آرٹس اینڈ کلچرل یونیورسٹی آف پاکستان
کوئی بھی جیتے آرٹس اینڈ کلچرل یونیورسٹی کی منزل تک ہی اس کاررواں کا سفر ضروری ہے۔
آپ سوچیں گے کہ ایسی چیزکا نام بے موقع و محل کیوں لیا، جس کا وجود فی الوقت پاکستان میں نہیں۔ جناب یہ میرا لگایا ہوا کوئی پودا نہیں بلکہ یہ خیال تو آرٹس کونسل آف پاکستان کے موجودہ صدر احمد شاہ کا ہے جو گزشتہ 10 انتخابی معرکوں میں بازی لے جا چکے ہیں اور ان کی ٹیم کا ہے جس میں ان کے ہمنوا پروفیسر اعجاز احمد فاروقی ہیں جو قدم بہ قدم ان کے ساتھ اس سفر میں ہیں۔
میری گزشتہ روز ریلوے ورکرز یونین کے صدر سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے دریافت کیا کہ منظور رضی آپ مجھے چند جملوں میں بتائیے کہ آپ آرٹس کونسل آف پاکستان کے کب سے رکن ہیں تو انھوں نے بتایا کہ میں تو 1965ء سے یہاں کارکن ہوں، اس وقت یہاں شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کا اجتماع شام کو چند گھنٹے ہوا کرتا تھا اور گاہے بہ گاہے پروگرام ہوا کرتے تھے۔
یہ زمین تو تحفہ ہے عطیہ رحمین فیضی کا جن کے معترف علامہ اقبال بھی ہوا کرتے تھے اور شبلی بھی اور فیض احمد فیضؔ کی دور بینی اور ان کے ہمنواؤں نے اس میں روح پھونکی، بعد ازاں یاور مہدی جو ایک دور یعنی 70ء کی دہائی میں ریڈیو پاکستان کے ہفتہ طلبا کے پروگراموں کے روح رواں تھے۔ انھوں نے اس کی آبیاری فرمائی پھر ایک دور آیا جس میں گرامی صاحب نے چند برس خدمت کی، پھر ایک دہائی ایسی آئی جس میں مطرب فن و ادب احمد شاہ اور ان کے ہمنواؤں کا دور آیا جنھوں نے نئے باغات لگائے اورآرٹس کونسل کو نئے سرے سے آباد کیا۔
نئی عمارتیں تیارکیں، فن و ادب کے لیے نئے آڈیٹوریم بنائے، نت نئے ڈرامے سجائے، فنکاروں کے سائباں بنے، رزق کے نئے دروازے کھولے۔ آئے دن ارکان آرٹس کونسل کی ضیافت فرمائی۔ سال میں 365 ایام ہوتے ہیں مگر انھوں نے دنوں کے اعتبار سے دگنے پروگرام کیے اور محفل شعر و ادب کے لیے نئی مراعات دیں۔ مذہبی اجتماعات، نبی اکرمؐ کی تعلیمات کو پھیلانے کے لیے محسن انسانیت کی تعلیمات پر اعلیٰ مجالس منعقد کیں۔ ماہ محرم میں خصوصی پروگرام منعقد کیے اور دیگر مذاہب کے لیے بھی نرم گوشہ رکھا۔
ابتدا میں ہر سال انتخابات ہوتے رہے اورگزشتہ برس جنرل باڈی بلا کر دستور میں چند تبدیلیاں فرمائیں۔ جن میں انتخابات ہر سال کے بجائے انتخابات دو سال کے لیے کیے گئے کیونکہ اس سال بھر صرف انتخابات میں گزر جاتے تھے۔ زیادہ عمر یعنی 65 سال سے زیادہ عمر والوں کی ممبرشپ فیس ختم کی اور ان کی رکنیت کو تاحیات کیا۔ جب کہ کچھ ایسے بھی کام کیے جن کا تذکرہ ضروری نہیں مگر نہایت خوبصورتی سے بعض ارکان کے علاج معالجے میں ان کی مدد بھی فرمائی۔ البتہ کوئی بھی شخص ہر ایک کے معیار پر پورا نہیں اتر سکتا اور مختصر آمدنی پر اخراجات کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے ان کو اعتراضات کا پورا حق بھی دیا۔ لیکن بعض دباؤ اور ارکان کے اختلافی نوٹ کی وجہ سے ایک معروف ادیب اور شاعر کو بارہ رکنی ورکنگ کمیٹی سے برطرف کیا۔
میرے خیال میں یہ فیصلہ انھوں نے 12 رکنی مشاورتی کمیٹی کی بنیاد پر کیا، مگر ان پر کسی اور قسم کی پابندی نہ لگائی کیونکہ ان کی ادبی خدمات کو مجروح نہ کیا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ آرٹس کونسل کے انتخابات پورے ملک کے لیے مشعل راہ ہوتے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو ارکان جمہوریت اور آزادی رائے کے موضوع کو بخوبی جانتے ہیں۔ ادب اور احترام ذات یہاں کے ہر رکن کا شیوہ ہے۔ اس کا مقصد یہ نہیں کہ یہاں کے ارکان خوفزدہ یا کم ہمت ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں بلکہ جن ایام میں کراچی شہر قانون شکنوں کی زد اور ہڑتالوں کی رہگزر پر تھا آرٹس کونسل میں ان دنوں بھی پروگرام کیے گئے۔ اس بات پر ان کے قائدین قابل تحسین ہیں اور بدامنی کے خلاف ایک چٹان کی مانند جمے رہے۔
یہاں پر یہ تحریر کرنا نہایت درست ہوگا کہ جہاں اس شہر پر امن قائم کرنے کے لیے جو کام سنگینوں اور قانون کے رکھوالوں نے کیا وہی کام آرٹس کے اہل علم و لوح وقلم اور مطربوں نے کیا جو تاریخ کا ایک مضبوط حصہ ہے، جوکبھی بھلایا نہ جائے گا۔ بس یہ معلوم ہوا کہ امن کا فروغ آرٹس کونسل اپنے طور پر کرسکتا ہے۔ صفحات پر بکھیرے ہوئے رنگوں میں سنگینوں سے بھی زیادہ دم ہے اور یہ قلم بھی علم کی ایک تصویر ہیں۔ اس مسئلے پر آرٹس کونسل کے پروگرام بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ لوگوں کے سوگ میں شب کو روشن چراغوں کی لو سے قربانیوں کو یاد کرنے کی روش بھی آرٹس کونسل کا شیوہ ہے۔
شہر کراچی میں جہاں ایک طرف سختیوں کی روش ہے تو دوسری جانب نرم گوشوں کی تربیت ہے، یہ روش آرٹس کونسل کا وطیرہ ہے انھی راستوں پر چلتے چلتے وقت گزرتا گیا اور دو سال بیت گئے اور انتخاب کی تاریخ 23 دسمبر طے ہوگی اور اب پھر میدان میں دونوں پارٹیاں مدمقابل ہیں۔ ایک احمد شاہ کا دیکھا بھالا ایک دہائی سے زیادہ برتا ہوا قافلہ سالار ہے تو دوسری جانب اسلم خان اور نجم الدین شیخ ، صاحب ذوق ہیں۔ اپنی ٹیم کو لے کر میدان کار زار میں جلوہ فگن ہیں، دونوں پارٹیاں اپنے ہمنواؤں کے ہمراہ محفل سجا رہے ہیں۔
مقابلہ سخت ہے مگر احمد شاہ کو تجربے کی سبقت ہے اور ایک دہائی سے زیادہ کارکردگی کا سفر جس کی پیمائش 23 دسمبر بروز ہفتہ ہونے کو ہے یہ پیمائش کوئی کوہ پیما نہیں آرٹس کونسل کے ارکان کے ذمے ہے۔ دیکھیں کہ پولنگ کتنے فیصد ہوتی ہے اور نتیجہ کتنے فیصد پولنگ کے بعد سامنے آتا ہے۔
عام طور سے لوگوں کا ٹرن آؤٹ کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ مرض بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ 70 فیصد لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے آئے تھے۔ مگر گزشتہ 4 انتخابی معرکوں میں یہ کم سے کم کی طرف کا سفر طے کر رہا ہے۔ اب تو یہ سفر لگتا ہے کہ 55 فیصد یا اس سے بھی کم کی طرف نہ ہوتا جائے مگر آرٹس کونسل کی امن و امان کی روش تو ملک کے لوگوں کے لیے ایک مثال ضرور ہے۔ آخری وقت تک یہ رواداری برقرار رہتی ہے۔ دونوں پارٹیوں میں ملنساری برقرار رہتی ہے۔
ویسے کوئی بھی جیتے آرٹس اینڈ کلچرل یونیورسٹی کی منزل تک ہی اس کاررواں کا سفر ضروری ہے تاکہ کراچی ایک ایسے ادارے کے قیام میں پاکستان کے پہلے شہر کا قائد کہلاتا رہے۔ اس یونیورسٹی میں نہ صرف پاکستان بلکہ غیر ممالک کے طلبا بھی اپنا مستقبل سنوارنے آتے رہیں گے اور عالم میں یادگار رہے گی یہ درس گاہ۔