تعلیم پر بھی ٹیکس لگ گیا۔۔۔

سو فیصد شرح تعلیم میں اضافہ کا خواب چکنا چور ہونے کا خدشہ

جی ایس ٹی میں اضافہ سے کتابیں اور کاپیاں مہنگی، بچوں کی فیس کے ساتھ بھی ٹیکس دینا ہوگا۔ فوٹو: فائل

کیا آپ نے کبھی سوچا کہ تعلیم اور تعلم پر بھی ٹیکس لگ سکتا ہے؟

حال ہی میں قائم ہونے والی حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں جن بچوں کی سالانہ فیس 2 لاکھ روپے بنتی ہے نہ صرف ان کے والدین کو اس جرم کی پاداش میں ٹیکس دہندہ قرار دے دیا بلکہ ایسے تعلیمی اداروں پر بھی 5 فیصد ٹیکس عائد کردیا گیا ہے ۔ حکومت کے اس اقدام سے جہاں تعلیم مہنگی ہوگی وہیں تعلیمی اداروں کو بھی والدین کی کھال کھینچنے کے مواقع کھل کر میسر آئیں گے ۔ نجی تعلیمی ادارے تو پہلے ہی سفید پوش طبقے کی پہنچ سے دور ہیں مگر حکومت کے مذکورہ اقدام سے ٹیکس دینے کے عوض جہاں تعلیمی ادارے فیسوں میں اضافہ کریں گے وہیں غریب اور متوسط طبقے کیلئے بھی یقیناً یہ اقدام کسی دھچکے سے کم نہیں ہوگا۔ والدین اپنے بچے کی اچھی تعلیم اور ان کے روشن مستقبل کیلئے اپنا پیٹ کاٹ کر اس کے تعلیمی اخراجات اٹھاتے ہیں مگر جب انہیں سرمایہ دار گردانتے ہوئے اپنی جائز کمائی کا ''بھتہ'' حکومت کی جیب میں ڈالنے کو کہا جائے تو یقیناً وہ ذہنی اذیت میں مبتلا ہوں گے۔ دوسری طرف جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے سے کاغذ مہنگا ہونے کے باعث کتابوں، کاپیوں اور تعلیمی ضروریات کی دیگر اشیاء کی قیمتوں پر بھی منفی اثر پڑا ہے۔

کیا یہ وہی ''معاشی دھماکہ'' ہے جس کا ذکر وزیراعظم نواز شریف گذشتہ 6 ماہ سے کررہے تھے ۔ تعلیم پر ٹیکس نواز حکومت کا ایک منفرد ''کارنامہ'' ہے۔ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر لوگ وہ ہیں جو پورا دن محنت مشقت اور اپنے بچوں پر سرمایہ کاری کرتے ہیں ۔ ان کی اچھی تعلیم کیلئے محنت کرکے پیسہ جمع کرتے ہیں ۔ دوسری جانب وہ نوجوان بھی ہے جو پوری رات کال سنٹر میں جاب کرتا ہے اور اپنی تعلیم کیلئے پیسہ جمع کرتا ہے ، اب اگر اسے اپنے بنیادی حق، تعلیم پر ٹیکس دینا پڑے گا تو یقیناً اس کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔

ملک میں تعلیمی شعبہ پہلے ہی پسماندگی اور بدحالی کا شکار ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار تو کسی ذکرکی محتاج نہیں۔ والدین کا اعتماد نجی تعلیمی ادارے تھے جہاں وہ مجبوری کے تحت ہزاروں روپے ماہانہ فیسیں ادا کرتے اور اپنے بچے کو معیاری تعلیم سے مستفید کررہے ہیں، مگر وفاقی حکومت کے فیصلے نے انہیں مایوسی کی جانب دھکیلنے، ان کی توقعات کا خون کرنے اور تعلیمی شعبے کی بدحالی میں اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جس کا اثر یقیناً شرح خواندگی پر بھی پڑے گا۔ ملک کا تعلیمی معیار اس نہج پر ہے کہ کروڑوں بچے وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے سکولوں سے باہر ہیں ۔ ان حالات میں ملک بھر میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کی اشد ضرورت تھی مگر اس کا احساس صرف صوبہ خیبرپختونخواہ کی حکومت نے کیا، جہاں حکومت نے ہنگامی حالت نافذ کرکے تعلیم کو ترجیح اول میں رکھا اور تعلیمی ضروریات کی اشیاء سمیت ہر شے کو ٹیکس فری کیا۔ وفاقی حکومت کے حالیہ فیصلے سے نہ صرف والدین تشویش میں مبتلا ہیں بلکہ پاکستان میں تعلیم کا مستقبل بھی مخدوش ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔


اس تمام منظرنامے میں یہ امر انتہائی حوصلہ افزاء ہے کہ وفاق کی نسبت صوبوں نے تعلیمی پسماندگی سے نمٹنے کیلئے اپنا کردار بخوبی ادا کرنے کی کوشش کی ہے اور تعلیم کو ترجیحات اول میں رکھتے ہوئے اپنے بجٹ کے کُل حجم کا تقریباً 20سے25فیصد حصہ تعلیم کیلئے مختص کیا ہے۔ ان رقوم سے صوبوں میں تعلیمی ترقی کیلئے کام کرنے اور جہالت کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔

ملک کی مجموعی تعلیمی صورتحال پر اگر نظر ڈالی جائے تو تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان کا لٹریسی ریٹ 41، سندھ کا 59، کے پی کے کا 50 اور پنجاب کا 60 فیصد ہے۔ ایک سروے کے مطابق اس وقت پورے ملک کے تعلیمی اداروں کی مجموعی تعداد 216,490 ہے جن میں سے بلوچستان میں 10381، پنجاب 106,435، سندھ 46,862 اور خیبرپختونخوا میں 36,029 تعلیمی ادارے ہیں۔ یوں پنجاب میں 48 فیصد ، سندھ میں 22 اور سرحد میں 17 فیصد تعلیمی ادارے ہیں جبکہ بلوچستان میں تعلیمی اداروں کی شرح صرف 5 فیصد بنتی ہے۔

ان حالات میں جس طرح کے پی کے نے تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ کیا ہے، سندھ اور بلوچستان میں بھی ہنگامی حالت نافذ کرنے کی اشد ضرورت تھی، مگر شاید ہمارے سیاستدان یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ محض بجٹ میں مختلف تعلیمی ترقیاتی سکیموں کا اعلان کرکے ان کا فرض پورا ہوگیا، اب باقی کام مقامی قیادتوں کا ہے تو وہ غلطی پر ہیں۔ تعلیم مجموعی طور پر ایک قومی مسئلہ ہے، اگر وفاق یہ معاملہ صوبوں پر پھینک کر خود کو بری الذمہ کرنے کے بجائے اپنے تئیں پورے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرتا تو نتائج مختلف ہوتے۔

شرح خواندگی میں اضافے کے لئے صوبوں کا تعلیم کو بجٹ میں اہمیت دینا اور اس کے فروغ کیلئے اقدامات کرنا بلاشبہ تسلی بخش کہا قرار دیا جا سکتا ہے مگر ماضی کے حالات و واقعات اور ارباب اختیار کے مجموعی رویوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب بھی بجٹ میں پیش کئے گئے اعداد و شمار حسب سابق محض پیپر ورک تک ہی محدود رہیں گے یا ان پر عمل بھی ہوگا...؟؟؟
Load Next Story