بدلتے حالات سے ہم آہنگی میں چین اپنی مثال آپ ہے
صدر شی جن پھنگ نے کرپشن کے خلاف بلاتفریق کارروائی کرکے قوم کی اجتماعی سوچ میں انقلاب برپا کیا ہے۔
قسط نمبر (10)
ہمارا ذریعہ معاش ہمیں چین لے آیا۔ یہاں آنے سے پہلے اس شش و پنج میں مبتلا تھے کہ وہاں تو کیمونسٹ نظامِ حکومت ہے اور ہم ٹھہرے سرمایہ دارانہ نظام کے امین ملک کے شہری۔ کیسے نبھے گی ہماری۔ اس گو مگو کی حالت میں ہم چین پہنچے لیکن جیسے جیسے ہم پر چین آشکار ہوتا گیا ویسے ویسے ہم ان کی اختراعات کے گرویدہ ہوتے چلے گئے۔ کمیونسٹ نظام حکومت کے متعلق سنی اور پڑھی باتوں نے ہمارا جو ذہن بنایا تھا وقت کے ساتھ ساتھ وہ سب باتیں تحلیل ہوتی گئیں اور ہم اس بات کے قائل ہوگئے کہ وہی قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں جو حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنے نظام کو ڈھالتی ہیں اور ان میں اصلاحات کرتی ہیں۔ اور چین اس کی بڑی روشن مثال ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے بر عکس کمیونزم یا سوشلزم میں معیشت پر مکمل حکومتی اختیار ہوتا ہے۔ نجی ملکیت اور کاروبارکا کوئی تصور نہیں۔انیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام کے محاسن وعیوب کے حوالے سے علمی و ادبی حلقوں میں بہت بحث ہوا کرتی تھی۔اس وقت روس اور امریکہ میں سرد جنگ عروج پر تھی اور دونوں ممالک اپنے اپنے حامیوںکی ہر طرح مدد کیا کرتے تھے۔ پاکستان میںتو کمیونسٹوں کو ُسرخے بھی کہا جاتا تھا۔دونوں ممالک کی مسابقت و مخاصمت کے اسی دور میں بہت سے پاکستانی نوجوان سرکاری خرچ پر روس گئے ، وہاں قیام بھی کیا اور پڑھائی بھی کی۔کچھ وہیں رہے اور کچھ لوٹ آئے۔روس اس دور میں کمیونسٹ بلاک کا بلا شرکت غیرے رہبرو رہنما تھااو ر دنیا بھر میں کمیونسٹ فلسفے یا اشتراکی تحاریک کی مدد و حمایت کیا کرتا تھا۔
یہ وہ وقت تھا جب چین میں بھی کمیونسٹ پارٹی اقتدار کے حصول کے لیے جدوجہد کررہی تھی۔اس کو بھی روس کی اعانت حاصل رہی ہے۔ انیس سو انچاس میں جب عوامی جمہوریہ چین کا قیام ہوا تو کمیونسٹ پارٹی نے کاروبار مملکت و ریاست کو چلانے کے لیے اشتراکی فلسفے کو ہی بنیادی اہمیت دی۔چین کے قیام کے وقت کمیونسٹ پارٹی کی لیڈرشپ کا مقصد ایک جدید، طاقتور، موثر، سوشلسٹ قوم بنانا تھا۔اور اس مقصد کے حصول کو اگر معاشی نکتہ نظر سے دیکھا جاتا تو پھر چین کو صنعت کاری، شہریوں کے معیار ِزندگی میں بہتری، آمدنی میں فرق کو کم کرنا اور جدید اسلحہ سازی کو فروغ دینا تھا۔چین کے قیام کے بعد چونکہ اشتراکی فلسفہ کلیدی قرارپایا تو اس لیے چین میں چین کی آزادی سے پہلے موجود تمام سرمایہ دارانہ کمپنیوں اور اداروں کو قومیا لیا گیا تھا۔
انیس سوپچاس سے انیس سو اٹھتر تک چین کا معاشی نظام ایک بینک People's Bank of Chinaتک ہی محدود رہا۔ یہ بینک مرکزی حکومت کے تحت اور وزارت خزانہ کی نگرانی میںکام کرتا تھا۔یہی بینک سنٹرل بینک اور کمرشل بینک کے طور پر کام کر رہا تھا۔ ماؤ زے تنگ جب تک حیات تھے تو اس وقت تک چین روایتی اشتراکی فلسفے کی سختی سے پیرو ی کرتا رہا۔نجی ملکیت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ معاشی سرگرمیوں او ر زرعی پیداوار پر مکمل طور پر حکومت کا کنٹرول تھا۔
شہریوں کو ایک منصوبہ بندی کے ساتھ اشیائے صرف اور دیگرضروری اشیاء ملا کرتی تھیں۔معیشت کے اس اشتراکی بندوبست کے تحت چین کو زرعی پیداوار میں کمی اور قحط کی صورت حال کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ مگر اب صورتحال بالکل بدل چُکی ہے۔کہاں وہ دور کہ شہریوں پر خوراک و لباس کے معاملات میں راشن بندی یا کوٹے کی پابندی تھی کہاں یہ دورکہ جا بجا ہوٹلز، ریستوران ، غیر ملکی فوڈ آوٹ لیٹس، اور لباس کی نت نئی تراش خراش اور چینی مرد و زن جدید فیشن کے پہناوے پہنے گھومتے نظر آئے۔ یہ کایا کیسے پلٹی ؟۔ اس کی داستان ہمیں سی آر آئی اردو سروس کے سینئر ساتھی اور چین کی تاریخ سے واقف لیو شیاؤ ہوئی نے ایک روز سی آر آئی کے کیفے ٹیریا میں بیٹھ کرسنائی ۔ انہوں نے بتایا کہ ا نیس سو اٹھتر میں چین میں اصلاحات کا عمل شروع ہوا۔
اس اصلاحاتی عمل کے قائد تنگ شیاؤ پھنگ(Deng Xiaoping) تھے۔انہوں نے چین کی اس وقت کی اشتراکی مارکیٹ میں مارکیٹ پرنسپل (Market Principle) متعارف کروا دیا۔انیس سو ستر کے اواخر اور اسی کی دہائی کی ابتداء میں اصلاحات کا پہلا مرحلہ شروع ہوا۔اس مرحلے میں زرعی شعبے، غیر ملکی سرمایہ کاری اور کاروبار شروع کرنے کے لیے درکار اجازت کے حوالے سے اصلاحاتی عمل شروع کیا گیا۔مگر اس پہلے مرحلے میں زیادہ ترصنعت حکومت کے زیر تصرف رہی۔دوسرا مرحلہ انیس سو اسی کے اواخر اورانیس سو نوے کے اوائل میں شروع میں ہوا۔ اس دوران نجکاری کا فروغ، ریاستی ملکیتی اداروں کو کنڑیکٹ پر دینے اورپرائس کنڑول کو ختم کیا گیا ۔ نئی پالیسیاں اور قوانین بنائے گئے اور نجی سیکٹر میں اضافہ ہوا۔ اس سے غربت کا خاتمہ اور آمدنی میں اضافہ ہوا۔
لیو شیاؤ ہوئی اس روز بڑے خوشگوار موڈ میں تھے اور چائے پیتے ہوئے انہوں نے اپنے ملک کی ترقی کے سفر کو بڑے فخر اور خوشی کے ساتھ بتایا۔ چائے پیتے ہوئے وہ رکے، کیفے ٹیریا کے درو دیوار پر ایک نگاہ ڈالی ، کیفے ٹیر یا میں موجود نوجوان چینیوں کی وضع قطع، لباس، اندازِ گفتگو سے عیاں خوشحالی کی جانب میری توجہ دلائی اور پھر سے سلسلہ تکلم جوڑا۔ انہوں نے کہا کہ زرعی شعبے میں اصلاحات کا عمل انیس سوا ٹھتر سے انیس سو چوراسی تک ہوا۔ اس میں سب سے پہلے ہاؤ س ہولڈ ریسپانسبلٹی سسٹم Household Responsibility Systemکا آغاز کیا گیا۔ Household Responsibility System کی شروعات کاسلسلہ بھی دلچسپ ہے۔ چین میں زمین کی نجی ملکیت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہی نظام زراعت میں بھی لاگو تھا۔ جہاں کسان اجتماعی طور پر کاشت کاری کیا کرتے تھے۔
نامناسب زرعی پالیسیوں اور حکومتی عدم توجہی کے باعث چین کو انیس سو پچاس کے اواخر اور انیس سو ساٹھ کے آغاز میں زرعی شعبے میں شدید مشکلات اور قحط کا سامنا کرنا پڑا۔اس صورتحال میں چین کے علاقے Chengdu کے ایک گاؤں کے مکینوں نے انیس سو ساٹھ کے شروع میں حکومتِ وقت کی پالیسی کے خلاف جانے کا فیصلہ کیا اور انہوں نے اجتماعی کاشتکاری People's Communesکے بجائے Household Farming شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔کمیون کی زمین کو ہر فیملی میں برابر برابر تقسیم کر دیا گیا اور ہرفیملی اپنے حصے میں آنے والی زمین کو کاشت کرنے کی ذمہ دار تھی اورجب فصل تیار ہو جاتی تو ہر فیملی اپنے حصے کا ریاستی کوٹہ دینے کی پابند تھی۔
اس سسٹم میں جو فائدہ تھا وہ یہ تھا کہ ریاستی کوٹہ دے دینے کے بعد جو فصل بچ جاتی وہ اس فیملی کی ہوتی جو اسے مارکیٹ میں فروخت کر کے زیادہ پیسے کما سکتی تھی۔ اس سسٹم کی اطلاع بیجنگ کی مرکزی حکومت تک انیس سو باسٹھ میں پہنچ گئی۔حکومت نے فوری طور پر اس کے خاتمے کی ہدایات دیں اور پرانا نظام جاری رکھنے کو کہا ۔گاؤں کے لوگوں نے حکومتی فیصلے کو تسلیم کرلیا۔بعد میں یہی نظام انیس سو ستر کے اواخر میں دوبارہ اُبھرا۔ جب اسHousehold Farming سسٹم کی اطلاع تنگ شیاؤ پھنگ تک پہنچی تھی تو انہوں نے اس میں بڑی دلچسپی لی تھی۔تنگ شیاؤ پھنگ کے قریبی ساتھیوں نے انہوئی Anhui اور سیچوان ( (Sichuan میںg Household Farminکے آزمائشی تجربات کیے۔جب تنگ شیاؤ پھنگ نے اصلاحات کا عمل شروع کیا تو انہوں نے انیس سو اناسی میں پارٹی کے کچھ رہنماؤ ں کی مخالفت کے باوجود اسg Household Farminکو پورے چین میں نافذکر دیا۔ انہوں نے صوبائی رہنماؤں کو اپنی اپنی حدود میں اس سسٹم کو شروع کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں۔ اگرچہ زمین اب بھی ریاست کی ملکیت ہی تھی مگر خاندانوں کو کاشت کاری کے لیے پندرہ سال کی لیز پر زمین دے دی گئی۔
انہیں ریاستی کوٹہ پورا کرنا تھا۔ اضافی فصل ان کی ہو جانی تھی۔ بعد ازاں لیز کی مدت میں اضافہ کردیا گیا اور انیس سو ترانوے میں اس کی مدت پندرہ سال سے بڑھا کر بیس سال کر دی گئی۔ دو ہزار تین میں اس کو بڑھا کر تیس سال کردیا گیا۔Household Responsibility Systemنے بہت تیزی سے فروغ پایا۔انیس سو چوراسی تک چوبیس ملین گھرانے اس سسٹم میں شامل ہو گئے۔ایک دہائی میں ہی کسانوں کی آمدنی محض 47 ڈالر سے بڑھ کر105 ڈالر تک پہنچ گئی۔اسی کی دہائی میں زرعی پیداوار میں سالانہ پانچ فیصد اضافہ ہوا۔اس کے ساتھ ساتھ مخصوص زرعی پیداوار کی بھی شروعات ہوئی۔ نقد آور فصلوں Cash Crops اور لائیو سٹاک بھی اسی دہائی میں شروع ہوئی۔اس سسٹم نے کسانوں کی مالی حالت کو بدل کر رکھ دیا۔یہ سسٹم روایتی سخت اشتراکی نظریے کی بجائے زیادہ آزادانہ تھا ۔
اس کواپنانے سے چین کی ترقی کے دور کا آغاز ہوا ۔ لیو شیاؤ ہوئی کی اس روز گفتگو سے چین کی ترقی کے شروعاتی سفر کا علم ہوا تو زراعت کے علاوہ دیگر شعبوں میںچین کی ترقی اور اصلاحاتی عمل کو جاننے کا شوق پیدا ہوا۔ اس شوق کی تکمیل ہوئی بھی تو ایک ہوٹل میں۔ ایک چھٹی والے روز ایک پاکستانی ہوٹل کارخ کیا وہاں کئی پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی جووہاں پیٹ پوجا کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثر طالب علم تھے جو بیجنگ اور چین کی مختلف جامعات میں زیر تعلیم تھے۔ انہی میں سے ایک نوجوان عبدالعزیز تھے جوکہ بیجنگ کے قریب واقع شہر تیانجن سے آئے تھے۔
جہاں وہ بزنس اور معاشیات کے طالب علم تھے۔ عبدالعزیز کے آباؤ اجداد کا تعلق سوات سے تھا مگر وہ ایک طویل عرصے سے خاندان سمیت کراچی میں مقیم تھے۔ ان سے اس وقت اور بعدازاں بھی بات چیت ہوتی رہی۔ انہوں نے بتایاکہ انہیں دوران تعلیم چین میں معیشت کے بندوبست میں بتدریج آنے والی تبدیلی کے متعلق بھی پڑھنے کا موقع ملا ہے۔انہوں نے چین میں نجی کاروبار اور نجکاری کے عمل کے بارے میں بتایاکہ زرعی شعبے میں ہونے والی اصلاحات سے انیس سو پچھتّر اور پچاسی کے درمیان معیشت کے دوسرے شعبوں کی نجکاری کی راہ ہموار ہوئی۔اس کے ساتھ ساتھ پیداوار کی بڑھوتری کے لیے اربن انڈسٹر ی میں Double Pricing دہری قیمت سسٹم لا گو کیا گیا۔
ریاستی ملکیت میں کام کرنے والے اداروں کو اپنی پیداوار Planned Quotaسے بڑھ کر بیچنے کی اجازت دی گئی۔ اور تیار مصنوعات کو Planned اور مارکیٹ پرائس Market Price کے تحت فروخت کیا گیا تا کہ شہریوں کو اشیاء کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انیس سو اسی ہی میں Industrial Responsibility System شروع ہوا۔ اس نظام کے تحت ریاستی ملکیت میں کاروبار کرنے والے کاروباری اداروں میں بہتری آئی۔ افراد یا گروپس کو کاروبار کو کنڑیکٹ پر لینے کی اجازت دی گئی۔اور پہلی مرتبہ نجی کاروبارکی بھی اجازت دی گئی۔قیمتوں میں لچک بڑھ گئی اور اس سے Service Sector (خدمات کا شعبہ) میں اضافہ ہوا۔ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا آغاز ہوا۔ خصوصی اکنامک زونز قائم کیے گئے۔
یہی زون چین کی معیشت میں ترقی کا انجن ثابت ہوئے ۔ انیس سو چوراسی سے لیکر انیس سو ترانوے تک کے عرصے میں نجی کاروبار پر حکومتی اختیار اور مداخلت کم ہونا شروع ہوئی۔ محدو د پیمانے پر ریاستی سرپرستی میں چلنے والے کاروبار کی نجکاری کا عمل شروع ہوا۔ ان اصلاحات سے قابل قدر ترقی ہوئی۔ ریاستی کنٹرول کو ڈی سنٹرلائز کر دیا گیا۔ معیشت کے فروغ اور ریاستی اداروں کی نجکاری کو صوبائی رہنماؤ ں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا۔ٹاؤن شپ اور ویلج انٹر پرائزز Township and Village Enterprises (جس میں مقامی گھریلو سطح کی صنعت کو ترقی دی گئی ) نے آہستہ آہستہ مارکیٹ شیئر لینا شروع کر دیا۔انیس سو ترانوے سے دو ہزار پانچ تک کے عرصے میں بڑے پیمانے پر نجکاری کاعمل شروع ہوا۔ اس عرصے میں ریاستی ملکیت میں چلنے والے اداروں کی تعداد میں 48% کمی ہوئی۔اسی دور میں محصولات، تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا گیا اور غیر ضروری ضوابط کو بھی ختم کر دیا گیا۔ بینکنگ سسٹم میں بھی اصلاحات لائی گئیں۔ اسی دور میں چین نے WTO میں شمولیت اختیار کر لی۔ان اصلاحات کے نتیجے میں چین کی ترقی میں بے حد اضافہ ہوا۔
چین کی ترقی کی داستان کا ایک حصہ ہمیں چین کی چھنگ چھنگ یونیورسٹی Chongqing University کے سکول آف اکنامکس اینڈ بزنس ایڈمنسٹریشن سے وابستہ لاہور سے تعلق رکھنے والے پی ایچ ڈی سکالر اویس علی نے بھی سنایا ۔ ان سے ہماری ملاقات ریڈیو کے ایک پروگرام کے سلسلے میں ہوئی ۔ بے حد شائستہ اور نرم لہجے میں گفتگو کرنے والے اویس علی معیشت کے اسرار و رموز سے مکمل واقفیت رکھتے ہیں ۔ سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر وابستہ اویس علی سے گفتگو ہوئی تو وہ ادب و تاریخ کے دلدادہ نکلے۔ اعداد وشمار کے گورکھ دھندے میں اُلجھے شخص کی ادب شناسی پر خوشگوار حیرت ہوئی۔ اویس علی نے بتایا کہ چین کی معیشت کی ساخت کو بدلنے میں بنیادی کردار اصلاحاتی عمل کے دوران 80 کی دہائی میںخصوصی اقتصادی زونز کا قیام تھا۔ چین کے رہنما تنگ شیاؤ پھنگ نے ان زونز کے قیام کی منظوری دی ۔ کہا جاتا ہے کہ چین کے موجودہ صدر شی جن پھنگ کے والد Xi Zhongxun نے بھی ان اقتصادی زونز کے قیام کی حمایت کی تھی۔ابتداء میں چار اکنامک زونز بنائے گئے۔ یہ زونز Shantou, Xiamen, Zhuhai, and Shenzhen. میں بنائے گئے۔یہ چاروں زونز صوبہ فوجیان Fujian اور گوان تنگ Guangdong میں واقع تھے اور ان کے مقامات کا تعین بہت سوچ سمجھ کر اور ایک حکمت عملی کے تحت کیا گیا تھا۔ یہ مکاؤ اور ہانگ کانگ جیسے خوشحا ل علاقوں اور چین کے علاقے تائیوان کے قریب تھے۔
(Shantouاور Xiamen,چین کے علاقے تائیوان کے قریب تھے۔جبکہ Zhuhai مکاؤ اورShenzhen ہانگ کانگ کے قریب تھے)ان مقامات کا انتخاب اس اُمید کے ساتھ ہوا تھا کہ قریب ہی واقع علاقوں میں ہونے والی سرمایہ کاری ان خصوصی اقتصادی زونز کا بھی رخ کرے گی۔ چینی حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اس جانب راغب کرنے کے لیے بہت سی مراعات دیں۔ان کو ٹیکسز میں کمی اور چھوٹ دی گئی۔ ابتداء میں یہ عام سے ماہی گیری کے لیے مشہور قصبے تھے۔حکومت نے یہاں انفراسٹرکچر کو بہتر کیا۔ سڑکوں کی تعمیر کی، سیوریج سسٹم اور ٹرانسپورٹ کے نظا م کو بہتر کیا۔رہائشی عمارات، حکومتی دفاتر اور تجارتی عمارات کو بنایا گیا۔ان سب تعمیراتی ڈھانچے پر ایک کثیر رقم صرف ہوئی۔راقم کو Shenzhen دیکھنے اور اس شہر میں چند روز گزارنے کا دو مرتبہ اتفاق ہوا ہے۔
پہلی مرتبہ دو ہزار سات میں جب ہم انٹرنیشنل یو تھ فیسیٹول میں پاکستان کی نمائندگی کرنے آئے۔ ہم ساحل سمندر پر واقع ایک ہوٹل میں کم و بیش دس دن تک مقیم رہے۔ وہاں ہمارے ساتھ Shenzhen یونیورسٹی کے شعبہ انگلش میں پڑھنے والی ایک طالبہ Zoey بطور مترجم منسلک ہوئیں۔ جبکہ دوسرے مترجم Ellen بیجنگ سے آئے تھے۔دونوں نوجوان طالب علم تھے۔ان دونوں نے جتنی محنت ، لگن ، ذمہ داری ، توجہ سے اپنا کام کیا اس سے ہمیں اس وقت ہی چین کی ترقی کی وجہ کا اندازہ ہو گیا تھا۔ دو ہزار سترہ میں راقم کو ایک مرتبہ پھر اس شہر جانے کا موقع ملا تو کافی کوششوں کے بعد Zoey سے بھی رابطہ ہو گیا۔دو ہزار سات کی طالبہ دس سال بعد ایک ورکنگ وویمن اور دو بچوں کی ماں بن چکی تھیں اور بینکنگ سیکٹر سے وابستہ تھیں۔ان سے ملاقات دلچسپ رہی اور یقین نہ آیا کہ دس سال بعد دو مختلف ممالک کے شہریوں کے درمیان ملاقات ہو رہی ہے۔
Shenzhen ایک جدید صنعتی شہر ہے جہاں بیجنگ کے برعکس آپ کو سائن بورڈز چینی کے ساتھ ساتھ انگلش زبان میں بھی نظر آتے ہیں۔ یہ ہانگ کانگ کی قربت کا اثر ہے۔یہاں سے ہانگ کانگ کے لیے بسیں اور سمندر کے راستے فیر ی بھی چلتی ہے۔بعض بچے تو Shenzhen سے ہانگ کانگ پڑھنے کے لیے جاتے ہیں۔ اس شہر میں بہت سبزہ ہے۔یہاں موسم بیجنگ کے مقابلے میں قدرے گرم ہوتا ہے۔اس کو دیکھ کر قطعاً یہ احساس نہیں ہوتا کہ محض چا ر دہائیاں قبل یہ ماہی گیروں کی ایک بستی تھی۔اب یہ بلندو بالا اورکثیر المنزلہ عمارات پر مشتمل ایک جدید شہر ہے۔ ان زونز کے علاوہ انیس سو چوراسی میں مزید چودہ شہروں اور قصبوں کوسپیشل اکنامک زون بنایا گیا۔ان زونز کے علاوہ چین کے دریاؤ ں یانگزی ، مِن اور پرل کے ساتھ ساتھ کے علاقے کو اسپیشل ڈیولپمنٹ زونز بنایا گیا۔ نوے کی دہائی کے آغا ز میں شنگھائی میں تجارت اور اقتصادی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے Pudong New Area کا افتتاح کیا گیا۔
ماہرین کے مطابق چین میں تنگ شیاؤ پھنگ کی زیر قیادت اصلاحات سے چین کی ترقی میں اضافہ ہوا۔1987-2013 کے درمیان چین کی معیشت میں سالانہ اضافہ 9.5% سے 11.5% ہوا۔چین کا جی ڈی پی دس گنا بڑھ گیا۔زرعی شعبے میں اصلاحات سے پیداوار میں سالانہ اضافہ 8.2% ہوا ۔ اصلاحات سے قبل یہ شرح 2.7% تھی۔خوراک کی قیمتوں میں 50% کمی ہوئی۔سبزیوں، گوشت کی پیداوار اور زرعی آمدنی میں اضافہ ہوا۔ چین جو کسی دور میں قحط کا شکار تھا اس نے خوراک کو برآمد کرنا شروع کردیا۔
چین میں اصلاحات سے صنعتی شعبے کو ہونے والے فوائد سے ہمیں آگاہی ریڈیو کے ایک پروگرام کی تیاری کے دوران ہوئی۔ یہ پروگرام چین میں اصلاحات و کھلے پن کے چالیس سال مکمل ہونے کے حوالے سے تھا۔ اس پروگرام کی تیاری کے لیے دستیاب مواد کو پڑھنے سے معلوم ہوا کہ اصلاحات کے ثمرات صنعتی شعبے نے بھی سمیٹے۔ اصلاحات سے پہلے چین کی انڈسڑی میں جمو د کی سی صورتحال تھی۔ اصلاحات سے قبل معیار اور پیداوار میں اضافے کے لیے Incentive بہت کم تھے۔ رفتہ رفتہ نجی کاروبار سے بہتری آتی چلی گئی۔انیس سواٹھتر میں چین کی صنعت نہ ہونے کے برابر تھی مگراب چین سٹیل، پائپس ، ٹیکسٹائل، آٹو موبائل ، کنکریٹ، کمیونیکیشن، مصنوعی ذہانت، سمارٹ ایکوپمینٹ، الیکٹریکل مصنوعات اور کنزیو آئٹمز وغیرہ میں دنیا بھر میں سر فہرست ہے۔انیس سو اسی میں انڈسڑیل فرمز کی تعداد 3,77,300 تھی جبکہ نوے کی دہائی میں یہ تعداد آٹھ ملین تک پہنچ گئی تھی۔ چین میں دو ہزار چار کے Economic Census کے مطابق 1.33 ملین مینو فیکچرنگ فرمز تھیں۔
اس Census میں پانچ ملین سالانہ سے کم سیل والی فرمز شامل نہیں تھیں۔ ٹریڈ اینڈ فارن انویسٹمینٹ میں بھی بہت سی سہولیات دی گئیں۔ ٹیرف کو 56% سے کم کر کے 15% کر دیا گیا۔دو ہزار ایک تک صرف 9% درآمدات کے لیے لائسنس اور درآمدی کوٹا درکار تھا۔ بینکنگ، انشورنس، ٹیلی کمیونیکیشنز سیکٹر میں بیرونی سرمایہ کاری کی اجازت دے دی گئی۔انیس سو نوے میں فنانشل سیکٹر کو بھی اوپن کر دیا گیا اور اس شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دے دی گئی۔فنانشل سیکٹر کو اوپن کرنے سے چین میں انیس سو نوے میں شنگھائی سٹاک ایکسچینج بنی، انیس سو اکانوے میں Shenzhen سٹاک ایکسچینج قائم ہوئی اور انیس سو بانوے میں چائنہ سیکورٹی ریگولیڑی کمیشن بنا جوکہ ہمارے ہاں کے سٹاک ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی طرح کا ادارہ ہے۔انیس سو ترانوے میں چین نے کمپنی لاء Compny Law بنایا اور جولائی انیس سو چورانوے میں چین نے اس پر عملدرآمد شروع کیا۔چین میں جب اصلاحات کا عمل شروع ہوا تو یہ ہمہ گیر تھا۔جس شعبے میں اصلاحات کی گئیں تو اس سے منسلک یا متعلقہ اداروں میں بھی ضروری ترامیم کی گئیں۔ انیس سو نوے میں جب فنانشل سیکٹر کو اوپن کیا گیا اور بینکنگ سیکٹر میں بھی غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دی گئی تو چین کے بینکنگ سیکٹر میں بھی وسیع پیمانے پر اصلاحات ہوئیں۔
چین میں بینکنگ سیکٹر کی ترقی و پیش رفت ہمیں Zoey کی زبانی پتہ چلیں انہوں نے بینکنگ سیکٹر کے ارتقائی عمل کی بابت بتایا کہ انیس سو پچاس سے لیکر انیس سو اٹھتر تک چین میں ایک ہی بینک Peoples Bank of China تھا۔یہ سنٹرل بینک اور کمرشل بینک کے طور پر کام کرتا تھا۔ انیس سو ستر کے اواخر میں اس بینک کے کمرشل بینکنگ بزنس کو تین بڑے سرکاری بینکس میں تقسیم کر دیا گیا۔ Bank of China کو فارن ٹریڈ اور سرمایہ کاری کے امور سونپ دیے گئے۔ Peoples Construction Bank of China کی ذمہ داریاں فکسڈ انویسٹمینٹ کے حوالے سے ٹرانزکشن ہو گئیں۔Agricultural Bank of China کو دیہی علاقوں میں کاروبار ی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ اسی طرح کچھ بینکنگ امور Industrial and Commercial Bank of China اور The Bank of Communications میں بانٹ دیے گئے۔اب تو ان بینکس کے علاوہ کئی ریجنل بینک بھی چین میں سرگرم عمل ہیں۔اس کے علاوہ انیس سو چورانوے میں چینی حکومت نے مزید بینکس بنائے ۔ ان میں Agricultural Development Bank of China, China Development Bank, Export-Import Bank of China شامل ہیں۔ یہ پالیسی ساز بینک ہیں۔ ان میں کسی حد تک عوام کی ملکیت ہے۔ مگر ہیں یہ سرکاری بینک ۔
ہمیں چین کے بانی ماؤ زے تنگ کے ایک قریبی ساتھی اور چین کے ایک اہم رہنما چھن یون کی سوانح حیات کو چینی سے اردو زبان میں ترجمہ کرنے کا موقع ملا۔ اس کام میں اردو سروس کی آپریشنل سربراہ ای فینگ( طاہرہ) اور لیو شیاؤ ہوئی نے ہماری مدد کی۔ اس آب بیتی کے ترجمے سے معلو م ہوا کہ چین کا پہلا پنج سالہ منصوبہ چھن یون کی رہنمائی و سرپرستی میں بنایا گیا تھا اور اس کے لیے انہوں نے روس کا دورہ بھی کیا تھا۔ چین کا پہلا پنچ سالہ منصوبہ 1953-1957 تک تھا۔ یہ اولین منصوبہ تھا ۔ اس کے خدو خال سوویت یونین کے معاشی ماڈل کے مطابق تھے۔ اس منصوبہ بندی کے تحت 694 بڑے اور درمیانے درجے کے صنعتی پروجیکٹس لگائے جانے تھے جن میں سے 156 سوویت یونین کی مدد سے تکمیل پانے تھے۔اس پنج سالہ منصوبہ بندی کے تمام اہداف کامیابی سے مکمل کیے گئے۔595 بڑے اور درمیانے درجے کے صنعتی یونٹس کا قیام اور ان سے پیداواری عمل بھی شروع ہو گیا۔ دوسرے پنج سالہ منصوبہ بندی میں ہیوی انڈسٹری کو فروغ دیا گیا۔
انڈسٹری، زراعت، دست کاری، ٹرانسپورٹیشن، سائنسی ترقی، قومی دفاع کی مضبو طی اور شہریوں کے معیار زندگی کی بلندی اہداف میں شامل تھی۔ ہر پنج سالہ منصوبہ بندی میں نئے اہداف کا تعین کیا جاتا رہا اس وقت تیرھویں پنج سالہ منصوبے پر عملدر آمد جاری ہے۔ اس کے تحت متعین کردہ اہداف میںروایتی ہیوی انڈسٹری کی بجائے جدید انفراسٹرکچر ، اختراعات پر مبنی ترقی، شہروں اور دیہی علاقوں میں وسائل کے مناسب استعمال سے فرق کو کم کرنا، ماحولیاتی انڈسٹری کو فروغ دینا، ماحولیاتی آلودگی میں کمی ، زیادہ بین الاقوامی باہمی تعاون، چینی شہریوں کی معاشی ثمرات کی شیئرنگ کی حوصلہ افزائی، صحت کے حوالے سے تشکیل شدہ ہیلتھ ایکشن پلان پر عملدرآمد اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں درمیانے درجے کی خوشحال سوسائٹی کا قیام شامل ہے۔ اس کے علاوہ ( "Made in China 2025'چین ساختہ 2025 کے منصوبے پر بھی کام جاری ہے۔ اس کا نعرہ ہے "Everyone is an entrepreneur, creativity of the masses" ۔ اس کے علاوہ خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے قوانین میں ترمیم کی گئی ہے۔ اب ایک بچے کی بجائے دو کی اجازت دے دی گئی ہے۔
چین کی معاشی خوشحالی کا یہ عالم ہے کہ بیجنگ میں نت نئے ماڈلز کی کاریںسڑکو ں پر رواں دواں نظر آتی ہیں۔ ٹریفک کو کنڑول کرنے کے لیے طاق اورجفت نمبرز کا نظام لاگو ہے۔ا س کے تحت ہفتے میں بعض دنوں میں طاق رجسٹریشن نمبر کی حامل گاڑیوں اور بعض مر تبہ جفت نمبرز کی گاڑیوں کو سڑکوں پر آنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ لوگوں نے دو دو یا اس سے بھی زیادہ گاڑیاں رکھی ہوئی ہیں۔ بیجنگ میں دس سال سے زائد پرانی گاڑی کو چلانے کی اجازت نہیں ہے۔
ہمارے ہاں صرف بڑے بڑے صنعت کاروں، جاگیرداروں یا اراکین پارلیمینٹ کے پاس پائی جانے والی گاڑیاں وہاں عام گلی محلوں میں کھڑی نظر آتی ہیں۔ وہاں آئی فون کے جدید ترین ماڈل عام شہریوں کے پا س موجود ہیں۔ آئی فون کی اس قدر بہتات ہے کہ سی آر آئی میں صفائی پر مامور عملے کے پاس بھی آئی فونز ہیں۔ ایک اور مشاہدہ ہوا کہ چین میں عمومی طورپر تنخواہیں کم ہیں۔ وہاں ایوریج تنخواہ تین یا چار ہزار یوان کے قریب ہے ۔مگر اس قلیل تنخواہ کے باوجود عام چینی شہری سیاحت کے لیے چین سے باہر کا رخ کرتا ہے۔وہاں کے شہری چھٹیاں منانے جاپان، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا، ملائیشیا وغیرہ جاتے ہیں۔یہ ملک تو ان کے لیے ایسے ہیں جیسے کوئی پاکستان میں لاہورمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جائے۔ اس کے علاوہ چینی شہری امریکہ، یورپی ممالک، آسڑیلیا بھی چھٹیاں منانے جاتے ہیں۔ اور یہ چھٹیاں شاید ہفتہ یا دس دن ہوتی ہیں۔ بہت سے چینی طلباء امریکہ اور یورپ کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔
معاشی خوشحالی کے ساتھ ساتھ اس سے وابستہ کچھ قباحتیں بھی چینی معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔جن میں معاشی بد عنوانی اور اختیارات کاناجائز استعمال اہم ہیں۔ جس کی روک تھام کے لئے چینی صدر شی جن پھنگ کی جانب سے سخت اقدامات کئے گئے ہیں۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے انھوں نے کرپشن میں ملوث تمام اعلیٰ اہلکاروں،سول سرونٹس، اعلی فوجی عہدیداروں ، پارٹی رہنماؤ ں کے خلاف بلا تخصیص کاروائی کی ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے Tigers and Flies کے خلاف کاروائی کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ Tigers سے مراد اعلیٰ سطح کے انتظامی عہدیدار اور Flies سے مراد نچلے درجے کے اہلکار ہیں۔ کرپشن کے خلاف کاروائی کے لیے پہلے ہی کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی ایک باڈی
Central Commission for Discipline Inspection (CCDI) کے نام سے موجود تھی۔ جوکہ کسی بھی قسم کی شکایت کی صورت میں کاروائی کیاکرتی تھی۔مگر صدر شی جن پھنگ نے کرپشن کے خاتمے کے لیے ایک نیا ادارہThe National Supervision Commission (NSC) قائم کردیا۔ یہ State Supervisory Commission کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔اس ادارے کو کرپشن کے خاتمے کے لیے کئی طرح کے اختیارات دیے گئے ہیں۔ صدر شی کے احکامات پر ملک بھر میں کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جارہا ہے۔ ان میں Zhou Yongkang جو کہ سیکرٹری آف سینٹرل پولیٹیکل اینڈ لیگل کمیشن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ آئل سیکٹر کے انچارج اور Sichuan صوبے کے پارٹی چیف رہے ہیں۔ Sun Zhengcai ، سیکرٹری کمیونسٹ پارٹی چھنگ چھنگ، Yu Caihou وائس چیئر مین سنٹرل ملٹری کمیشن ، Guo Boxiong اور Ling Jihua ڈائریکٹر آف دی جنرل آفس دی سی پی سی جیسے سینیئر اہلکار شامل ہیں۔ ان اعلی سطحی آفیشلز کے علاوہ بھی چین بھر میں کئی اہلکاروں کے خلاف کاروائیاں ہوئیں۔
کرپشن کے خلاف کاروائی کر کے چین کے صدر چین کی معاشی ترقی کے تسلسل کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ چین نے دنیا میں سوشلسٹ مارکیٹ اکانومی کے تصور کو متعارف کروایا ہے۔
چین کے صدر شی جن پھنگ کے دو خواب ہیں ۔ ان کو "Two 100" کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ہے کہ دو ہزار اکیس میں کمیونسٹ پارٹی کے قیام کو سو سال پورے ہو جائیں گے۔صدر شی کا خواب ہے کہ دو ہزار اکیس تک چین ایک درمیانے درجے کا خوشحال ملک بن جائے ۔دو ہزار انچاس میں چین کے قیام کو سو سال پورے ہو جائیں گے۔اس موقع پر وہ چین کو ایک جدید اور مکمل خوشحال ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ (جاری ہے)
محمد کریم احمد
سابق فارن ایکسپرٹ، چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل ، اردو سروس بیجنگ
ہمارا ذریعہ معاش ہمیں چین لے آیا۔ یہاں آنے سے پہلے اس شش و پنج میں مبتلا تھے کہ وہاں تو کیمونسٹ نظامِ حکومت ہے اور ہم ٹھہرے سرمایہ دارانہ نظام کے امین ملک کے شہری۔ کیسے نبھے گی ہماری۔ اس گو مگو کی حالت میں ہم چین پہنچے لیکن جیسے جیسے ہم پر چین آشکار ہوتا گیا ویسے ویسے ہم ان کی اختراعات کے گرویدہ ہوتے چلے گئے۔ کمیونسٹ نظام حکومت کے متعلق سنی اور پڑھی باتوں نے ہمارا جو ذہن بنایا تھا وقت کے ساتھ ساتھ وہ سب باتیں تحلیل ہوتی گئیں اور ہم اس بات کے قائل ہوگئے کہ وہی قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں جو حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنے نظام کو ڈھالتی ہیں اور ان میں اصلاحات کرتی ہیں۔ اور چین اس کی بڑی روشن مثال ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے بر عکس کمیونزم یا سوشلزم میں معیشت پر مکمل حکومتی اختیار ہوتا ہے۔ نجی ملکیت اور کاروبارکا کوئی تصور نہیں۔انیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام کے محاسن وعیوب کے حوالے سے علمی و ادبی حلقوں میں بہت بحث ہوا کرتی تھی۔اس وقت روس اور امریکہ میں سرد جنگ عروج پر تھی اور دونوں ممالک اپنے اپنے حامیوںکی ہر طرح مدد کیا کرتے تھے۔ پاکستان میںتو کمیونسٹوں کو ُسرخے بھی کہا جاتا تھا۔دونوں ممالک کی مسابقت و مخاصمت کے اسی دور میں بہت سے پاکستانی نوجوان سرکاری خرچ پر روس گئے ، وہاں قیام بھی کیا اور پڑھائی بھی کی۔کچھ وہیں رہے اور کچھ لوٹ آئے۔روس اس دور میں کمیونسٹ بلاک کا بلا شرکت غیرے رہبرو رہنما تھااو ر دنیا بھر میں کمیونسٹ فلسفے یا اشتراکی تحاریک کی مدد و حمایت کیا کرتا تھا۔
یہ وہ وقت تھا جب چین میں بھی کمیونسٹ پارٹی اقتدار کے حصول کے لیے جدوجہد کررہی تھی۔اس کو بھی روس کی اعانت حاصل رہی ہے۔ انیس سو انچاس میں جب عوامی جمہوریہ چین کا قیام ہوا تو کمیونسٹ پارٹی نے کاروبار مملکت و ریاست کو چلانے کے لیے اشتراکی فلسفے کو ہی بنیادی اہمیت دی۔چین کے قیام کے وقت کمیونسٹ پارٹی کی لیڈرشپ کا مقصد ایک جدید، طاقتور، موثر، سوشلسٹ قوم بنانا تھا۔اور اس مقصد کے حصول کو اگر معاشی نکتہ نظر سے دیکھا جاتا تو پھر چین کو صنعت کاری، شہریوں کے معیار ِزندگی میں بہتری، آمدنی میں فرق کو کم کرنا اور جدید اسلحہ سازی کو فروغ دینا تھا۔چین کے قیام کے بعد چونکہ اشتراکی فلسفہ کلیدی قرارپایا تو اس لیے چین میں چین کی آزادی سے پہلے موجود تمام سرمایہ دارانہ کمپنیوں اور اداروں کو قومیا لیا گیا تھا۔
انیس سوپچاس سے انیس سو اٹھتر تک چین کا معاشی نظام ایک بینک People's Bank of Chinaتک ہی محدود رہا۔ یہ بینک مرکزی حکومت کے تحت اور وزارت خزانہ کی نگرانی میںکام کرتا تھا۔یہی بینک سنٹرل بینک اور کمرشل بینک کے طور پر کام کر رہا تھا۔ ماؤ زے تنگ جب تک حیات تھے تو اس وقت تک چین روایتی اشتراکی فلسفے کی سختی سے پیرو ی کرتا رہا۔نجی ملکیت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ معاشی سرگرمیوں او ر زرعی پیداوار پر مکمل طور پر حکومت کا کنٹرول تھا۔
شہریوں کو ایک منصوبہ بندی کے ساتھ اشیائے صرف اور دیگرضروری اشیاء ملا کرتی تھیں۔معیشت کے اس اشتراکی بندوبست کے تحت چین کو زرعی پیداوار میں کمی اور قحط کی صورت حال کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ مگر اب صورتحال بالکل بدل چُکی ہے۔کہاں وہ دور کہ شہریوں پر خوراک و لباس کے معاملات میں راشن بندی یا کوٹے کی پابندی تھی کہاں یہ دورکہ جا بجا ہوٹلز، ریستوران ، غیر ملکی فوڈ آوٹ لیٹس، اور لباس کی نت نئی تراش خراش اور چینی مرد و زن جدید فیشن کے پہناوے پہنے گھومتے نظر آئے۔ یہ کایا کیسے پلٹی ؟۔ اس کی داستان ہمیں سی آر آئی اردو سروس کے سینئر ساتھی اور چین کی تاریخ سے واقف لیو شیاؤ ہوئی نے ایک روز سی آر آئی کے کیفے ٹیریا میں بیٹھ کرسنائی ۔ انہوں نے بتایا کہ ا نیس سو اٹھتر میں چین میں اصلاحات کا عمل شروع ہوا۔
اس اصلاحاتی عمل کے قائد تنگ شیاؤ پھنگ(Deng Xiaoping) تھے۔انہوں نے چین کی اس وقت کی اشتراکی مارکیٹ میں مارکیٹ پرنسپل (Market Principle) متعارف کروا دیا۔انیس سو ستر کے اواخر اور اسی کی دہائی کی ابتداء میں اصلاحات کا پہلا مرحلہ شروع ہوا۔اس مرحلے میں زرعی شعبے، غیر ملکی سرمایہ کاری اور کاروبار شروع کرنے کے لیے درکار اجازت کے حوالے سے اصلاحاتی عمل شروع کیا گیا۔مگر اس پہلے مرحلے میں زیادہ ترصنعت حکومت کے زیر تصرف رہی۔دوسرا مرحلہ انیس سو اسی کے اواخر اورانیس سو نوے کے اوائل میں شروع میں ہوا۔ اس دوران نجکاری کا فروغ، ریاستی ملکیتی اداروں کو کنڑیکٹ پر دینے اورپرائس کنڑول کو ختم کیا گیا ۔ نئی پالیسیاں اور قوانین بنائے گئے اور نجی سیکٹر میں اضافہ ہوا۔ اس سے غربت کا خاتمہ اور آمدنی میں اضافہ ہوا۔
لیو شیاؤ ہوئی اس روز بڑے خوشگوار موڈ میں تھے اور چائے پیتے ہوئے انہوں نے اپنے ملک کی ترقی کے سفر کو بڑے فخر اور خوشی کے ساتھ بتایا۔ چائے پیتے ہوئے وہ رکے، کیفے ٹیریا کے درو دیوار پر ایک نگاہ ڈالی ، کیفے ٹیر یا میں موجود نوجوان چینیوں کی وضع قطع، لباس، اندازِ گفتگو سے عیاں خوشحالی کی جانب میری توجہ دلائی اور پھر سے سلسلہ تکلم جوڑا۔ انہوں نے کہا کہ زرعی شعبے میں اصلاحات کا عمل انیس سوا ٹھتر سے انیس سو چوراسی تک ہوا۔ اس میں سب سے پہلے ہاؤ س ہولڈ ریسپانسبلٹی سسٹم Household Responsibility Systemکا آغاز کیا گیا۔ Household Responsibility System کی شروعات کاسلسلہ بھی دلچسپ ہے۔ چین میں زمین کی نجی ملکیت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہی نظام زراعت میں بھی لاگو تھا۔ جہاں کسان اجتماعی طور پر کاشت کاری کیا کرتے تھے۔
نامناسب زرعی پالیسیوں اور حکومتی عدم توجہی کے باعث چین کو انیس سو پچاس کے اواخر اور انیس سو ساٹھ کے آغاز میں زرعی شعبے میں شدید مشکلات اور قحط کا سامنا کرنا پڑا۔اس صورتحال میں چین کے علاقے Chengdu کے ایک گاؤں کے مکینوں نے انیس سو ساٹھ کے شروع میں حکومتِ وقت کی پالیسی کے خلاف جانے کا فیصلہ کیا اور انہوں نے اجتماعی کاشتکاری People's Communesکے بجائے Household Farming شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔کمیون کی زمین کو ہر فیملی میں برابر برابر تقسیم کر دیا گیا اور ہرفیملی اپنے حصے میں آنے والی زمین کو کاشت کرنے کی ذمہ دار تھی اورجب فصل تیار ہو جاتی تو ہر فیملی اپنے حصے کا ریاستی کوٹہ دینے کی پابند تھی۔
اس سسٹم میں جو فائدہ تھا وہ یہ تھا کہ ریاستی کوٹہ دے دینے کے بعد جو فصل بچ جاتی وہ اس فیملی کی ہوتی جو اسے مارکیٹ میں فروخت کر کے زیادہ پیسے کما سکتی تھی۔ اس سسٹم کی اطلاع بیجنگ کی مرکزی حکومت تک انیس سو باسٹھ میں پہنچ گئی۔حکومت نے فوری طور پر اس کے خاتمے کی ہدایات دیں اور پرانا نظام جاری رکھنے کو کہا ۔گاؤں کے لوگوں نے حکومتی فیصلے کو تسلیم کرلیا۔بعد میں یہی نظام انیس سو ستر کے اواخر میں دوبارہ اُبھرا۔ جب اسHousehold Farming سسٹم کی اطلاع تنگ شیاؤ پھنگ تک پہنچی تھی تو انہوں نے اس میں بڑی دلچسپی لی تھی۔تنگ شیاؤ پھنگ کے قریبی ساتھیوں نے انہوئی Anhui اور سیچوان ( (Sichuan میںg Household Farminکے آزمائشی تجربات کیے۔جب تنگ شیاؤ پھنگ نے اصلاحات کا عمل شروع کیا تو انہوں نے انیس سو اناسی میں پارٹی کے کچھ رہنماؤ ں کی مخالفت کے باوجود اسg Household Farminکو پورے چین میں نافذکر دیا۔ انہوں نے صوبائی رہنماؤں کو اپنی اپنی حدود میں اس سسٹم کو شروع کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں۔ اگرچہ زمین اب بھی ریاست کی ملکیت ہی تھی مگر خاندانوں کو کاشت کاری کے لیے پندرہ سال کی لیز پر زمین دے دی گئی۔
انہیں ریاستی کوٹہ پورا کرنا تھا۔ اضافی فصل ان کی ہو جانی تھی۔ بعد ازاں لیز کی مدت میں اضافہ کردیا گیا اور انیس سو ترانوے میں اس کی مدت پندرہ سال سے بڑھا کر بیس سال کر دی گئی۔ دو ہزار تین میں اس کو بڑھا کر تیس سال کردیا گیا۔Household Responsibility Systemنے بہت تیزی سے فروغ پایا۔انیس سو چوراسی تک چوبیس ملین گھرانے اس سسٹم میں شامل ہو گئے۔ایک دہائی میں ہی کسانوں کی آمدنی محض 47 ڈالر سے بڑھ کر105 ڈالر تک پہنچ گئی۔اسی کی دہائی میں زرعی پیداوار میں سالانہ پانچ فیصد اضافہ ہوا۔اس کے ساتھ ساتھ مخصوص زرعی پیداوار کی بھی شروعات ہوئی۔ نقد آور فصلوں Cash Crops اور لائیو سٹاک بھی اسی دہائی میں شروع ہوئی۔اس سسٹم نے کسانوں کی مالی حالت کو بدل کر رکھ دیا۔یہ سسٹم روایتی سخت اشتراکی نظریے کی بجائے زیادہ آزادانہ تھا ۔
اس کواپنانے سے چین کی ترقی کے دور کا آغاز ہوا ۔ لیو شیاؤ ہوئی کی اس روز گفتگو سے چین کی ترقی کے شروعاتی سفر کا علم ہوا تو زراعت کے علاوہ دیگر شعبوں میںچین کی ترقی اور اصلاحاتی عمل کو جاننے کا شوق پیدا ہوا۔ اس شوق کی تکمیل ہوئی بھی تو ایک ہوٹل میں۔ ایک چھٹی والے روز ایک پاکستانی ہوٹل کارخ کیا وہاں کئی پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی جووہاں پیٹ پوجا کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثر طالب علم تھے جو بیجنگ اور چین کی مختلف جامعات میں زیر تعلیم تھے۔ انہی میں سے ایک نوجوان عبدالعزیز تھے جوکہ بیجنگ کے قریب واقع شہر تیانجن سے آئے تھے۔
جہاں وہ بزنس اور معاشیات کے طالب علم تھے۔ عبدالعزیز کے آباؤ اجداد کا تعلق سوات سے تھا مگر وہ ایک طویل عرصے سے خاندان سمیت کراچی میں مقیم تھے۔ ان سے اس وقت اور بعدازاں بھی بات چیت ہوتی رہی۔ انہوں نے بتایاکہ انہیں دوران تعلیم چین میں معیشت کے بندوبست میں بتدریج آنے والی تبدیلی کے متعلق بھی پڑھنے کا موقع ملا ہے۔انہوں نے چین میں نجی کاروبار اور نجکاری کے عمل کے بارے میں بتایاکہ زرعی شعبے میں ہونے والی اصلاحات سے انیس سو پچھتّر اور پچاسی کے درمیان معیشت کے دوسرے شعبوں کی نجکاری کی راہ ہموار ہوئی۔اس کے ساتھ ساتھ پیداوار کی بڑھوتری کے لیے اربن انڈسٹر ی میں Double Pricing دہری قیمت سسٹم لا گو کیا گیا۔
ریاستی ملکیت میں کام کرنے والے اداروں کو اپنی پیداوار Planned Quotaسے بڑھ کر بیچنے کی اجازت دی گئی۔ اور تیار مصنوعات کو Planned اور مارکیٹ پرائس Market Price کے تحت فروخت کیا گیا تا کہ شہریوں کو اشیاء کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انیس سو اسی ہی میں Industrial Responsibility System شروع ہوا۔ اس نظام کے تحت ریاستی ملکیت میں کاروبار کرنے والے کاروباری اداروں میں بہتری آئی۔ افراد یا گروپس کو کاروبار کو کنڑیکٹ پر لینے کی اجازت دی گئی۔اور پہلی مرتبہ نجی کاروبارکی بھی اجازت دی گئی۔قیمتوں میں لچک بڑھ گئی اور اس سے Service Sector (خدمات کا شعبہ) میں اضافہ ہوا۔ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا آغاز ہوا۔ خصوصی اکنامک زونز قائم کیے گئے۔
یہی زون چین کی معیشت میں ترقی کا انجن ثابت ہوئے ۔ انیس سو چوراسی سے لیکر انیس سو ترانوے تک کے عرصے میں نجی کاروبار پر حکومتی اختیار اور مداخلت کم ہونا شروع ہوئی۔ محدو د پیمانے پر ریاستی سرپرستی میں چلنے والے کاروبار کی نجکاری کا عمل شروع ہوا۔ ان اصلاحات سے قابل قدر ترقی ہوئی۔ ریاستی کنٹرول کو ڈی سنٹرلائز کر دیا گیا۔ معیشت کے فروغ اور ریاستی اداروں کی نجکاری کو صوبائی رہنماؤ ں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا۔ٹاؤن شپ اور ویلج انٹر پرائزز Township and Village Enterprises (جس میں مقامی گھریلو سطح کی صنعت کو ترقی دی گئی ) نے آہستہ آہستہ مارکیٹ شیئر لینا شروع کر دیا۔انیس سو ترانوے سے دو ہزار پانچ تک کے عرصے میں بڑے پیمانے پر نجکاری کاعمل شروع ہوا۔ اس عرصے میں ریاستی ملکیت میں چلنے والے اداروں کی تعداد میں 48% کمی ہوئی۔اسی دور میں محصولات، تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا گیا اور غیر ضروری ضوابط کو بھی ختم کر دیا گیا۔ بینکنگ سسٹم میں بھی اصلاحات لائی گئیں۔ اسی دور میں چین نے WTO میں شمولیت اختیار کر لی۔ان اصلاحات کے نتیجے میں چین کی ترقی میں بے حد اضافہ ہوا۔
چین کی ترقی کی داستان کا ایک حصہ ہمیں چین کی چھنگ چھنگ یونیورسٹی Chongqing University کے سکول آف اکنامکس اینڈ بزنس ایڈمنسٹریشن سے وابستہ لاہور سے تعلق رکھنے والے پی ایچ ڈی سکالر اویس علی نے بھی سنایا ۔ ان سے ہماری ملاقات ریڈیو کے ایک پروگرام کے سلسلے میں ہوئی ۔ بے حد شائستہ اور نرم لہجے میں گفتگو کرنے والے اویس علی معیشت کے اسرار و رموز سے مکمل واقفیت رکھتے ہیں ۔ سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر وابستہ اویس علی سے گفتگو ہوئی تو وہ ادب و تاریخ کے دلدادہ نکلے۔ اعداد وشمار کے گورکھ دھندے میں اُلجھے شخص کی ادب شناسی پر خوشگوار حیرت ہوئی۔ اویس علی نے بتایا کہ چین کی معیشت کی ساخت کو بدلنے میں بنیادی کردار اصلاحاتی عمل کے دوران 80 کی دہائی میںخصوصی اقتصادی زونز کا قیام تھا۔ چین کے رہنما تنگ شیاؤ پھنگ نے ان زونز کے قیام کی منظوری دی ۔ کہا جاتا ہے کہ چین کے موجودہ صدر شی جن پھنگ کے والد Xi Zhongxun نے بھی ان اقتصادی زونز کے قیام کی حمایت کی تھی۔ابتداء میں چار اکنامک زونز بنائے گئے۔ یہ زونز Shantou, Xiamen, Zhuhai, and Shenzhen. میں بنائے گئے۔یہ چاروں زونز صوبہ فوجیان Fujian اور گوان تنگ Guangdong میں واقع تھے اور ان کے مقامات کا تعین بہت سوچ سمجھ کر اور ایک حکمت عملی کے تحت کیا گیا تھا۔ یہ مکاؤ اور ہانگ کانگ جیسے خوشحا ل علاقوں اور چین کے علاقے تائیوان کے قریب تھے۔
(Shantouاور Xiamen,چین کے علاقے تائیوان کے قریب تھے۔جبکہ Zhuhai مکاؤ اورShenzhen ہانگ کانگ کے قریب تھے)ان مقامات کا انتخاب اس اُمید کے ساتھ ہوا تھا کہ قریب ہی واقع علاقوں میں ہونے والی سرمایہ کاری ان خصوصی اقتصادی زونز کا بھی رخ کرے گی۔ چینی حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اس جانب راغب کرنے کے لیے بہت سی مراعات دیں۔ان کو ٹیکسز میں کمی اور چھوٹ دی گئی۔ ابتداء میں یہ عام سے ماہی گیری کے لیے مشہور قصبے تھے۔حکومت نے یہاں انفراسٹرکچر کو بہتر کیا۔ سڑکوں کی تعمیر کی، سیوریج سسٹم اور ٹرانسپورٹ کے نظا م کو بہتر کیا۔رہائشی عمارات، حکومتی دفاتر اور تجارتی عمارات کو بنایا گیا۔ان سب تعمیراتی ڈھانچے پر ایک کثیر رقم صرف ہوئی۔راقم کو Shenzhen دیکھنے اور اس شہر میں چند روز گزارنے کا دو مرتبہ اتفاق ہوا ہے۔
پہلی مرتبہ دو ہزار سات میں جب ہم انٹرنیشنل یو تھ فیسیٹول میں پاکستان کی نمائندگی کرنے آئے۔ ہم ساحل سمندر پر واقع ایک ہوٹل میں کم و بیش دس دن تک مقیم رہے۔ وہاں ہمارے ساتھ Shenzhen یونیورسٹی کے شعبہ انگلش میں پڑھنے والی ایک طالبہ Zoey بطور مترجم منسلک ہوئیں۔ جبکہ دوسرے مترجم Ellen بیجنگ سے آئے تھے۔دونوں نوجوان طالب علم تھے۔ان دونوں نے جتنی محنت ، لگن ، ذمہ داری ، توجہ سے اپنا کام کیا اس سے ہمیں اس وقت ہی چین کی ترقی کی وجہ کا اندازہ ہو گیا تھا۔ دو ہزار سترہ میں راقم کو ایک مرتبہ پھر اس شہر جانے کا موقع ملا تو کافی کوششوں کے بعد Zoey سے بھی رابطہ ہو گیا۔دو ہزار سات کی طالبہ دس سال بعد ایک ورکنگ وویمن اور دو بچوں کی ماں بن چکی تھیں اور بینکنگ سیکٹر سے وابستہ تھیں۔ان سے ملاقات دلچسپ رہی اور یقین نہ آیا کہ دس سال بعد دو مختلف ممالک کے شہریوں کے درمیان ملاقات ہو رہی ہے۔
Shenzhen ایک جدید صنعتی شہر ہے جہاں بیجنگ کے برعکس آپ کو سائن بورڈز چینی کے ساتھ ساتھ انگلش زبان میں بھی نظر آتے ہیں۔ یہ ہانگ کانگ کی قربت کا اثر ہے۔یہاں سے ہانگ کانگ کے لیے بسیں اور سمندر کے راستے فیر ی بھی چلتی ہے۔بعض بچے تو Shenzhen سے ہانگ کانگ پڑھنے کے لیے جاتے ہیں۔ اس شہر میں بہت سبزہ ہے۔یہاں موسم بیجنگ کے مقابلے میں قدرے گرم ہوتا ہے۔اس کو دیکھ کر قطعاً یہ احساس نہیں ہوتا کہ محض چا ر دہائیاں قبل یہ ماہی گیروں کی ایک بستی تھی۔اب یہ بلندو بالا اورکثیر المنزلہ عمارات پر مشتمل ایک جدید شہر ہے۔ ان زونز کے علاوہ انیس سو چوراسی میں مزید چودہ شہروں اور قصبوں کوسپیشل اکنامک زون بنایا گیا۔ان زونز کے علاوہ چین کے دریاؤ ں یانگزی ، مِن اور پرل کے ساتھ ساتھ کے علاقے کو اسپیشل ڈیولپمنٹ زونز بنایا گیا۔ نوے کی دہائی کے آغا ز میں شنگھائی میں تجارت اور اقتصادی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے Pudong New Area کا افتتاح کیا گیا۔
ماہرین کے مطابق چین میں تنگ شیاؤ پھنگ کی زیر قیادت اصلاحات سے چین کی ترقی میں اضافہ ہوا۔1987-2013 کے درمیان چین کی معیشت میں سالانہ اضافہ 9.5% سے 11.5% ہوا۔چین کا جی ڈی پی دس گنا بڑھ گیا۔زرعی شعبے میں اصلاحات سے پیداوار میں سالانہ اضافہ 8.2% ہوا ۔ اصلاحات سے قبل یہ شرح 2.7% تھی۔خوراک کی قیمتوں میں 50% کمی ہوئی۔سبزیوں، گوشت کی پیداوار اور زرعی آمدنی میں اضافہ ہوا۔ چین جو کسی دور میں قحط کا شکار تھا اس نے خوراک کو برآمد کرنا شروع کردیا۔
چین میں اصلاحات سے صنعتی شعبے کو ہونے والے فوائد سے ہمیں آگاہی ریڈیو کے ایک پروگرام کی تیاری کے دوران ہوئی۔ یہ پروگرام چین میں اصلاحات و کھلے پن کے چالیس سال مکمل ہونے کے حوالے سے تھا۔ اس پروگرام کی تیاری کے لیے دستیاب مواد کو پڑھنے سے معلوم ہوا کہ اصلاحات کے ثمرات صنعتی شعبے نے بھی سمیٹے۔ اصلاحات سے پہلے چین کی انڈسڑی میں جمو د کی سی صورتحال تھی۔ اصلاحات سے قبل معیار اور پیداوار میں اضافے کے لیے Incentive بہت کم تھے۔ رفتہ رفتہ نجی کاروبار سے بہتری آتی چلی گئی۔انیس سواٹھتر میں چین کی صنعت نہ ہونے کے برابر تھی مگراب چین سٹیل، پائپس ، ٹیکسٹائل، آٹو موبائل ، کنکریٹ، کمیونیکیشن، مصنوعی ذہانت، سمارٹ ایکوپمینٹ، الیکٹریکل مصنوعات اور کنزیو آئٹمز وغیرہ میں دنیا بھر میں سر فہرست ہے۔انیس سو اسی میں انڈسڑیل فرمز کی تعداد 3,77,300 تھی جبکہ نوے کی دہائی میں یہ تعداد آٹھ ملین تک پہنچ گئی تھی۔ چین میں دو ہزار چار کے Economic Census کے مطابق 1.33 ملین مینو فیکچرنگ فرمز تھیں۔
اس Census میں پانچ ملین سالانہ سے کم سیل والی فرمز شامل نہیں تھیں۔ ٹریڈ اینڈ فارن انویسٹمینٹ میں بھی بہت سی سہولیات دی گئیں۔ ٹیرف کو 56% سے کم کر کے 15% کر دیا گیا۔دو ہزار ایک تک صرف 9% درآمدات کے لیے لائسنس اور درآمدی کوٹا درکار تھا۔ بینکنگ، انشورنس، ٹیلی کمیونیکیشنز سیکٹر میں بیرونی سرمایہ کاری کی اجازت دے دی گئی۔انیس سو نوے میں فنانشل سیکٹر کو بھی اوپن کر دیا گیا اور اس شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دے دی گئی۔فنانشل سیکٹر کو اوپن کرنے سے چین میں انیس سو نوے میں شنگھائی سٹاک ایکسچینج بنی، انیس سو اکانوے میں Shenzhen سٹاک ایکسچینج قائم ہوئی اور انیس سو بانوے میں چائنہ سیکورٹی ریگولیڑی کمیشن بنا جوکہ ہمارے ہاں کے سٹاک ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی طرح کا ادارہ ہے۔انیس سو ترانوے میں چین نے کمپنی لاء Compny Law بنایا اور جولائی انیس سو چورانوے میں چین نے اس پر عملدرآمد شروع کیا۔چین میں جب اصلاحات کا عمل شروع ہوا تو یہ ہمہ گیر تھا۔جس شعبے میں اصلاحات کی گئیں تو اس سے منسلک یا متعلقہ اداروں میں بھی ضروری ترامیم کی گئیں۔ انیس سو نوے میں جب فنانشل سیکٹر کو اوپن کیا گیا اور بینکنگ سیکٹر میں بھی غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دی گئی تو چین کے بینکنگ سیکٹر میں بھی وسیع پیمانے پر اصلاحات ہوئیں۔
چین میں بینکنگ سیکٹر کی ترقی و پیش رفت ہمیں Zoey کی زبانی پتہ چلیں انہوں نے بینکنگ سیکٹر کے ارتقائی عمل کی بابت بتایا کہ انیس سو پچاس سے لیکر انیس سو اٹھتر تک چین میں ایک ہی بینک Peoples Bank of China تھا۔یہ سنٹرل بینک اور کمرشل بینک کے طور پر کام کرتا تھا۔ انیس سو ستر کے اواخر میں اس بینک کے کمرشل بینکنگ بزنس کو تین بڑے سرکاری بینکس میں تقسیم کر دیا گیا۔ Bank of China کو فارن ٹریڈ اور سرمایہ کاری کے امور سونپ دیے گئے۔ Peoples Construction Bank of China کی ذمہ داریاں فکسڈ انویسٹمینٹ کے حوالے سے ٹرانزکشن ہو گئیں۔Agricultural Bank of China کو دیہی علاقوں میں کاروبار ی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ اسی طرح کچھ بینکنگ امور Industrial and Commercial Bank of China اور The Bank of Communications میں بانٹ دیے گئے۔اب تو ان بینکس کے علاوہ کئی ریجنل بینک بھی چین میں سرگرم عمل ہیں۔اس کے علاوہ انیس سو چورانوے میں چینی حکومت نے مزید بینکس بنائے ۔ ان میں Agricultural Development Bank of China, China Development Bank, Export-Import Bank of China شامل ہیں۔ یہ پالیسی ساز بینک ہیں۔ ان میں کسی حد تک عوام کی ملکیت ہے۔ مگر ہیں یہ سرکاری بینک ۔
ہمیں چین کے بانی ماؤ زے تنگ کے ایک قریبی ساتھی اور چین کے ایک اہم رہنما چھن یون کی سوانح حیات کو چینی سے اردو زبان میں ترجمہ کرنے کا موقع ملا۔ اس کام میں اردو سروس کی آپریشنل سربراہ ای فینگ( طاہرہ) اور لیو شیاؤ ہوئی نے ہماری مدد کی۔ اس آب بیتی کے ترجمے سے معلو م ہوا کہ چین کا پہلا پنج سالہ منصوبہ چھن یون کی رہنمائی و سرپرستی میں بنایا گیا تھا اور اس کے لیے انہوں نے روس کا دورہ بھی کیا تھا۔ چین کا پہلا پنچ سالہ منصوبہ 1953-1957 تک تھا۔ یہ اولین منصوبہ تھا ۔ اس کے خدو خال سوویت یونین کے معاشی ماڈل کے مطابق تھے۔ اس منصوبہ بندی کے تحت 694 بڑے اور درمیانے درجے کے صنعتی پروجیکٹس لگائے جانے تھے جن میں سے 156 سوویت یونین کی مدد سے تکمیل پانے تھے۔اس پنج سالہ منصوبہ بندی کے تمام اہداف کامیابی سے مکمل کیے گئے۔595 بڑے اور درمیانے درجے کے صنعتی یونٹس کا قیام اور ان سے پیداواری عمل بھی شروع ہو گیا۔ دوسرے پنج سالہ منصوبہ بندی میں ہیوی انڈسٹری کو فروغ دیا گیا۔
انڈسٹری، زراعت، دست کاری، ٹرانسپورٹیشن، سائنسی ترقی، قومی دفاع کی مضبو طی اور شہریوں کے معیار زندگی کی بلندی اہداف میں شامل تھی۔ ہر پنج سالہ منصوبہ بندی میں نئے اہداف کا تعین کیا جاتا رہا اس وقت تیرھویں پنج سالہ منصوبے پر عملدر آمد جاری ہے۔ اس کے تحت متعین کردہ اہداف میںروایتی ہیوی انڈسٹری کی بجائے جدید انفراسٹرکچر ، اختراعات پر مبنی ترقی، شہروں اور دیہی علاقوں میں وسائل کے مناسب استعمال سے فرق کو کم کرنا، ماحولیاتی انڈسٹری کو فروغ دینا، ماحولیاتی آلودگی میں کمی ، زیادہ بین الاقوامی باہمی تعاون، چینی شہریوں کی معاشی ثمرات کی شیئرنگ کی حوصلہ افزائی، صحت کے حوالے سے تشکیل شدہ ہیلتھ ایکشن پلان پر عملدرآمد اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں درمیانے درجے کی خوشحال سوسائٹی کا قیام شامل ہے۔ اس کے علاوہ ( "Made in China 2025'چین ساختہ 2025 کے منصوبے پر بھی کام جاری ہے۔ اس کا نعرہ ہے "Everyone is an entrepreneur, creativity of the masses" ۔ اس کے علاوہ خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے قوانین میں ترمیم کی گئی ہے۔ اب ایک بچے کی بجائے دو کی اجازت دے دی گئی ہے۔
چین کی معاشی خوشحالی کا یہ عالم ہے کہ بیجنگ میں نت نئے ماڈلز کی کاریںسڑکو ں پر رواں دواں نظر آتی ہیں۔ ٹریفک کو کنڑول کرنے کے لیے طاق اورجفت نمبرز کا نظام لاگو ہے۔ا س کے تحت ہفتے میں بعض دنوں میں طاق رجسٹریشن نمبر کی حامل گاڑیوں اور بعض مر تبہ جفت نمبرز کی گاڑیوں کو سڑکوں پر آنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ لوگوں نے دو دو یا اس سے بھی زیادہ گاڑیاں رکھی ہوئی ہیں۔ بیجنگ میں دس سال سے زائد پرانی گاڑی کو چلانے کی اجازت نہیں ہے۔
ہمارے ہاں صرف بڑے بڑے صنعت کاروں، جاگیرداروں یا اراکین پارلیمینٹ کے پاس پائی جانے والی گاڑیاں وہاں عام گلی محلوں میں کھڑی نظر آتی ہیں۔ وہاں آئی فون کے جدید ترین ماڈل عام شہریوں کے پا س موجود ہیں۔ آئی فون کی اس قدر بہتات ہے کہ سی آر آئی میں صفائی پر مامور عملے کے پاس بھی آئی فونز ہیں۔ ایک اور مشاہدہ ہوا کہ چین میں عمومی طورپر تنخواہیں کم ہیں۔ وہاں ایوریج تنخواہ تین یا چار ہزار یوان کے قریب ہے ۔مگر اس قلیل تنخواہ کے باوجود عام چینی شہری سیاحت کے لیے چین سے باہر کا رخ کرتا ہے۔وہاں کے شہری چھٹیاں منانے جاپان، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا، ملائیشیا وغیرہ جاتے ہیں۔یہ ملک تو ان کے لیے ایسے ہیں جیسے کوئی پاکستان میں لاہورمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جائے۔ اس کے علاوہ چینی شہری امریکہ، یورپی ممالک، آسڑیلیا بھی چھٹیاں منانے جاتے ہیں۔ اور یہ چھٹیاں شاید ہفتہ یا دس دن ہوتی ہیں۔ بہت سے چینی طلباء امریکہ اور یورپ کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔
معاشی خوشحالی کے ساتھ ساتھ اس سے وابستہ کچھ قباحتیں بھی چینی معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔جن میں معاشی بد عنوانی اور اختیارات کاناجائز استعمال اہم ہیں۔ جس کی روک تھام کے لئے چینی صدر شی جن پھنگ کی جانب سے سخت اقدامات کئے گئے ہیں۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے انھوں نے کرپشن میں ملوث تمام اعلیٰ اہلکاروں،سول سرونٹس، اعلی فوجی عہدیداروں ، پارٹی رہنماؤ ں کے خلاف بلا تخصیص کاروائی کی ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے Tigers and Flies کے خلاف کاروائی کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ Tigers سے مراد اعلیٰ سطح کے انتظامی عہدیدار اور Flies سے مراد نچلے درجے کے اہلکار ہیں۔ کرپشن کے خلاف کاروائی کے لیے پہلے ہی کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی ایک باڈی
Central Commission for Discipline Inspection (CCDI) کے نام سے موجود تھی۔ جوکہ کسی بھی قسم کی شکایت کی صورت میں کاروائی کیاکرتی تھی۔مگر صدر شی جن پھنگ نے کرپشن کے خاتمے کے لیے ایک نیا ادارہThe National Supervision Commission (NSC) قائم کردیا۔ یہ State Supervisory Commission کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔اس ادارے کو کرپشن کے خاتمے کے لیے کئی طرح کے اختیارات دیے گئے ہیں۔ صدر شی کے احکامات پر ملک بھر میں کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جارہا ہے۔ ان میں Zhou Yongkang جو کہ سیکرٹری آف سینٹرل پولیٹیکل اینڈ لیگل کمیشن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ آئل سیکٹر کے انچارج اور Sichuan صوبے کے پارٹی چیف رہے ہیں۔ Sun Zhengcai ، سیکرٹری کمیونسٹ پارٹی چھنگ چھنگ، Yu Caihou وائس چیئر مین سنٹرل ملٹری کمیشن ، Guo Boxiong اور Ling Jihua ڈائریکٹر آف دی جنرل آفس دی سی پی سی جیسے سینیئر اہلکار شامل ہیں۔ ان اعلی سطحی آفیشلز کے علاوہ بھی چین بھر میں کئی اہلکاروں کے خلاف کاروائیاں ہوئیں۔
کرپشن کے خلاف کاروائی کر کے چین کے صدر چین کی معاشی ترقی کے تسلسل کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ چین نے دنیا میں سوشلسٹ مارکیٹ اکانومی کے تصور کو متعارف کروایا ہے۔
چین کے صدر شی جن پھنگ کے دو خواب ہیں ۔ ان کو "Two 100" کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ہے کہ دو ہزار اکیس میں کمیونسٹ پارٹی کے قیام کو سو سال پورے ہو جائیں گے۔صدر شی کا خواب ہے کہ دو ہزار اکیس تک چین ایک درمیانے درجے کا خوشحال ملک بن جائے ۔دو ہزار انچاس میں چین کے قیام کو سو سال پورے ہو جائیں گے۔اس موقع پر وہ چین کو ایک جدید اور مکمل خوشحال ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ (جاری ہے)
محمد کریم احمد
سابق فارن ایکسپرٹ، چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل ، اردو سروس بیجنگ