پنجاب اور حکمرانی

ڈھائی ہزاربرس کی معلوم تاریخ میں پنجاب کی سرزمین سےصرف ایک کامیاب مقامی(Indigenous)حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ نظرآتاہے۔

muqtidakhan@hotmail.com

لاہور:
پنجاب، دنیا کے چند حسین اور سرسبز و شاداب خطوں میں سے ایک ہے، جہاں ایک طرف سال کے بارہ مہینے ہرے بھرے کھیت لہلہاتے ہیں، تو دوسری طرف علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ جس کے شاعر، ادیب، فنکار، مصور اور مغنی پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں، جس کے باسی جفاکش اور محنتی ہونے کے ساتھ ایثار و قربانی کی بھی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔ انھی خصوصیات کی وجہ سے دنیا کا کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں کوئی پنجابی موجود نہ ہو، ساتھ ہی عجب طرفہ تماشا یہ بھی ہے کہ یہ سرزمین ہے تو چھ دریائوں کی، مگر نہ جانے کب اس کا نام پنج آب (پنجاب) پڑگیا اور آج تک یہی اس کی شناخت ہے۔

پنجابی جنوبی ایشیاء میں بولی جانے والی سبھی زبانوں میں سب سے زیادہ سیکولر اور میٹھی زبان ہے، جس کے شاعر و ادیب جرأتمندی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ بابا بلھے شاہ سے میاں محمد بخش تک تقریباً سبھی پنجابی شاعروں نے انکار اور مزاحمت کی ایک نئی داستان رقم کی ہے۔ وارث شاہ نے جس خوبصورت آہنگ کے ساتھ ہیر رانجھے کے عشق کی لازوال داستان کو رقم کیا ہے، اس کی نظیر دنیا کی رومانوی شاعری میں کہیں اور نہیں ملتی۔ اگر بات اردو کی ہو تواس زبان کی ترقی اور ترویج کا سہرا بھی بجا طور پر پنجاب کے سر بندھتا ہے۔ اتر پردیش، بہار اور حیدرآباد (دکن) نے مل کر اردو زبان کی اتنی خدمت نہیں کی جتنی اکیلے پنجاب نے کی ہے۔ اگر غیر منقسم ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں تخلیق ہونے والے اردو ادب کا پنجاب میں تخلیق ہونے والے ادب سے موازنہ کیا جائے، تو پنجاب ان سے معیار اور حجم میں کہیں آگے نظر آئے گا۔ اقبال جیسا فلسفی شاعر ہو یا رومانیت اور انقلاب میں حسین امتزاج پیدا کرنے والافیض ہو، منفرد لہجے والا ن م راشد ہو یا عوام کے جذبات کی ترجمانی کرنے والا حبیب جالب ہو، ان سب نے پنجاب کی دھرتی پر جنم لیا ہے۔ یہ محض چند نام ہیں، جب کہ فہرست بہت طویل ہے۔ اگر شاعری کے علاوہ افسانہ نگاری، ناول نگاری اور تنقید نگاری کا مطالعہ کیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اردو ادب میں صف اول کے بیشتر قلمکاروں کا تعلق پنجاب سے ہے۔

فلمی صنعت کا ذکر پنجاب کے تذکرے کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ پنجاب نے برصغیر کی فلمی صنعت کو ہر شعبے میں ایسے جوہر نایاب دیے، جنہوں نے اس فلمی صنعت کو ہالی ووڈ کی سطح پر لاکھڑا کیا۔ آغا حشر کاشمیری سے راجیش کھنہ تک، بلراج ساہنی سے دھرمیندر بلکہ آج کے نوجوان اداکاروں تک ہر سپر اسٹار کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے پنجاب سے ضرور ملے گا۔ مغنیوں کی بات کریں تو شمشاد بیگم سے ملکہ ترنم نورجہاں، نسیم بیگم اور فریدہ خانم تک، جب کہ کے ایل سہگل سے محمد رفیع اور مہندر کپور سے ہوتے ہوئے عاطف اسلم تک ہر مقبول گلوگار پنجاب سے تعلق رکھتا ہے۔ یہی کچھ معاملہ قوالی کا ہے، استاد غلام حسین، قربان حسین سے نصرت فتح علی خان تک عالمی سطح کا ہر قوال پنجاب کی سرزمین سے اٹھا ہے۔ گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ برصغیر کی فلمی صنعت میں اداکاروں، اداکارائوں اور گلوکاروں، گلوکارائوں سے شاعروں، موسیقاروں اور ہدایت کاروں کی ایک بہت بڑی کہکشاں لاہور سے ممبئی تک بکھری ہوئی ہے۔

مگر بڑی عجیب بات ہے کہ ہر شعبہ زندگی میں نمایاں بلکہ اعلیٰ ترین کارگردگی کا مظاہرہ کرنے والے پنجابی دو شعبہ جات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپائے، بلکہ اکثروبیشتر بدنامی کا باعث بھی بنے ہیں۔ ان میں ایک شعبہ ہے حکمرانی اور دوسرا عدل۔ ڈھائی ہزار برس کی معلوم تاریخ میں پنجاب کی سرزمین سے صرف ایک کامیاب مقامی (Indigenous) حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ نظر آتا ہے۔ مگر مورخین کہتے ہیں کہ اس کی کامیابی کے پیچھے اس کے ایک بااعتماد غیر پنجابی مشیر قاضی عمادالدین کا ہاتھ تھا، جس کی مشاورت کی وجہ سے وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکا۔ اس کے بعد سے آج تک پنجاب سے کوئی دانشمند، دوراندیش اور صاحب بصیرت حکمران پیدا نہیں ہوسکا، نہ سہی نیلسن منڈیلا یا پنڈت جواہر لعل نہرو کی طرح عالمی سطح کا ٹرینڈ سیٹر (Trend setter)، حسین شہید سہروردی اور بھٹو جیسا ہی کوئی رہنما اگر اس صوبے سے سامنے آجاتا، تو کم از کم یہ کہنے کو ہوجاتا کہ پنجاب نے بھی دیگر شعبہ جات کی طرح سیاست میں بھی کوئی بڑی شخصیت پیدا کی ہے۔


لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ راجہ رنجیت سنگھ کے بعد پنجاب سے کوئی وژنری اور قدآور رہنما پیدا نہیں ہوسکا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے ذریعے جو قیادت پنجاب سے ابھر کر سامنے آئی، وہ خود مسلم لیگ کے تیسرے اور چوتھے درجے سے تعلق رکھتی تھی۔ انگریز کے دور میں اس صوبے سے جو چند دیدہ ور مسلمان رہنما پیدا ہوئے وہ کانگریس میں چلے گئے۔ البتہ غیر مسلم (ہندو اور سکھ) پنجابی قیادت کا ویژن اور اہلیت برصغیر کے کسی بھی بڑے رہنما سے کم نہیں تھی، مگر وہ تقسیم کے ساتھ ہی بھارت چلی گئی۔ اس سے اندازہ ہوا کہ پنجابی مسلمان بھی برصغیر کی دیگر ریاستوں کے مسلمانوں کی طرح ذہنی، فکری اور سیاسی طور پر پسماندہ چلا آرہا ہے، لیکن ان ریاستوں سے سیاسی میدان میں گنتی چند بڑے مسلمان نام بہرحال سامنے آتے ہیں، مگر پنجاب اس میں بھی ناکام رہا ہے۔

اگر قیام پاکستان سے اب تک اقتدار میں آنے والی پنجابی قیادت پر نظرڈالیں، تو مزید مایوسی ہوتی ہے۔ ملک غلام محمد ہوں یا چوہدری محمد علی، ممتاز دولتانہ ہو یا نواب ممدوٹ، بنگالیوں کو ان کے جمہوری حق سے محروم کرنے اور جمہوری اداروں کو تباہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ اب جہاں تک تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے والے نواز شریف کا تعلق ہے، تو پچھلے ادوار میں اداروں کے درمیان تصادم کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ اب بھی ایک ماہ کے دوران ان کے طرز حکمرانی سے اندازہ ہورہا ہے کہ ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ حالیہ بجٹ میں حکومت نے ٹیکس نیٹ بڑھانے اور مراعات یافتہ طبقے کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کے بجائے GST کی شرح میں اضافہ کرکے عام شہری کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا۔ اسی طرحIMF سے قرض نہ لینے کے بلند بانگ دعوئوں کو فراموش کرکے ان سے بجلی کے نرخ بڑھانے کا وعدہ کرکے عوام کے لیے نئی مشکلات پیدا کردی ہیں۔ سابقہ حکومت نے اپنی تمامتر کمزوریوں کے باوجود گزشتہ پانچ برس کے دوران سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 130 فیصد اضافہ کیا، مگر مسلم لیگ (ن) نے تنخواہوں میں بمشکل 10 فیصد اضافہ کرکے 25 فیصد ان غریبوں کی جیبوں سے نکال لیا۔ ان کے اس انداز حکمرانی سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ اگلے پانچ برس کس طرح گزاریں گے۔

پنجاب پر دوسرا الزام یہ ہے کہ وہ قیام پاکستان کے بعد عدلیہ کا ایسا سربراہ پیش کرنے میں ناکام رہا، جو نظام عدل کے عالمی معیارات پر پورا اترتا ہو۔ اگر جسٹس منیر نظریہ ضرورت کے ذریعے آمریت کو جواز فراہم نہ کرتے تو منتخب پارلیمان کو توڑنے کا سلسلہ شروع نہ ہوپاتا۔ اگر جسٹس انوار الحق اور ان کے ساتھی جج منتخب وزیراعظم کو پھانسی کے بجائے جسٹس رحمت جعفری کی طرح عمر قید میں تبدیل کردیتے تو شاید عدلیہ بد نام نہ ہوتی۔جان کی امان پائوں توعرض ہے کہ آج صرف وہ مقدمات ترجیحی بنیادوں پر چل رہے ہیں، جن کا پس منظر سیاسی ہے۔ جب کہ برسوں سے التوا میں پڑے مقدمات پر توجہ نہیں دی جا رہی۔پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوچکی ہے، مگر NRO کا بھوت آج بھی اس کا پیچھا کررہا ہے ۔ مگر ائیر مارشل اصغر خان کا مقدمہ جس کا عدلیہ نے 16 برس بعد فیصلہ دیا تھا، اس پر عمل درآمدکے بارے میں خاموشی ہے۔

اس اظہاریے کا مقصد کسی بھی طور لسانی یا صوبائی عصبیت کو فروغ دینا نہیں ہے، بلکہ اہل پنجاب کے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر بیدار کرنا ہے کہ وہ اس پہلو پر غور کریں کہ ان کا صوبہ جو ہر شعبہ حیات میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کررہا ہے، حکمرانی اور نظام عدل میں اتنا کمزور کیوں ہے؟ اگر پنجاب کے دانشور اس راز کو پالیں تو ممکن ہے کہ جن خامیوں اور خرابیوں کی نشاندہی کی گئی ہے، وہ دور ہوجائیں اور اہل پنجاب اس شعبے میں بھی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے نظر آئیں۔ ویسے گزشتہ بیس برس کے دوران پنجاب میں جو اربن مڈل کلاس پیدا ہوئی ہے، اس سے تو قع کی جاسکتی ہے کہ شاید وہ اس کمزوری پر جلد قابو پالے۔
Load Next Story