادی زبوں حالی اور توانائی کے بحران کے سبب پریشان حال عوام سے ان درپیش مسائل کے جلد سدباب کا وعدہ کیا گیا تھا اور وزیر اعظم کا اعلیٰ سطحی دورہ چین انہی کاوشوں کی ایک اہم کڑی دکھائی دیتا ہے۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنے پانچ روزہ حالیہ دورہ ٔ چین کے دوران چینی صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم لی چیانگ کے علاوہ اہم کارباوری اور صنعتی شخصیات سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک چین کے اہم اقتصادی زون اور صنعتی مراکز کا دورہ بھی ان کی مصروفیات میں شامل کیا کیا گیا اور انھوں نے مختلف مواقع پر چین کے مالیاتی امور اور اقتصادی شعبوں کی چوٹی کی شخصیات سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بطور وزیر اعظم انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد مگر اپنے عہدے کا حلف اٹھانے سے قبل انھوں نے مئی کے مہینے میںمیں چینی وزیر اعظم کا پاکستان میں خیر مقدم کیا تھا۔اسی طرح 22 مئی کو دو روزہ دورے پرپاکستان پہنچنے والے لی چیانگ نے اسلام آباد حکومت کے ساتھ متعدد ترقیاتی، اقتصادی اور تجارتی معاہدوں پر اتفاق کیا تھا اور ان معاہدوں پر دو طرفہ دستخط بھی کیے گئے تھے۔
توانائی کے شعبے میں تعاون کے حوالے سے گزشتہ
ماہ وزیر اعظم پاکستان نے چین کی سرکاری صنعتی کارپوریشن NORINCO سے پاکستان میں ایک شمسی پاور پلانٹ کی تنصیب، کان کنی کے شعبے کے فروغ اور آئرن یا لوہے کے ذخائر کی تسخیر جیسے اہم کاموں میں تعاون کی درخواست کی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان کے بڑے شہروں میں زیر زمین ٹرینوں کے نیٹ ورک قائم کرنے کے بارے میں بھی بات چیت کی گئی تھی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی ایٹمی پلانٹس کا بنیادی ڈھانچہ پاکستان کے لیے مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔وزیر اعظم پاکستان حال ہی میں بحیرہ عرب پر چینی سرحد سے متصل ایک ٹریڈ کوریڈور یا اقتصادی راہ داری کی تعمیر کے منصوبے کا عندیہ دے چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اہم تبدیلیوں کا باعث ثابت ہوگا اور تین ارب انسانوں کی خوشحالی اور ترقی کا باعث ثابت ہوگا۔
جہاں تک پاکستان کی اقتصادی مشکلات کا تعلق ہیم چین کے ساتھ باہمی تجارت کا فروغ اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے ۔ پاکستان اور چین کے مابین تجارت کا حجم گزشتہ برس 12ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا، جب کہ آئندہ دو سے تین برسوں کے دوران یہ حجم بڑھ کر 15 ارب ڈالر تک پہنچ جانے کی امید کی جا رہی ہے۔توقع کی جانی چاہیے کہ وزیر اعظم کے حالیہ دورہ چین سے اس ضمن میں اہم پیشرفت ہو گی کیونکہ وزیر اعظم پاکستان کے علاوہ چین کے صدر شی جن پنگ نے بھی پاک چین سدا بہار دوستی کو نئی بلندیوں تک لے جانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔چینی رہنماؤں سے ملاقاتوں کے دوران وزیر اعظم نے غیر مبہم انداز اختیار کرتے ہوئے پاکستان کو درپیش کئی چیلنجوں کا ذکر کیا اور کہا کہ ملک کی معیشت کو موجودہ مشکلات سے نکالنا ان کے لیے ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
اس اہم دورہ چین کے دوارن خطے میں سلامتی کی مجموعی صورت حال بھی تفصیل سے زیر بحث آئی ہے ۔وزیر اعظم نے دہشت گردی کے خطرے، خطے میں امن و امان کی مجموعی صورت حال اور اس حوالے سے پاک چین تعاون اور دونوں ملکوں کے اہم کردار پر چینی قیادت کے ساتھ تفصیلی گفتگو کی ۔اقتصادی تعاون، سرمایہ کاری اور توانائی کے بحران کے حل کے لیے مختلف منصوبوں کے علاوہ گوادر کی بندرگاہ کے حوالے سے مختلف معاملات پر چینی قیادت سے تبادلہ خیال کیا۔ وزیر اعظم پاکستان کے دورے کا انتہائی خوش آئند پہلو یہ بھی ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدا لمالک بلوچ اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی ان کے ہمراہ ہیں جو اپنے متعلقہ صوبوں میں سرمایہ کاری اور باہمی تعاون پر مشتمل منصوبوں کے حوالے سے چین کے سرکاری اور نجی شعبے کی اہم شخصیات اور اداروں سے بات گفتگو کر رہے ہیں۔اقتصادی ، سفارتی، اور سیاسی ماہرین نے دورے کے مضمرات کے حوالے سے بجا طور پر امید ظاہر کی کہ آنے والے دنوں میں اس سے انتہائی ٹھوس نتائج سامنے آئیں گے۔