’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا‘‘ پیشہ معلمی کا مطلب صرف نوکری پیسہ اور ترقی ہی کیوں
سال میں 186چھٹیاں،6گھنٹے ڈیوٹی کے ساتھ اچھی تنخواہ اور مراعات، پھر بھی احتجاج
معلّمی وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام میں نہیں بلکہ ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے بھی استاد کی قدر کی وہ دنیا بھر میں سرفراز ہوئی۔ امریکہ، برطانیہ، جاپان، فرانس، ملائیشیا، اٹلی سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں جو عزت اور مرتبہ استاد کو حاصل ہے، وہ ان ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کو بھی نہیں دیا جاتا کیوں کہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ استاد مینار نور ہے، جو اندھیرے میں ہمیں راہ دکھلاتا ہے۔ ایک سیڑھی ہے، جو ہمیں بلندی پر پہنچا دیتی ہے۔ ایک انمول تحفہ ہے، جس کے بغیر انسان ادھورا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضوؐر کو بحیثیت معلم بیان کیا اور خود نبی کریمؐ نے بھی ارشاد فرمایا کہ ''مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے'' امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود ان کے دل میں کوئی حسرت ہے، تو آپؓ نے فرمایا کہ ''کاش میں ایک معلم ہوتا''۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ''جس شخص نے مجھے ایک لفظ سکھایا میں اس کا غلام ہوں اب اس کی مرضی مجھے بیچے، آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے''۔ استاد کی عظمت و اہمیت اور معاشرے میں اس کے کردار پر علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کہتے ہیں کہ '' استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں، کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپرد ہے''۔
معاشرتی زندگی کے جن شعبوں پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے، ان میں حصول علم نہایت نمایاں ہے۔ کیوں کہ تعلیم انسان کی زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے اور اُسے معاشرے کا ایک قابل قدر عنصر بنانے میں مدد دیتی ہے، اور علم کی راہ پر منزلوں کا حصول ''استاد'' کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ یہ استاد ہی ہے جس نے ایک فرد کی تربیت کی اور اس کی ذہنی نشوونما کا فریضہ سرانجام دینا ہے اور اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ استاد کو معاشرہ میں اس کا جائز مقام دیا جائے۔ معاشرتی خدمات کے عوض معلم کا حق بنتا ہے کہ اسے سوسائٹی میں نہ صرف اعلیٰ مقام دیا جائے بلکہ اس کے ادب و احترام کو بھی ملحوظ خاطر رکھاجائے۔ لیکن۔۔۔! یہاں قابل غور امر یہ ہے کہ ہر مذہب اور معاشرے میں استاد کو ملنے والی اہمیت کیا اس بات کی متقاضی نہیں کہ معلم خود کو رول ماڈل کے طور پر پیش کرے؟ امام ابو حنیفہؒ سے ان کے عزیز شاگرد امام ابو یوسف نے پوچھا استاد کیسا ہوتا ہے؟ فرمایا ''استاد جب بچوں کو پڑھا رہا ہو تو غور سے دیکھو، اگر ایسے پڑھا رہا ہو جیسے اپنے بچوں کو پڑھاتا ہے تو استاد ہے اگر لوگوں کے بچے سمجھ کر پڑھا رہا ہے تو استاد نہیں ہے''۔
صرف اس فرمان کو سامنے رکھ کر اگر آج کے اساتذہ کرام کی اکثریت کو پرکھ لیا جائے تو ہمیں مادیت پرستی کا غلبہ واضح نظر آئے گا۔ بلاشبہ دور جدید میں مادیت پرستی ہر معاشرے اور شعبہ میں گھر کر چکی ہے، لیکن کچھ شعبہ اور ان کے ذمہ داران کے لئے مادہ پرستی جیسی اصطلاح کبھی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ استاد معاشرہ کا وہ حصہ ہے جہاں اخلاقی اقدار کو بام عروج نصیب ہوتا ہے۔ مگر افسوس آج کا استاد (استثنیٰ کے ساتھ) مادیت میں اس قدر کھو چکا ہے کہ اس کے نزدیک پیشہ معلمی کا مطلب صرف نوکری، سکیل، ترقی، ٹیویشن، من پسند جگہ پر تعیناتی اور پیسہ ہی رہ گیا ہے۔ تعلیمی اداروں خاص طور پر سرکاری اداروں میں طلبہ کی تعلیم و تربیت اساتذہ کی ترجیح ہی نہیں رہی۔ صرف ڈنگ ٹپائو پالیسی اپنائی جاتی ہے، اساتذہ کی تمام تر توجہ ٹیوشن یا اکیڈمیز کی جانب ہوتی ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ بچوں کو ٹیویشن لینے پر مجبور کیا جاتا ہے یہ سوچے بغیر کہ بہت سارے والدین اپنے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے کی سکت ہی نہیں رکھتے، اگر وہ اتنی استعداد رکھتے تو عام تاثر کے مطابق اپنے بچے کو سرکاری ادارے میں تھوڑے ہی نہ پڑھاتے۔ آج استاد طالب علم کو اپنی روحانی اولاد نہیں بلکہ صرف ایک بزنس پوائنٹ سمجھتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں تعلیمی اداروں کی مجموعی تعداد تقریباً سوا 2لاکھ ہے، ان اداروں میں سرکاری اساتذہ کی تعداد ساڑھے8 لاکھ اور صرف پنجاب میں یہ تعداد پونے 4لاکھ ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ملک کی دوسری بڑی فورس کا نام استاد ہے۔ لیکن ہمیں شکوہ یہ ہے کہ اتنی بڑی فورس ہونے کے باوجود ملک میں شرح خواندگی میں اضافہ اور نتیجتاً معاشی و معاشرتی ترقی ہوتی ہوئی نظر کیوں نہیں آرہی؟ ملک میں آج بھی تقریباً 54 فیصد شرح خواندگی ہے۔آج کا طالب علم استاد کی اس طرح عزت کیوں نہیں کرتا جس طرح ڈاکٹر محمد اقبالؒ جیسے عظیم لوگ کیا کرتے تھے کہ استاد کو دیکھا تو ننگے پائوں ہی پیچھے دوڑ پڑے اور ہاتھ باندھ کر اس وقت تک پیچھے چلتے رہے جب تک استاد اپنے گھر میں داخل نہیں ہوگیا۔ اس کا عام فہم اور آسان جواب ہے مادیت پرستی۔۔۔ جی ہاں یہ مادیت پرستی ہی ہے جس نے آج اساتذہ کی اکثریت کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔
مختصر تعلیمی اوقات، بھاری بھرکم تنخواہوں سمیت دیگر مراعات اور ایک سال کے 365 روز میں سے 186چھٹیاں (موسم گرما75، ہفتہ وار48، امتحانات 30، گزٹیڈ 13، استحقاقیہ 12، موسم سرما 8) اور صرف 6 گھنٹے ڈیوٹی اوقات کے باوجود اساتذہ آئے روز سڑکوں پر احتجاجی ریلیاں نکالتے نظر آتے ہیں۔ پرانے دور کے صرف میٹرک پاس اساتذہ آج 30 سے 50 ہزار کے درمیان تنخواہ حکومت سے وصول کر رہے ہیں۔ پھر آٹے میں نمک کے برابر ہی کچھ اساتذہ ہوں گے جو کوئی سائیڈ بزنس نہ کر رہے ہوں۔ ارے بھئی۔۔۔ٹیوشن اکیڈمی بھی تو بزنس ہی ہے ناں۔ اس کے برعکس اعلیٰ تعلیم یافتہ ماسٹرز ڈگری ہولڈر طلباء و طالبات کی اکثریت حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں 6 سے9 ہزار روپے تنخواہ پر پڑھا رہے ہیں اور سو فیصد کارکردگی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ کیا ان پرائیویٹ اساتذہ کے بچے نہیں، ان کے لئے مہنگائی نہیں؟۔ سرکاری سکول میں انفراسٹرکچر یعنی چاردیوار، پانی اور ٹائلٹ جیسی سہولیات ہمیشہ ثانوی حیثیت رکھتی ہیں، اولین ترجیح قابل استاد ہی ہوتا ہے جو طلبہ کو اپنے بچے سمجھ کر پڑھائے اور ان کا دکھ درد بھی محسوس کرے۔
ستم ظریفی دیکھیں کہ آج ایک استاد سرکاری تعلیمی ادارے میں خود تو پڑھا رہا ہے لیکن اس کے بچے کسی پرائیویٹ ادارے میں ہی پڑھ رہے ہیں۔ دوسری طرف یونیورسٹی سطح کے اساتذہ کا یہ عالم ہے کہ تنخواہ کا پیمانہ 50 ہزار سے شروع ہو کر لاکھوں روپے تک پہنچ جاتا ہے لیکن پیسے کی محبت سے دل نہیں بھرتا۔ لاکھوں روپے کے سکالر شپس، گھر، میڈیکل سمیت دیگر الائونسز حاصل کرنے کے عوض ایک ہفتہ میں لیکچرر کو صرف 9 گھنٹے اور پروفیسر کو 6گھنٹے بچوں کو لیکچر دینا ہے۔ پھر اسی یونیورسٹی میں شام کی کلاسز میں یہی اساتذہ دوگنا زائد معاوضہ پر تعلیم دیتے ہیں، اس کے علاوہ پیپر سیٹنگ، چیکنگ، امتحانات لینا اور موبائل انسپکشن سے بھی ہزاروں روپے کی آمدن ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اتنی مراعات کے باوجود ہمارے یونیورسٹی اساتذہ ( ماسوائے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام) بین الاقوامی سطح پر تحقیق اور مقامی سطح پر تعلیم کے فروغ میں کوئی قابل ذکر کارنامہ کیوں سرانجام نہیں دے رہے؟ پروفیسرز کی تحقیقات اور مقالہ جات سے حکومتیں اپنی معاشی و سماجی پالیسیاں مرتب کرتی ہیں، ہمارے بھی ان محترم اساتذہ کو اس ضمن میں دلجمعی سے کام کرنا چاہیے کیوں کہ یہ دنیا کے کسی بھی خطے میں پہنچ جائیں اور کتنی ہی ترقی کر لیں، ملک کا قرض بالآخر ان کو چکانا ہی ہوگا۔
انفراسٹرکچر سے زیادہ قابل استاد کی سکول میں حاضری ضروری ہے: طلبہ و الدین
سال کے 365 روز میں 2 سو کے قریب سرکاری چھٹیوں کے باوجود اساتذہ کا کسی نہ کسی بہانے سکول سے غائب رہنے پر طلبہ اور ان کے والدین کیا رائے رکھتے ہیں؟ یہ جاننے کے لئے ہم نے سب سے پہلے لاہور کے ایک معروف سرکاری تعلیمی ادارے کے طالب علم محمد بلال سے بات کی تو اس کا کہنا تھا کہ ''میں نہم جماعت کا طالب علم ہوں، اتنا تو مجھے معلوم ہے کہ میرے تعلیمی کیرئیر کی بنیاد میٹرک کا رزلٹ ہے، اس لئے مجھے زیادہ محنت کی ضرورت ہے لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ ،اس معاملہ میں، میں جتنا فکر مند ہوں میرے اساتذہ اتنے ہی بے پرواہ بنے بیٹھے ہیں۔ اوّل تو آئے روز احتجاج اور ہڑتالوں کی وجہ سے اساتذہ سکول کے بجائے اسمبلیوں کے سامنے سڑکوں پر موجود ہوتے ہیں اور اگر وہ سکول آ بھی جائیں تو انہیں کلاس چھوڑ کر لان میں کرسیوں پر براجمان گفتگو کرتے دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ہے۔ کلاس میں پہنچ کر بھی کبھی استاد صاحب اور کبھی اپنے مستقبل کو تباہ کرنے پر تلے طلبہ کا پڑھنے کا موڈ نہیں بنتا، جو ہم جیسے غریب لوگوں کے بچوں پر ظلم ہے کیوں کہ ہم نے تو زندگی میں جو کرنا ہے وہ اسی پڑھائی کی بنیاد پر ہوگا۔
دسویں کلاس کی طالبہ عائشہ ارشاد کے مطابق خواتین اساتذہ تو مرد ٹیچرز سے بھی زیادہ چھٹیاں کرتی ہیں کیوں کہ انہیں میٹرنٹی رخصت بھی ملنی ہوتی ہے، جس کے باعث ہمارا کورس ہی مکمل نہیں ہو پاتا اور جب وہ سکول آتی ہیں تو انہیں اپنے طلبہ اور کلاس سے زیادہ ساتھ آئے بچے کا فکر دامن گیر رہتا ہے۔ متعلقہ ٹیچر کے نہ آنے پر ہیڈمسٹریس ایک بچی کو مانیٹر بنا کر تمام بچیوں کو صرف خاموش رکھنے کی ذمہ داری تفویض کر دیتی ہیں۔ فرسٹ ایئرکے سٹوڈنٹ محمد ابوبکر نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ تعلیم کے فروغ کے لئے طلبہ سے پہلے اساتذہ کی تربیت پر زور دیا جائے۔ طلبہ کو اچھی عمارتیں اور سہولیات سے زیادہ قابل اساتذہ کی ضرورت ہے۔چھٹی کلاس کی میرب سرور کے والد محمد سرور کا کہنا تھا کہ استعداد نہ ہونے کے باعث اپنی بیٹی کو پرائیویٹ کے بجائے سرکاری سکول بھجوانا پڑتا ہے لیکن وہ ہر روز جب اپنی کسی نہ کسی ٹیچر کی لاپرواہی اور سکول سے غیرحاضری کا آکر بتاتی ہے تو نہایت دکھ ہوتا ہے۔ سرکاری اساتذہ کا طلبہ سے نامناسب رویہ اور تعلیم و تربیت پر زور نہ دینے کے باعث ہم جیسوں کے ذہین بچے بھی زندگی میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔
آٹھویں کلاس کے طالبعلم محمد جواد کے والد رائو عبدالمنان کا کہنا تھا کہ میرے 5 بچے ہیں لیکن میں نے ان میں سے کسی بھی بچے کو سرکاری تعلیمی ادارے میں تعلیم نہیں دلوائی، جس کی وجہ یہ نہیںکہ میں کوئی لینڈ لارڈ ہوں بلکہ اپنا پیٹ کاٹ کر انہیں پرائیویٹ ادارے میں تعلیم دلواتا ہوں کیوں کہ میں سرکاری سکول کے استاد کی قابلیت سے اچھی طرح آگاہ ہوں۔ سرکاری اداروں میں تعمیرات، ڈیسک، ٹھنڈا پانی اور ٹائلٹ سمیت دیگر سہولیات ہمیشہ ہر طالبعلم اور والدین کی دوسری ترجیح ہوتی ہے، پہلی ترجیح قابل اور اپنے پیشے سے مخلص اساتذہ ہیں۔ ساتویں کلاس کے طالبعلم حسن یٰسین کے والد محمد ندیم نے بتایا کہ یقین مانیں کہ اساتذہ سکول پڑھانے کے بجائے بچوں کو شام کے وقت ان سے ٹیوشن پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ حالات کی سختی کے باعث سرکاری اداروں کا تعلیمی معیار جاننے کے باوجود بیٹے کو یہاں داخل کروایا لیکن اسی سکول کے استاد سے ٹیوشن پڑھنے پر بچے کو مجبور کرنے سے مزید تنگدستی کا شکار ہو رہا ہوں۔
حکومت مہنگائی نہ بڑھنے کی یقین دہائی کرائے، تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ نہیں کریں گے: ٹیچرزیونین رہنما سجاد اکبر کاظمی، رانا لیاقت
پنجاب ٹیچرز یونین کے مرکزی صدر سید سجاد اکبر کاظمی اور مرکزی جنرل سیکرٹری رانا لیاقت نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہمیں اس چیز کی یقین دہانی کروا سکتی ہے کہ وہ ہر ماہ مہنگائی میں اضافہ نہیں کرے گی اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تو پھر جب مہنگائی بڑھتی ہے تو ہم تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کیوں نہ کریں؟ ایک استاد جس کی ابتدائی تنخواہ15ہزار ہے اس کی ڈیوٹی دور دراز کے علاقوں میں لگائی جاتی ہے تو وہاں جا کرکم از کم 8 ہزار روپے تک تو وہ اپنے اور بچوں کے لئے گھرکرایہ پر لے گا، اس کے بعد 7ہزار روپے میں کیسے غذا و صحت کی ضروریات پوری اور بلوں کی ادائیگی کی جائے۔ 70 فیصد اساتذہ کسی قسم کا کوئی سائیڈ بزنس نہیں کرتے کیوں کہ بزنس کے لئے پیسہ چاہیے جو ان کے پاس نہیں۔ رہنمائوں کا کہنا تھا کہ استاد کی زیادہ چھٹیوں کی وجہ سے طلبہ کا تعلیمی نقصان ہونے کا تاثر درست نہیں۔ موسم گرما کی تعطیلات صرف طلبہ کو ہوتی ہیں ہمیں تو مختلف ٹریننگ پروگرامز یا کسی نہ کسی حکومتی سروے میں مشغول کر دیا جاتا ہے۔
طلبہ کے تعلیمی نقصان کا ذمہ دار استاد نہیں بلکہ حکومت ہے جو استاد کو اپنا فرض ادا کرنے کے بجائے کبھی یوپی ای پروگرام، خسرہ، پولیومہم، الیکشن ڈیوٹی تو کبھی خانہ شماری کی ڈیوٹی تفویض کردیتی ہے۔ حکومت اگر شرح خواندگی میں سو فیصد اضافہ چاہتی ہے تو اسے غیرتدریسی ڈیوٹیوں سے استاد کی جان چھڑانی ہوگی تاکہ وہ دلجمعی سے بچوں کو پڑھا سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صرف پنجاب کے متعدد اضلاع ایسے ہیں جہاں بچوں کو تاحال کتب فراہم نہیں کی جا سکیں، کتابیں ہوں گی تو پڑھائی ہوگی اور کتب استاد نے نہیں بلکہ حکومت نے فراہم کرنی ہیں۔ اس کے علاوہ اساتذہ کی کمی بھی بہت بڑا مسئلہ ہے جسے حکومت ترجیح دینے کو تیار نہیں۔ صرف ایک صوبے میں اساتذہ کی 40 ہزار آسامیاں خالی ہیں۔ بعض سکولوں میں سینکڑوں طلبہ کے لئے صرف2 استاد ہیں اور اگر ان میں سے بھی کوئی بیمار یا کسی اور وجہ سے سکول نہ آسکے تو پھر بچوں کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔
پرائمری سکول ٹیچرز سے یونیورسٹی پروفیسرزکی تنخواہوں کے اعداد و شمار
ایک سرکاری یونیورسٹی کے ٹیچنگ سٹاف کی شروعات لیکچرر سے ہوتی ہے، ماسٹرز ڈگری کا حامل یہ لیکچرر بی ایس 18میں تعینات اور ابتدائی طور پر 48 ہزار 202 روپے تنخواہ وصول کرتا ہے۔ بی ایس 19کے اسسٹنٹ پروفیسر (ایم فل کے ساتھ) کی ابتدائی تنخواہ 74 ہزار، بی ایس 20 کے ایسوسی ایٹ پروفیسر (پی ایچ ڈی کے ساتھ) کی ابتدائی تنخواہ 88 ہزار، بی ایس 21کے فل پروفیسر کی ابتدائی تنخواہ کم از کم 94 ہزار روپے تک ہوتی ہے، بعدازاں بڑھتے بڑھاتے ان اساتذہ کی تنخواہ لاکھوں روپے تک پہنچ جاتی ہے۔ سکول سطح پر تدریسی سٹاف کا آغاز ایلیمنٹری سکول ایجوکیٹر (پرانا نام، پرائمری ٹیچر سکول) سے ہوتا ہے، گریجوایشن کے ساتھ پی ٹی سی کورس کے حامل اس عہدے کے استاد کو سکیل 9 میں تعینات کرکے ابتدائی طور پر 15ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے۔
گریجوایشن کے ساتھ سی ٹی (سرٹیفکیٹ ان ٹیچنگ) کورس کرنے والے سینئر ایلیمنٹری سکول ایجوکیٹر (پرانا نام، ایلیمنٹری سکول ٹیچر) کو سکیل 14میں تعیناتی کے بعد ابتدائی تنخواہ 18ہزار روپے ملتی ہے۔ سکینڈری سکول ایجوکیٹر (پرانا نام، سکینڈری سکول ٹیچر) بننے کے لئے گریجوایشن کے ساتھ بی ایڈ کرنا لازمی ہے، اس عہدے کے استاد کو سکیل 16اور ابتدائی تنخواہ 20 ہزار روپے دی جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ترقی کرنے اور ہر سال انکریمنٹ لگنے سے یہ اساتذہ 70سے80 ہزار روپے تک پہنچ جاتے ہیں۔ ہر سطح کے استاد کو سروس کے دوران دیگر مراعات کے علاوہ ریٹائرمنٹ پر یکمشت لاکھوں روپے ملنے کے علاوہ تاحیات ماہانہ ہزاروں روپے پنشن بھی ملتی رہتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے بھی استاد کی قدر کی وہ دنیا بھر میں سرفراز ہوئی۔ امریکہ، برطانیہ، جاپان، فرانس، ملائیشیا، اٹلی سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں جو عزت اور مرتبہ استاد کو حاصل ہے، وہ ان ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کو بھی نہیں دیا جاتا کیوں کہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ استاد مینار نور ہے، جو اندھیرے میں ہمیں راہ دکھلاتا ہے۔ ایک سیڑھی ہے، جو ہمیں بلندی پر پہنچا دیتی ہے۔ ایک انمول تحفہ ہے، جس کے بغیر انسان ادھورا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضوؐر کو بحیثیت معلم بیان کیا اور خود نبی کریمؐ نے بھی ارشاد فرمایا کہ ''مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے'' امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود ان کے دل میں کوئی حسرت ہے، تو آپؓ نے فرمایا کہ ''کاش میں ایک معلم ہوتا''۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ''جس شخص نے مجھے ایک لفظ سکھایا میں اس کا غلام ہوں اب اس کی مرضی مجھے بیچے، آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے''۔ استاد کی عظمت و اہمیت اور معاشرے میں اس کے کردار پر علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کہتے ہیں کہ '' استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں، کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپرد ہے''۔
معاشرتی زندگی کے جن شعبوں پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے، ان میں حصول علم نہایت نمایاں ہے۔ کیوں کہ تعلیم انسان کی زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے اور اُسے معاشرے کا ایک قابل قدر عنصر بنانے میں مدد دیتی ہے، اور علم کی راہ پر منزلوں کا حصول ''استاد'' کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ یہ استاد ہی ہے جس نے ایک فرد کی تربیت کی اور اس کی ذہنی نشوونما کا فریضہ سرانجام دینا ہے اور اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ استاد کو معاشرہ میں اس کا جائز مقام دیا جائے۔ معاشرتی خدمات کے عوض معلم کا حق بنتا ہے کہ اسے سوسائٹی میں نہ صرف اعلیٰ مقام دیا جائے بلکہ اس کے ادب و احترام کو بھی ملحوظ خاطر رکھاجائے۔ لیکن۔۔۔! یہاں قابل غور امر یہ ہے کہ ہر مذہب اور معاشرے میں استاد کو ملنے والی اہمیت کیا اس بات کی متقاضی نہیں کہ معلم خود کو رول ماڈل کے طور پر پیش کرے؟ امام ابو حنیفہؒ سے ان کے عزیز شاگرد امام ابو یوسف نے پوچھا استاد کیسا ہوتا ہے؟ فرمایا ''استاد جب بچوں کو پڑھا رہا ہو تو غور سے دیکھو، اگر ایسے پڑھا رہا ہو جیسے اپنے بچوں کو پڑھاتا ہے تو استاد ہے اگر لوگوں کے بچے سمجھ کر پڑھا رہا ہے تو استاد نہیں ہے''۔
صرف اس فرمان کو سامنے رکھ کر اگر آج کے اساتذہ کرام کی اکثریت کو پرکھ لیا جائے تو ہمیں مادیت پرستی کا غلبہ واضح نظر آئے گا۔ بلاشبہ دور جدید میں مادیت پرستی ہر معاشرے اور شعبہ میں گھر کر چکی ہے، لیکن کچھ شعبہ اور ان کے ذمہ داران کے لئے مادہ پرستی جیسی اصطلاح کبھی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ استاد معاشرہ کا وہ حصہ ہے جہاں اخلاقی اقدار کو بام عروج نصیب ہوتا ہے۔ مگر افسوس آج کا استاد (استثنیٰ کے ساتھ) مادیت میں اس قدر کھو چکا ہے کہ اس کے نزدیک پیشہ معلمی کا مطلب صرف نوکری، سکیل، ترقی، ٹیویشن، من پسند جگہ پر تعیناتی اور پیسہ ہی رہ گیا ہے۔ تعلیمی اداروں خاص طور پر سرکاری اداروں میں طلبہ کی تعلیم و تربیت اساتذہ کی ترجیح ہی نہیں رہی۔ صرف ڈنگ ٹپائو پالیسی اپنائی جاتی ہے، اساتذہ کی تمام تر توجہ ٹیوشن یا اکیڈمیز کی جانب ہوتی ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ بچوں کو ٹیویشن لینے پر مجبور کیا جاتا ہے یہ سوچے بغیر کہ بہت سارے والدین اپنے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے کی سکت ہی نہیں رکھتے، اگر وہ اتنی استعداد رکھتے تو عام تاثر کے مطابق اپنے بچے کو سرکاری ادارے میں تھوڑے ہی نہ پڑھاتے۔ آج استاد طالب علم کو اپنی روحانی اولاد نہیں بلکہ صرف ایک بزنس پوائنٹ سمجھتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں تعلیمی اداروں کی مجموعی تعداد تقریباً سوا 2لاکھ ہے، ان اداروں میں سرکاری اساتذہ کی تعداد ساڑھے8 لاکھ اور صرف پنجاب میں یہ تعداد پونے 4لاکھ ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ملک کی دوسری بڑی فورس کا نام استاد ہے۔ لیکن ہمیں شکوہ یہ ہے کہ اتنی بڑی فورس ہونے کے باوجود ملک میں شرح خواندگی میں اضافہ اور نتیجتاً معاشی و معاشرتی ترقی ہوتی ہوئی نظر کیوں نہیں آرہی؟ ملک میں آج بھی تقریباً 54 فیصد شرح خواندگی ہے۔آج کا طالب علم استاد کی اس طرح عزت کیوں نہیں کرتا جس طرح ڈاکٹر محمد اقبالؒ جیسے عظیم لوگ کیا کرتے تھے کہ استاد کو دیکھا تو ننگے پائوں ہی پیچھے دوڑ پڑے اور ہاتھ باندھ کر اس وقت تک پیچھے چلتے رہے جب تک استاد اپنے گھر میں داخل نہیں ہوگیا۔ اس کا عام فہم اور آسان جواب ہے مادیت پرستی۔۔۔ جی ہاں یہ مادیت پرستی ہی ہے جس نے آج اساتذہ کی اکثریت کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔
مختصر تعلیمی اوقات، بھاری بھرکم تنخواہوں سمیت دیگر مراعات اور ایک سال کے 365 روز میں سے 186چھٹیاں (موسم گرما75، ہفتہ وار48، امتحانات 30، گزٹیڈ 13، استحقاقیہ 12، موسم سرما 8) اور صرف 6 گھنٹے ڈیوٹی اوقات کے باوجود اساتذہ آئے روز سڑکوں پر احتجاجی ریلیاں نکالتے نظر آتے ہیں۔ پرانے دور کے صرف میٹرک پاس اساتذہ آج 30 سے 50 ہزار کے درمیان تنخواہ حکومت سے وصول کر رہے ہیں۔ پھر آٹے میں نمک کے برابر ہی کچھ اساتذہ ہوں گے جو کوئی سائیڈ بزنس نہ کر رہے ہوں۔ ارے بھئی۔۔۔ٹیوشن اکیڈمی بھی تو بزنس ہی ہے ناں۔ اس کے برعکس اعلیٰ تعلیم یافتہ ماسٹرز ڈگری ہولڈر طلباء و طالبات کی اکثریت حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں 6 سے9 ہزار روپے تنخواہ پر پڑھا رہے ہیں اور سو فیصد کارکردگی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ کیا ان پرائیویٹ اساتذہ کے بچے نہیں، ان کے لئے مہنگائی نہیں؟۔ سرکاری سکول میں انفراسٹرکچر یعنی چاردیوار، پانی اور ٹائلٹ جیسی سہولیات ہمیشہ ثانوی حیثیت رکھتی ہیں، اولین ترجیح قابل استاد ہی ہوتا ہے جو طلبہ کو اپنے بچے سمجھ کر پڑھائے اور ان کا دکھ درد بھی محسوس کرے۔
ستم ظریفی دیکھیں کہ آج ایک استاد سرکاری تعلیمی ادارے میں خود تو پڑھا رہا ہے لیکن اس کے بچے کسی پرائیویٹ ادارے میں ہی پڑھ رہے ہیں۔ دوسری طرف یونیورسٹی سطح کے اساتذہ کا یہ عالم ہے کہ تنخواہ کا پیمانہ 50 ہزار سے شروع ہو کر لاکھوں روپے تک پہنچ جاتا ہے لیکن پیسے کی محبت سے دل نہیں بھرتا۔ لاکھوں روپے کے سکالر شپس، گھر، میڈیکل سمیت دیگر الائونسز حاصل کرنے کے عوض ایک ہفتہ میں لیکچرر کو صرف 9 گھنٹے اور پروفیسر کو 6گھنٹے بچوں کو لیکچر دینا ہے۔ پھر اسی یونیورسٹی میں شام کی کلاسز میں یہی اساتذہ دوگنا زائد معاوضہ پر تعلیم دیتے ہیں، اس کے علاوہ پیپر سیٹنگ، چیکنگ، امتحانات لینا اور موبائل انسپکشن سے بھی ہزاروں روپے کی آمدن ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اتنی مراعات کے باوجود ہمارے یونیورسٹی اساتذہ ( ماسوائے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام) بین الاقوامی سطح پر تحقیق اور مقامی سطح پر تعلیم کے فروغ میں کوئی قابل ذکر کارنامہ کیوں سرانجام نہیں دے رہے؟ پروفیسرز کی تحقیقات اور مقالہ جات سے حکومتیں اپنی معاشی و سماجی پالیسیاں مرتب کرتی ہیں، ہمارے بھی ان محترم اساتذہ کو اس ضمن میں دلجمعی سے کام کرنا چاہیے کیوں کہ یہ دنیا کے کسی بھی خطے میں پہنچ جائیں اور کتنی ہی ترقی کر لیں، ملک کا قرض بالآخر ان کو چکانا ہی ہوگا۔
انفراسٹرکچر سے زیادہ قابل استاد کی سکول میں حاضری ضروری ہے: طلبہ و الدین
سال کے 365 روز میں 2 سو کے قریب سرکاری چھٹیوں کے باوجود اساتذہ کا کسی نہ کسی بہانے سکول سے غائب رہنے پر طلبہ اور ان کے والدین کیا رائے رکھتے ہیں؟ یہ جاننے کے لئے ہم نے سب سے پہلے لاہور کے ایک معروف سرکاری تعلیمی ادارے کے طالب علم محمد بلال سے بات کی تو اس کا کہنا تھا کہ ''میں نہم جماعت کا طالب علم ہوں، اتنا تو مجھے معلوم ہے کہ میرے تعلیمی کیرئیر کی بنیاد میٹرک کا رزلٹ ہے، اس لئے مجھے زیادہ محنت کی ضرورت ہے لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ ،اس معاملہ میں، میں جتنا فکر مند ہوں میرے اساتذہ اتنے ہی بے پرواہ بنے بیٹھے ہیں۔ اوّل تو آئے روز احتجاج اور ہڑتالوں کی وجہ سے اساتذہ سکول کے بجائے اسمبلیوں کے سامنے سڑکوں پر موجود ہوتے ہیں اور اگر وہ سکول آ بھی جائیں تو انہیں کلاس چھوڑ کر لان میں کرسیوں پر براجمان گفتگو کرتے دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ہے۔ کلاس میں پہنچ کر بھی کبھی استاد صاحب اور کبھی اپنے مستقبل کو تباہ کرنے پر تلے طلبہ کا پڑھنے کا موڈ نہیں بنتا، جو ہم جیسے غریب لوگوں کے بچوں پر ظلم ہے کیوں کہ ہم نے تو زندگی میں جو کرنا ہے وہ اسی پڑھائی کی بنیاد پر ہوگا۔
دسویں کلاس کی طالبہ عائشہ ارشاد کے مطابق خواتین اساتذہ تو مرد ٹیچرز سے بھی زیادہ چھٹیاں کرتی ہیں کیوں کہ انہیں میٹرنٹی رخصت بھی ملنی ہوتی ہے، جس کے باعث ہمارا کورس ہی مکمل نہیں ہو پاتا اور جب وہ سکول آتی ہیں تو انہیں اپنے طلبہ اور کلاس سے زیادہ ساتھ آئے بچے کا فکر دامن گیر رہتا ہے۔ متعلقہ ٹیچر کے نہ آنے پر ہیڈمسٹریس ایک بچی کو مانیٹر بنا کر تمام بچیوں کو صرف خاموش رکھنے کی ذمہ داری تفویض کر دیتی ہیں۔ فرسٹ ایئرکے سٹوڈنٹ محمد ابوبکر نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ تعلیم کے فروغ کے لئے طلبہ سے پہلے اساتذہ کی تربیت پر زور دیا جائے۔ طلبہ کو اچھی عمارتیں اور سہولیات سے زیادہ قابل اساتذہ کی ضرورت ہے۔چھٹی کلاس کی میرب سرور کے والد محمد سرور کا کہنا تھا کہ استعداد نہ ہونے کے باعث اپنی بیٹی کو پرائیویٹ کے بجائے سرکاری سکول بھجوانا پڑتا ہے لیکن وہ ہر روز جب اپنی کسی نہ کسی ٹیچر کی لاپرواہی اور سکول سے غیرحاضری کا آکر بتاتی ہے تو نہایت دکھ ہوتا ہے۔ سرکاری اساتذہ کا طلبہ سے نامناسب رویہ اور تعلیم و تربیت پر زور نہ دینے کے باعث ہم جیسوں کے ذہین بچے بھی زندگی میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔
آٹھویں کلاس کے طالبعلم محمد جواد کے والد رائو عبدالمنان کا کہنا تھا کہ میرے 5 بچے ہیں لیکن میں نے ان میں سے کسی بھی بچے کو سرکاری تعلیمی ادارے میں تعلیم نہیں دلوائی، جس کی وجہ یہ نہیںکہ میں کوئی لینڈ لارڈ ہوں بلکہ اپنا پیٹ کاٹ کر انہیں پرائیویٹ ادارے میں تعلیم دلواتا ہوں کیوں کہ میں سرکاری سکول کے استاد کی قابلیت سے اچھی طرح آگاہ ہوں۔ سرکاری اداروں میں تعمیرات، ڈیسک، ٹھنڈا پانی اور ٹائلٹ سمیت دیگر سہولیات ہمیشہ ہر طالبعلم اور والدین کی دوسری ترجیح ہوتی ہے، پہلی ترجیح قابل اور اپنے پیشے سے مخلص اساتذہ ہیں۔ ساتویں کلاس کے طالبعلم حسن یٰسین کے والد محمد ندیم نے بتایا کہ یقین مانیں کہ اساتذہ سکول پڑھانے کے بجائے بچوں کو شام کے وقت ان سے ٹیوشن پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ حالات کی سختی کے باعث سرکاری اداروں کا تعلیمی معیار جاننے کے باوجود بیٹے کو یہاں داخل کروایا لیکن اسی سکول کے استاد سے ٹیوشن پڑھنے پر بچے کو مجبور کرنے سے مزید تنگدستی کا شکار ہو رہا ہوں۔
حکومت مہنگائی نہ بڑھنے کی یقین دہائی کرائے، تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ نہیں کریں گے: ٹیچرزیونین رہنما سجاد اکبر کاظمی، رانا لیاقت
پنجاب ٹیچرز یونین کے مرکزی صدر سید سجاد اکبر کاظمی اور مرکزی جنرل سیکرٹری رانا لیاقت نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہمیں اس چیز کی یقین دہانی کروا سکتی ہے کہ وہ ہر ماہ مہنگائی میں اضافہ نہیں کرے گی اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تو پھر جب مہنگائی بڑھتی ہے تو ہم تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کیوں نہ کریں؟ ایک استاد جس کی ابتدائی تنخواہ15ہزار ہے اس کی ڈیوٹی دور دراز کے علاقوں میں لگائی جاتی ہے تو وہاں جا کرکم از کم 8 ہزار روپے تک تو وہ اپنے اور بچوں کے لئے گھرکرایہ پر لے گا، اس کے بعد 7ہزار روپے میں کیسے غذا و صحت کی ضروریات پوری اور بلوں کی ادائیگی کی جائے۔ 70 فیصد اساتذہ کسی قسم کا کوئی سائیڈ بزنس نہیں کرتے کیوں کہ بزنس کے لئے پیسہ چاہیے جو ان کے پاس نہیں۔ رہنمائوں کا کہنا تھا کہ استاد کی زیادہ چھٹیوں کی وجہ سے طلبہ کا تعلیمی نقصان ہونے کا تاثر درست نہیں۔ موسم گرما کی تعطیلات صرف طلبہ کو ہوتی ہیں ہمیں تو مختلف ٹریننگ پروگرامز یا کسی نہ کسی حکومتی سروے میں مشغول کر دیا جاتا ہے۔
طلبہ کے تعلیمی نقصان کا ذمہ دار استاد نہیں بلکہ حکومت ہے جو استاد کو اپنا فرض ادا کرنے کے بجائے کبھی یوپی ای پروگرام، خسرہ، پولیومہم، الیکشن ڈیوٹی تو کبھی خانہ شماری کی ڈیوٹی تفویض کردیتی ہے۔ حکومت اگر شرح خواندگی میں سو فیصد اضافہ چاہتی ہے تو اسے غیرتدریسی ڈیوٹیوں سے استاد کی جان چھڑانی ہوگی تاکہ وہ دلجمعی سے بچوں کو پڑھا سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صرف پنجاب کے متعدد اضلاع ایسے ہیں جہاں بچوں کو تاحال کتب فراہم نہیں کی جا سکیں، کتابیں ہوں گی تو پڑھائی ہوگی اور کتب استاد نے نہیں بلکہ حکومت نے فراہم کرنی ہیں۔ اس کے علاوہ اساتذہ کی کمی بھی بہت بڑا مسئلہ ہے جسے حکومت ترجیح دینے کو تیار نہیں۔ صرف ایک صوبے میں اساتذہ کی 40 ہزار آسامیاں خالی ہیں۔ بعض سکولوں میں سینکڑوں طلبہ کے لئے صرف2 استاد ہیں اور اگر ان میں سے بھی کوئی بیمار یا کسی اور وجہ سے سکول نہ آسکے تو پھر بچوں کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔
پرائمری سکول ٹیچرز سے یونیورسٹی پروفیسرزکی تنخواہوں کے اعداد و شمار
ایک سرکاری یونیورسٹی کے ٹیچنگ سٹاف کی شروعات لیکچرر سے ہوتی ہے، ماسٹرز ڈگری کا حامل یہ لیکچرر بی ایس 18میں تعینات اور ابتدائی طور پر 48 ہزار 202 روپے تنخواہ وصول کرتا ہے۔ بی ایس 19کے اسسٹنٹ پروفیسر (ایم فل کے ساتھ) کی ابتدائی تنخواہ 74 ہزار، بی ایس 20 کے ایسوسی ایٹ پروفیسر (پی ایچ ڈی کے ساتھ) کی ابتدائی تنخواہ 88 ہزار، بی ایس 21کے فل پروفیسر کی ابتدائی تنخواہ کم از کم 94 ہزار روپے تک ہوتی ہے، بعدازاں بڑھتے بڑھاتے ان اساتذہ کی تنخواہ لاکھوں روپے تک پہنچ جاتی ہے۔ سکول سطح پر تدریسی سٹاف کا آغاز ایلیمنٹری سکول ایجوکیٹر (پرانا نام، پرائمری ٹیچر سکول) سے ہوتا ہے، گریجوایشن کے ساتھ پی ٹی سی کورس کے حامل اس عہدے کے استاد کو سکیل 9 میں تعینات کرکے ابتدائی طور پر 15ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے۔
گریجوایشن کے ساتھ سی ٹی (سرٹیفکیٹ ان ٹیچنگ) کورس کرنے والے سینئر ایلیمنٹری سکول ایجوکیٹر (پرانا نام، ایلیمنٹری سکول ٹیچر) کو سکیل 14میں تعیناتی کے بعد ابتدائی تنخواہ 18ہزار روپے ملتی ہے۔ سکینڈری سکول ایجوکیٹر (پرانا نام، سکینڈری سکول ٹیچر) بننے کے لئے گریجوایشن کے ساتھ بی ایڈ کرنا لازمی ہے، اس عہدے کے استاد کو سکیل 16اور ابتدائی تنخواہ 20 ہزار روپے دی جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ترقی کرنے اور ہر سال انکریمنٹ لگنے سے یہ اساتذہ 70سے80 ہزار روپے تک پہنچ جاتے ہیں۔ ہر سطح کے استاد کو سروس کے دوران دیگر مراعات کے علاوہ ریٹائرمنٹ پر یکمشت لاکھوں روپے ملنے کے علاوہ تاحیات ماہانہ ہزاروں روپے پنشن بھی ملتی رہتی ہے۔