جنہیں منسوب کیا اور چھوڑ دیا۔۔۔

منگنی کا طویل عرصے قائم رہ کر ٹوٹ جانا لڑکیوں کے لیے مسائل کا باعث ہے


Rizwan Tahir Mubeen July 07, 2013
منگنی کا طویل عرصے قائم رہ کر ٹوٹ جانا لڑکیوں کے لیے مسائل کا باعث ہے۔ فوٹو: فائل

رشتہ ازدواج سے منسلک ہونے سے قبل کسی بھی لڑکے اور لڑکی کی ایک نسبت طے کی جاتی ہے، جسے ''منگنی'' سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

منگنی کے تحت اگرچہ مذہبی اور قانونی طور پر ابھی لڑکے اور لڑکی کے درمیان کوئی رشتہ موجود نہیں ہوتا، لیکن معاشرتی سطح پر دونوں ایک دوسرے سے منسوب ہوتے ہیں اور ان کو مستقبل میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہونا ہوتا ہے۔ بعض جگہوں پر بچپن اور پیدایش کے وقت ہی یہ معاملات طے کر دیے جاتے ہیں اور جوں ہی لڑکا، لڑکی بڑے ہوتے ہیں، انہیں طے شدہ رشتے کے مطابق شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے۔ شہروں میں اگرچہ بچپن میں یہ معاملات طے نہیں کیے جاتے، لیکن نیا رشتہ طے کرنے سے شادی تک کی یہ رسم پختگی سے موجود چلی آرہی ہے۔ جس سے ایک طرف دونوں خاندانوں کو باقاعدہ رشتہ قائم کرنے سے قبل ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع مل جاتا ہے، دوسری طرف اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ اگر اس دورانیے کو غیر ضروری طور پر طول دیا جائے اور دونوں خاندانوں میں ہم آہنگی کے بجائے فاصلے بڑھنے لگیں، تو ایسی صورت میں اس کا انجام طے شدہ نسبت ختم کرنے پر ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ معاملہ شادی کے بعد علیحدگی کی صورت سے زیادہ تکلیف دہ نہیں، لیکن جب یہ نسبت اور منگنی ایک طویل عرصے تک برقرار رکھ کر ختم کی جائے تو یہ نہایت گمبھیر صورت حال ہو جاتی ہے۔

لڑکے والے، منگنی کے بعد محض کسی دوسرے رشتے کو پسند کر کے وہاں شادی کے خواہش مند ہونے پر بھی بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے پہلے ہی کسی کو اس رشتے کے لیے چُن رکھا ہے۔ ایسے میں وہ دوسری طرف کے جذبات کا احساس کیے بغیر بات ختم کر ڈالتے ہیں۔ اس رشتے کے خاتمے میں قصور دونوں طرف سے کسی کا بھی ہو، لڑکی سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے، کیوں کہ رشتہ طے ہونے کے بعد وہ عملاً ایک رشتے سے منسلک نہیں ہوتی، لیکن مکمل طور پر جڑ ضرور جاتی ہے۔ لڑکیوں کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے رشتے آنے کی ایک عمر ہوتی ہے، جس کے بعد یہ سلسلہ جاری نہیں رہتا۔ اگر ایسے میں چار، چار اور پانچ، پانچ سال بعد یہ منگنی توڑ دی جائے، تو اکثر لڑکیوں کی بڑھتی عمر بھی پھر ان کے نئے رشتے میں بہت زبردست طریقے سے حائل ہو جاتی ہے اور وہ نہ اِدھر کی رہتی ہیں اور نہ اُدھر کی۔ ایسی صورت میں لڑکی والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ معاملہ نہ بگڑے، لیکن دوسری طرف سے حالات ایسے پیدا کر دیے جاتے ہیں کہ بات ختم ہو جاتی ہے۔

کہیں لڑکی کی کسی عادت و اطوار کو جواز بنایا جاتا ہے تو کہیں دیگر شرائط کو وجہ بنا دیا جاتا ہے۔ منگنی کے بعد لڑکی والے چاہتے ہوئے بھی شادی کی بات نہیں کر پاتے، کہ اگر ایسا کریں، تو بعد میں لڑکی کو طعنے ملتے ہیں کہ تم تو اپنے گھر والوں پر بوجھ تھیں، اس لیے تمہارے گھر والوںکو تمہاری شادی کی اتنی جلدی ہو رہی تھی۔ اسی طرح لڑکے والوں کی طرف سے ہی شادی کی تاریخ دینے کے انتظار میں وقت گزرتا چلا جاتا ہے۔ ایسی ہی صورت حال سے دوچار ایک خاتون کی منگنی پانچ سال بعد تلخ انجام سے دو چار ہوئی۔ منگنی کے بعد لڑکے والے شادی کے معاملے پر برابر ٹال مٹول کرتے رہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت گزر جانے اور وہ لڑکی والوں سے اپنے مطالبات منوا سکیں۔

در اصل وہ لڑکی کی ہونے والی نند سے اس لڑکی کے بھائی کی شادی کرنا چاہتے تھے، اور اس پر لڑکی والوں کو کچھ تحفظات تھے، اس لیے لڑکے والوں نے سوچا کہ اتنے عرصے بعد وہ اس پوزیشن میں ہوں گے کہ اپنی بات منوا سکیں، کیوں کہ اس کے بعد لڑکی کی عمر بھی بڑھ جائے گی اور پھر لڑکی والے منگنی توڑنے جیسے انتہائی اقدام کرتے ہوئے دس بار سوچیں گے۔ یوں پانچ سال بیت گئے۔ لڑکی والوں نے ہمت کر کے شادی کے حوالے سے دریافت کیا، تو انہوں نے پھر وہی شرط سامنے رکھی کہ ہم اپنی بیٹی کو بھی ساتھ رخصت کرنا چاہتے ہیں، اس لیے اگر آپ اسے اپنی بہو بنائیں، تو ہم ابھی شادی کیے دیتے ہیں۔ دوسری طرف لڑکی والوں کے لیے ایسا ممکن نہ ہو سکا اور بالآخر انہیں واضح طور پر یہ کہنا پڑا کہ ہم نے اپنی بیٹی کی منگنی کی تھی، کوئی ''ادلے بدلے'' والی شرط نہیں رکھی تھی۔ اس لیے ہم ایسا نہیں کر سکیں گے۔ نتیجتاً یہ منگنی ختم کر دی گئی۔ اس تمام صورت حال میں لڑکی کی زندگی کے قیمتی پانچ برس نکل گئے۔ اگر لڑکے والے اپنی بیٹی کو بیاہنے کے لیے دوسری لڑکی کو بلیک میل کرنے کے بہ جائے، منگی کے وقت ہی بتا دیتے کہ ہمارا ارادہ ''ادلے بدلے'' کی شادی کا ہے، تاکہ کم سے کم لڑکی کی زندگی کے قیمتی ماہ و سال ضایع تو نہ ہوتے۔

رشتہ طے کرنے کے لیے پہلے ''منگنی'' کرنا نہایت مثبت رسم ہے، کیوں کہ اس دوران دو خاندانوں کو کسی حد تک ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع مل جاتا ہے، لیکن اگر اس رشتے کو اس طرح لڑکیوں کے استحصال کے لیے استعمال کیا جائے تو پھر یہ نہایت منفی اور گھنائونی رسم کی شکل اختیار کر جاتی ہے، کیوں کہ یہ ایک لڑکی کی زندگی پر نہایت گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ اس لیے کسی بھی لڑکی کی منگنی طے کرتے ہوئے ضروری ہے کہ شادی کا وقت بھی طے کر لیا جائے، تاکہ معینہ وقت میں شادی کے لیے گفت وشنید کی صورت بنے۔ ساتھ ہی یہ کوشش کی جائے کہ منگنی کے بعد سال بھر کے اندر باقاعدہ شادی کر دی جائے۔ ایک سال دو خاندانوں کا ایک دوسرے کو سمجھنے اور شادی کی تیاری کے لیے بہت ہوتا ہے۔

منگنی میں نکاح کا معاملہ

نسبت طے کرتے ہوئے بعض شہری علاقوں میں بھی یہ ریت بن گئی ہے کہ اس موقع پر ہی رشتہ پختہ کرنے کی خاطر نکاح کے ذریعے مذہبی بندھن بھی نتھی کر دیا جاتا ہے، لیکن رخصتی نہیں ہوتی۔ یوں وہ تقریباً میاں بیوی کے رشتے میں بندھ چکے ہوتے ہیں۔ نسبت طے کرنے کے اس طریقے سے اگرچہ منگنی کا رشتہ مذہبی طور پر اہمیت اختیار کر جاتا ہے، لیکن اس طریقے کا منفی پہلو یہ سامنے آ رہا ہے کہ اگر خدانہ خواستہ کسی وجہ سے منگنی ختم کرنا پڑ جائے تو ایسی صورت میں ''قبل از رخصتی طلاق'' واقع ہو جاتی ہے۔ یعنی پہلی صورت میں جتنا فایدہ اس رشتے کو پختگی کی صورت میں حاصل ہو رہا تھا، دوسری صورت میں وہی فایدہ کسی بھی لڑکی کے لیے شدید نقصان اور تکلیف دہ صورت حال میں بدل جاتا ہے۔

''طلاق'' ایک طرف مذہبی طور پر ناپسندیدہ امر ہے، جو نہایت مجبوری کی صورت میں ہی اختیار کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف منگنی میں نکاح کے بعد رشتہ ختم ہونے والی لڑکی معاشرے کی نظر میں بھی ''مطلقہ'' کہلانے لگتی ہے۔ ماہرین عمرانیات کے مطابق رشتہ طے ہونے کے ساتھ نکاح ہو جانا اور رخصتی نہ ہونا، بعض اوقات زیادہ غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے۔ اگر دُلہا، دلہن مکمل طور پر ازدواجی بندھن میں بندھ چکے ہوں، تو ایسی صورت میں وہ طلاق جیسا انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے بہت سوچ بچار کریں گے، لیکن اگر نکاح کے بعد دونوں خاندانوں کے درمیان صورت حال تلخ ہو تو دونوں طرف سے طلاق جیسا انتہائی قدم بہت آسانی سے اٹھا لیا جاتا ہے اور یوں ایک لڑکی کی زندگی شدید مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے، جو بعد میں اس کے نئے رشتے میں بھی رکاوٹ بنتی ہے اور بعض صورتوں میں زندگی بھر کے لیے ایک روگ بن جاتی ہے۔

نسبت ایک وعدہ ہے۔۔۔!

معاشرے میں منگنی کو صرف ایک سماجی بندھن اور ایک ہلکا سا تعلق سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، لیکن یہ بہت گہرا اخلاقی بندھن ہے، جس میں اسے بعض اوقات اہمیت نہیں دی جاتی۔ بالخصوص لڑکے والے اسے اپنا حق سمجھتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے رشتے کا پیغام بھیج کر یہ رشتہ قائم کیا ہے، اسی طرح وہ جب چاہیں کسی بھی بات کو جواز بنا کر یہ رشتہ ختم کر دیں۔ اخلاقی طور پر اس رشتے کی بہت بڑی حیثیت ہے، کہ آپ نے آنے والے وقت کے لیے کسی فرد کو زبان دے رکھی ہے اور اسے پابند کیا ہے کہ وہ آپ سے یہ رشتہ قائم کرے گا۔ اس لیے اگر اس رشتے کو طوالت دے کر اسے ختم کیا جائے، تو اخلاقیات کے دائرے میں یہ ایک بہت بڑا جرم ہے۔ دوسری طرف مذہبی نقطہ ٔ نگاہ سے یہ وعدہ خلافی کی بھی ایک شدید قسم ہے۔ ایسا کرنے کی صورت میں واضح طور پر وعدہ خلافی کا شدید ارتکاب ہوتا ہے۔ معاشرے میں اس کی سنگینی کا احساس کرنے کی ضرورت ہے۔ منگنی، اگرچہ کچے دھاگے سے بندھا ایک رشتہ ہے، لیکن اسے بغیر کسی بڑی وجہ کے ختم کر کے دوسرے خاندان کے جذبات کو ٹھیس اور لڑکی کی آنے والی زندگی کو نقصان پہچانا ایک نہایت گھنائونا عمل ہے، جو اخلاقی اور مذہبی طور پر قابل گرفت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں