سندھ کے آثار قدیمہ اور ثقافتی ورثہ آخری حصہ
اگر حکومت چاہے تو اس ویرانے اور جنگل میں بنے ہوئے آثار قدیمہ اور ثقافتی ورثے سے بہت پیسہ کما سکتی ہے۔
وہاں پر دو مور بھی گھومتے نظر آئے، جو توجہ کا مرکز تھے، جب وہ ناچتے اپنے پنکھ بکھیرتے تو ایک حسین منظر ہوتا، صبح کو ابھرتے ہوئے اور شام کو ڈھلتے ہوئے سورج کی خوبصورتی بڑی اچھی لگی۔ صبح سویرے میں اور میرے ساتھی فدا جیسر اور منیر مہر، موئن جو دڑو کی طرف چل پڑے ، ہمیں اس جگہ پرکوئی تبدیلی نظر نہیں آئی بلکہ یوں لگا کہ وہاں پر دن بہ دن ترقی کی بجائے تنزلی ہو رہی ہے، اس لیے ہم نے وہاں زیادہ وقت نہیں گزارا ۔ وہاں سے پھر سیدھے ذوالفقارعلی بھٹوکے مزار پر چلے گئے ، جہاں پر بڑا اچھا انتظام تھا ، جس میں سیکیورٹی، پینے کا پانی اور ٹوائلٹ وغیرہ بھی شامل ہیں ۔
دور سے ہی مزارکی عمارت پرکشش لگ رہی تھی۔ وہاں جوتے رکھنے کے لیے مفت سہولت تھی۔ مزارکے باہر بہت بڑا میدان تھا جہاں پر 4 اپریل اور 27 دسمبر کو ہر سال بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کے دن منائے جاتے ہیں اور پورے ملک سے لاکھوں چاہنے والے آتے ہیں۔ مزار کے اندر داخل ہونے کے لیے کئی دروازے ہیں مگر صرف ایک دروازہ کھلا رہتا ہے۔ مین گیٹ سے باہر گاڑیاں کھڑی کرنے کی بڑی کھلی جگہ موجود ہے۔ مزار پر ہر روز ہزاروں لوگ آتے رہتے ہیں چاہے ان کا تعلق پی پی سے ہے یا نہیں۔
دوسرے روز صبح سویرے ہم منچھر جھیل کی طرف نکل گئے، وہاں پہنچتے ہی ہمارے سارے ارمان ختم ہوگئے جب ہماری نظر منچھر کے اندر بہتے ہوئے بدبو دارکالے پانی پر پڑی ۔ وہاں پر آنے والوں کے لیے کوئی بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے، درخت بھی نہیں ہیں۔ جھیل کے اندر بہت ہی کم بوٹ والے گھر نظر آئے ورنہ کئی سال پہلے جھیل میں 4 ہزار بوٹ ہاؤس تھے اور جھیل میں پانی ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا تھا، وہاں کے رہنے والے خوشحال تھے اور چاروں طرف مچھلی کے انبار لگے ہوتے تھے۔
وہاں پر رہنے والوں کے بچے جیسے ہی کوئی گاڑی کھڑی ہوتی اس سے پیسے مانگنے آتے تھے۔ آر او پلانٹ جو لگائے گئے تھے ان میں سے زیادہ خراب ہوچکے ہیں،ایک چھوٹی سی گلی تھی جو باہر سے جھیل کی طرف آتی ہے وہاں پر چھوٹے کمروں کے ہوٹل بنے ہوئے ہیں جس میں لوگ چائے پی رہے تھے اور ڈش پر ہندوستانی فلمیں دیکھ رہے تھے۔
جھیل کے کنارے گلی میں برف کے باکس رکھے ہوئے تھے جس میں جھیل سے نکالی ہوئی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں پڑی ہوئی تھیں جو پولٹری فیڈ کے طور پر بیچی جاتی ہیں جس سے کوئی خاصا معاوضہ نہیں بنتا۔ وہاں پر موجود مچھیروں نے بتایا کہ ایک اچھی خاصی تعداد منچھر جھیل کے ایریا سے دوسرے شہروں کی طرف جس میں کراچی شہرکا علاقہ حیدری ہے وہاں نقل مکانی کرچکے ہیں اور کچھ سیہون شہر میں مزدوری کرتے ہیں۔ وہاں پر موجود عورتوں اور مردوں سے کہا کہ وہ ووٹ کس کو دیتے ہیں تو بتایا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو اور ان کے علاقے سے پہلے عبداللہ شاہ اور اب اس کے بیٹے مراد علی شاہ منتخب ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مراد علی شاہ دو تین مرتبہ ان کے پاس آچکے ہیں حالانکہ ان کے کام کبھی ہوتے ہیں کبھی نہیں مگر وہ ووٹ بے نظیر کو ہی دیں گے۔
منچھر جھیل کے برابر بوبک بھی ایک پرانا شہر ہے وہاں پر جانے اور وہاں سے آنے یا پھر سیہون جانے کے لیے چنگچی اور موٹر سائیکل کا استعمال عام ہے، جب کہ سامان اٹھانے کے لیے ڈاٹسن چلتی ہیں۔کشتی بنانے والوں نے بتایا کہ ان کا روزگار بھی منچھر جھیل کے ساتھ ختم ہو رہا ہے بس کبھی کبھار کشتیاں بناتے ہیں ۔ اس شہر کے اندر عبداللہ شاہ نے ایک کالونی مچھیروں کے لیے بنوائی تھی اور دوسری بھی بن رہی ہے۔ کئی جگہوں پر مجھے سولر سسٹم بھی نظر آیا۔ کالونی میں ایک کمیونٹی ہال، مسجد، پرائمری اسکول اور صحت مرکز بھی موجود ہے، مگر افسوس یہاں پر کوئی بھی ریسٹ ہاؤس بنا ہوا نہیں ہے اور جو بھی ہیں وہ بہت دور کئی کلو میٹر کے فاصلے پر بنائے گئے ہیں جہاں پر اب سیہون جاکر وہاں سے لعل باغ جاکر پھر جانا پڑتا ہے۔
اب ہم نے ٹور ازم کے ملازم راحیل ابڑو اور ذوالفقار راجپر کو ساتھ لیا جسے ان علاقوں کی بہت معلومات ہیں ۔ سب سے پہلے ہم شیخ دھمن ریزورٹ کی طرف چل پڑے جس کی طرف جاتے ہوئے ریتلا اور پتھریلا علاقہ ہے اور وہاں پہنچنے کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ نہیں ہے اور نہ ہی اس طرف جانے کے اشارے ہیں یا پھر مائلیج (Mileage) پھر بھی نسب نہیں تھے کہ اندازاً کتنا فاصلہ ہے۔ راستے میں کوئی پٹرول پمپ اور پنکچر لگانے والا موجود ہے۔ بہرحال جب شیخ دھمن آگئے تو دور سے ہی یہ ریزورٹ اچھا تھا، وہاں کا چوکیدار پاس کے گاؤں کا رہنے والا ہے۔ دیکھنے میں تو ریزورٹ اچھا ہے مگر یہاں پر وہ لوگ آسکتے ہیں جن کے ساتھ سیکیورٹی بھی ہو۔
ریزوٹ میں تین بنے ہوئے ہٹ اٹیچ باتھ روم، ڈش ٹی وی کے ساتھ اچھے لگ رہے تھے وہاں پر سولر سسٹم مضبوط اور طاقتور ہے جس سے روشنی کے ساتھ کچن، سندھی ثقافت کی عکاسی کرتا ہوا فرنیچر کمرے کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہا تھا۔ سولر پر فریج اور اے سی چلایا جاسکتا ہے۔ یہ ریزورٹ منچھر جھیل پر بنایا گیا ہے جو صبح سویرے اور رات میں چاند اور ستاروں کی روشنی میں جھیل کا منظر حسین کردیتا ہے۔ وہاں پر پودوں اور چھوٹے لان کے لیے جھیل سے پانی موٹر کے ذریعے نکالا جاتا ہے۔ ایک درمیان میں چبوترا بنا ہوا ہے جس میں بیٹھ کر ٹورسٹ چارپائی پر بیٹھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کھانا چوکیدار اپنے گھر سے بنواتا ہے اور اگر کچن میں آنے والے خود بنائیں تو بھی وہاں پر سلینڈر ہے۔ بچوں کے لیے ایک ٹک شاپ بھی کھولا جا رہا ہے۔ ریزورٹ کا نام وہاں پر موجود پیر شیخ دھمن کے نام پر رکھا ہوا ہے۔
وہاں سے فارغ ہونے کے بعد ہم کائی ریسٹ ہاؤس کی طرف چل نکلے جو وہاں سے آگے جھانگارہ اور باجارہ سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔ یہ دونوں شہر پرانے اور تاریخی ہیں۔ اس طرف جاتے ہوئے ہمیں پکی سڑک ملی جسے ایک گیس کمپنی والوں نے بنایا ہے۔ کائی ریسٹ ہاؤس کائی گاؤں میں ہے جو بڑا سرسبز اور حسین ہے جہاں پر ہر طرف کھیت اناج سے اور درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ یہاں کے لوگ خوشحال ہیں۔ یہ ریسٹ ہاؤس بھی سید عبداللہ شاہ نے بنوایا تھا۔ اس کے علاوہ عام لوگوں کے لیے الگ الگ عورتوں اور مردوں کے لیے مسافر خانے بنے ہوئے ہیں جنھیں ٹور ازم والوں نے بنایا ہے۔
ریسٹ ہاؤس کے چوکیدار نے ہمیں جب پانی پلایا تو وہ بہت شفاف اور میٹھا تھا کیونکہ وہاں پر ایک قدرتی چشمہ ہے جس سے لوگ پانی اپنے کنوئیں میں بھرتے ہیں اور پھر اسے استعمال کرتے ہیں۔ وہاں سے کچھ فاصلے پر ایک پنج تن باغ ہے جہاں پر دور دور سے زائرین آتے ہیں، راتیں گزارتے ہیں۔ اس جگہ ہر ہر قسم کی چیز کھانے پینے کے لیے مل جاتی ہے۔ وہاں پر ہم نے اس چشمے کے پانی کو بہت دیکھا جس سے دن رات پانی وہاں کے لوگ استعمال کرتے ہیں۔ واپسی پر اس باغ سے تھوڑا آگے ہم نے کچھ غار دیکھے جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ پتھر کے دور کے ہیں۔ اس طرف لعل شہباز کے مزار پر آنے والے زائرین لاہوت لامکاں جاتے ہوئے گزرتے ہیں۔ اس طرف کئی گاؤں ہیں جنھیں دیکھ کر بڑا مزہ آتا ہے کہ ہماری تاریخ کہاں کہاں پھیلی ہوئی ہے۔
اگر حکومت چاہے تو اس ویرانے اور جنگل میں بنے ہوئے آثار قدیمہ اور ثقافتی ورثے سے بہت پیسہ کما سکتی ہے اور لوگوں کو دیکھنے کو یہ مقامات مل جائیں گے۔ اس طرح سے وہاں پر بسنے والے اور دوسرے کام کرنے والوں کو روزگار بھی مل جائے گا۔ ہم تو اپنی آنکھیں اس دن کی طرف لگائے ہوئے ہیں کہ ادھر کبھی تو کوئی جوان مرد، ہمت والا، سندھ سے محبت کرنے والا اپنی ثقافتی اور تاریخی مقامات کو بچانے والا پیدا ہوگا، جیسے ذوالفقار علی بھٹو تھا۔
دور سے ہی مزارکی عمارت پرکشش لگ رہی تھی۔ وہاں جوتے رکھنے کے لیے مفت سہولت تھی۔ مزارکے باہر بہت بڑا میدان تھا جہاں پر 4 اپریل اور 27 دسمبر کو ہر سال بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کے دن منائے جاتے ہیں اور پورے ملک سے لاکھوں چاہنے والے آتے ہیں۔ مزار کے اندر داخل ہونے کے لیے کئی دروازے ہیں مگر صرف ایک دروازہ کھلا رہتا ہے۔ مین گیٹ سے باہر گاڑیاں کھڑی کرنے کی بڑی کھلی جگہ موجود ہے۔ مزار پر ہر روز ہزاروں لوگ آتے رہتے ہیں چاہے ان کا تعلق پی پی سے ہے یا نہیں۔
دوسرے روز صبح سویرے ہم منچھر جھیل کی طرف نکل گئے، وہاں پہنچتے ہی ہمارے سارے ارمان ختم ہوگئے جب ہماری نظر منچھر کے اندر بہتے ہوئے بدبو دارکالے پانی پر پڑی ۔ وہاں پر آنے والوں کے لیے کوئی بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے، درخت بھی نہیں ہیں۔ جھیل کے اندر بہت ہی کم بوٹ والے گھر نظر آئے ورنہ کئی سال پہلے جھیل میں 4 ہزار بوٹ ہاؤس تھے اور جھیل میں پانی ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا تھا، وہاں کے رہنے والے خوشحال تھے اور چاروں طرف مچھلی کے انبار لگے ہوتے تھے۔
وہاں پر رہنے والوں کے بچے جیسے ہی کوئی گاڑی کھڑی ہوتی اس سے پیسے مانگنے آتے تھے۔ آر او پلانٹ جو لگائے گئے تھے ان میں سے زیادہ خراب ہوچکے ہیں،ایک چھوٹی سی گلی تھی جو باہر سے جھیل کی طرف آتی ہے وہاں پر چھوٹے کمروں کے ہوٹل بنے ہوئے ہیں جس میں لوگ چائے پی رہے تھے اور ڈش پر ہندوستانی فلمیں دیکھ رہے تھے۔
جھیل کے کنارے گلی میں برف کے باکس رکھے ہوئے تھے جس میں جھیل سے نکالی ہوئی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں پڑی ہوئی تھیں جو پولٹری فیڈ کے طور پر بیچی جاتی ہیں جس سے کوئی خاصا معاوضہ نہیں بنتا۔ وہاں پر موجود مچھیروں نے بتایا کہ ایک اچھی خاصی تعداد منچھر جھیل کے ایریا سے دوسرے شہروں کی طرف جس میں کراچی شہرکا علاقہ حیدری ہے وہاں نقل مکانی کرچکے ہیں اور کچھ سیہون شہر میں مزدوری کرتے ہیں۔ وہاں پر موجود عورتوں اور مردوں سے کہا کہ وہ ووٹ کس کو دیتے ہیں تو بتایا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو اور ان کے علاقے سے پہلے عبداللہ شاہ اور اب اس کے بیٹے مراد علی شاہ منتخب ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مراد علی شاہ دو تین مرتبہ ان کے پاس آچکے ہیں حالانکہ ان کے کام کبھی ہوتے ہیں کبھی نہیں مگر وہ ووٹ بے نظیر کو ہی دیں گے۔
منچھر جھیل کے برابر بوبک بھی ایک پرانا شہر ہے وہاں پر جانے اور وہاں سے آنے یا پھر سیہون جانے کے لیے چنگچی اور موٹر سائیکل کا استعمال عام ہے، جب کہ سامان اٹھانے کے لیے ڈاٹسن چلتی ہیں۔کشتی بنانے والوں نے بتایا کہ ان کا روزگار بھی منچھر جھیل کے ساتھ ختم ہو رہا ہے بس کبھی کبھار کشتیاں بناتے ہیں ۔ اس شہر کے اندر عبداللہ شاہ نے ایک کالونی مچھیروں کے لیے بنوائی تھی اور دوسری بھی بن رہی ہے۔ کئی جگہوں پر مجھے سولر سسٹم بھی نظر آیا۔ کالونی میں ایک کمیونٹی ہال، مسجد، پرائمری اسکول اور صحت مرکز بھی موجود ہے، مگر افسوس یہاں پر کوئی بھی ریسٹ ہاؤس بنا ہوا نہیں ہے اور جو بھی ہیں وہ بہت دور کئی کلو میٹر کے فاصلے پر بنائے گئے ہیں جہاں پر اب سیہون جاکر وہاں سے لعل باغ جاکر پھر جانا پڑتا ہے۔
اب ہم نے ٹور ازم کے ملازم راحیل ابڑو اور ذوالفقار راجپر کو ساتھ لیا جسے ان علاقوں کی بہت معلومات ہیں ۔ سب سے پہلے ہم شیخ دھمن ریزورٹ کی طرف چل پڑے جس کی طرف جاتے ہوئے ریتلا اور پتھریلا علاقہ ہے اور وہاں پہنچنے کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ نہیں ہے اور نہ ہی اس طرف جانے کے اشارے ہیں یا پھر مائلیج (Mileage) پھر بھی نسب نہیں تھے کہ اندازاً کتنا فاصلہ ہے۔ راستے میں کوئی پٹرول پمپ اور پنکچر لگانے والا موجود ہے۔ بہرحال جب شیخ دھمن آگئے تو دور سے ہی یہ ریزورٹ اچھا تھا، وہاں کا چوکیدار پاس کے گاؤں کا رہنے والا ہے۔ دیکھنے میں تو ریزورٹ اچھا ہے مگر یہاں پر وہ لوگ آسکتے ہیں جن کے ساتھ سیکیورٹی بھی ہو۔
ریزوٹ میں تین بنے ہوئے ہٹ اٹیچ باتھ روم، ڈش ٹی وی کے ساتھ اچھے لگ رہے تھے وہاں پر سولر سسٹم مضبوط اور طاقتور ہے جس سے روشنی کے ساتھ کچن، سندھی ثقافت کی عکاسی کرتا ہوا فرنیچر کمرے کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہا تھا۔ سولر پر فریج اور اے سی چلایا جاسکتا ہے۔ یہ ریزورٹ منچھر جھیل پر بنایا گیا ہے جو صبح سویرے اور رات میں چاند اور ستاروں کی روشنی میں جھیل کا منظر حسین کردیتا ہے۔ وہاں پر پودوں اور چھوٹے لان کے لیے جھیل سے پانی موٹر کے ذریعے نکالا جاتا ہے۔ ایک درمیان میں چبوترا بنا ہوا ہے جس میں بیٹھ کر ٹورسٹ چارپائی پر بیٹھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کھانا چوکیدار اپنے گھر سے بنواتا ہے اور اگر کچن میں آنے والے خود بنائیں تو بھی وہاں پر سلینڈر ہے۔ بچوں کے لیے ایک ٹک شاپ بھی کھولا جا رہا ہے۔ ریزورٹ کا نام وہاں پر موجود پیر شیخ دھمن کے نام پر رکھا ہوا ہے۔
وہاں سے فارغ ہونے کے بعد ہم کائی ریسٹ ہاؤس کی طرف چل نکلے جو وہاں سے آگے جھانگارہ اور باجارہ سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔ یہ دونوں شہر پرانے اور تاریخی ہیں۔ اس طرف جاتے ہوئے ہمیں پکی سڑک ملی جسے ایک گیس کمپنی والوں نے بنایا ہے۔ کائی ریسٹ ہاؤس کائی گاؤں میں ہے جو بڑا سرسبز اور حسین ہے جہاں پر ہر طرف کھیت اناج سے اور درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ یہاں کے لوگ خوشحال ہیں۔ یہ ریسٹ ہاؤس بھی سید عبداللہ شاہ نے بنوایا تھا۔ اس کے علاوہ عام لوگوں کے لیے الگ الگ عورتوں اور مردوں کے لیے مسافر خانے بنے ہوئے ہیں جنھیں ٹور ازم والوں نے بنایا ہے۔
ریسٹ ہاؤس کے چوکیدار نے ہمیں جب پانی پلایا تو وہ بہت شفاف اور میٹھا تھا کیونکہ وہاں پر ایک قدرتی چشمہ ہے جس سے لوگ پانی اپنے کنوئیں میں بھرتے ہیں اور پھر اسے استعمال کرتے ہیں۔ وہاں سے کچھ فاصلے پر ایک پنج تن باغ ہے جہاں پر دور دور سے زائرین آتے ہیں، راتیں گزارتے ہیں۔ اس جگہ ہر ہر قسم کی چیز کھانے پینے کے لیے مل جاتی ہے۔ وہاں پر ہم نے اس چشمے کے پانی کو بہت دیکھا جس سے دن رات پانی وہاں کے لوگ استعمال کرتے ہیں۔ واپسی پر اس باغ سے تھوڑا آگے ہم نے کچھ غار دیکھے جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ پتھر کے دور کے ہیں۔ اس طرف لعل شہباز کے مزار پر آنے والے زائرین لاہوت لامکاں جاتے ہوئے گزرتے ہیں۔ اس طرف کئی گاؤں ہیں جنھیں دیکھ کر بڑا مزہ آتا ہے کہ ہماری تاریخ کہاں کہاں پھیلی ہوئی ہے۔
اگر حکومت چاہے تو اس ویرانے اور جنگل میں بنے ہوئے آثار قدیمہ اور ثقافتی ورثے سے بہت پیسہ کما سکتی ہے اور لوگوں کو دیکھنے کو یہ مقامات مل جائیں گے۔ اس طرح سے وہاں پر بسنے والے اور دوسرے کام کرنے والوں کو روزگار بھی مل جائے گا۔ ہم تو اپنی آنکھیں اس دن کی طرف لگائے ہوئے ہیں کہ ادھر کبھی تو کوئی جوان مرد، ہمت والا، سندھ سے محبت کرنے والا اپنی ثقافتی اور تاریخی مقامات کو بچانے والا پیدا ہوگا، جیسے ذوالفقار علی بھٹو تھا۔