کپتان کی حکومت فاطمہ بھٹو اور خواتین وزراء
فاطمہ بھٹو کا شکوہ شائد اتنا بے جا بھی نہیں ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کی سالانہ ''گلوبل جینڈر رپورٹ 2018ء'' جاری کر دی گئی ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں خواتین کو مردوں کے برابر حقوق نہیں دیے جا رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی، بینظیر بھٹو کی بھتیجی اور عالمی شہرت یافتہ مصنفہ، فاطمہ بھٹو، نے بھی اِسی حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ اُن کی تنقید خالصتاً پاکستانی عورتوں کی حمائت میں ہے۔
فاطمہ بھٹو، جن کے تازہ ناول The Runawaysنے مغرب کی ادبی دُنیا میں دھوم مچا رکھی ہے، نے ایک بھارتی جریدے کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا ہے: ''عمران خان کی حکومت Women Empowerment کے خلاف ہے۔'' مرتضیٰ بھٹو کی بیٹی، فاطمہ بھٹو، عملی سیاست سے بھی دُور ہیں اور کسی پارٹی سے منسلک بھی نہیں ہیں۔ خان صاحب کی حکومت پر انھوں نے جزوی طور پر جو تنقیدکی ہے، کیا واقعی معنوں میں یہ درست ہے؟ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں:
پی ٹی آئی کی کامیابی میں خواتین نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ بائیس برسوں کی جدوجہد کو تو فی الحال ایک طرف رکھیے، صرف پچھلے پانچ سال کی سیاسی تاریخ سامنے رکھیے۔ پی ٹی آئی کے ہر چھوٹے بڑے جلسے میں خواتین کی ایک کثیر تعداد ہمیشہ صفِ اوّل میں نظر آتی رہی ہے۔
پانچ سال قبل خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت قائم ہُوئی تو اس میں بھی پی ٹی آئی کی کارکن خواتین وزیر نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اُس وقت مگر یہ خیال کیا گیا تھا کہ اگلے انتخابات کے نتیجے میں مرکز اور دیگر صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومتیں بنیں گی تو خواتین وزراء کی ایک قابلِ ذکر تعداد دیکھنے کو ملے گی۔ اللہ کے فضل وکرم اور کپتان و پی ٹی آئی کے کارکنوں کی محنت و محبت سے اب مرکز میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت بن چکی ہے اور دو صوبوں میں بھی۔ صوبائی گورنرز بھی پی ٹی آئی کے چنیدہ ہیں۔
مرکز ، پنجاب اور کے پی کے میں پی ٹی آئی کی کابینہ مکمل ہو چکی ہے۔ حیرانی کی بات مگر یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی خواتین وزیروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ پنجاب میں تین درجن سے زائد وزیر بروئے کار ہیں لیکن پی ٹی آئی خواتین ورکروں میں سے صرف ایک محترمہ (ڈاکٹر یاسمین راشد) کو وزیر بنایا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت میں تو ہمیں ایک بھی خاتون وزیر نظر نہیں آ رہی۔ مرکزی کابینہ میں ویسے تو تین خواتین کو وزارتوں کے قلمدان سونپے گئے ہیں:زبیدہ جلال، ڈاکٹر شیریں مزاری اور ڈاکٹر فہمیدہ مرزا۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ یہاں بھی پی ٹی آئی کی ایک ہی خاتون کو وزارت ملی ہے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ برسہا برس سے پی ٹی آئی میں خدمات انجام دیتی چلی آرہی ہیں۔
کپتان نے 25جولائی کے عام انتخابات میں برتری حاصل کی تو ساتھ ہی کہا جانے لگا تھا کہ ڈاکٹر شیریں مزاری کو وزیر دفاع بنایا جائے گا۔ یہ توقع اور اندازہ غیر معمولی بھی نہیں تھا۔ دلیل دینے والوں کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان سے کئی گنا بڑے ملک، بھارت، کی وزیر دفاع ایک خاتون ( نرملا ستھارمن) ہو سکتی ہیں تو پاکستان کی وزیر دفاع بھی ایک خاتون ہو سکتی ہیں۔ خان صاحب نے مگر جب اپنے وفاداروں اور قربت داروں میں وزارتیں تقسیم کیں تو دیکھنے سننے والوں کو حیرت ہُوئی کہ ڈاکٹر شیریں مزاری کو انسانی حقوق کی وزارت عنایت فرمائی گئی ہے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری پی ٹی آئی کی ایسی خاتون رہنما ہیں جو اپنی اعلیٰ قیادت کے سامنے اپنا اختلافی نقطہ نظر پیش کرنے میں کبھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی ہیں۔
وہ اپنی حکومت کے کسی اقدام کے خلاف بھی کچھ کہنے کی جرأت رکھتی ہیں۔افسوس سے مگر کہنا پڑتا ہے کہ پچھلے دنوں جب اُن کے اپنے آبائی علاقے سے دو ڈاکٹر بہنوں پر برادری کی طرف سے ڈھائے جانے والے ظلم کی داستان سامنے آئی توشیریں مزاری بروقت اُن کی مدد نہ کر سکیں۔ دونوں ڈاکٹر بہنوں نے قومی اور سوشل میڈیا پر اپنی بپتا سنائی تھی لیکن فوری طور پر اُن کی شنوائی نہ ہو سکی، حالانکہ مدد فراہم کرنا تو شیریں مزاری صاحبہ کی اپنی وزارت کاکام تھا۔
وزیر اعظم عمران خان نے وزارتوں ہی میں خواتین کی تعداد کم نہیں رکھی، دیگر اہم شعبوں میں اُن کی طرف سے اب تک جو بھی چناؤ سامنے آئے ہیں، اُن میں بھی خواتین کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ''اکنامک ایڈوائزری کونسل''(EAC) ہی لے لیجئے۔ عمران خان کے برسرِاقتدار آتے ہی اس کونسل کی بڑی شہرت سامنے آئی تھی۔ اِس کے قیام کا مقصدِ وحید یہ بتایا گیا ہے کہ کونسل کے سرکاری و غیر سرکاری ارکان کی مدد اور مشوروں سے بدحال ملکی معیشت کو بنانا، سنوارنا اور بحرانوں سے نکالنا ہے۔ کونسل میں کوئی ڈیڑھ درجن ماہرینِ معیشت شامل کیے گئے ہیں۔ اِن میں سے بعض ایسے لائق افراد ہیں جو پاکستان کے تین نامور اداروں میں اقتصادیات کے پروفیسر اور اپنے موضوعات پر پی ایچ ڈی ہیں۔ یہ امر باعثِ مسرت ہے کہ اس میدان میں کسی بیرونی عنصر کی احتیاج نہیں ہے۔
یہ بات مگر مشاہدے میں آئی ہے کہ مذکورہ اکنامک ایڈوائزری کونسل میں ایک بھی خاتون شامل نہیں ہے۔ مانا کہ ہمارے ہاں ایسی خواتین کی تعداد نہائت کم ہے جنہیں معروف معنوں میں ماہرِ معیشت کہا جا سکتا ہے لیکن اتنا بھی کال نہیں پڑا ہے۔ حکیم الامت حضرت علامہ اقبال نے کہا تھا: ''مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن/اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں۔'' عرض یہ ہے کہ خان صاحب کی حکومت کو مذکورہ کونسل کے لیے اہل خواتین کو آزمانا تو چاہیے تھا۔ تیسرے مرحلے میں خان صاحب نے پی ٹی آئی کی ایک اور خاتون رکنِ اسمبلی، زرتاج گل، کو (موسمی تبدیلیوں) کی وزیر تو بنا دیا ہے مگر وہ بھی وزیر مملکت۔ باعثِ مسرت ہے کہ زرتاج گل صاحبہ ''آدھی وزارت''کا تاج پہن کر بھی حکومت کا ہر فورم پر دفاع کرتی نظر آتی ہیں۔ امریکا اور یورپ میں بڑے بڑے اقتصادی شعبوں میں خواتین نمایاں کر دار ادا کر رہی ہیں۔
مثال کے طور پر امریکی ماہرینِ معیشت میں اِس وقت تیرہ فیصد خواتین کی تعداد بروئے کار ہے۔ برطانیہ میں تو یہ تعداد امریکا سے بھی بڑھ کر ہے: پندرہ فیصد۔ اگر ہماری سیکریٹری خارجہ ایک خاتون ہو سکتی ہیں اور گزشتہ کئی برسوں سے یو این او میں ایک پاکستانی خاتون مستقل مندوب کا کردار ادا کرتی چلی آ رہی ہیں تو اکنامک ایڈوائزری کونسل میں کوئی لائق فائق خاتون ماہرِ معیشت بھی شامل کی جا سکتی تھی۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر شمشاد اختر صاحبہ۔ ایک مستند اور مشہور ماہرِ معیشت خاتون۔ عالمی سطح پر اُن کی پہچان ہے۔ ورلڈ بینک میں وائس پریذیڈنٹ رہی ہیں۔ انھیں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی پہلی خاتون گورنر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
نگران حکومت میں انھیں وفاقی وزیر خزانہ متعین کیا گیا۔ نئے پاکستان میں بھی اُن کی صلاحیتوں اور تجربات سے استفادہ کرنا چاہیے تھا۔ پاکستان تو وہ منفرد اور ممتاز ملک ہے جہاں کی ایک خاتون کوعالمِ اسلام کی پہلی منتخب وزیر اعظم بننے کا اعزاز نصیب ہُوا۔ ایسی شاندار اور قابلِ فخر روایت کے امین ملک کی مرکزی اور سبھی صوبائی کابینہ میں اگر خواتین کی تعداد نہائت کم نظر آتی ہو تو اسے نیک شگون کہنا محال ہو گا۔ فاطمہ بھٹو کا شکوہ شائد اتنا بے جا بھی نہیں ہے۔