اقتصادی غارت گر
صفوت علی قدوائی جنھوں نے جان پرکنز کی اقتصادی غارت گردی کی کہانی کو اردو میں پیش کیا ہے۔
'' اقتصادی غارت گر'' جان پرکنز کی کتاب Confessions of an Economic Hitman کا اردو میں ترجمہ ہے، مترجم ہیں صفوت علی قدوائی۔ اپنے موضوع اور لکھنے والے کی حقیقت بیانی نے اس کو بہت پڑھی جانے والی کتاب بنادیا ہے۔ اس کا موضوع تیسری دنیا میں عالمی بینک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور مختلف بین الاقوامی امدادی اداروں (یو۔ایس۔ایڈ) اور غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کا گھناؤنا کردار ہے اور اس کا لکھنے والا وہ ہے جو اس کردار میں شریک اس کا ایک مہرہ Hitman رہا ہے۔
وہ لکھتا ہے '' اکنامک ہٹ مین خطیر معاوضے پر خدمات انجام دینے والے وہ پیشہ ور افراد ہیں جن کا کام ہی دنیا بھر میں ملکوں کو دھوکا دے کر کھربوں ڈالر سے محروم کرنا ہے۔ یہ لوگ عالمی بینک، امریکی ترقیاتی ادارے (یو۔ایس۔ایڈ) اور دوسرے غیر ملکی '' امدادی '' اداروں سے ملنے والی بھاری رقمیں بڑی بڑی کارپوریشنوں کے خزانے اور اس کرۂ ارض کے قدرتی وسائل پر قابض چند دولت مند خاندانوں کی جیبوں میں منتقل کردیتے ہیں۔ جعلی مالیاتی رپورٹوں کی تیاری، انتخابی دھاندلیاں، رشوت، استحصال، جنسی ترغیب اور قتل ان کے ہتھیار ہیں ۔ یہ لوگ وہی کھیل کھیل رہے ہیں جو قدیم شاہی دور میں کھیلا جاتا تھا مگر گلوبلائزیشن کے اس عہد میں اس نے ایک ہمہ جہت دہشتناک شکل اختیارکرلی ہے۔ یہ بات مجھ سے زیادہ کون جان سکتا ہے ،کیونکہ میں خود ایک اقتصادی دہشت گرد (Economic Hitman) تھا۔ میری یہ کتاب میری اس دور زندگی کی سچی کہانی ہے۔''
جان پرکنز نے 1971 میں اپنی ٹیچر کلاڈین کے ساتھ کام شروع کیا تو انھوں نے اس سے کہا، ''تمہیں اکنامک ہٹ مین کے سانچے میں ڈھالنا میری ذمے داری ہے۔ تمہارے کام اور تمہاری سرگرمیوں کے بارے میں کسی کوکچھ نہیں معلوم ہونا چاہیے، تمہاری بیوی کو بھی نہیں اور یہ بھی یاد رکھوکہ جب ایک دفعہ یہاں آگئے تو پھر واپسی نہیں، زندگی بھر یہیں رہنا ہے۔''
جان پرکنزکو بوسٹن یونیورسٹی سے بیچلر کی ڈگری مل گئی اور وہ ''مین کارپوریشن'' میں ملازم ہوگئے۔ ان کو اکنامسٹ کا عہدہ دیا گیا ۔ انھیں بہت جلد معلوم ہوگیا کہ گو ان کا عہدہ اقتصادی ماہرکا ہے، ان کا اصل کام ایک سیکرٹ ایجنٹ کا کردار ادا کرنا ہے جس کا انھوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔
پرکنزکی پہلی تعیناتی انڈونیشیا میں ہوئی ۔ وہاں اور اس کے بعد دوسرے ملکوں میں جہاں ان کو بھیجا گیا، انھیں دوکام کرنے تھے۔ ایک یہ کہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے جو وہاں کی حکومت شروع کرنا چاہتی تھی، بھاری بین الاقوامی قرضوں کا جواز فراہم کریں اور وسیع پیمانے پر زیر عمل انجینئرنگ اور تعمیراتی پروجیکٹس کے لیے حاصل ہونے والے قرضے کی رقم Main کارپوریشن اور دوسری امریکی کمپنیوں کو منتقل کرنے کا انتظام کریں ۔ دوسرا کام ان کا یہ تھا کہ قرضے حاصل کرنے والے ملکوں کو Main اور دوسرے امریکی کنٹریکٹرزکو ادائیگیوں کے بعد دیوالیہ کردیں تاکہ وہ ہمیشہ قرض دینے والوں کے دباؤ میں رہیں اور جب ہمیں فوجی اڈوں، اقوام متحدہ میں ووٹوں یا تیل اور ان کے دوسرے وسائل تک رسائی کے لیے مدد کی ضرورت پڑے تو یہ ملک آسانی سے ہمارے قابو میں آجائیں۔
انڈونیشیا کے بعد پرکنزکو اسی طرح کے مشن پر پناما بھیجا گیا ، پھر سعودی عرب ۔ یہاں بھی ان کا کام یہ تھا کہ امریکی فرموں کو زیادہ سے زیادہ ادائیگیوں کا اہتمام کریں اور یہ امر یقینی بنائیں کہ سعودی عرب کا امریکا پر انحصار بڑھتا جائے ۔ پرکنز کو ایران بھی بھیجا گیا لیکن وہاں انھیں اس وقت کے حالات اور شاہ ایران کے خلاف عوامی تحریک کی شدت کے باعث کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔ پھر پرکنز اسی طرح کے مشن پر جنوبی امریکا کے ملک کولمبیا اور ایکواڈور بھی گئے۔ یہاں کے حکمران تو موت کے گھاٹ بھی اتارے گئے۔
انسان کا ضمیر ہمیشہ مردہ نہیں رہتا ،کبھی جاگ بھی اٹھتا ہے۔ جان پرکنز بھی اس افسوسناک حقیقت کا کرب محسوس کر رہے تھے کہ Main میں ان کا کام صرف یہی تو نہ تھا کہ وہ غریب ملکوں کو قرضوں کے ذریعے گلوبل امپائر میں شامل کریں ۔ نہ ہی قرضوں کی رقوم کے لیے ان کی مبالغہ آمیز پیش گوئیوں کا مقصد محض اس امر کو یقینی بنانا تھا کہ جب میرے ملک کو تیل کی ضرورت پڑے تو ان قرضوں کی مدد سے ہم مطالبات پیش کرسکیں۔ وہ لکھتے ہیں ''میری Main میں پوزیشن صرف اس کے منافعے میں اضافے تک محدود نہیں تھی۔ بے شمار لوگوں، ان کے خاندانوں اور اس علاقے میں جبری مشقت کے دوران ان کی نسل کے افراد کی ہلاکتوں کا تعلق بھی میرے کام ہی سے تھا ۔ ان سب کے استحصال کی ذمے داری مجھ پر بھی عائد ہوتی تھی۔ اب میں جان گیا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ میں جانتا تھا کہ اگر اب میں اپنی سابقہ زندگی کی طرف واپس نہ گیا اور Main سے کسی بھی قسم کا تعلق باقی رکھا تو خود کو کبھی نہیں پاسکوں گا۔ تنخواہ میں اضافہ، پنشن، انشورنس، پرکشش مراعات میرا راستہ روکیں گی۔ جتنا عرصہ میں یہاں گزاروں گا یہاں سے جان چھڑانا اتنا ہی مشکل ہوتا جائے گا۔''
Main سے علیحدگی اختیار کرنا آسان نہیں تھا لیکن جان پرکنز اپنے فیصلے پر قائم رہے اور یکم اپریل 1980 میں انھوں نے اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔
اپنی سچی کہانی ختم کرتے ہوئے جان پرکنز لکھتے ہیں ''ترقی یافتہ ممالک جو کھیل کھیل رہے ہیں، تیسری دنیا کو اس کا احساس ہے اور وہ اس پر برہم ہے۔ اس سے جو اثرات مرتب ہو رہے ہیں ان سے امریکا کے لاکھوں عوام کو بھی گہری تشویش ہے، دنیا کے کروڑوں افراد کی طرح وہ بھی اس صورتحال پر برہم ہیں۔ اگر تیسری دنیا کے مایوس اور محروم عوام کے ساتھ فریب اور استحصال کی کارروائیوں کا یہ سلسلہ جاری رہا تو دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہوائی اڈوں پر سیکیورٹی گارڈ یا ہماری سرحدوں پر تعینات فوج دہشت گردی کی کارروائیوں کو روک نہیں سکے گی۔ یہ کارروائیاں اسی وقت بند ہوں گی جب ہم سب ایک زبان ہوکر یہ مطالبہ کریں گے کہ ہماری کارپوریشنیں، بینک اور حکومتیں دنیا کی غالب اکثریت اور اس کے وسائل کا استحصال بند کریں اور دنیا کے ساتھ ہمدردی اور انسان دوستی کے جذبے پر مبنی سلوک روا رکھا جائے۔ ہمارے بانیان قوم نے یہی خواب دیکھا تھا اور اپنی سوچ کو الفاظ میں ڈھالا تھا۔''
صفوت علی قدوائی جنھوں نے جان پرکنز کی اقتصادی غارت گردی کی کہانی کو اردو میں پیش کیا ہے اپنے ''حرف چند'' میں لکھتے ہیں کہ ''پاکستانی حکمران معیشت کے استحکام اور کشکول توڑنے کے جتنے بھی دعوے کریں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری معیشت صارفین کی ایسی منڈی بن چکی ہے جہاں ہر چیز بکاؤ ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پرتعیش گاڑیوں سے لے کر مہنگے سامان آسائش تک زندگی کی ہر ضروری اور غیر ضروری چیز ادھار پر دستیاب ہے۔ پوری قوم قرضے کے جال میں پھنس گئی ہے اور ہم اپنی آزادی اور خودمختاری عرصہ ہوا ان بین الاقوامی اداروں کے پاس گروی رکھ چکے ہیں۔
وہ لکھتا ہے '' اکنامک ہٹ مین خطیر معاوضے پر خدمات انجام دینے والے وہ پیشہ ور افراد ہیں جن کا کام ہی دنیا بھر میں ملکوں کو دھوکا دے کر کھربوں ڈالر سے محروم کرنا ہے۔ یہ لوگ عالمی بینک، امریکی ترقیاتی ادارے (یو۔ایس۔ایڈ) اور دوسرے غیر ملکی '' امدادی '' اداروں سے ملنے والی بھاری رقمیں بڑی بڑی کارپوریشنوں کے خزانے اور اس کرۂ ارض کے قدرتی وسائل پر قابض چند دولت مند خاندانوں کی جیبوں میں منتقل کردیتے ہیں۔ جعلی مالیاتی رپورٹوں کی تیاری، انتخابی دھاندلیاں، رشوت، استحصال، جنسی ترغیب اور قتل ان کے ہتھیار ہیں ۔ یہ لوگ وہی کھیل کھیل رہے ہیں جو قدیم شاہی دور میں کھیلا جاتا تھا مگر گلوبلائزیشن کے اس عہد میں اس نے ایک ہمہ جہت دہشتناک شکل اختیارکرلی ہے۔ یہ بات مجھ سے زیادہ کون جان سکتا ہے ،کیونکہ میں خود ایک اقتصادی دہشت گرد (Economic Hitman) تھا۔ میری یہ کتاب میری اس دور زندگی کی سچی کہانی ہے۔''
جان پرکنز نے 1971 میں اپنی ٹیچر کلاڈین کے ساتھ کام شروع کیا تو انھوں نے اس سے کہا، ''تمہیں اکنامک ہٹ مین کے سانچے میں ڈھالنا میری ذمے داری ہے۔ تمہارے کام اور تمہاری سرگرمیوں کے بارے میں کسی کوکچھ نہیں معلوم ہونا چاہیے، تمہاری بیوی کو بھی نہیں اور یہ بھی یاد رکھوکہ جب ایک دفعہ یہاں آگئے تو پھر واپسی نہیں، زندگی بھر یہیں رہنا ہے۔''
جان پرکنزکو بوسٹن یونیورسٹی سے بیچلر کی ڈگری مل گئی اور وہ ''مین کارپوریشن'' میں ملازم ہوگئے۔ ان کو اکنامسٹ کا عہدہ دیا گیا ۔ انھیں بہت جلد معلوم ہوگیا کہ گو ان کا عہدہ اقتصادی ماہرکا ہے، ان کا اصل کام ایک سیکرٹ ایجنٹ کا کردار ادا کرنا ہے جس کا انھوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔
پرکنزکی پہلی تعیناتی انڈونیشیا میں ہوئی ۔ وہاں اور اس کے بعد دوسرے ملکوں میں جہاں ان کو بھیجا گیا، انھیں دوکام کرنے تھے۔ ایک یہ کہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے جو وہاں کی حکومت شروع کرنا چاہتی تھی، بھاری بین الاقوامی قرضوں کا جواز فراہم کریں اور وسیع پیمانے پر زیر عمل انجینئرنگ اور تعمیراتی پروجیکٹس کے لیے حاصل ہونے والے قرضے کی رقم Main کارپوریشن اور دوسری امریکی کمپنیوں کو منتقل کرنے کا انتظام کریں ۔ دوسرا کام ان کا یہ تھا کہ قرضے حاصل کرنے والے ملکوں کو Main اور دوسرے امریکی کنٹریکٹرزکو ادائیگیوں کے بعد دیوالیہ کردیں تاکہ وہ ہمیشہ قرض دینے والوں کے دباؤ میں رہیں اور جب ہمیں فوجی اڈوں، اقوام متحدہ میں ووٹوں یا تیل اور ان کے دوسرے وسائل تک رسائی کے لیے مدد کی ضرورت پڑے تو یہ ملک آسانی سے ہمارے قابو میں آجائیں۔
انڈونیشیا کے بعد پرکنزکو اسی طرح کے مشن پر پناما بھیجا گیا ، پھر سعودی عرب ۔ یہاں بھی ان کا کام یہ تھا کہ امریکی فرموں کو زیادہ سے زیادہ ادائیگیوں کا اہتمام کریں اور یہ امر یقینی بنائیں کہ سعودی عرب کا امریکا پر انحصار بڑھتا جائے ۔ پرکنز کو ایران بھی بھیجا گیا لیکن وہاں انھیں اس وقت کے حالات اور شاہ ایران کے خلاف عوامی تحریک کی شدت کے باعث کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔ پھر پرکنز اسی طرح کے مشن پر جنوبی امریکا کے ملک کولمبیا اور ایکواڈور بھی گئے۔ یہاں کے حکمران تو موت کے گھاٹ بھی اتارے گئے۔
انسان کا ضمیر ہمیشہ مردہ نہیں رہتا ،کبھی جاگ بھی اٹھتا ہے۔ جان پرکنز بھی اس افسوسناک حقیقت کا کرب محسوس کر رہے تھے کہ Main میں ان کا کام صرف یہی تو نہ تھا کہ وہ غریب ملکوں کو قرضوں کے ذریعے گلوبل امپائر میں شامل کریں ۔ نہ ہی قرضوں کی رقوم کے لیے ان کی مبالغہ آمیز پیش گوئیوں کا مقصد محض اس امر کو یقینی بنانا تھا کہ جب میرے ملک کو تیل کی ضرورت پڑے تو ان قرضوں کی مدد سے ہم مطالبات پیش کرسکیں۔ وہ لکھتے ہیں ''میری Main میں پوزیشن صرف اس کے منافعے میں اضافے تک محدود نہیں تھی۔ بے شمار لوگوں، ان کے خاندانوں اور اس علاقے میں جبری مشقت کے دوران ان کی نسل کے افراد کی ہلاکتوں کا تعلق بھی میرے کام ہی سے تھا ۔ ان سب کے استحصال کی ذمے داری مجھ پر بھی عائد ہوتی تھی۔ اب میں جان گیا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ میں جانتا تھا کہ اگر اب میں اپنی سابقہ زندگی کی طرف واپس نہ گیا اور Main سے کسی بھی قسم کا تعلق باقی رکھا تو خود کو کبھی نہیں پاسکوں گا۔ تنخواہ میں اضافہ، پنشن، انشورنس، پرکشش مراعات میرا راستہ روکیں گی۔ جتنا عرصہ میں یہاں گزاروں گا یہاں سے جان چھڑانا اتنا ہی مشکل ہوتا جائے گا۔''
Main سے علیحدگی اختیار کرنا آسان نہیں تھا لیکن جان پرکنز اپنے فیصلے پر قائم رہے اور یکم اپریل 1980 میں انھوں نے اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔
اپنی سچی کہانی ختم کرتے ہوئے جان پرکنز لکھتے ہیں ''ترقی یافتہ ممالک جو کھیل کھیل رہے ہیں، تیسری دنیا کو اس کا احساس ہے اور وہ اس پر برہم ہے۔ اس سے جو اثرات مرتب ہو رہے ہیں ان سے امریکا کے لاکھوں عوام کو بھی گہری تشویش ہے، دنیا کے کروڑوں افراد کی طرح وہ بھی اس صورتحال پر برہم ہیں۔ اگر تیسری دنیا کے مایوس اور محروم عوام کے ساتھ فریب اور استحصال کی کارروائیوں کا یہ سلسلہ جاری رہا تو دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہوائی اڈوں پر سیکیورٹی گارڈ یا ہماری سرحدوں پر تعینات فوج دہشت گردی کی کارروائیوں کو روک نہیں سکے گی۔ یہ کارروائیاں اسی وقت بند ہوں گی جب ہم سب ایک زبان ہوکر یہ مطالبہ کریں گے کہ ہماری کارپوریشنیں، بینک اور حکومتیں دنیا کی غالب اکثریت اور اس کے وسائل کا استحصال بند کریں اور دنیا کے ساتھ ہمدردی اور انسان دوستی کے جذبے پر مبنی سلوک روا رکھا جائے۔ ہمارے بانیان قوم نے یہی خواب دیکھا تھا اور اپنی سوچ کو الفاظ میں ڈھالا تھا۔''
صفوت علی قدوائی جنھوں نے جان پرکنز کی اقتصادی غارت گردی کی کہانی کو اردو میں پیش کیا ہے اپنے ''حرف چند'' میں لکھتے ہیں کہ ''پاکستانی حکمران معیشت کے استحکام اور کشکول توڑنے کے جتنے بھی دعوے کریں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری معیشت صارفین کی ایسی منڈی بن چکی ہے جہاں ہر چیز بکاؤ ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پرتعیش گاڑیوں سے لے کر مہنگے سامان آسائش تک زندگی کی ہر ضروری اور غیر ضروری چیز ادھار پر دستیاب ہے۔ پوری قوم قرضے کے جال میں پھنس گئی ہے اور ہم اپنی آزادی اور خودمختاری عرصہ ہوا ان بین الاقوامی اداروں کے پاس گروی رکھ چکے ہیں۔