میں نے 24 سالہ تدریسی سفر کے دوران ایک بھی چھٹی نہیں کی سید مہدی حسن زیدی

ایک طالب علم بھی حاضر ہو تو کلاس شروع کر دیتا ہوں، میری پانچ کتابوں کے 47 ہزار نسخے فروخت ہو چکے۔

یاد نہیں کہ کبھی اسکول اور کالج میں کوئی ناغہ کیا ہو، عمرانیات کے معروف استاد سید مہدی حسن زیدی سے ملاقات۔ فوٹو: ایکسپریس

شہر قائد میں عین گرومندر پر جہاں مرکزی 'بندر روڈ' آکر ٹھیرنے لگتا ہے۔۔۔ وہیں سے دائیں طرف ایک نہایت شانت سڑک چلتی ہے، جو 'جگر مراد آبادی' سے موسوم ہے، اس پر بٹوارے کے زمانے کی کچھ حویلیاں آج بھی ہیں، بہت سے قدیم برگد کے پیڑ بھی آج کے گزرتے وقت کو دیکھتے ہیں۔۔۔ کوئی 750 میٹر کے بعد یہ سڑک جہاں اپنے متوازی 'نیو ایم اے جناح روڈ' کہلانے والی ایک پرہجوم سڑک میں سما جاتی ہے، بس وہیں 'گلوب' سے آراستہ مشہور چورنگی کے سامنے کراچی کا تاریخی 'اسلامیہ کالج' ہے۔۔۔

پہلے اس کے تمام شعبے یک جا تھے، بعد ازاں سڑک کے سامنے 130 میٹر طویل لمبی سی تین منزلہ عمارت 'آرٹس اینڈ کامرس کالج' کے لیے مختص ہوئی، جب کہ اس چوکور اراضی کے مقابل عین دوسری سمت والا حصہ 'اسلامیہ سائنس کالج' کہلایا، جب کہ درمیان آمنے سامنے کا حصہ 'لا کالج' قرار پایا اور اس کے مقابل سرکاری اسکول قائم ہوئے۔۔۔ اب درمیان کی آڑھی ترچھی دیواریں ان تعلیمی اداروں کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہیں۔۔۔

ہماری منزل 'گورنمنٹ اسلامیہ آرٹس وکامرس کالج' تھی۔۔۔ میں نے جوں ہی اس مادر علمی کی دہلیز پار کی، توں ہی سمے کا دھارا گویا پیچھے کو سرکتا چلا گیا۔۔۔ میں نے خود کو صدر سے چلنے والی مشہور 11-C کی بس سے اترتے دیکھا، کبھی گرومندر تک آنے والی 1-D سے اتر کر کالج تک دس منٹ کی پیدل مسافت یاد آئی۔۔۔ وہ ملنے والے اور مل کر ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے والے ہم سفر یاد آئے۔۔۔

اب میں چلتے چلتے کالج کی تیسری منزل پر پہنچ چکا تھا۔۔۔ مجھ 'جنوبی کراچی' میں زندگی کرنے والے نے ساڑھے سات کلو میٹر پرے شمالی کراچی کی پہاڑیاں پہلی بار اس راہ داری سے ہی تو دیکھی تھیں۔۔۔! پھر اُسی زمانے میں شہری حکومت نے ان پہاڑیوں کے درمیان ایک سرنگ کی صورت راستہ نکالنا چاہا، جس میں ناکامی کے بعد آخر کو پہاڑی کاٹ دی گئی اور یوں 'کٹی پہاڑی' وجود میں آگئی۔۔۔ سلسلہ وار پہاڑیوں کا یہ درمیانی شگاف بھی یہاں سے صاف دکھائی دیتا تھا۔۔۔ مگر آج شہر کی فضا گرد آلود ہونے کے سبب حد نگاہ محدود تھی، اس کے باوجود شہر میں بہت سے نئے قد نکالنے والوں کی طرح سر اٹھائی عمارتوں کے اضافے نمایاں تھے۔۔۔

اسی دوران اَذن باریابی ہو چکا تھا، چناں چہ ہم اُن کے کمرے میں داخل ہوئے۔۔۔ یہ عمرانیات کے معروف استاد سید مہدی حسن زیدی ہیں، جنہوں نے اپنے 24 سالہ تدریسی سفر میں کوئی چھٹی نہ کر کے نظم وضبط کا ایک ایسا ریکارڈ قائم کیا ہے، جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔۔۔ وہ خود ہر چیز کو مثال بنا کر پیش کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔۔۔ کہتے ہیں کہ ہر منصب کے تقاضے ہوتے ہیں، ان پر پورا اترنا ضروری ہے۔۔۔ زندگی رہی تو اگلے سال میرے تدریسی سفر کی ربع صدی (سلور جوبلی) مکمل ہو جائے گی۔۔۔ اور اس عرصے میں میری کوئی چھٹی نہیں ہوگی۔۔۔! میرے جذبے کے آگے موسمی حالات رکاوٹ بنے، نہ بند راستے۔۔۔ کبھی کہیں کوئی احتجاج اور دھرنا ہوتا، کبھی کشیدگی اور شرپسندی ہوتی، شدید بارشوں میں سڑکیں پانی میں ڈوبی ہوتیں، مگر میں کسی نہ کسی راستے سے کالج پہنچ جاتا۔ بلوائیوں سے بھی سامنا ہوا، لیکن میں صرف اللہ سے ڈرتا ہوں، میرا ہدف ہوتا ہے کہ ہر حال میں کالج جانا ہے۔

ایک مرتبہ بارش کا پانی جمع ہونے کے سبب نکلنا ناممکن نظر آتا تھا، لیکن میں نے اللہ کا نام لے کر اسکوٹر پانی میں ڈالی اور پہنچا۔ ایک مرتبہ 'ایکسیڈینٹ' ہوا، تو پلاسٹر بندھی ہوئی ٹانگ کے باوجود بھی کالج آیا۔

سید مہدی حسن زیدی ہر طرح کے حالات کے مطابق وہ پیش بندی کر کے رکھتے ہیں، وہ اپنی شادی پر چھٹیوں سے بچنے کے لیے سردیوں کی تعطیلات کام میں لائے، کہتے ہیں کہ میری کوشش ہوتی ہے کہ بہ حیثیت استاد طلبہ کو راہ نمائی فراہم کروں، ہمارے کردار کی جواب دہی ہونا ہے۔''

ہم نے کہا کہ رخصت بھی تو دی گئی ہے؟ تو وہ بولے کہ 'سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی حاضری کا مسئلہ ہے، میں منصب استاد' کی حقیقی تصویر پیش کرنا چاہتا ہوں۔' ہم نے پوچھا کہ جائز 'رخصت' نہ لینا تو خود پر جبر ہے؟ وہ بولے ''میں دل سے یہ کام کرتا ہوں، اس لیے یہ جبر نہیں، لطف ہے۔ میں نے پہلی شادی تعلیم سے کی ہے، اس لیے یہ تو کرنا ہے!''

''آپ لاکھ منظم ہوں، زندگی میں مختلف مسائل آڑے آ ہی جاتے ہیں؟'' ہم اپنی حیرانی چھپا نہ سکے۔

وہ بولے ''نظم وضبط کے لیے فعال ہو کر کام کرنا پڑتا ہے، جو سست اور کاہل ہو وہ کوئی کام نہیں کر سکتا، اگر ہم صبح اٹھ کر منصوبہ بندی کریں اور اپنے کاموں کی ایک فہرست بنا لیں، تو سب کام ہو سکتے ہیں، ورنہ ممکن نہیں۔''

''کیا آپ کو کبھی ایسا لگا کہ آج تو ریکارڈ خراب ہو سکتا ہے؟'' ہم نے گویا اُن کے آہنی عزم کی پیمائش کرنا چاہی۔

انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ شدید بارش کے سبب ایسا لگا تھا کہ آج کالج نہ پہنچ سکوں گا، لیکن میں کسی نہ کسی طرح موٹرسائیکل گھسیٹتا ہوا آ گیا تھا۔ خاندانی تقریبات کے حوالے سے سید مہدی حسن زیدی نے بتایا کہ اب اہل خانہ بھی کہتے ہیں کہ آپ اپنا حساب کتاب سوچ سمجھ کر رکھیے، ان سے توقع نہ کیجیے گا کہ یہ کالج کی چھٹی کریں گے۔'

آپ کو اتنے کڑے نظم وضبط کا خیال کب آیا؟ ہمارے اس استفسار پر انہوں نے ہمیں یہ بتا کر مزید حیران کر دیا کہ ''کبھی اسکول اور کالج میں بھی یاد نہیں پڑتا کہ کوئی چھٹی کی ہو!''

تدریس شروع کرنے کے بعد انہیں عمرانیات کی نصابی کتب میں تشنگی محسوس ہوئی، تو انہوں نے بہتر کتب ترتیب دینے کا فیصلہ کیا، جس میں طلبہ کے ساتھ عام قارئین کی دل چسپی بھی ملحوظ خاطر رکھی۔ پہلی کتاب فرسٹ ائیر کے لیے بہ عنوان 'تعارف عمرانیات' تیار کی، اس کی اشاعت کے لیے ناشر کے پاس گئے، تو انہوں نے انکار کر دیا کہ 'فرسٹ ائیر' کی تو پہلے ہی چھے کتب موجود ہیں! بالآخر جون 2001ء میں یہ کتاب خود شایع کرائی، جب یہ کتاب چلنے لگی، تو ناشر نے خود فون کر کے اس کی اشاعت کی خواہش کی۔ جولائی 2002ء میں 'عمرانیات اور پاکستان' (برائے انٹر سال دوم) منظر عام پر آئی، جولائی 2004ء میں 'عمرانیات کے اصول' (بی اے سال اول) آئی، جس کے اب تک 15 ایڈیشن آچکے ہیں۔ فروری 2008ء میں بی اے سال دوم کے نصاب کے مطابق 'اطلاقی عمرانیات' منظر عام پر آئی۔ ساتھ ہی ایک مختصر سوال جواب (ایم سی کیوز) کی کتاب بھی لکھی، وہ بتاتے ہیں کہ اِن تمام کتب کے اب تک کُل 47 ہزار نسخے فروخت ہو چکے ہیں!

مہدی حسن زیدی بطور مہمان مقرر بہت سی جامعات اور کالجوں میں جاتے رہے ہیں، پہلے وہ مختلف کالجوں میں عمرانیات کا مضمون متعارف کرانے کے لیے بھی کوشاں رہے۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ عمرانیات پڑھنے والے طلبہ کے توسط سے ہی اس مضمون کی آگہی فروغ پائے، کہتے ہیں کہ انٹر اور بی اے میں عمرانیات پڑھنے والے اعلیٰ تعلیم کے لیے عمرانیات منتخب کرتے ہیں، سماجی علوم میں عمرانیات میں ملازمت کے خاصے مواقع ہیں۔

بہ یک وقت دو تین کام کرنے کے عادی سید مہدی حسن کپڑوں پر استری کرتے ہیںِ، تو کان میں 'ائرفون' لگا کر لیکچر بھی سنتے ہیں۔ بیش تر وقت پڑھنے اور پڑھانے میں صرف ہوتا ہے، مذہب سے لگاؤ کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ہماری زندگی گزارنے کی مختلف راہیں ہیں، ایک راستہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا ہے، میں چاہتا ہوں کہ اس راستے سے متعلق اپنی معلومات بڑھاؤں۔

سید مہدی حسن کے تدریسی سفر کی ربع صدی ہونے کو ہے، ہم نے ان کے احساسات سے متعلق پوچھا کہ خود کو کتنا مطمئن پاتے ہیں؟ تو وہ بولے کہ 'حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا' زیادہ سے زیادہ علم منتقل کرنے کی کوشش کی، جب یہاں آیا تو کالج کی صورت حال بہت خراب تھی، اس لیے ذاتی طور پر 'شعبۂ عمرانیات' میں صفائی ستھرائی اور فرنیچر سے لے کر تزئین و آرائش پر توجہ کی، تاکہ طلبہ کو تعلیمی ماحول ملے۔

ایک المیے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سید مہدی نے بتایا کہ 'کالج میں ہر سال داخلے تو اُتنے ہی ہو رہے ہیں، لیکن افسوس، حاضری بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔ کچھ سال پہلے تک نئے تعلیمی سال کے پہلے دن تو 90 فی صد حاضری ہو جاتی تھی، اب پہلے دن بھی 20 فی صد طلبہ ہی آتے ہیں، جس کی بڑی وجہ وہ معاشی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مرکزی طور پر کفالت کی ذمے داری لڑکوں پر ہے، اور وہ بہ یک وقت دو کام نہیں کر پاتے، اس لیے کالج نظر انداز ہوتا ہے۔


طلبہ کی 'عمرانیات' کے مضمون سے عدم واقفیت کی بنا پر وہ نئے طلبہ کو اس سے متعارف کرانے کے لیے پہلی کلاس میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں، جس میں انہیں بتاتے ہیں کہ یہ مضمون براہ راست آپ سے ہی متعلق ہے، سماج میں رہنا سہنا، بول چال، لباس، حلیہ اور بول چال سے سارے سماجی مسائل تک 'کیا، کب، کہاں، کیوں اور کیسے؟' کے سارے جواب دیے جاتے ہیں۔ دوران تدریس وہ مختلف سیمنار، پرزنٹیشن اور اسائمنٹ کی مدد بھی لیتے ہیں۔

عمرانیات پڑھنے والے طلبہ کے رویوں میں تبدیلی کے ذکر پر سید مہدی حسن زیدی گویا ہوئے کہ یہ تو بنیادی بات ہے کہ عام آدمی کی نسبت عمرانیات کا طالب علم سماجی کردار اور سماجی تعلقات کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھتا ہے، اپنے گھر، خاندان، سماج اور معاشرے کے بارے میں جانتا ہے، اس لیے اس کی زندگی بہتر نظر آتی ہے۔ دیگر سماجی علوم سماج کے کسی ایک پہلو سے بحث کرتے ہیں، جب کہ عمرانیات بہ یک وقت پورے سماج کا مطالعہ کرتی ہے، اس لیے عمرانیات پڑھنے والے کو لوگوں سے میل جول، خاندانی زندگی اور ملازمت وغیرہ کے معاملات خوش اسلوبی سے کرنا آجاتے ہیں۔

سید مہدی حسن کہتے ہیں کہ خانگی امور سے لے کر سماج کی سطح تک معاشرے کے کے بے شمار مسائل ہیں، لیکن ہمارے معاشرے میں 'ماہر عمرانیات' کا تصور ہی مضبوط نہیں ہوا۔ عمرانیات انسانی تعلقات کا علم ہے، اس کے ذریعے ہی ہم بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ میں اپنے طور پر یہ کردار ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں، جس کے سبب اب تک سات گھر ٹوٹنے سے بچائے۔ وقت کے ساتھ ساتھ امید ہے کہ سماج میں عمرانیات کی اہمیت تسلیم کی جائے گی۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ ڈاکٹر کے پیشے کی طرح سماج کا علاج تجویز کرے۔

سرکاری کالجوں میں طلبہ کی کم حاضری کو سید مہدی حسن سب سے بڑا مسئلہ گردانتے ہوئے کہتے ہیں کہ تجارتی سوچ کے سبب استاد اور طالب علم میں وہ رشتہ نہیں رہا۔ انسان آمدنی تو کہیں سے بھی حاصل کر سکتا ہے، تدریس 'منصب پیمبری' ہے، استاد کو سوچنا چاہیے، کہ وہ کارخانے یا فیکٹری میں کام نہیں کر رہا، بلکہ اسے اپنے کردار کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کرنا ہے۔ اسے اپنے مضمون اور کردار پر گرفت ہونا چاہیے، وہ زمانے کو بدلنے والا ہو، زمانے کے پیچھے چلنے والا نہ ہو۔ معاشرے میں استاد اور شاگرد ہی اصل کردار ہیں۔ مذہبی طور پر بھی ان کی بہت اہمیت ہے۔ اساتذہ کی غیر حاضری سے پڑھنے والے طلبہ دل برداشتہ ہوجاتے ہیں یا غفلت کرتے ہیں۔ بہت سے اساتذہ کہتے ہیں کہ اتنے طلبہ ہوں گے، تب ہی پڑھائیں گے! دیگر طلبہ غیر حاضری میں حاضر طلبہ کا کیا قصور؟ ان کا بنیادی حق ہے کہ اُنہیں پڑھایا جائے، میری کلاس میں صرف ایک بھی طالب علم ہو تو میں کلاس شروع کر دیتا ہوں۔

٭٭٭

''انٹر میں عمرانیات کی طرف متوجہ ہوا''

سید مہدی حسن زیدی 6 ستمبر 1968ء کو کراچی میں پیدا ہوئے، اُن کے والد سید اشرف علی زیدی مذہبی عالم ہیں، وہ عائشہ منزل، کراچی کی امام بارگاہ میں امامت کراتے رہے، اب پیرانہ سالی کے سبب گھر پر رہتے ہیں، یا کچھ سماجی سرگرمیوں کو وقت دیتے ہیں۔ سید مہدی حسن کے گھر کا ماحول مذہبی ہے، پانچ بھائی اور دو بہنوں میں وہ سب سے چھوٹے ہیں، بڑے بھائی مکینکل انجینئر ہیں، جو کینیڈا میں رہتے ہیں، ایک بھائی شاہ لطیف یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔

باقی دو بھائی کاروبار اور ملازمت کرتے ہیں، جب کہ بہنوں کی شادی ہو چکی۔ سید مہدی حسن زیدی نے 1982ء میں گورنمنٹ بوائز اسکول جیکب لائن سے میٹرک کیا، کہتے ہیں کہ تب تعلیمی ماحول بہت اچھا تھا، اُس وقت کے پڑھے ہوئے طالب علم آج اچھے عہدوں پر فائز ہیں۔ میٹرک کے بعد سید مہدی حسن اسلامیہ آرٹس اینڈ کامرس کالج کے طالب علم ہوئے، 1984ء میں انٹر کیا، اور پھر بی اے کے بعد 1991ء میں جامعہ کراچی سے عمرانیات میں ماسٹرز کیا۔ کہتے ہیں کہ انٹر میں ایک کزن کی عمرانیات کی کتاب پڑھی، تو اس مضمون کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کے بعد 1996ء میں 'پبلک ایڈمنسٹریشن' میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کیا۔ 2001ء میں 'ایم فل' کے لیے رجسٹریشن ہوگئی، لیکن پھر اسے بوجوہ جاری نہ رکھ سکے۔

30مئی 1994ء کو 'پبلک سروس کمیشن' کے ذریعے 'گورنمنٹ اسلامیہ آرٹس وکامرس کالج' میں بطور لیکچرر تقرر ہوا۔ 2009ء میں 15 سال بعد ترقی ہوئی اور وہ اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر فائز ہو گئے، اب کالج میں 'صدر شعبۂ عمرانیات' بھی ہیں۔ 2002ء میں ان کی شادی والدین کی پسند سے ہوئی، وہ دو بیٹیوں کے والد ہیں، بڑی صاحب زادی نہم جماعت میں ہیں، چھوٹی بیٹی دو سال کی ہیں، اُن کی شریک حیات ڈاؤ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ پہلے آغا خان اسپتال میں خدمات انجام دیتی رہیں، چھوٹی بیٹی کی ولادت کے بعد اب وہ گھر کو ہی وقت دیتی ہیں۔

''ہماری تعلیم میں اخلاق نہیں سکھایا جاتا۔۔۔!''

'عمرانیات' کے استاد ہونے کے ناتے ہم نے سید مہدی حسن زیدی سے پاکستانی سماج کے مسائل کا حل پوچھا تو وہ بولے کہ ہمارے معاشرتی مسائل غربت، جہالت، بے روزگاری اور لاقانونیت وغیرہ کے پیچھے مذہب سے دوری کارفرما ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ یہ سماج مذہب کی بنیاد پر قائم ہوا۔ یہاں 97 فی صد مسلمان ہیں، ہم اگر مسلمان ہیں، تو ہمارے کردار اور عمل سے یہ جھلکنا بھی چاہیے۔ ہمارے پاس راہ نمائی کے لیے قرآن پاک اور سنت نبوی موجود ہے، ہمیں اس سے استفادہ کرنا چاہیے، ہم نے اسے مقدس تو جانا ہے، لیکن اسے اپنی زندگی میں شامل نہیں کیا۔ ہمارے ہاں تعلیم میں اخلاق نہیں سکھایا جاتا۔ اس لیے آج ہم اخلاقی پستی کا شکار ہیں، اخلاقی تربیت کے لیے سب سے بنیادی ادارہ مسجد ہے، وہاں ہمارے بچوں کو اخلاقی تعلیم ملنا چاہیے۔

عقیدوں کا اختلاف اپنی جگہ، لیکن بنیادی اخلاقیات پر تو سب متفق ہیں، جیسے سچ سب کے لیے اچھا اور ظلم ہر ایک کے لیے برا۔ اگر ہمارے ذہن میں یہ ہو کہ ہم اکیلے ہوں یا محفل میں، ہمیں اللہ دیکھ رہا ہے، اسے اپنے عمل کا جواب بھی دینا ہے، تو اس سے سماج میں بہتری آئے گی۔ آج ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ اخلاق ہے، کوئی بری طرح بات کرے تو برہمی ہوگی، جس سے نہ صرف نفسیاتی اثر ہوگا، بلکہ سماجی کردار بھی خراب ہوگا۔ پندرہویں صدی میں انسانی سوچ میں جو تبدیلی آئی، اسے 'جدیدیت' کہا جاتا ہے کہ انسان مذہب چھوڑ کر صرف عقل کے پیچھے چل کر مسائل حل کرنے لگا، جس سے مادّی ترقی تو ہو جاتی ہے، لیکن اخلاقی تربیت رہ جاتی ہے، اسی سے سارے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ کوئی بھی معاشرہ اخلاقی اقدار کے بغیر 'جس کی لاٹھی اس کی بھینس' کے مصداق ہوتا ہے، آج ہوس، حرص اور لالچ پیدا ہو رہی ہے۔ مذہب ایک راستہ ہے، جس کی بنیادی چیز اخلاق ہے۔ اگر ہماری اخلاقی تربیت ہو تو سارے مسائل حل ہو جائیں!

جب ریاست اور افراد کردار ادا نہ کریں تو مسائل پیدا ہوتے ہیں

سید مہدی حسن زیدی نے اپنے 'ایم اے' کے مقالے میں 'کراچی سینٹرل جیل' میں سزا پانے والے مجرموں میں جرائم کے اسباب کا تحقیقی جائزہ لیا۔ وہ کہتے ہیں کہ کوئی بھی پیدائشی مجرم نہیں ہوتا، مختلف سماجی اسباب اسے مجرم بناتے ہیں۔ اس تحقیق میں سامنے آنے والے اسباب کو ہم 100 فی صد نہیں کہہ سکتے، لیکن بیش تر یہی ہیں۔ غربت، جہالت، بے روزگاری، لاقانونیت سے دہشت گردی تک معاشرے کے سارے مسائل انسانی رویوں کا نتیجہ ہوتے ہیں اور درست انسانی کردار ہی ان کا حل دے سکتا ہے!

جناب علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ 'دولت کی زیادتی اس بات کا ثبوت ہے کہ کہیں کسی کا حق مارا جا رہا ہے۔' جیسے دولت ایک حد سے زیادہ ہو تو پھر اس کے مذہبی فرائض ادا کرنا ضروری ہیں، ورنہ ایک طرف دولت بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف کئی سماجی اور نفسیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ بہت سے لوگ دولت حاصل کرنے کے لیے منفی ذرایع کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اگر ریاست اور اکثر افراد اپنا کردار ادا کر رہے ہوں تو مسائل پیدا نہ ہوں۔

جب کالج میں اُن کی اسکوٹر جلا دی گئی۔۔۔!

سید مہدی حسن زیدی سے جب ہم نے تدریسی سفر کی مشکلات کا پوچھا تو وہ بولے کہ تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے عناصر ہی اصل مسئلہ ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کو بات چیت کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، چاہے وہ عمل نہ کریں، لیکن اچھی طرح بات کی جائے، تو وہ سنتے ضرور ہیں اور اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔

17 اپریل 2006ء کو گورنمنٹ اسلامیہ آرٹس کامرس کالج میں میں دو طلبہ تنظیموں میں تصادم کے دوران کالج کے عملے کی پانچ موٹر سائیکلوں کو بھی نذرآتش کیا گیا، جس میں بدقسمتی سے ان کی اسکوٹر بھی شامل تھی۔۔۔! طلبہ تنظیموں کے 'غیر تعلیمی' سرگرمیوں کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ دراصل انہیں شعور نہیں ہے کہ وہ کس طرح اپنی زندگی اور وقت کو ضایع کر رہے ہیں، وہ ڈرا دھمکا کر کسی سے کوئی کام کرا تو سکتے ہیں، لیکن اس کے بعد ان کی عزت نہیں ہوگی، عزت دل سے کی جاتی ہے، جب کردار ہوگا تو عزت ہوگی۔
Load Next Story