وتایو فقیر سندھ کا ایک لازوال کردار

اُن کے قصے سندھی معاشرے میں ضرب الامثال بن چکے ہیں۔


اُن کے قصے سندھی معاشرے میں ضرب الامثال بن چکے ہیں۔ فوٹو: فائل

KARACHI: پاکستان ایک کثیرالثقافتی ملک ہے۔ یہاں کے ہر خطے کا اپنا ایک الگ رنگ اور ثقافت ہے۔ اگر بات ہو سندھ کی تو اس صوبے کی ثقافت اپنی مثال آپ ہے۔ سندھ صوفیا کرام اور امن و محبت کی دھرتی ہے۔ سندھ میں صوفیا کرام کی تعلیمات کا واضح کردار نظر آتا ہے۔

حضرت لعل شہباز قلندر، شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست اور دیگر صوفیاء نے اپنی تعلیمات اور شاعری سے سندھ میں امن و محبت کا پیغام پھیلایا ہے۔ ان عظیم ہستیوں نے ہمیشہ اپنی کرامات، خدمات، کارناموں اور کردار سے دکھی انسانیت کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیری۔ سندھ اپنے تہذیبی اور ثقافتی ورثے کے ساتھ ساتھ ایک روحانی تعلق بھی رکھتی ہے۔ صدیوں پرانے تہذیبی ورثے کے ذریعے صدیوں کی کہانیاں آج بھی مل رہی ہیں۔ سندھ میں کئی صدیوں پہلے ایسا لوک کردار گزرا ہے جو آج سندھ لوک ادب کا اہم حصہ ہے اور اس کی حکایتیں، کہاوتیں اور قصے کہانیاں سندھی معاشرے میں ضرب الامثال بن چکی ہیں۔ اس میں اپنا ایک الگ مزاج رکھنے والا وتایو فقیر ہے، جن کی ظرافت کے چرچے سندھ کے کونے کونے میں آج بھی لوگ دل چسپی سے سنتے ہیں۔ وتایو فقیر ایک لازوال کردار ہے، جس نے اپنی ظرافت اور محبت کی خوشبو سے سندھ کے کونے کونے کو معطر کیا ہے۔

وتایو فقیر سندھ کے لوک ورثے پر ایک گہری چھاپ رکھنے والی شخصیت تھے۔ یہ وہ فقیرانہ شخصیت ہے جس نے لوگوں کو اپنی مجذوب کیفیت میں بھی لوگوں کو محبت، امن اور عقلمندی کا درس دیا۔ وتایو فقیر نے اپنی روز مرہ زندگی میں اپنی کہانیوں اور قصوں سے سندھ کے لوگوں کو فیض پہنچایا۔ خاص طور پر سندھ کے بڑے اہل علم وتایو فقیر کی کہانیوں سے مستفید ہوئے۔ وتایو فقیر کوئی بھکاری نہیں تھے۔ یہاں فقیر سے مراد ہے صوفی، درویش، دنیا داری سے بے نیاز شخص۔ نفس کو نیچا دکھانے کے لیے وہ طرح طرح کی تدابیر اپناتے تھے۔ سندھ کے کسی بھی کونے میں بسنے والے کسی شخص سے ہے وہ بڑا ہو یا چھوٹا، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، ہندو ہو یا مسلم، اگر وتایو فقیر سے متعلق اس سے پوچھا جائے تو شاید اسے وتایو فقیر کے حسب و نسب کا پتا نہ بھی ہو تب بھی اسے ان کا کوئی قصہ ضرور یاد ہوگا۔

وتایو فقیر نے بارہویں صدی ہجری میں ایک ہندو خاندان میں جنم لیا۔ ان کی ولادت ٹنڈوالٰہ یار کے قریب واقع نصرپور کے گاؤں تاج پور میں ہوئی۔ ان کے آباؤ اجداد عمرکوٹ کے رہنے والے تھے، بعد میں نصرپور میں آکر آباد ہوگئے۔ وتایو کا نام وتومل تھا۔ ان کے والد میلھورام اپنی بیوی بچوں سمیت مسلمان ہوگئے۔ میلھو رام نے اپنا نام شیخ غلام محمد رکھ اور وتایو کا نام شیخ طاہر رکھا، لیکن جوں جوں وتومل کی شہرت پھیلتی گئی، ان کا نام وتو بگڑ کر وتایوفقیر ہوگیا۔ دوسری روایت میں یہ ہے کہ وہ اپنے والد کی وفات کے بعد اپنی والدہ کے ساتھ مسلمان ہوئے۔ وتایو فقیر پیشے لے لحاظ سے رنگ ساز تھے۔

وتایو فقیر سندھ کی عام زندگی میں اسی طرز کا ایک کردار ہے جس طرح ترکی کا ملا نصیر الدین اپنے گدھے پر سفر کرتے کرتے لطیف پیرائے سے حکمت اور رمز کے موتی لٹاتا تھا۔ اسی طرح سندھ کا وتایو فقیر بھی گاؤں گاؤں گدھے پر گھومنے والا ایک جیتا جاگتا کردار تھا۔ ایسا کردار جو خدا سے لاڈ بھی کرتا ہے اور جھگڑتا بھی ہے۔

اس کے علاوہ وتایو فقیر کو شیخ چلی اور بیربل سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ کچھ لوگ وتایوفقیر کے وجود کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک وتایو فقیر ایک خیالی کردار ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وتایو فقیر کا وجود تھا۔ اس کی مثال اس کی باتیں، حرکات و سکنات، حکایتیں اور قصہ کہانیاں آج تک زبان زد خاص و عام ہیں۔ وتایو فقیر کے قصے کہانیوں نے نصیحت کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں خوف خدا، تزکیہ نفس اور انصاف کی جو تعلیمات دی ہیں وہ صدیوں زندہ رہیں گی۔ وتایو فقیر مذاق مذاق میں بہت گہری بات کہ جاتے تھے، جس کے پیچھے سچائی اور دیانت داری کا فلسفہ پوشیدہ ہوتا تھا۔ وتایو اپنے وقت کے دانشور تھے۔ وہ اپنے ٹوٹکوں اور حکایتوں سے سماجی برائیوں کی نشان دہی کرتے تھے۔ سندھی ادب میں ان کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔

وتایو فقیر کی کہاوتیں آج بھی لوگ اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں۔ لوگ آج تک ان کی کہی ہوئی مزاحیہ باتوں کو بھول نہیں پائے ہیں۔ کوئی بھی شخص جب بھی ان کے قصے سناتا ہے تو فوری طور پر چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوجاتی ہے۔ ان کی باتیں عقل، علم و دانش کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان کی شخصیت اور وجود سے اختلاف رکھنے والے ان کی حکایتوں، کہاوتوں، فکاہیہ جملوں، مزے مزے کے چٹکلوں، دل چسپ قصوں اور نصیحت آموز باتوں سے کس طرح انکار کرسکتے ہیں جو کہ آج بھی کتابوں کی شکل میں موجود ہیں۔ حتیٰ کہ وتایو فقیر کے قصے کہانیاں بچوں کی درسی کتابوں میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف اداروں نے ان کے قصوں اور کہانیوں کو جمع کرکے کتاب کی شکل میں شایع کیا ہے۔ ان کی حقیقت اور وجود کو آج کے دانشور بھی مانتے ہیں۔

وتایو فقیر ایک داستان رقم کرگئے ہیں، لیکن انھیں وہ مقام نہیں حاصل ہوا جس کے وہ حق دار ہیں۔ بہت سے لوگ وتایو فقیر کے افکار سے ناواقف ہیں۔ ضروری ہے کہ ان کی شخصیت کو اجاگر کرنے کے لیے سیمینار منعقد کیے جائیں، کیوں کہ وہ سندھ کا لوک ورثہ ہیں۔ وتایو فقیر کا مزار میرپور خاص روڈ پر ضلع ٹنڈوالٰہ یار میں بکیرا شریف نام کے قصبے کے قریب واقع ہے۔ اس علاقے کا نام قبا اسٹاپ بھی ہے، جو ان کے مزار کے گنبد کی وجہ سے پڑا۔ ان کے مزار پر سندھی زبان میں لکھا انہی کا ایک شعر نظر آئے گا، جس کا مطلب ہے ''کبھی میں بھی ایسا ہی تھا، جیسے آپ ہیں اور کبھی آپ بھی ایسے ہی ہوںگے جیسا کہ میں آج ہوں۔'' وتایو فقیر کے مزار کے عقب میں صوفی بزرگ سید عالی شاہ سرکار المعروف شیخ لونھیڑو فقیر کا مزار بھی واقع ہے۔ ایک روایت ہے کہ شیخ لونھیڑو فقیر جب کلاک پاک کی تلاوت کرتے تھے تو درختوں کے پتے بھی ساکت ہوجاتے تھے۔ ان کی آواز میں ایسی مٹھاس تھی کہ لوگوں پر وجد طاری ہوجاتا تھا۔ عربی میں لحن کا مطلب میٹھی آواز ہے۔ اس لیے سید عالی شاہ سرکار کو لوگ لونھیڑو فقیر کے نام سے بھی پکارتے تھے۔ روایات کے مطابق شیخ لونھیڑو فقیر، وتایو فقیر کے بڑے بھائی تھے۔ تاہم چند روایات میں لونھیڑو فقیر کو وتایو فقیر کے مرشد کے طور پر بھی لکھا گیا ہے۔

وتایو فقیر کے چند قصے قارئین کے لیے پیش خدمت ہیں:

وتایو فقیر صوفی، درویش تھے، نفس کو نیچا دکھانے کے لیے وہ طرح طرح کی تدابیر اپناتے تھے۔ ایک دفعہ دسترخوان پر مختلف اقسام کے طعام سجائے گئے۔ مشروب، مٹھائیاں، پھل وغیرہ۔ وتایو فقیر اپنے نفس سے مخاطب ہوئے بتا نفس تجھے کیا کھانا ہے۔ تجھے کیا پینا ہے؟ دیکھ لے دنیا بھر کے طعام تیرے آگے سجے ہوئے ہیں۔ مشروب، پھل اور مٹھائیاں ہیں، بتا تجھے کیا چاہیے۔ وتایو فقیر نے جیب سے سوکھی روٹی کا ٹکڑا نکالتے، پانی میں بھگوکر نوالہ منہ میں ڈالتے اور کہتے جاتے''کھا میرے نفس کھا، اس سے لذیذ کھانا تو نے آج تک نہیں کھایا ہوگا، کھا سوکھی روٹی کھا۔'' ایک روز نفس نے وتایو فقیر سے کہا ''عید آنے والی ہے، تو مجھے قیمتی کپڑے پہنا۔'' وتایو فقیر قیمتی ملبوسات لے آئے اور ویرانے کی طرف نکل گئے۔

راستے میں انہیں ایک مسکین چرواہا ملا، وتایو فقیر نے ایک لباس چرواہے کو دے دیا، نفس چیخ پڑا ''یہ کیا کررہے ہو وتایو!'' وتایو نے اسے جواب نہیں دیا۔ ویرانے کی طرف جاتے ہوئے انہیں جو بھی خستہ حال ملا اسے ایک جوڑا لباس دیتے گئے۔ حتیٰ کہ وتایو فقیر کے پاس کپڑے کا صرف ایک جوڑا رہ گیا جو انہوں نے نے پہن لیا۔ نفس نے ہنس کر کہا ''میں سمجھ رہا تھا کہ تم کپڑوں کا آخری جوڑا بھی کسی غریب کو دے دوگے چلو تم نے میری ایک خواہش تو پوری کی ہے۔'' نفس کی بات سن کر وتایو فقیر رک گئے۔ انہوں نے ادھر ادھر دیکھا۔ انہیں پھٹے پرانے کپڑوں میں ایک مجذوب دکھائی دیا۔ وتایو نے اپنے تن سے قیمتی لباس اتارا اور مجذوب کو پہنا دیا اور مجذوب کے پھٹے پرانے کپڑے خود پہن لیے۔

وتایو فقیر سویاں بڑے شوق سے کھاتے تھے۔ ایک دن چاند رات کو سونے سے قبل انہوں نے دعا مانگی، پروردگار! کل عید ہے تو خوب جانتا ہے کہ صبح سے گھروں میں سویاں پکیں گی مالک! سویاں کھائے مدت ہوگئی ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ جب سویاں پک کر تیار ہوں تو میرے اور اماں کے سوا سب مرجائیں، ہم جاکر سب کے گھروں سے سویاں اٹھا لائیں اور جب اپنے پہنچیں تو اماں بھی مرجائیں بس میں ہوں اور کھانے کے لیے سویاں۔''

وتایو فقیر کے گاؤں میں شادی کی تقریب تھی۔ وہ بھی شادی کی دعوت میں جا پہنچے۔ انہیں دیکھ کر میزبانوں نے کہا فقیر آپ باہر بیٹھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وتایو فقیر پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ میزبانوں نے انہیں اندر جانے سے روکتے ہوئے کہا کہ اندر خاص مہمان ہیں۔ وتایو فقیر نے کہا کہ مجھے دعوت دی گئی ہے، میں کیوں اندر نہ جاؤں، مگر انہیں اندر نہیں جانے دیا گیا۔ وتایو فقیر واپس آئے اور دھوبی کے پاس پہنچے، اس سے کہا، ''آج کوئی نئے صاف کپڑوں کا جوڑا تو دو، مجھے ایک دعوت میں جانا ہے۔''

دھوبی نے ایک اچھا نیا جوڑا نکال کر انہیں دے دیا۔ اب وتایو فقیر نیا جوڑا اور پگڑی پہن کر اسی شادی دوبارہ پہنچ گئے۔ سب نے استقبال کیا۔ اب جب کھانا لگا تو تب سب لوگ کھانا کھارہے تھے مگر وتایو فقیر نے سارا کھانا کپڑوں پر گرادیا اور ساتھ کہتے گئے،''میرے کپڑوں کھانا کھاؤ اور کھاؤ۔'' یہ منظر سب لوگ حیرانی سے دیکھ رہے تھے۔ وہ وتایو کے پاس آئے اور کہا کہ جناب! آپ کپڑوں کو کیوں کھانا کھلارہے ہیں؟ یہ کپڑے کھانا نہیں کھاتے۔ تب وتایو فقیر زور زور سے ہنسے اور کہنے لگے،''میں تو پہلے بھی آیا تھا لیکن آپ لوگوں نے مجھے اندر نہیں آنے دیا اور واپس بھیج دیا۔ اب میں انہی کپڑوں کی وجہ سے تو اندر آیا ہوں اسی لیے ان کپڑوں کو کھانا کھلارہا ہوں۔ مگر یہ کھانے کھاتے ہی نہیں اب انسان کی عزت تو نہیں ہے عزت ان کپڑوں کی ہے۔''

ایک بار وتایو فقیر مسجد میں وعظ کی مجلس میں بیٹھے تھے۔ مولوی صاحب کہہ رہے تھے کہ رزق کا وعدہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے، وہ اپنے مخلوق کو ہر حالت میں روزی پہنچاتا ہے۔ وتایو اچانک اٹھے اور جنگل کی جانب چل دیے۔ بڑے سے درخت پر چڑھ کر بیٹھ گئے اور سوچا کہ میرے نصیب میں جو رزق ہے وہ تو یہیں مل جائے گا۔ دو دن اور ایک رات گزر گئی، دوسری رات ہونے کو آئی تو درخت کے نیچے شکاریوں کے ایک گروہ نے آکر ڈیرا لگایا، کھانا پکایا اور کھانے سے قبل انھوں نے اپنے نوکر سے کہا کہ ایک پلیٹ قریبی گاؤں میں جاکر کسی مسکین کو دے کر آؤ، پھر سب کھانا کھاتے ہیں۔ یہ دیکھ کر وتایو سے رہا نہ گیا اور انہوں نے کھانسنا شروع کردیا۔ شکاریوں نے وتایو کو نیچے بلایا اور پوچھا کہ کیا بھوکے ہو؟ اس پر وتایو نے کہا کہ دو دن سے کچھ نہیں کھایا۔ شکاریوں نے مسکین والی پلیٹ وتایو کو دی اور وتایو نے اپنا پیٹ بھرا۔ واپس اپنے گاؤں پہنچے تو ماں نے پوچھا تم کہاں غائب تھے؟ بولے، دیکھنے گیا تھا کہ مولوی صاحب سچ بول رہے ہیں یا جھوٹ؟ ماں نے پوچھا پھر کیا دیکھا؟ وتایو فقیر بولے بول تو سچ رہا تھا لیکن کھانسنا پڑا۔ تب جاکر پیٹ کی آگ بجھی۔

ایک مرتبہ خربوزے بیچنے والا آواز لگاکر لوگوں کو متوجہ کررہا تھا۔ وتایو کا بھی دل خربوزہ کھانے کو چاہا۔ انہوں نے اﷲ کے نام پر خربوزہ مانگا تو بیچنے والے نے ایک چھوٹا سا خراب اور پُھسپھُسا خربوزہ دے دیا۔ وتایو نے پھر جیب سے ایک پیسے کا سکہ نکال کر دیا تو اس نے دوسرا اچھا سا بڑا اور میٹھا خربوزہ اٹھاکر دیا۔ وتایو نے دونوں دانے ہتھیلیوں پر رکھ کر ہاتھ اوپر اٹھائے اور آسمان کی طرف منہ کرکے بولے،''اپنے نام پر ملا ہوا خربوزہ دیکھ اور ایک پیسے میں خریدا ہوا خربوزہ بھی دیکھ۔ ایک پیسے کی قدر دیکھ اور اپنے نام کی بھی قدر دیکھ۔''

گاؤں میں کسی کے گھر چوری ہوگئی، شور مچا تو لوگ لالٹین اور لاٹھیاں لے کر چور کو پکڑنے نکلے۔ ماں نے وتایو فقیر کو جگایا تو تایو بھی گھر سے نکل پڑے۔ وہ چور کو تلاش کرنے کے بجائے قبرستان جا پہنچے اور بیٹھ کر چور کا انتظار کرنے لگے۔ چور کی تلاش میں جانے والے کچھ لوگوں کے پوچھنے پر کہ یہاں بیٹھے کیا کررہے ہو بولے،''چور کا انتظار کررہا ہوں، کتنا بھاگے گا، وہ کہیں بھی جائے آخرکار آنا تو اسے یہیں پر ہے۔ اس لیے چور کو پکڑنے کے لیے یہاں بیٹھا ہوں۔''

وتایو فقیر ایک مقام سے گزر رہے تھے جہاں کسی دولت مند نے ضرورت مندوں کے لیے بڑے پیمانے پر طعام کا بندوبست کر رکھا تھا۔ میزبان نے فقیر کے فقر، درویشی کو دیکھ کر فیصلہ کیا کہ کھانے کی تقسیم اسی بزرگ کے ہاتھوں سے ہو۔ وتایو نے لوگوں سے پوچھا کہ کھانا خدا کے طریقے سے بانٹوں یا انسانوں کی طرح؟ لوگوں نے فوراً جواب دیا ''خدا کے طریقے سے بانٹو۔'' سیکڑوں لوگ مجمع میں کھانے کے منتظر تھے۔ وتایو نے کھانا بانٹنا شروع کیا۔ انہوں نے کھانے سے بھری ایک پلیٹ ایک شخص کو تھمائی، چند کو آدھی پلیٹ کھانا دیا، ایک کے حوالے باقی تمام دیگیں کردیں۔ کسی کو دھکے دیے تو کسی کو ڈانٹا بھی اور کسی کو تو کھانا دینے سے صاف انکار کردیا۔ جب کھانا ختم ہوگیا تو لوگوں نے ان سے شکایت کی کہ یہ کیا طریقہ ہے یہ کیسی تقسیم ہے لوگ بھوکے رہ گئے ہیں۔ وتایو مسکرائے اور بولے ''میں نے پوچھا تو تھا تقسیم انسانی طریقے سے کروں یا خدا کے طریقے سے؟ میں نے وہی کیا جو آپ لوگوں نے کہا تھا۔ آپ لوگوں نے کہا تھا خدا کے طریقے سے۔ مجھے تو خدا کا یہی طریقہ نظر آتا ہے۔ یعنی خدا کسی کو کم دیتا ہے کسی کو زیادہ دیتا ہے۔ کسی کو دھکے ملتے ہیں تو کسی کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ اب مجھ سے کیسی شکایت۔'' یہ کہا اور مسکراتے ہوئے اپنے راستے پر چل دیے۔

سردیوں کی ایک رات وتایو کی ماں نے کہا کہ کہیں سے آگ کا بندوبست کرو۔ ماں کی بات سن کر وہ پریشان ہوگئے کہ رات کے وقت آگ کا انتظام کیسے کروں۔ انہوں نے ماں سے کہا،''اماں! رات کے وقت آگ لانا بہت مشکل ہے۔ اس وقت میں آگ کہاں سے لاؤں'' مگر ماں نے ضد کرتے ہوئے کہا، ''بیٹا! مجھے ہر حال میں آگ چاہیے۔ چاہے تم جہنم سے لاؤ۔'' وتایو نے کہا،''ماں! جہنم میں آگ نہیں ہوتی۔'' ماں نے جواب دیا،''مگر گناہ گار تو جہنم کی آگ میں جلیں گے۔'' وتایو بولے،''اماں! جہنم میں آگ نہیں ہے ہر کوئی اپنی آگ خود ساتھ لے کر جاتا ہے۔''

وتایوفقیر کے واقعات بے شمار ہیں تمام واقعات کو قلم بند کرنا مشکل ہے۔ ہمیں وتایو فقیر کے واقعات سے سبق حاصل کرنا چاہیے، خاص طور پر وتایو فقیر کی نفس سے لڑائی، ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں