عمران خان مارچ تک محفوظ ہیں
عمران خان کا خیال ہے کہ ن لیگ اور پی پی پی کے اتحاد کا انھیں سیاسی فائدہ ہوگا۔
ملک کے سیاسی منظر نامے میں بے وجہ کی ہلچل نظر آرہی ہے۔ نواز شریف کا جیل جانا اب کوئی سرپرائز نہیں رہا، ان کے جیل جانے سے ملکی سیاسی منظر نامے میں شاید کوئی زیادہ ہلچل نہ ہو کیونکہ وہ پہلے بھی جیل میں رہ چکے ہیں۔ البتہ آصف زرداری کے جیل جانے کی بازگشت نے ہلچل پیدا کی ہے۔ یہ ہلچل اصلی ہے یا چائے کی پیالی میں طوفان کے مصداق ہے،یہ آنے والے حالات بتائیں گے۔ آصف زرداری اپوزیشن کی طرف لوٹ رہے ہیں لیکن شاید انھوں نے بہت دیر کر دی ہے۔
اگر مچھلی پتھر چاٹ کر واپس لوٹتی ہے تو اسے کیا کہا جائے گا۔ سب اندازہ لگا رہے تھے کہ نواز شریف کے بعد آصف زرداری کی باری ہے۔ شاید ایک آصف زرداری کو ہی علم نہیں تھا کہ نواز شریف کے بعد ان کی باری ہے۔ آصف زرداری خلوص دل کے ساتھ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔ نواز شریف کو شکست دینے میں بھر پور مدد کر رہے تھے ۔ لیکن ممکن ہے کہ ان کی ساری مدد اور تعاون بھی ان کونہ بچا سکے۔
ایک تاثر یہ بھی ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے آصف زرداری کو استعمال کر کے پھینک دیا ہے۔ نواز شریف اور ن لیگ والے پہلے دن سے پی پی پی اور آصف زرداری سے کہہ رہے تھے کہ ہمارے بعد آپ کی باری ہے۔ لیکن پی پی پی اور آصف زرداری کو یقین تھا کہ وہ بھر پور تعاون کر رہے ہیں اس لیے ان کی باری نہیں آئے گی۔
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ دس دن میں پی پی پی نے اپنی پالیسی تبدیل کی ہے۔ یہ وہی پی پی پی ہے جو وزیر اعظم کے لیے شہباز شریف کو ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں تھی لیکن اب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے لیے شہباز شریف کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ پی پی پی کی پالیسی میں تبدیلی نے اپوزیشن کو بہت مضبوط کر دیا ہے۔ لیکن ن لیگ کو یقین نہیں ہے کہ کب پی پی پی دوبارہ اپنی پالیسی تبدیل کر لے۔ کب اسٹبلشمنٹ اور زرداری کے درمیان دوبارہ ڈیل ہو جائے۔ اس لیے ایک امکان یہ بھی ہے کہ اگر ن لیگ نے پی پی پی کو گلے لگا لیا تو زرداری کو تو ریلیف مل جائے گا لیکن شریف خاندان اور ن لیگ کی مشکلات میں کمی کے بجائے اضافہ ہو جائے گا۔ اس لیے ن لیگ کسی گرم جوشی سے پرہیز کر رہی ہے۔ پی پی پی سے فاصلے برقرار رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ملاقات سے اجتناب کیا جا رہا ہے۔ البتہ بیک ڈور سے پی پی پی سے بات چیت جاری ہے، کسی نئے معاہدہ پر بات جاری ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن پہلے سے تیار ہیں۔ زرداری واپس آگئے ہیں۔حکومتی حلیف ایم کیو ایم اور مینگل بھی اپوزیشن کے ساتھ چلنا شروع ہو گئے ہیں۔ ن لیگ مان جائے تو قومی اسمبلی میں کسی بھی وقت عدم اعتماد آسکتا ہے۔ لیکن ن لیگ تیار نہیں ہے۔ ن لیگ کا خیال ہے کہ مارچ تک اس حکومت کو وقت دینا چاہیے۔ اس لیے مارچ تک اپوزیشن جماعتوں کو مل کر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومت کو ٹف ٹائم دینا چاہیے۔ ہر مسئلہ پر حکومت کو دونوں ایوانوں میں شکست دینی چاہیے۔ بے شک حکومت عددی اکثریت کھو چکی ہے لیکن پھر بھی ابھی تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا وقت نہیں ہے۔ اس ضمن میں ابھی انتظار کرنا چاہیے۔
ن لیگ کی سوچ یہ ہے کہ آصف زرداری کو بھی جیل جانا چاہیے۔ چند ماہ میں ان کی ضمانت ہو جائے گی۔ ان کے بھی پروڈکشن آرڈر جاری کروائے جائیں گے جیسے شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر جاری کروائے جاتے ہیں۔ اگر بلاول کو بھی جیل جانا پڑتا ہے تو کوئی بات نہیں۔ اس وقت حکومت گرانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ تین ماہ میں حکومت از خود اتنی کمزور ہو جائے گی کہ اس کو گرانا آسان ہو جائے گا۔
تا ہم اصل بات یہ بھی ہے کہ تبدیلی کی عددی طاقت تو موجود ہے لیکن اداروں کی حمایت موجود نہیں ہے۔ پہلے مرحلے میں چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کا بھی انتظار کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کو چیف جسٹس کے از خود نوٹس توہین عدالت کی کارروائیوں اور جیوڈیشل ایکٹوازم پر بھی بہت تحفظات ہیں۔ لیکن اپوزیشن کے حلقوں میں یہ سوچ بھی موجود ہے کہ اگلے چیف جسٹس ایسے نہیں ہو نگے۔ یہ از خود نوٹسز ختم ہو جائیں گے۔ یہ ریمارکس ختم ہو جائیں گے۔ جیوڈیشل ایکٹوازم بھی بہت کم ہو جائے گا۔ جیسے افتخار چوہدری کے جانے سے ختم ہو گیا تھا۔اس لیے سب کو اگلے ماہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کا انتظار ہے۔ایک رائے ہے کہ اس ریٹائرمنٹ کے بعد ملک کا سیاسی ماحول بدل جائے گا۔
نیب پر دباؤ بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسی تناظر میں اپوزیشن کے ارکان نے مشترکہ طور پر چیئرمین نیب کو خط لکھا ہے۔ وہ چیئرمین نیب کو ملنا بھی چاہتے ہیں۔ اپوزیشن مل کر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نیب پر دباؤ بڑھائے گی۔ نیب کی یک طرفہ کارروائیوں کو سامنے لایا جائے گا۔ اپوزیشن کو یقین ہے کہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ اور نیب پر دباؤ کے نتیجے میں نیب کی یک طرفہ کارروائیاں اگر بند نہیں ہو نگی تو ان میں توازن آئے گا۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ حکومت کا ایک بھی رکن وزیر گرفتار ہو گیا تو حکومت گر جائے گی۔
اتنی کمزور حکومت نیب کی ایک کارروائی بھی سہنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ اس لیے نیب کو حکومتی نمایندوں کے کیس میں کارروائی کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔اپوزیشن کو خیال ہے کہ یک طرفہ احتساب سے نیب آلودہ ہو رہا ہے، یہ آلودگی نیب کی اخلاقی ساکھ کو کمزور کر رہی ہے۔ حکومتی وزراء کی بیرون ملک جائیدادیں سامنے آرہی ہیں۔
ن لیگ کی خواہش ہے کہ پہلے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد لایا جائے اور رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ لایا جائے۔اس کے بعد قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لائی جائے۔ لیکن قومی اسمبلی میں عدم اعتماد لانے کے لیے صرف عددی اکثریت کافی نہیںہے۔ عمران خان قبل از وقت انتخابات کی بات ایسے ہی نہیں کر رہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ عمران خان کو احساس ہو گیا ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں عددی اکثریت قائم نہیں رکھ سکتے۔ اس لیے اس نعرے کے ساتھ کہ سب چور اکٹھے ہو گئے ہیں وہ انتخابات کا اعلان کر سکتے ہیں۔
عمران خان کا خیال ہے کہ ن لیگ اور پی پی پی کے اتحاد کا انھیں سیاسی فائدہ ہوگا۔ وہ اگر اس نعرے پر دوبارہ انتخاب میں چلے جائیں کہ احتساب کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چور اکٹھے ہو گئے ہیں۔ چور انھیں نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس طرح ان کی بری کارکردگی بھی چھپ جائے گی اور وہ الیکشن میں دوبارہ جا سکتے ہیں۔ عمران خان کا خیال ہے کہ وہ قومی اسمبلی توڑ سکتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی بھی توڑی جا سکتی ہے۔ کے پی بھی توڑی جا سکتی ہے۔ بلوچستان اسمبلی بھی ٹوٹ جائے گی۔ اس کے بعد پی پی پی سندھ اسمبلی توڑنے پر مجبور ہو جائے گی۔ اس طرح نئے انتخابات ممکن ہیں۔
اپوزیشن کو عمران خان کے اس کارڈ کا احساس ہے۔ اسی لیے مارچ تک عدم اعتماد نہ لانے کی بات کی جارہی ہے۔پہلے سینیٹ میں عدم اعتماد لانے کی بات کی جارہی ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کو مضبوط کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ قدم سے قدم ملانے کی بات کی جا رہی ہے۔
اپوزیشن کے اندر یہ سوچ ہے کہ عمران خان ایک مضبوط اپوزیشن کے سامنے نہیں کھڑے ہو سکیں گے۔ ملک میں احتساب کے لیے نئے قوانین کے لیے حکومت کو مجبور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اس تناظر میں اپوزیشن بے شک طاقتور ہو رہی ہے لیکن عمران خان کی وزارت عظمیٰ کو فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں ہیں۔ وہ ایک کمزور وزیر اعظم رہیں گے۔عددی اکثریت بھی ختم ہو جائے گی۔ ایک ایسی حکومت جس کی معاشی کارکردگی زیرو ہو گی۔ پارلیمانی کارکردگی بھی زیرو ہو گی۔ احتساب بھی نا مکمل ہوگا۔ اس لیے ابھی مارچ تک انتظار کا فیصلہ کیا گیا۔ ابھی مارچ تک کا روڈ میپ طے ہے۔ اگر نیشنل سیکیورٹی کونسل کی ترمیم پر بات طے ہو جائے تو عمران خان مائنس ہو سکتے ہیں اور ایک قومی حکومت بھی بن سکتی ہے۔ لیکن مارچ تک ابھی کچھ نہیں ہوگا۔
اگر مچھلی پتھر چاٹ کر واپس لوٹتی ہے تو اسے کیا کہا جائے گا۔ سب اندازہ لگا رہے تھے کہ نواز شریف کے بعد آصف زرداری کی باری ہے۔ شاید ایک آصف زرداری کو ہی علم نہیں تھا کہ نواز شریف کے بعد ان کی باری ہے۔ آصف زرداری خلوص دل کے ساتھ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔ نواز شریف کو شکست دینے میں بھر پور مدد کر رہے تھے ۔ لیکن ممکن ہے کہ ان کی ساری مدد اور تعاون بھی ان کونہ بچا سکے۔
ایک تاثر یہ بھی ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے آصف زرداری کو استعمال کر کے پھینک دیا ہے۔ نواز شریف اور ن لیگ والے پہلے دن سے پی پی پی اور آصف زرداری سے کہہ رہے تھے کہ ہمارے بعد آپ کی باری ہے۔ لیکن پی پی پی اور آصف زرداری کو یقین تھا کہ وہ بھر پور تعاون کر رہے ہیں اس لیے ان کی باری نہیں آئے گی۔
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ دس دن میں پی پی پی نے اپنی پالیسی تبدیل کی ہے۔ یہ وہی پی پی پی ہے جو وزیر اعظم کے لیے شہباز شریف کو ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں تھی لیکن اب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے لیے شہباز شریف کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ پی پی پی کی پالیسی میں تبدیلی نے اپوزیشن کو بہت مضبوط کر دیا ہے۔ لیکن ن لیگ کو یقین نہیں ہے کہ کب پی پی پی دوبارہ اپنی پالیسی تبدیل کر لے۔ کب اسٹبلشمنٹ اور زرداری کے درمیان دوبارہ ڈیل ہو جائے۔ اس لیے ایک امکان یہ بھی ہے کہ اگر ن لیگ نے پی پی پی کو گلے لگا لیا تو زرداری کو تو ریلیف مل جائے گا لیکن شریف خاندان اور ن لیگ کی مشکلات میں کمی کے بجائے اضافہ ہو جائے گا۔ اس لیے ن لیگ کسی گرم جوشی سے پرہیز کر رہی ہے۔ پی پی پی سے فاصلے برقرار رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ملاقات سے اجتناب کیا جا رہا ہے۔ البتہ بیک ڈور سے پی پی پی سے بات چیت جاری ہے، کسی نئے معاہدہ پر بات جاری ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن پہلے سے تیار ہیں۔ زرداری واپس آگئے ہیں۔حکومتی حلیف ایم کیو ایم اور مینگل بھی اپوزیشن کے ساتھ چلنا شروع ہو گئے ہیں۔ ن لیگ مان جائے تو قومی اسمبلی میں کسی بھی وقت عدم اعتماد آسکتا ہے۔ لیکن ن لیگ تیار نہیں ہے۔ ن لیگ کا خیال ہے کہ مارچ تک اس حکومت کو وقت دینا چاہیے۔ اس لیے مارچ تک اپوزیشن جماعتوں کو مل کر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومت کو ٹف ٹائم دینا چاہیے۔ ہر مسئلہ پر حکومت کو دونوں ایوانوں میں شکست دینی چاہیے۔ بے شک حکومت عددی اکثریت کھو چکی ہے لیکن پھر بھی ابھی تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا وقت نہیں ہے۔ اس ضمن میں ابھی انتظار کرنا چاہیے۔
ن لیگ کی سوچ یہ ہے کہ آصف زرداری کو بھی جیل جانا چاہیے۔ چند ماہ میں ان کی ضمانت ہو جائے گی۔ ان کے بھی پروڈکشن آرڈر جاری کروائے جائیں گے جیسے شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر جاری کروائے جاتے ہیں۔ اگر بلاول کو بھی جیل جانا پڑتا ہے تو کوئی بات نہیں۔ اس وقت حکومت گرانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ تین ماہ میں حکومت از خود اتنی کمزور ہو جائے گی کہ اس کو گرانا آسان ہو جائے گا۔
تا ہم اصل بات یہ بھی ہے کہ تبدیلی کی عددی طاقت تو موجود ہے لیکن اداروں کی حمایت موجود نہیں ہے۔ پہلے مرحلے میں چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کا بھی انتظار کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کو چیف جسٹس کے از خود نوٹس توہین عدالت کی کارروائیوں اور جیوڈیشل ایکٹوازم پر بھی بہت تحفظات ہیں۔ لیکن اپوزیشن کے حلقوں میں یہ سوچ بھی موجود ہے کہ اگلے چیف جسٹس ایسے نہیں ہو نگے۔ یہ از خود نوٹسز ختم ہو جائیں گے۔ یہ ریمارکس ختم ہو جائیں گے۔ جیوڈیشل ایکٹوازم بھی بہت کم ہو جائے گا۔ جیسے افتخار چوہدری کے جانے سے ختم ہو گیا تھا۔اس لیے سب کو اگلے ماہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کا انتظار ہے۔ایک رائے ہے کہ اس ریٹائرمنٹ کے بعد ملک کا سیاسی ماحول بدل جائے گا۔
نیب پر دباؤ بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسی تناظر میں اپوزیشن کے ارکان نے مشترکہ طور پر چیئرمین نیب کو خط لکھا ہے۔ وہ چیئرمین نیب کو ملنا بھی چاہتے ہیں۔ اپوزیشن مل کر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نیب پر دباؤ بڑھائے گی۔ نیب کی یک طرفہ کارروائیوں کو سامنے لایا جائے گا۔ اپوزیشن کو یقین ہے کہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ اور نیب پر دباؤ کے نتیجے میں نیب کی یک طرفہ کارروائیاں اگر بند نہیں ہو نگی تو ان میں توازن آئے گا۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ حکومت کا ایک بھی رکن وزیر گرفتار ہو گیا تو حکومت گر جائے گی۔
اتنی کمزور حکومت نیب کی ایک کارروائی بھی سہنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ اس لیے نیب کو حکومتی نمایندوں کے کیس میں کارروائی کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔اپوزیشن کو خیال ہے کہ یک طرفہ احتساب سے نیب آلودہ ہو رہا ہے، یہ آلودگی نیب کی اخلاقی ساکھ کو کمزور کر رہی ہے۔ حکومتی وزراء کی بیرون ملک جائیدادیں سامنے آرہی ہیں۔
ن لیگ کی خواہش ہے کہ پہلے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد لایا جائے اور رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ لایا جائے۔اس کے بعد قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لائی جائے۔ لیکن قومی اسمبلی میں عدم اعتماد لانے کے لیے صرف عددی اکثریت کافی نہیںہے۔ عمران خان قبل از وقت انتخابات کی بات ایسے ہی نہیں کر رہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ عمران خان کو احساس ہو گیا ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں عددی اکثریت قائم نہیں رکھ سکتے۔ اس لیے اس نعرے کے ساتھ کہ سب چور اکٹھے ہو گئے ہیں وہ انتخابات کا اعلان کر سکتے ہیں۔
عمران خان کا خیال ہے کہ ن لیگ اور پی پی پی کے اتحاد کا انھیں سیاسی فائدہ ہوگا۔ وہ اگر اس نعرے پر دوبارہ انتخاب میں چلے جائیں کہ احتساب کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چور اکٹھے ہو گئے ہیں۔ چور انھیں نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس طرح ان کی بری کارکردگی بھی چھپ جائے گی اور وہ الیکشن میں دوبارہ جا سکتے ہیں۔ عمران خان کا خیال ہے کہ وہ قومی اسمبلی توڑ سکتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی بھی توڑی جا سکتی ہے۔ کے پی بھی توڑی جا سکتی ہے۔ بلوچستان اسمبلی بھی ٹوٹ جائے گی۔ اس کے بعد پی پی پی سندھ اسمبلی توڑنے پر مجبور ہو جائے گی۔ اس طرح نئے انتخابات ممکن ہیں۔
اپوزیشن کو عمران خان کے اس کارڈ کا احساس ہے۔ اسی لیے مارچ تک عدم اعتماد نہ لانے کی بات کی جارہی ہے۔پہلے سینیٹ میں عدم اعتماد لانے کی بات کی جارہی ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کو مضبوط کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ قدم سے قدم ملانے کی بات کی جا رہی ہے۔
اپوزیشن کے اندر یہ سوچ ہے کہ عمران خان ایک مضبوط اپوزیشن کے سامنے نہیں کھڑے ہو سکیں گے۔ ملک میں احتساب کے لیے نئے قوانین کے لیے حکومت کو مجبور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اس تناظر میں اپوزیشن بے شک طاقتور ہو رہی ہے لیکن عمران خان کی وزارت عظمیٰ کو فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں ہیں۔ وہ ایک کمزور وزیر اعظم رہیں گے۔عددی اکثریت بھی ختم ہو جائے گی۔ ایک ایسی حکومت جس کی معاشی کارکردگی زیرو ہو گی۔ پارلیمانی کارکردگی بھی زیرو ہو گی۔ احتساب بھی نا مکمل ہوگا۔ اس لیے ابھی مارچ تک انتظار کا فیصلہ کیا گیا۔ ابھی مارچ تک کا روڈ میپ طے ہے۔ اگر نیشنل سیکیورٹی کونسل کی ترمیم پر بات طے ہو جائے تو عمران خان مائنس ہو سکتے ہیں اور ایک قومی حکومت بھی بن سکتی ہے۔ لیکن مارچ تک ابھی کچھ نہیں ہوگا۔