بہتر نظام بنانے کی اشد ضرورت

اگر چیف جسٹس ایکشن نہ لیتے تو کیا عمران خان اعظم سواتی یا عمران شاہ کے خلاف ایکشن لے سکتے تھے۔

سرکاری اثر و رسوخ سے غریبوں پر ظلم کا یہ واقعہ پہلا نہیں بلکہ عام ہے۔تاہم وفاقی وزیر، اعظم سواتی عبرت کی پہلی مثال بننے سے بچ گئے اور انھوں نے استعفیٰ دے کر نااہل قرار دیے جانے کے خوف سے جان چھڑالی۔ سپریم کورٹ میں یہ دوسرا معاملہ تھا جس پر چیف جسٹس پاکستان نے ازخود نوٹس لیا اور معافی اور صفائی مسترد ہونے کے بعد اعظم سواتی نے استعفیٰ دینا غنیمت سمجھا اور اب ان کا فیصلہ تفتیش مکمل ہونے پر ہوگا۔

سندھ میں پی ٹی آئی کی حکومت نہیں مگر اس کے رکن سندھ اسمبلی عمران شاہ نے بھی معمولی بات پر ایک شخص سے سرعام بدسلوکی کی تھی جو میڈیا میں آنے کے بعد چیف جسٹس کی نظر میں آگئی اور معافی تلافی اور جرمانہ ڈیم فنڈ میں دے کر بااثر اس ڈاکٹر کو جان چھڑانا پڑی۔

راقم کو مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کی آڈیو ریکارڈنگ ملی ہے جس میں کسی رپورٹر یا نمایندے کے ساتھ ان کی گفتگو کی ریکارڈنگ ہے۔

ایک وزیر صاحب مختلف ٹی وی چینلز پر لائیو دکھائے جانے والے کئی ٹاک شوز میں الزامات کا جواب دینے کی بجائے متعدد بار مشتعل ہوکر مخالف سیاسی پارٹی کے رہنما کے لیے نامناسب جملوں سے اپنے دل کی بھڑاس متعدد بار نکال چکے ہیں۔ ایک تحریک انصاف کے ایک صوبائی وزیر اکثر میڈیا سے گفتگو میں قابل اعتراض باتیں کرتے رہتے ہیں۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق جو اب عمر کی سنجیدگی کے حصے میں ہیں ،مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز کو لائیو ٹاک شو میں تھپڑ مار چکے ہیں۔

لائیو ٹاک شوز میں مختلف رہنما ایک دوسرے سے الجھ کر متعدد بار انتہائی قابل اعتراض باتیں کر جاتے ہیں جسے لاکھوں افراد دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ ایسے لوگوں کے متعلق کیا سوچیں گے؟ یہ بات ایسے رہنماؤں کے لیے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے ضروری نہیں کہ سپریم کورٹ ہی سوموٹو ایکشن لے۔


بعض حلقے سوموٹو ایکشن پر معترض ہوتے ہیں، ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر چیف جسٹس ایکشن نہ لیتے تو کیا عمران خان اعظم سواتی یا عمران شاہ کے خلاف ایکشن لے سکتے تھے۔ اس کا جواب نفی میں ہی ملے گا کیونکہ اب تک کسی سیاسی قائد نے اپنے کسی رہنما کے خلاف ایکشن لے کر کوئی اچھی مثال قائم نہیں کی جو سپریم کورٹ قائم کرنے جا رہی تھی۔

اے این پی کے سربراہ اور دیگر مخالفین عمران خان پر سیاست میں گالی کلچر شروع کرنے کا الزام لگا چکے ہیں جو کسی بھی اہم سیاسی رہنما پر ان کے مخالفوں نے نہیں لگایا۔

طاقتور لوگ پورے ملک میں موجود ہیں اور غریبوں کی تذلیل کو اپنا حق اپنے سرکاری عہدوں کا ناجائز استعمال ضروری، مخالفین کو گرفتار اور جھوٹے مقدمات میں پھنسانا اپنی ضرورت، اقتدار میں آکر رعونت ویسے ہی بڑھ جاتی ہے اور سیاست اور اقتدار میں آیا ہی اسی لیے جاتا ہے اور ساتھ ساتھ انھیں یہ بھی فکر لاحق ہوتی ہے کہ اس مقام تک پہنچنے کے لیے انھوں نے جو کروڑوں روپے خرچ کیے ہیں وہ اربوں کی صورت میں واپس کیسے آئیں گے کیونکہ آیندہ بھی الیکشن لڑنے کے لیے مال جمع کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔

یہ حقائق کسی سے چھپے ہوئے ہیں کہ منتخب نمایندے خصوصاً برسر اقتدار سیاستدان، ارکان اسمبلی، پارٹیوں کے عہدیدار اپنے علاقوں میں مرضی کا ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی تعینات کراتے ہیں تاکہ تھانیداروں، مختار کاروں، تحصیل داروں اور دیگر نچلے افسروں سے اپنی مرضی کے کام لے سکیں۔ بعض اعلیٰ افسران ناجائز فرمائشیں پوری نہ ہونے پر اب بھی تبدیل ہوئے ہیں۔

اسلام آباد کے آئی جی سے ڈی پی او پاکپتن کے اچانک تبادلوں پر سوموٹو نہ لیا گیا ہوتا تو ایسے مزید معاملات سامنے آتے مگر احتیاط مجبوری بن گئی اور چیف جسٹس پاکستان کی رخصتی کا انتظار ایسے بااثر لوگوں کو ضرور ہے۔ دیہی علاقوں میں وڈیروں، جاگیرداروں کے مظالم، افسروں کا ملازمین سے ناروا سلوک، قتل کرکے دباؤ ڈال کر مرضی کا راضی نامہ ماضی سے ہوتا ہے جو نئے پاکستان میں بدستور جاری ہے کیونکہ چہرے بدلے ہیں نظام وہی پرانا ہے۔
Load Next Story