موسیٰ کا عصا
محسن طارق کی فلم ’’تہذیب‘‘ کا ایک گانا تھا کہ ’’لگا ہے مصر کا بازار دیکھو، نئی تہذیب کے شاہکار دیکھو‘‘۔...
محسن طارق کی فلم ''تہذیب'' کا ایک گانا تھا کہ ''لگا ہے مصر کا بازار دیکھو، نئی تہذیب کے شاہکار دیکھو''۔ ابھی گانا ذرا سا ہٹ ہوا تھا کہ مصر کے سفارت خانے نے اعتراض کیا۔ دوست ملک کا لحاظ کرتے ہوئے گانے میں مصر کے بجائے حسن کا لفظ لگایا گیا۔ مصر آج کا ہو یا صدیوں پرانا، ہمارا اس سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ اب جب صدر مرسی کی حکومت فوج نے ختم کردی تو ہمیں محسوس ہوا کہ ہمارا اس برادر ملک سے تعلق کچھ زیادہ ہی گہرا ہے کہ ہم بھی اپنی تاریخ میں کئی مرتبہ ایسے المیوں سے دوچار ہوچکے ہیں۔
مصر کا فرعون اور اﷲ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ کو اس کے دربار میں بھیجنا، جادوگروں کے نقلی سانپوں کو پیغمبر کی کرامت سے شکست، ہمارے بچے بچے کو یاد ہے۔ فرعون کا سمندر میں غرق ہوجانا اور پاکستانیوں کا Ten Commandments یعنی موسوی شریعت کے دس احکامات نامی فلم کا دیکھنا۔ قدیم مصر اور اس کی ہزاروں سال پرانی تہذیب واقعی پڑھنے اور دیکھنے کی چیز ہے۔ قرآن میں حضرت موسیٰؑ کا نام سب سے زیادہ مرتبہ آیا۔ اس کے علاوہ حضرت یوسفؑ کے بھائیوں کا ان کو کنوئیں میں ڈال دینا اور پھر مصر کے بازار میں ان کی فروخت۔ عزیز مصر کے ہاں ملازمت اور پھر اس کی بیوی کا پیغمبر پر الزام۔ وقت کے نبی کی صداقت بھی ہمیں مصر سے قریب کرتی ہے۔ حسن یوسف دیکھ کر مصر کی خواتین کا اپنے ہاتھوں کو چھری سے کاٹ دینا کہ وہ پھل و سبزی کاٹتیں۔ فرعون مصر کی لاش کا کچھ عرصہ قبل برآمد ہونا اور قرآن کی پیش گوئی کا سچ ثابت ہونا کہ ہم تمہاری لاش کو دنیا کے لیے عبرت بنائیں گے۔ اپنے رب ہونے کا دعویٰ کرنے والا آج جس طرح بے چارگی کی تصویر بنا ایک عجائب گھر میں پڑا ہے، رب کائنات کی یہ سچائی ہمیں مصر کی سرزمین ہی سے ملتی ہے۔ گویا مصر ہم مسلمانوں اور پاکستانیوں کی رگ رگ میں سمایا ہوا ہے۔ اگر ہم اس سے دور ہونا چاہیں تو بھی دور نہیں ہوسکتے۔
پاکستان کے ایوب خان اور مصر کے ناصر کی دوستی ساٹھ کے عشرے کی کہانی ہے۔ دو طاقتور اور مقبول فوجی صدور۔ مصر اس دور میں عرب دنیا کا لیڈر تھا۔ 67 کی عرب اسرائیل جنگ اور پاکستانیوں کا ریڈیو کے گرد جمع ہوکر خبریں سننا۔ عربوں کی شکست اور ناصر کے استعفے کی نامنظوری۔ پھر انور سادات کی صدارت اور 73 میں عربوں کی اسرائیل پر فتح۔ کیمپ ڈیوڈ میں سمجھوتے نے مصر کو عرب دنیا سے دور کردیا۔ شاہ فیصل کے دور سے عرب لیگ کی قیادت سعودی عرب کے ہاتھ آگئی تھی۔ پھر تیس سال تک حسنی مبارک کی حکومت اور مصری سیاست کی خاموشی۔ اخوان المسلمون کی مقبولیت اور پھر التحریر اسکوائر۔ یہ ہے مصر کی پچاس سالہ تاریخ۔ وہاں نصف صدی میں ناصر کے بعد سادات اور مبارک آئے جب کہ ہمارے ملک میں یحییٰ خان، بھٹو، ضیاء الحق، بے نظیر، نواز شریف، مشرف اور زرداری۔ ہمارے ملک میں ایوب اور بھٹو کے خلاف زوردار تحریکیں اور ضیا الحق کے خلاف ہلکی پھلکی تحریک چلی۔ مصری خاموش رہے، برف کی مانند۔ جب نئی صدی میں سوشل میڈیا آیا اور تیونس، عراق اور لیبیا میں عوام اٹھ کھڑے ہوئے تو ان اٹھنے والوں میں تاریخ اہل مصر کو بھی یاد کرے گی کہ انھوں نے کس طرح حسنی مبارک کی تیس سالہ آمریت کو شکست دی۔
انتخابات اگر سچے ہوں تو سب کو پتہ چل جاتا ہے کہ کتنے عوام کس کے ساتھ ہیں۔ جب مصر میں انتخابات ہوئے تو اخوان المسلمون سب سے مقبول اور طاقتور پارٹی بن کر سامنے آئی۔ ایک طرف نیا نیا معاملہ تھا، دوسری طرف مصری فوج، تیسری جانب امریکا تھا تو چوتھی طرف پچاس سال سے مفادات اٹھانے والے طاقتور عناصر۔ ایسے میں اخوان نے ''برادر ہڈ'' کے نام سے انتخابی تنظیم بناکر سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی۔ ملک تین طبقوں میں بٹا ہوا تھا۔ آدھا اخوان کے ساتھ تو چوتھائی سیکولر طبقہ اور اسی قدر سلفی جو نور پارٹی کے نام سے پچیس فیصد نشستیں لے چکے تھے۔ ایسے میں متوازن آئین بنانا بہت مشکل تھا۔ ایک طرف مذہب کو سختی سے نافذ کرنے کا مطالبہ تھا تو دوسری طرف مکمل آزادی کا تقاضا۔ صدر مرسی نصف ووٹ لے سکے تو اسی قدر ان کے مخالف کو بھی ووٹ ملے گویا آدھے ان کے حامی تھے تو آدھے لوگ ان کے حامی نہ تھے۔ ترکی اور مصر جیسی جمہوریتوں کی مجبوری ہے کہ ان ملکوں میں اسلامی حکومتوں کو انقلاب نہیں کہا جاسکتا۔ مخالفین کو بے دردی سے کچلا نہیں جاتا اور نہ ردانقلاب کو روکا جاسکتا ہے۔ ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آنے والے کو رائے کا احترام کرنا ہوتا ہے۔ کیا دوسری جانب رائے کا احترام کیا گیا۔
امریکا میں الگور کے پاپولر ووٹ بش سے زیادہ تھے۔ ایک دو ریاستوں میں دھاندلی کی شکایت بھی تھی۔ اس پر معاملہ سپریم کورٹ میں گیا تو فیصلہ 5:4 کی اکثریت سے بش کے حق میں آیا۔ اتنی کمزوریوں کے باوجود بش کو طاقتور صدر کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ اس سے کہیں زیادہ بہتر انتخابی صورت حال کے باوجود صدر مرسی کو دل سے تسلیم نہ کیا گیا۔ شاید اس لیے کہ امریکی جمہوریت تیسری صدی میں داخل ہوگئی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اچھی روایت صرف اپنے ملک کے لیے ہی پسند کی جاتی ہیں۔
مصر اب جمہوریت سے گیا۔ روئے زمین پر آج جتنے انسان ہیں ان کی زندگی میں اب مصر میں جمہوریت نہیں آسکتی۔ اول تو دس بیس سال تک فوج اقتدار نہیں چھوڑے گی۔ اگر انتخابات ہوگئے تو اخوان کے خلاف پھر اس طرح مظاہرے ہوں گے، اگر وہ جیت گئے، اگر دوسرا فریق جمہوری انتخاب جیت گیا تو اخوان ایک بار پھر التحریر اسکوائر کی تاریخ دہرائے گی۔ آج مرسی کی کرسی جانے پر جشن منانے والے آیندہ چند ماہ میں جمہوریت کی رخصتی پر ماتم کریں گے۔ اب مصر کا جمہوری بازار لپیٹ دیا گیا ہے، اب نہ سیاست کی بات ہوگی اور نہ جمہوریت کا ذکر، نہ ووٹ کا ذکر ہوگا اور نہ بیلٹ باکس کا نظارہ کہ اب مصر کا جمہوری بازار بند ہوچکا ہے۔ اب فرعونیت چلے گی کہ مرسی جاچکا ہے۔ اب مصر کو انتظار ہے موسیٰؑ کی لاٹھی کا، جو برسے فرعونی ذہنوں پر۔ یہ کالم پڑھنے والوں کی زندگی میں تو مشکل ہے کہ یہ انسانی بس میں نہیں لیکن رب چاہے تو کسی پر بھی، چاہے وہ کتنا بڑا فرعون ہی کیوں نہ ہو، برس سکتا ہے موسیٰ کا عصا۔