سربیا میں ’’بچے سو بھی اچھے‘‘
اس وقت بھی سربیا میں شرح ولادت فی خاندان ایک اعشاریہ پانچ ہے، جو یورپ میں سب سے کم ہے۔
MUMBAI:
دنیا میں جہاں پاکستان سمیت بہت سے ممالک بڑھتی آبادی سے پریشان ہیںِ، وہیں ایسے ملک بھی ہیں جو گھٹتی آبادی سے خائف ہیں۔ ایسا ہی ایک دیس ہے سربیا۔
اس یورپی ملک میں تلاشِ معاش کے لیے نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر بیرون ملک ہجرت اور بچوں کی شرح پیدائش کم ہونے کے باعث آبادی میں غیرمعمولی کمی کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے، اور اقوامِ متحدہ کے مطابق 2050تک سربیا کی آبادی میں 15 فی صد کمی واقع ہوجائے گی۔ اس وقت بھی سربیا میں شرح ولادت فی خاندان ایک اعشاریہ پانچ ہے، جو یورپ میں سب سے کم ہے۔
اس صورت حال نے سربیا کی حکومت کو ملک کے مستقبل کی بابت خوف زدہ کردیا ہے اور وہ لوگوں خصوصاً نوجوان جوڑوں کو زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کے لیے اُکسا رہی ہے۔ بہ الفاظِ دیگر سربین حکومت کا کہنا ہے''بچے سو بھی اچھے۔'' اس سلسلے میں ایک نعرہ دیا گیا ہے ''بچے پیدا کرو، تاخیر مت کرو''، ایک اور سلوگن کہتا ہے''بچوں کا رونا سُننے دو۔'' لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کے لیے حکام نے نہایت کم شرح ولادت والے علاقوں میں جوڑوں کو کم ترین نرخوں پر ایک منزلہ عمارت کے مکان بنا کر دینے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔
اس تجویز کی بنیاد سربین صدر Aleksandar Vucic کا یہ خیال ہے کہ مکانوں میں فلیٹوں سے زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں! فروری میں متعلقہ وزارت نے شرح پیدائش بڑھانے کے لیے سلوگنز کا ایک مقابلہ منعقد کرایا، جس میں،''مام! میں اکیلا رہنا نہیں چاہتا،''ڈیڈ! مجھے ایک بھائی چاہیے'' اور ''محبت اور بچے ہماری سب سے پہلی ضرورت ہیں'' کے سلوگن دینے والے بھی فاتحین میں شامل تھے۔ اس ضمن میں ایک قانون منظور کیا گیا ہے، جس کے تحت تیسرا اور چوتھا بچہ پیدا کرنے والے والدین کو دس سال تک ماہانہ 30 ہزار دینار (سربین کرنسی) دیے جائیں گے۔
ایک زمانہ تھا کہ ریاست یوگوسلاویا کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی سرب کوسوو اور بوسنیا کے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تھے۔ اس قتل عام کو ''نسلی صفائی'' کا نام دیا گیا تھا۔ اب لگتا ہے کہ قدرت سَربوں کا نسلی صفایا کر رہی ہے۔
سربیا کی حکومت شادی شدہ جوڑوں کو آبادی بڑھانے کے لیے جتنی مراعات دینے پر تُلی ہے اور جس طرح التجائیں کر رہی ہے، اُسے دیکھتے ہوئے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سربین جوڑے اولاد کی تعداد بڑھانے پر کسی طور آمادہ نہیں۔ ایک ہم پاکستانی ہیں، جو ''بچے دو ہی اچھے '' کا مطلب لیتے ہیں کہ ''بھیا! کم ازکم چھے آٹھ ہوں بچے گے تو اُن میں سے دو اچھے نکلیں گے۔'' اسی طرح ''کم بچے، خوش حال گھرانا'' کے ''کم'' کو انگریزی کا Come سمجھا جاتا ہے۔
سربین صدر کا خیال ہے کہ فلیٹ بچوں کا راستہ روکے کھڑے ہیں، اور ایک منزلہ مکانات میں زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اب انھیں کون سمجھائے کہ بچے سوچ سمجھ کر تھوڑی پیدا ہوتے ہیں کہ کہاں پیدا ہونا ہے، نہ اُن سے پوچھا جاتا ہے کہ میاں! آپ اپنی ولادت کے لیے کسی بنگلے کا انتخاب کریں گے، چھوٹے سے مکان میں پیدا ہونا پسند فرمائیں گے یا فلیٹ میں تولد ہونا چاہیں گے؟ اگر وہ پاکستان کا تفصیلی دورہ کرلیں تو اپنی رائے بدل لیں گے، یہاں بڑی بڑی کوٹھیوں میں زیادہ سے زیادہ دو اچھے بچے ہی روتے ملیں گے، لیکن فلیٹوں سے لخت جگر نورنظر نکلتے دیکھ کر وہ اپنا نقطۂ نظر تبدیل کرلیں گے۔
سربیا کی صورت حال دیکھ کر پروین شاکر کے اس مصرعے کو مبنی برحقیقت تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ''بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے۔'' باقی دنیا کے بچے تو ہونے کے بعد چالاک ہوئے، لیکن سربیا میں تو ہونے سے پہلے ہی چالاک ہیں، اب وہ چالاکی سے کام لیتے ہوئے حکومت کو ترسا رہے ہیں، تڑپا رہے ہیں، رُلارہے ہیں، تاکہ پیدا ہوں تو ان کے خوب نخرے اٹھائے جائیں، وہ ہاتھوں ہاتھ لیے جائیں اور ان کے والدین کو نوازا جائے۔ شریر کہیں کے۔
محمد عثمان جامعی
usman.jamai@express.com.pk
دنیا میں جہاں پاکستان سمیت بہت سے ممالک بڑھتی آبادی سے پریشان ہیںِ، وہیں ایسے ملک بھی ہیں جو گھٹتی آبادی سے خائف ہیں۔ ایسا ہی ایک دیس ہے سربیا۔
اس یورپی ملک میں تلاشِ معاش کے لیے نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر بیرون ملک ہجرت اور بچوں کی شرح پیدائش کم ہونے کے باعث آبادی میں غیرمعمولی کمی کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے، اور اقوامِ متحدہ کے مطابق 2050تک سربیا کی آبادی میں 15 فی صد کمی واقع ہوجائے گی۔ اس وقت بھی سربیا میں شرح ولادت فی خاندان ایک اعشاریہ پانچ ہے، جو یورپ میں سب سے کم ہے۔
اس صورت حال نے سربیا کی حکومت کو ملک کے مستقبل کی بابت خوف زدہ کردیا ہے اور وہ لوگوں خصوصاً نوجوان جوڑوں کو زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کے لیے اُکسا رہی ہے۔ بہ الفاظِ دیگر سربین حکومت کا کہنا ہے''بچے سو بھی اچھے۔'' اس سلسلے میں ایک نعرہ دیا گیا ہے ''بچے پیدا کرو، تاخیر مت کرو''، ایک اور سلوگن کہتا ہے''بچوں کا رونا سُننے دو۔'' لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کے لیے حکام نے نہایت کم شرح ولادت والے علاقوں میں جوڑوں کو کم ترین نرخوں پر ایک منزلہ عمارت کے مکان بنا کر دینے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔
اس تجویز کی بنیاد سربین صدر Aleksandar Vucic کا یہ خیال ہے کہ مکانوں میں فلیٹوں سے زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں! فروری میں متعلقہ وزارت نے شرح پیدائش بڑھانے کے لیے سلوگنز کا ایک مقابلہ منعقد کرایا، جس میں،''مام! میں اکیلا رہنا نہیں چاہتا،''ڈیڈ! مجھے ایک بھائی چاہیے'' اور ''محبت اور بچے ہماری سب سے پہلی ضرورت ہیں'' کے سلوگن دینے والے بھی فاتحین میں شامل تھے۔ اس ضمن میں ایک قانون منظور کیا گیا ہے، جس کے تحت تیسرا اور چوتھا بچہ پیدا کرنے والے والدین کو دس سال تک ماہانہ 30 ہزار دینار (سربین کرنسی) دیے جائیں گے۔
ایک زمانہ تھا کہ ریاست یوگوسلاویا کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی سرب کوسوو اور بوسنیا کے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تھے۔ اس قتل عام کو ''نسلی صفائی'' کا نام دیا گیا تھا۔ اب لگتا ہے کہ قدرت سَربوں کا نسلی صفایا کر رہی ہے۔
سربیا کی حکومت شادی شدہ جوڑوں کو آبادی بڑھانے کے لیے جتنی مراعات دینے پر تُلی ہے اور جس طرح التجائیں کر رہی ہے، اُسے دیکھتے ہوئے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سربین جوڑے اولاد کی تعداد بڑھانے پر کسی طور آمادہ نہیں۔ ایک ہم پاکستانی ہیں، جو ''بچے دو ہی اچھے '' کا مطلب لیتے ہیں کہ ''بھیا! کم ازکم چھے آٹھ ہوں بچے گے تو اُن میں سے دو اچھے نکلیں گے۔'' اسی طرح ''کم بچے، خوش حال گھرانا'' کے ''کم'' کو انگریزی کا Come سمجھا جاتا ہے۔
سربین صدر کا خیال ہے کہ فلیٹ بچوں کا راستہ روکے کھڑے ہیں، اور ایک منزلہ مکانات میں زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اب انھیں کون سمجھائے کہ بچے سوچ سمجھ کر تھوڑی پیدا ہوتے ہیں کہ کہاں پیدا ہونا ہے، نہ اُن سے پوچھا جاتا ہے کہ میاں! آپ اپنی ولادت کے لیے کسی بنگلے کا انتخاب کریں گے، چھوٹے سے مکان میں پیدا ہونا پسند فرمائیں گے یا فلیٹ میں تولد ہونا چاہیں گے؟ اگر وہ پاکستان کا تفصیلی دورہ کرلیں تو اپنی رائے بدل لیں گے، یہاں بڑی بڑی کوٹھیوں میں زیادہ سے زیادہ دو اچھے بچے ہی روتے ملیں گے، لیکن فلیٹوں سے لخت جگر نورنظر نکلتے دیکھ کر وہ اپنا نقطۂ نظر تبدیل کرلیں گے۔
سربیا کی صورت حال دیکھ کر پروین شاکر کے اس مصرعے کو مبنی برحقیقت تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ''بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے۔'' باقی دنیا کے بچے تو ہونے کے بعد چالاک ہوئے، لیکن سربیا میں تو ہونے سے پہلے ہی چالاک ہیں، اب وہ چالاکی سے کام لیتے ہوئے حکومت کو ترسا رہے ہیں، تڑپا رہے ہیں، رُلارہے ہیں، تاکہ پیدا ہوں تو ان کے خوب نخرے اٹھائے جائیں، وہ ہاتھوں ہاتھ لیے جائیں اور ان کے والدین کو نوازا جائے۔ شریر کہیں کے۔
محمد عثمان جامعی
usman.jamai@express.com.pk