کوچۂ سخن
غزل
میں اپنے عشق میں پیہم زوال دیکھتا ہوں
جو تیرے چاہنے والوں کا حال دیکھتا ہوں
میں اِس لیے بھی نہیں دیکھتا ہوں آئینہ
وہاں جو چہرہ ہے اس پر جلال دیکھتا ہوں
بدل گئی ہے سماعت مری بصارت سے
میں خواب سنتاہوں لیکن خیال دیکھتا ہوں
کہا ہے تُو نے کہ تیری مثال کوئی نہیں
مگر میں نُور میں تیری مثال دیکھتا ہوں
میں چاہتاہوں کہ خود خاک پر اتر آؤں
جب آسماں سے زمیں کا جمال دیکھتا ہوں
میں ہونٹ دیکھتا ہوں پھول دیکھنے کے بعد
تو تیرے دستِ ہنر کا کمال دیکھتا ہوں
پھر اس کے بعد کوئی بات کر نہیں پاتا
جب اس فقیر کی آنکھوں کو لال دیکھتا ہوں
بصد خلوص نصیحت کو سنتا رہتا ہوں
پھر اپنے ہاتھ سے مَیں اپنا گال دیکھتا ہوں
جو درد سہتے ہیں لیکن خموش رہتے ہیں
اب ایسے لوگ بڑے خال خال دیکھتا ہوں
(ادریس آزاد، خوشاب)
۔۔۔
غزل
گھر میں وحشت ہو تو احباب نہیں آتے ہیں
نیند آتی ہے مگر خواب نہیں آتے ہیں
کیوں سرِ بزم مرا نام پکارا تم نے؟
تم کو محفل کے بھی آداب نہیں آتے ہیں؟
اے مری آنکھ میں یوں پھول اْگاتے ہوئے شخص!
سوچ بنجر ہو تو سیلاب نہیں آتے ہیں
سرخ موسم ہو تو رونق سی لگی رہتی ہے
زرد موسم ہو تو احباب نہیں آتے ہیں
اتنا خوش فہم نہ ہو چھوڑ کے جانے والے!
اب مجھے سچ میں ترے خواب نہیں آتے ہیں
پہلے آتے تھے مجھے روز ڈبونے آغرؔ
آج مرنا ہے تو گرداب نہیں آتے ہیں
(آغر ندیم سحر، لاہور)
۔۔۔
''راکھ''
سوچ رہی ہوں
ارمانوں کے پنجرے سے
پنچھی کو آزاد کروں میں
دل کے بہلانے کو میں نے
گھر کے گلدانوں میں کب سے
مردہ خواب سجا رکھے ہیں
کمرے کو کچھ صاف کروں میں
صندل کی لکڑی کے نیچے
دھیرے دھیرے چِلاتی
اک آس رکھی ہے
اک کونے میں
جیتی مرتی خواہش کی
اِک سانس پڑی ہے
جانے کتنے برسوں کی
آتش دان میں راکھ پڑی ہے
(سارا خان، راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
کسی کی سننی نہیں ہے اگر مگر میں نے
جواب دینا ہے ڈنکے کی چوٹ پر میں نے
ابھی سے سائے میں جا کے نگوڑا بیٹھ گیا
ابھی تو دل کو لگایا تھا کام پر میں نے
تری نظر میں تو یہ سرسری سی کوشش ہے
مجھے پتا ہے بنایا ہے کیسے گھر میں نے
پھر ایک عمر سزا کاٹنی پڑی مجھ کو
نظر ملائی تھی سورج سے لمحہ بھر میں نے
سخن وری بھی تو اک انت ذمہ داری ہے
میں سوچتی ہوں لیا کیوں یہ دردِ سَر میں نے
بھگت رہی ہوں نئی زندگی کا خمیازہ
کہ اپنے ہاتھوں سے کاٹے ہیں اپنے پَر میں نے
میرے لیے تو وہ سایہ بھی دھوپ تھا بلقیسؔ
تلاش جس کو کیا تھا شجر شجر میں نے
(بلقیس خان، میانوالی)
۔۔۔
''دُکھ کسی اور کا ہو سکتا ہے!!''
تُو مِری رنج بیانی پہ نہ رنجیدہ ہو
میرا دکھ اور کسی کا بھی تو ہو سکتا ہے
میں کہ حساس طبیعت کا سخن ور، شاعر
جذب کرتا ہوں کئی رنج زدہ لوگوں کے رنج
اور انہیں صفحۂ قرطاس پہ لے آتا ہوں
میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ اپنا کوئی دکھ
شاملِ شعر و سخن ہو نہیں پائے لیکن ۔۔۔
ایک سی شکل محبت کی بھی ہوسکتی ہے
دکھ کسی دکھ کے مماثل بھی تو ہو سکتا ہے
تُو مری رنج بیانی پہ نہ رنجیدہ ہو
میرا دکھ اور کسی کا بھی تو ہوسکتا ہے!
(پارس مزاری، بہاولپور)
۔۔۔
غزل
جذبوں سے تہی دامن یہ جسم کبھی مت ہو
دل ہے تو محبّت ہو آنکھیں ہیں تو حیرت ہو
اک آدھ ٹھکانہ ہو ہم ہجر کے ماروں کا
اس شہر کی وسعت میں اک گوشہ عزلت ہو
ہر روز بدلتی ہے خواہش دلِ وحشی کی
کیسے ہو بھلا ممکن ہم کو تری عادت ہو
ہر بات کے ویسے بھی دو پہلو تو ہوتے ہیں
اب یہ بھی تو ممکن ہے ان کو بھی محبّت ہو
ہم لوگ تو سانسوں کی گنتی کیے جاتے ہیں
ہم کو تو برابر ہے جلوت ہو کہ خلوت ہو
کچھ گردشِ دوراں کی اب ہم سے نہیں بنتی
کچھ دل بھی یہ کہتا ہے تھوڑی سی تو وحشت ہو
یہ زخمِ محبّت ہے کیا رونا اسے پا کر
جب چارہ نہیں ممکن لب پر کیوں شکایت ہو
(مبشر متین، لاہور)
۔۔۔
غزل
عشق کچھ حوصلہ بڑھا میرا
ضبط کا اشک مت گرا میرا
اب مری ملکیت کے کیا کہنے؟
میں خدا کا ہوں اور خدا، میرا
ایک حساس آدمی ہوں میں
تھوڑا نازک ہے مسئلہ میرا
کیا محبت مجھے بھی کرنی ہے؟
سلسلہ قیس سے ملا میرا
برگِ صحرا عزیز ہے مجھ کو
اور پانی سے ہے گلہ میرا
مجھ کو کچھ اور ہی بنا ڈالا
کوزہ گر تھا وہ حادثہ میرا
گُل نہیں، خار چومتا ہوں میں
مختلف ہے یہ فلسفہ میرا
شاعری کی مٹھاس ہے مجھ میں
اور اردو ہے ذائقہ میرا
(سردارفہد، ایبٹ آباد)
۔۔۔
غزل
اترے ہیں کچھ عذاب دسمبر کے بعد بھی
موسم رہا خراب دسمبر کے بعد بھی
کاٹی جو فصلِ عشق خسارا ہوا مجھے
میں نے کیا حساب دسمبر کے بعد بھی
پلکیں بچھائے بیٹھے رہے رہگزر میں ہم
آئے نہ تم جناب دسمبر کے بعد بھی
ویسے تو لکھ چکا ہوں میں ہر قصۂ الم
لکھا ہے ایک باب دسمبر کے بعد بھی
کھائی تھی جنوری میں قسم چھوڑ دوں گا میں
چھوڑی نہیں شراب دسمبر کے بعد بھی
آنکھوں میں نقشِ قیس کی لیلیٰ کا عکس تھا
صحرا بنا سراب دسمبر کے بعد بھی
فرقت کی آگ اس طرح بھڑکی کہ میرا دل
جل کر ہوا کباب دسمبر کے بعد بھی
حالت جو دل کی آپ کے جانے کے بعد تھی
ویسی ہی ہے جناب دسمبر کے بعد بھی
بھجوائے تھے جو آپ نے شہبازؔ کے لیے
تازہ ہیں وہ گلاب دسمبر کے بعد بھی
(شہباز ناصر، ملتان)
۔۔۔
غزل
جو سولی کے مقدر میں رکھے تھے
ہم ایسے بدنصیبوں کے گلے تھے
ہمارا وقت پورا ہو رہا تھا
کسی کے منہ پہ بارہ بج رہے تھے
اذیت لطف دینے لگ گئی تھی
کہ ناخن سے کلائی کاٹتے تھے
زمیں سونا اگلنے لگ پڑی تھی
مرے ہاتھوں کے چھالے بڑھ رہے تھے
شہنشہ جب ستم ڈھانے پہ آیا
خدا چپ تھا، مگر ہم تو لڑے تھے
کوئی سندر پجارن مر گئی تھی
تبھی تو دیوتا روئے ہوئے تھے
کوئی تختی نہیں تھی شہر بھر میں
کہ چوراہوں پہ بس مردے گڑے تھے
(حسیب الحسن، خوشاب)
۔۔۔
غزل
زندہ ہونے کا حق ادا کر دے
میرا ہو جا یہ معجزہ کر دے
میں تجھے دیکھ ہی نہیں پایا
اپنی آنکھیں مجھے عطا کر دے
وصل ہو ، ہجر ہو، یا تنہائی
جو بھی کرنا ہے فیصلہ کر دے
اک حسینہ جو قید ہے دل میں
کہہ رہی ہے مجھے رہا کر دے
میں بھروسا کروں سماعت پر
اپنی آواز جا بجا کر دے
یار میرا علاج لے آیا
تُو مرے زخم لا دوا کر دے
درد پہ درد دے رہا ہے مجھے
میں نے بولا بھی تھا، بتا کر دے
(ایاز علی حاوی، اٹک)
۔۔۔
غزل
یہ جو باتیں ہیں پسِ شعر و سخن میرے دوست
تیری ان باتوں سے جلتا ہے بدن میرے دوست
آپ کے بعد تو ویرانے کا ویرانہ ہے
آپ کے دم سے تھا آباد چمن میرے دوست
کوئی مجبوری بھی ہو سکتی ہے اس فیصلے میں
شاید اپنا بھی نہ ہو پائے ملن میرے دوست
وہ مرا ہو کے کسی اور کی تقدیر بنا
دل سے جاتی ہی نہیں ہے یہ چبھن میرے دوست
اہلِ دنیا کے مقدر میں تو جاگیریں ہیں
اور حمزہؔ کے لیے حرفِ سخن میرے دوست
(امیر حمزہ سلفی، اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
اس کو دنیا اسی کو دین کیا
عین انصاف کے قرین کیا
وہ کہے گا یقین ہے مجھ پر
میں کہوں گی ترا یقین کیا
دل میں گھر کرلیا محبت نے
اور مجھے اس قدر حسین کیا
کند ذہنوں کو اپنی برکت سے
عشق نے کس قدر ذہین کیا
صبر کا رکھ لیا بھرم ہم نے
اور نم جذبِ آستین کیا
(حنا عنبرین، لیہ)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچۂ سخن''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk