سب چھوڑیئے سیاسی آلودگی کا کچھ کیجیے
چلیے پاکستان میں اس سے پہلے بھانت بھانت کی دوسری نو لاکھ نو ہزار نو سو نناونے آلودگیاں کیا کم تھیں کہ اب اوپر سے...
چلیے پاکستان میں اس سے پہلے بھانت بھانت کی دوسری نو لاکھ نو ہزار نو سو نناونے آلودگیاں کیا کم تھیں کہ اب اوپر سے ایک نئی نویلی آلودگی بھی تشریف لے آئی ہے، نام نامی اسم گرامی اس نووارد آلودگی کا ''صوتی آلودگی'' ہے جسے ہم سیدھی سادی زبان میں ''شور'' اور اس سے بھی زیاد سادہ الفاظ میں ''شورو غل'' کہتے ہیں۔ ہمارے افغانستان کے بھائی اس آلودگی کو ''غال مغال'' کہتے ہیں مثلاً چہ غال مغال است، کراغاں فعال مے کنی، ایں چہ طور غال مغال است وغیرہ وغیرہ، ہم تو مہمان نواز لوگ ہیں، اس لیے جی آیا نوں، پخیر راغلے، خوش آمدید، اہلاً و سہلاً و مرحبا، ویلکم ٹو ''آلودگی پور'' تشریف رکھیے کھانا کھا کے جانا ہاں، کیوں کہ پاکستان تو جدی پشتی خانہ انوری ہے
بر بلائے کہ ز آسماں آئد
خانہ انوری تلاش کند
دنیا بھر کے مہاجر ہوں، پناہ گزین ہوں، آئی ڈی پیز ہوں، وی آئی پیز ہوں، وی وی آئی پیز ہوں اسی خانہ انوری کا رخ کرتے ہیں اور پھر جانے کا نام نہیں لیتے کہ یہاں ہوا خوب آتی ہے
کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا ست
یہ تو ہو نہیں سکتا ہے کہ دنیا میں کوئی ارضی و سماوی یا آسمانی یا امریکی آفت آئے اور پاکستان کا رخ نہ کرے کیوں کہ ٹور ازم ڈیپارٹمنٹ سیاحوں کے لیے کچھ کرے یا نہ کرے بلاؤں اور آفتوں کو نہایت ہی خوش نما اور دل کش پیکیج دیتا ہے، ان میں ایک پیکیج فیملی پیکیج بھی ہے یعنی ایک ''بلا'' اپنے ساتھ اپنے بچے بغل بچے، مغل بچے اور لے پالک بھی لا سکتی ہے مثلاً سیلاب اور زلزلے کے ساتھ این جی اوز اور ''افسراب'' بھی آ سکتے ہیں زلزلے کے ولولے، کلبلے اور جلبلے بھی آئیں۔ ہر دوا کے ساتھ دو چار بیماریاں اور ہر قرضے کے ساتھ آٹھ دس شرائط بھی الاؤ کرتے ہیں۔ گویا بائی ون گٹ دو چار فری، چنانچہ آلودگی کے ساتھ یہ شور شرابہ آلودگی بھی تشریف لے آئی ہے
کس منہ سے شکر کیجیے اس لطف خاص کا
پرشس ہے اور پائے سخن درمیاں نہیں
ہم نے جب یہ خبر اخبار میں پڑھی بلکہ پڑھ رہے تھے تو اس وقت گاؤں والی بس میں بیٹھے تھے اور بغل میں وہ ناہنجار نابکار آفت کا پُتلا چشم گل چشم بھی بیٹھا تھا چونکہ چشم گل چشم عرف قہر خداوندی دنیا بھر کی خرافات فضولیات اور واہیات کا ایک مستند انسائیکلوپیڈیا ہے۔ اس لیے ہم نے اس سے اس صوتی آلودگی کے بارے میں پوچھنا ضروری سمجھا۔ جواب میں قہر خداوندی کا منہ کھلا لیکن جو آواز نکلی وہ صور اسرافیل سے مشابہہ لگی۔ یہ انتہائی دل خراش، سمع خراش اور دماغ خراش آواز ہم نے اس سے پہلے ناہنجار کے منہ سے نکلتے کبھی نہیں سنی تھی۔ پوچھا، بھئی یہ کیا تو اچانک آواز کے ساتھ اسی جیسی اور بھی آوازیں لہرانے لگیں اور پھر ان میں ایک ایسے نغمے کی کیفیت پیدا ہو گئی جس کی کمپوزنگ شاید ابلیس نے بہ نفس نفیس کی تھی۔ اور کتابوں میں لکھا ہے کہ ایسی آواز زمانہ آخر میں ظہور کرنے والے دجال کے ہربن مو سے نکلے گی۔
کبھی سارے کبھی گاما کبھی پادھا کبھی نی سا
مسالہ جان کر اس نے صدا ہر راگ کو پیسا
یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ وہ آوازیں دراصل ناہنجار کے منہ سے نہیں بلکہ اردگرد اڈے میں کھڑی بسوں کے ہارنوں سے نکل رہی ہیں، جس میں ناہنجار کی آواز کہیں غائب ہو گئی تھی۔ ان ہارنوں کو پریشر ہارن کہا جاتا ہے۔ ناہنجار کے ہونٹ بدستور ہل رہے تھے لیکن آواز پریشر ہارنوں کی ہم سن رہے تھے۔ کافی دیر بعد لپ ریڈنگ کے علم کو کام میں لا کر پتہ چلا کہ ناہنجار اسی شور کو صوتی آلودگی کہہ رہا ہے۔ اڈے سے نکل آئے تو جان میں جان آئی کیوں کہ اب صرف اپنی بس کا ڈرائیور سولو سانگ بجا رہا تھا۔ ہمارے کانوں اور چشم گل کے ہونٹوں کا رابطہ قائم ہوا تو وہ لاؤڈ اسپیکروں بازاری ریکارڈنگ اور نہ جانے کس کس چیز کو صوتی یا صدائی آلودگی میں شمار کر رہا تھا۔ جسے پاکستان والے شور و غل، افغانستان والے غال مغال اور عالمی ماہرین صوتی آلودگی کہتے ہیں یہی وہ موقع تھا جب ہمارا دل لرز لرز اٹھا کیوں کہ ہم نے سنا تھا کہ عام آلودگی کی وجہ سے آسمان میں شگاف پڑ گیا ہے اور اگر اب یہ صوتی آلودگی بھی اتنی ہی بڑھ جائے تو کہیں آسمان کے کانوں کے وہ پردے نہ پھاڑ ڈالے جن کے ذریعے ہم بے چارے درد کے مارے اپنی فریاد اوپر پہنچاتے ہیں۔ ایسا ہوا تو بہت ہی برا ہو جائے گا کیوں کہ ہم پاکستانی لوگ اب تو لیڈروں کی آلودگی سے تنگ آ کر خود کو اس بات پر تسلی دے لیتے تھے کہ چلو یہاں نہ سہی آسمان تک تو ہماری شنوائی ضرور ہو گی لیکن اب تو شاید
وہ نالہ دل میں خس کے برابر جگہ نہ پائے
جس نالے سے شگاف پڑے آفتاب میں
ویسے اس صوتی آلودگی پر ذہن ایک اور آلودگی کی طرف بھی گیا جو کسی اور ملک میں ہو نہ ہو پاکستان میں بے حد و حساب ہے، اسے آپ سیاسی آلودگی کہہ سکتے ہیں، اس کے ساتھ ہی ایک امید بھی پیدا ہو گئی، عالمی سطح پران آلودگیوں پر کافی کام ہو رہا ہے اور اہل تدبر ایسی تدابیر کر رہے ہیں کہ ہر طرح کی آلودگی کم ہو جائے چنانچہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ کسی دن عالمی سطح پر پاکستان کے عوام کی حالت زار کا احساس بھی ہو جائے، جو ان بے چاروں کی سیاسی یا لیڈری آلودگی کی وجہ سے ہو رہی ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہمارا مسئلہ نہ دھوئیں والی آلودگی ہے اور نہ یہ شور والی آلودگی بلکہ ہماری سانسیں اگر رک رہی ہیں تو اس سیاسی آلودگی کی بہتات سے رک رہی ہیں۔ کیونکہ ہر سال ایک نئی ٹیم آتی ہے اور اے لاٹ آف آلودگی پھیلا کر چلی جاتی ہے اور اپنے پیچھے عوام کے دلوں میں یہ بڑے بڑے شگاف چھوڑ جاتی ہے اور یہ باقی ہر قسم کی آلودگی اسی ''مدر آلودگی'' سے جنم لیتی ہے۔ چنانچہ باقی سب چھوڑیئے آلودگیوں کی جڑ تک جایئے۔