ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن صحت کے نام پر کاروبار کرنے والا ادارہ
اقوام متحدہ کا ادارہ صحت عامہ کا نعرہ لگا کر کن مقاصد کے لئے کام کررہاہے، اسے کنٹرول کرنے والے کون ہیں؟
اقوام متحدہ کے اہم ترین ادارے' ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن '(ڈبلیوایچ او) کی طرف سے صحت عامہ کے حوالے سے روزانہ کوئی نہ کوئی خبردار کرنے والی رپورٹ جاری ہوتی ہے، بتایاجاتاہے کہ فضائی آلودگی کیسے ہماری صحت کو تباہ وبرباد کررہی ہے، ڈبلیوایچ او کو دنیا بھر کے مختلف حصوں میں موجود پناہ گزینوں کی فکر بھی بہت زیادہ ستا رہی ہے۔
یہ ادارہ دنیا والوں کو بتا رہاہے کہ ہرسال پانچ سال سے کم عمر 6.6 ملین بچے صرف اس لئے جاں بحق ہورہے ہیں کہ وہ ماؤں کا دودھ نہیں پیتے، معمولی قیمت کی ویکسی نیشن اور ادویات استعمال نہیں کرتے، انھیں صاف پانی میسر نہیں اور سینی ٹیشن کی محفوظ سہولت دستیاب نہیں۔ ہرسال15ملین بچے وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں اور ان میں سے 10لاکھ سے زیادہ موت کے گھاٹ اترجاتے ہیں۔ پوری دنیا میں ہر10میں سے تین افراد امراض قلب میں مبتلا ہوکر جاں سے گزرجاتے ہیں، ہر روز800 خواتین زچگی کے دوران میں پیش آنے والی پیچیدگیوں کے باعث ہلاک ہوجاتی ہیں، پوری دنیا میں معذوری کے20 بڑے اسباب میں سے ایک نفسیاتی بیماریاں بھی ہیں۔ یہ اور ایسے بہت سے اعدادوشمار عالمی ادارہ صحت کی صحت عامہ کی بابت فکرمندی کا ظاہر کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ادارہ دنیا بھر کے انسانوں کی صحت کی محض فکر کرتا ہے یا انھیں صحت کا شعور بھی فراہم کرتا ہے، انھیں بیماریوں سے دور رہنے میں معاونت فراہم کرتا ہے، ان کا علاج بھی کرتا ہے۔
ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن 1948ء میں اس عزم کے ساتھ قائم ہوئی تھی کہ دنیا میں ہر ایک کے لئے ، ہرجگہ ایک صحت مندانہ مستقبل کی تعمیر کی جائے گی۔ اس وقت تنظیم کا ہیڈکوارٹر جنیوا، سوئٹزرلینڈ میں موجود ہے، اس کے ملازمین کی تعداد سات ہزارسے زائد ہے، اس کے دنیا میں چھ ریجنل دفاتر ہیں، پوری دنیا کے ممالک میں تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد دفاتر ہیں۔ اقوام متحدہ کے نظام کے تحت 194ممالک اس تنظیم کے قواعدوضوابط کے پابند ہیں۔ چاہے سگریٹ نوشی کے اثرات ہوں، سوائن فلو کی وبا ہو یا پھر نیوکلئیرتباہی کا معاملہ ہو، یہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن ہی ہے کہ ہم اپنے لوگوں کی صحت کی بحالی کے لئے اسی کی طرف دیکھتے ہیں اور اسی کی نصیحت پر عمل کرتے ہیں۔تاہم سوال کیا اس ادارے پر اعتماد کیا جاسکتاہے؟ اورسوال یہ بھی ہے کہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن یہ ہدایات کیسے تیار کرتی ہے؟ کیا اس کی ہدایات قابل اعتماد ہوسکتی ہیں؟ ان سوالات کے جوابات ہمیں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سٹرکچر اور کام کرنے کے موجودہ مقاصد سے بخوبی آگاہ کریں گے۔
ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے حکام مختلف سائنسی ماہرین پر بھروسہ کرتے ہیں، یہ ماہرین عالمی ادارہ صحت کو ایسے ممالک اور تنظیمیں فراہم کرتی ہیں جو اس ادارے کو فنڈز فراہم کرتی ہیں۔ ان سائنسی ماہرین میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے مفاد میں فیصلے کرتے ہیں۔ اب ایک طفل مکتب بھی سمجھ سکتاہے کہ بیماریاں پیدا کرنے والی انڈسٹری جب عالمی ادارہ صحت کی فنانسر ہوگی تو صحت کے مسئلے کس اندازمیں حل ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب دنیا بھر سے ایسی آوازیں بلند ہونا شروع ہوچکی ہیں جن سے ظاہر ہوتاہے کہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کی صحت کے عالمی مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت پر زیادہ اعتماد نہیں کیاجاتا۔
اس ادارے پر اعتماد کیوں نہیں کیاجاتا، یہ کہانی بھی جان لیجئے جو پچاس کی دہائی یعنی ادارے کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوتی ہے۔ تب عالمی ڈبلیو ایچ او کے تعلقات تمباکو انڈسٹری کے بڑے کھلاڑیوں سے قائم ہوئے۔ سوئٹزرلینڈ کے سابق وزیرصحت تھامس زیٹنر کا کہناہے :''تمباکو انڈسٹری والوں نے ادارے قائم کئے اور ایسے سائنسی ماہرین خریدے جو اپنی نمائندگی تو کریں لیکن کہیں پر اپنی شناخت ظاہر نہ کریں۔ ایسے میں کوئی کیسے جان سکتاتھا کہ یہ ادارے دراصل تمباکو انڈسٹری کے لئے کام کررہے ہیں''۔
کس قدر سنگین بات ہے کہ سائنسی ماہرین بیک وقت تمباکوانڈسٹری کے بڑے کھلاڑیوں اور ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے لئے کام کریں۔ اس کی ایک مثال علم سموم(زہروں سے متعلقہ) کے ایک ماہر تھے جو ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے مشیر کے طور پر اُس وقت کام کررہے تھے جب تمباکونوشی کے خلاف عالمی مہم زوروں پر تھی۔
دوسری طرف یہی صاحب فلپ موریس جیسی ملٹی نیشنل سگریٹ بنانے اور بیچنے والی کمپنی سے بھی تنخواہ لیتے تھے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب اِن صاحب کے مذکورہ بالا تعلقات لوگوں پر ظاہر ہوگئے تاہم اس کے باوجود وہ عالمی ادارہ صحت کے مشیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک فرد ایک طرف عالمی ادارہ صحت کے ملازم کی حیثیت سے اسی ادارے کے اغراض ومقاصد کی تکمیل کے لئے کام کرے اور عین اسی وقت ایک دوسرے ادارے سے تنخواہ وصول کرکے انہی مقاصد کے خلاف اپنی خدمات فراہم کرے۔ ایسا ممکن ہی نہیں، وہ زیادہ معاوضہ فراہم کرنے والوں کے لئے اصل کام کرے گا اور دوسرے ادارے کی جڑیں کاٹے گا۔ فلپ موریس کے ملازم کی صرف ایک مثال نہیں ہے، ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں کہ سائنسی ماہرین نے عالمی ادارہ صحت کے قیام کے اغراض ومقاصد کے برخلاف کام کیا اور اس وقت بھی کررہے ہیں۔
گزشتہ دنوں عرب دنیا 'الجزیرہ' ٹی وی چینل نے اسی موضوع پر ایک ڈاکومنٹری فلم بھی دکھائی تھی جس میں بتایاگیاتھا کہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے سائنسی ماہرین کا 'گلیکسو' اور 'نووارٹز' جیسی فارماسیٹیکل کمپنیوں سے بھی تعلق نکل آیا، ایسی کمپنیوں کے ساتھ جو سوائن فلو کی ویکسینیشن تیار کرتی ہیں۔ یہ معاملہ اس وقت زیادہ سنگین ہوگیا جب سن 2009ء میں ڈبلیوایچ او نے ایک وبا سے خبردار کرنے کے لئے مبالغہ آرائی پر مبنی مہم چلائی۔ اس مہم کے پہلے تین ماہ کے دوران میں فرانس کے سب سے بڑے ادویہ ساز ادارے نے منافع کی مد میں 1.95بلین ڈالرز(امریکی) زیادہ کمائے۔
بعدازاں ایسی رپورٹس سامنے آئیں جن سے ظاہر ہوا کہ سوائن فلوسنگین مسئلہ نہیں تھا جیسا کہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن نے لوگوں کو بتایاتھا۔ جب یہ فلو ظاہر ہواتھا تو پہلے سال کے دوران میں سوائن فلو کے نتیجے میں258 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ تعداد عام فلو سے ہونے والے اموات سے بہت زیادہ نہیں تھی۔ یادرہے کہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن نے اس'وبا' سے خبردار کرنے کے لئے 1.8 بلین ڈالر مختص کیاتھا۔ اس کے نتیجے میں دنیا میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو خوف کا شکار کرکے فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی ویکسین اور ادویات فروخت کی گئیں۔ بعدازاں ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن نے اعتراف کیا کہ اس نے اس وبا کا خطرہ بتانے کے لئے مبالغہ آرائی سے کام لیاتھا۔ اس ادارے نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ ایسی ویکسینیشنز اور ادویات نے لوگوں کو دیگر موذی امراض میں مبتلا کیا، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ نتیجتاً فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی مزید ادویات فروخت ہوں گی اور ان کے وارے نیارے ہوں گے۔
جرمن ویلاسکس کا کہناہے :''جب سوائن فلو کی وبا پھوٹی تھی، میں ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے 'ڈیپارٹمنٹ آف پبلک ہیلتھ، انٹلیکچوئل پراپرٹی اینڈ میڈیکیشن' کا سیکرٹری جنرل تھا، ہمارے ہاں کوئی بھی خوفزدہ نہیں تھا''۔ مسٹر ویلاسکس آج کل گرین کلائیمیٹ فنڈ کے لئے کام کررہے ہیں۔ان کا کہناہے:'' میں نے ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں دیکھا جس نے سوائن فلو کی ویکسینیشن لی ہو حتیٰ کہ ڈائریکٹرجنرل نے بھی نہیں۔ جب صحافیوں نے ڈائریکٹر جنرل سے پوچھا کہ سوائن فلو اس قدر خطرناک ہے تو کیا آپ نے بھی ویکسینیشن کرائی ہے ؟ انھوں نے جواباً کہا : ''ابھی میرے پاس اس کے لئے وقت نہیں، میں بعد میں ویکسینیشن کراؤں گی''۔
یورپین کونسل میں سابق نمائندے 'ولف گینگ ووڈارگ 'کہتے ہیں کہ ڈبلیو ایچ او کے لوگ فنڈنگ کے بدلے میں طے کئے جانے والے معاملات کے باب میں آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ ان کا کہناہے:'' ڈبلیو ایچ او کے حکام ان معاملات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ وہ سائنسی ماہرین پر انحصار کرتے ہیں جو اس ادارے کو فنڈنگ کرنے والی تنظیموں اور ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ان میں سے بہت سے ایسی سفارشات پیش کرتے ہیں جو فارماسیٹیکل انڈسٹری کے مفاد میں ہوتی ہیں''۔ اس کا دوسرا یہ مطلب ہے کہ ادویہ ساز کمپنیوں کے کاروبار کو بڑھانے چڑھانے کے لئے دنیا کے بعض حصوں میں لوگوں کو خوفزدہ کیاجائے اور پھر ادویات بیچی جائیں۔
گزشتہ کئی برسوں سے ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن سمیت اقوام متحدہ کے دیگراداروں اور کاروباری کمپنیوں اور تنظیموں کے درمیان تعلقات فروغ پارہے ہیں۔ان میں سے بعض اداروں کے باہمی تعلقات چرنوبل تباہی جیسے سنگین ادوار میں قائم ہوئے۔کہاجاتاہے کہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن نے جان بوجھ کر نیوکلیائی دھماکوں کے نتیجے میں متاثرہونے والوں سے متعلق اعدادوشمار کم ظاہر کئے تھے۔
واضح رہے کہ ڈبلیوایچ او انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ ثانی الذکر ادارہ 'ایٹمز فار پیس' کے نعرے کی بنیاد پر قائم ہواتھا۔ اگرچہ ان دونوں اداروں کے راستے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں، ایک کا مقصد عالمی صحت ہے اور دوسرے کا مقصد اٹامک انرجی کا محفوظ استعمال ہے۔
جس طرح اقوام متحدہ کے بارے میں دنیا میں ایک تاثر عام ہورہاہے کہ وہ دنیا کی بعض حکومتوں یا ملکوں کے مفادات کے لئے کام کرنے والا ادارہ بن کے رہ گیاہے، اسی طرح اس کے ذیلی ادارے جیسے ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن بھی بعض حکومتوں کے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہورہے ہیں۔ اپریل2017ء میں ایک برطانوی جریدے 'برٹش سائنس جرنل' نے ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کے ادارے 'انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر' نے اس موذی مرض کے اسباب کاجائزہ لینے کے لئے ریسرچ کا جو انداز اختیار کیا، اس کے سیاسی محرکات تھے۔ ظاہر ہے کہ جو ممالک ان اداروں کو زیادہ فنڈنگ کرتے ہیں، وہ انھیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال بھی کریں گے۔ یادرہے کہ اس وقت ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کو سب سے زیادہ فنڈ امریکا 300ملین ڈالر فراہم کرتاہے، اس کے بعد برطانیہ 195 ملین ڈالرز۔ بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن 300ملین ڈالرز عالمی ادارہ صحت کو فراہم کرتی ہے۔ اس کے بجٹ کا تیسرا حصہ انتظامیہ کی تنخواہوں، مراعات اور دیگراخراجات پر خرچ ہوتاہے۔
آخر میں یہ بھی جان لیں کہ ہماری صحت کے لئے فکر مند ہونے والے اس ادارے کے اہلکار اپنے سیرسپاٹوں پر خوب اخراجات کرتے ہیں، حالانکہ فکرمندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ ادارے کو ملنے والی ہرپائی ایک ایک مریض پر خرچ کرتے ۔ آپ شاید یہ جان کر بہت حیران ہوں گے کہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے اہلکاروں کے مختلف ممالک کے دوروں پر اخراجات زیادہ لیکن بیماریوں کی روک تھام اور علاج پر اخراجات کم ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس جون میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ڈبلیوایچ او کے اہلکاروں کے دوروں پر سالانہ 200ملین ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ یہ رقم نفسیاتی بیماریوں، ایچ آئی وی، ایڈز، تپدق اور ملیریا پر مجموعی ہونے والے اخراجات سے دوگنا زیادہ ہے۔ ادارے کی جنرل سیکرٹری مارگریٹ شان جو نومبر2006ء سے جون 2017ء تک اس عہدے پر کام کرتی رہیں، مغربی افریقہ کے ممالک کے دوران میں ایسے ہوٹل میں قیام پذیر رہیں جہاں ایک رات گزارنے کے 1000ڈالر یعنی ایک لاکھ 39 ہزار 110روپے خرچ آتاہے۔
یہ ادارہ دنیا والوں کو بتا رہاہے کہ ہرسال پانچ سال سے کم عمر 6.6 ملین بچے صرف اس لئے جاں بحق ہورہے ہیں کہ وہ ماؤں کا دودھ نہیں پیتے، معمولی قیمت کی ویکسی نیشن اور ادویات استعمال نہیں کرتے، انھیں صاف پانی میسر نہیں اور سینی ٹیشن کی محفوظ سہولت دستیاب نہیں۔ ہرسال15ملین بچے وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں اور ان میں سے 10لاکھ سے زیادہ موت کے گھاٹ اترجاتے ہیں۔ پوری دنیا میں ہر10میں سے تین افراد امراض قلب میں مبتلا ہوکر جاں سے گزرجاتے ہیں، ہر روز800 خواتین زچگی کے دوران میں پیش آنے والی پیچیدگیوں کے باعث ہلاک ہوجاتی ہیں، پوری دنیا میں معذوری کے20 بڑے اسباب میں سے ایک نفسیاتی بیماریاں بھی ہیں۔ یہ اور ایسے بہت سے اعدادوشمار عالمی ادارہ صحت کی صحت عامہ کی بابت فکرمندی کا ظاہر کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ادارہ دنیا بھر کے انسانوں کی صحت کی محض فکر کرتا ہے یا انھیں صحت کا شعور بھی فراہم کرتا ہے، انھیں بیماریوں سے دور رہنے میں معاونت فراہم کرتا ہے، ان کا علاج بھی کرتا ہے۔
ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن 1948ء میں اس عزم کے ساتھ قائم ہوئی تھی کہ دنیا میں ہر ایک کے لئے ، ہرجگہ ایک صحت مندانہ مستقبل کی تعمیر کی جائے گی۔ اس وقت تنظیم کا ہیڈکوارٹر جنیوا، سوئٹزرلینڈ میں موجود ہے، اس کے ملازمین کی تعداد سات ہزارسے زائد ہے، اس کے دنیا میں چھ ریجنل دفاتر ہیں، پوری دنیا کے ممالک میں تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد دفاتر ہیں۔ اقوام متحدہ کے نظام کے تحت 194ممالک اس تنظیم کے قواعدوضوابط کے پابند ہیں۔ چاہے سگریٹ نوشی کے اثرات ہوں، سوائن فلو کی وبا ہو یا پھر نیوکلئیرتباہی کا معاملہ ہو، یہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن ہی ہے کہ ہم اپنے لوگوں کی صحت کی بحالی کے لئے اسی کی طرف دیکھتے ہیں اور اسی کی نصیحت پر عمل کرتے ہیں۔تاہم سوال کیا اس ادارے پر اعتماد کیا جاسکتاہے؟ اورسوال یہ بھی ہے کہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن یہ ہدایات کیسے تیار کرتی ہے؟ کیا اس کی ہدایات قابل اعتماد ہوسکتی ہیں؟ ان سوالات کے جوابات ہمیں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سٹرکچر اور کام کرنے کے موجودہ مقاصد سے بخوبی آگاہ کریں گے۔
ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے حکام مختلف سائنسی ماہرین پر بھروسہ کرتے ہیں، یہ ماہرین عالمی ادارہ صحت کو ایسے ممالک اور تنظیمیں فراہم کرتی ہیں جو اس ادارے کو فنڈز فراہم کرتی ہیں۔ ان سائنسی ماہرین میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے مفاد میں فیصلے کرتے ہیں۔ اب ایک طفل مکتب بھی سمجھ سکتاہے کہ بیماریاں پیدا کرنے والی انڈسٹری جب عالمی ادارہ صحت کی فنانسر ہوگی تو صحت کے مسئلے کس اندازمیں حل ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب دنیا بھر سے ایسی آوازیں بلند ہونا شروع ہوچکی ہیں جن سے ظاہر ہوتاہے کہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کی صحت کے عالمی مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت پر زیادہ اعتماد نہیں کیاجاتا۔
اس ادارے پر اعتماد کیوں نہیں کیاجاتا، یہ کہانی بھی جان لیجئے جو پچاس کی دہائی یعنی ادارے کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوتی ہے۔ تب عالمی ڈبلیو ایچ او کے تعلقات تمباکو انڈسٹری کے بڑے کھلاڑیوں سے قائم ہوئے۔ سوئٹزرلینڈ کے سابق وزیرصحت تھامس زیٹنر کا کہناہے :''تمباکو انڈسٹری والوں نے ادارے قائم کئے اور ایسے سائنسی ماہرین خریدے جو اپنی نمائندگی تو کریں لیکن کہیں پر اپنی شناخت ظاہر نہ کریں۔ ایسے میں کوئی کیسے جان سکتاتھا کہ یہ ادارے دراصل تمباکو انڈسٹری کے لئے کام کررہے ہیں''۔
کس قدر سنگین بات ہے کہ سائنسی ماہرین بیک وقت تمباکوانڈسٹری کے بڑے کھلاڑیوں اور ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے لئے کام کریں۔ اس کی ایک مثال علم سموم(زہروں سے متعلقہ) کے ایک ماہر تھے جو ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے مشیر کے طور پر اُس وقت کام کررہے تھے جب تمباکونوشی کے خلاف عالمی مہم زوروں پر تھی۔
دوسری طرف یہی صاحب فلپ موریس جیسی ملٹی نیشنل سگریٹ بنانے اور بیچنے والی کمپنی سے بھی تنخواہ لیتے تھے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب اِن صاحب کے مذکورہ بالا تعلقات لوگوں پر ظاہر ہوگئے تاہم اس کے باوجود وہ عالمی ادارہ صحت کے مشیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک فرد ایک طرف عالمی ادارہ صحت کے ملازم کی حیثیت سے اسی ادارے کے اغراض ومقاصد کی تکمیل کے لئے کام کرے اور عین اسی وقت ایک دوسرے ادارے سے تنخواہ وصول کرکے انہی مقاصد کے خلاف اپنی خدمات فراہم کرے۔ ایسا ممکن ہی نہیں، وہ زیادہ معاوضہ فراہم کرنے والوں کے لئے اصل کام کرے گا اور دوسرے ادارے کی جڑیں کاٹے گا۔ فلپ موریس کے ملازم کی صرف ایک مثال نہیں ہے، ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں کہ سائنسی ماہرین نے عالمی ادارہ صحت کے قیام کے اغراض ومقاصد کے برخلاف کام کیا اور اس وقت بھی کررہے ہیں۔
گزشتہ دنوں عرب دنیا 'الجزیرہ' ٹی وی چینل نے اسی موضوع پر ایک ڈاکومنٹری فلم بھی دکھائی تھی جس میں بتایاگیاتھا کہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے سائنسی ماہرین کا 'گلیکسو' اور 'نووارٹز' جیسی فارماسیٹیکل کمپنیوں سے بھی تعلق نکل آیا، ایسی کمپنیوں کے ساتھ جو سوائن فلو کی ویکسینیشن تیار کرتی ہیں۔ یہ معاملہ اس وقت زیادہ سنگین ہوگیا جب سن 2009ء میں ڈبلیوایچ او نے ایک وبا سے خبردار کرنے کے لئے مبالغہ آرائی پر مبنی مہم چلائی۔ اس مہم کے پہلے تین ماہ کے دوران میں فرانس کے سب سے بڑے ادویہ ساز ادارے نے منافع کی مد میں 1.95بلین ڈالرز(امریکی) زیادہ کمائے۔
بعدازاں ایسی رپورٹس سامنے آئیں جن سے ظاہر ہوا کہ سوائن فلوسنگین مسئلہ نہیں تھا جیسا کہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن نے لوگوں کو بتایاتھا۔ جب یہ فلو ظاہر ہواتھا تو پہلے سال کے دوران میں سوائن فلو کے نتیجے میں258 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ تعداد عام فلو سے ہونے والے اموات سے بہت زیادہ نہیں تھی۔ یادرہے کہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن نے اس'وبا' سے خبردار کرنے کے لئے 1.8 بلین ڈالر مختص کیاتھا۔ اس کے نتیجے میں دنیا میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو خوف کا شکار کرکے فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی ویکسین اور ادویات فروخت کی گئیں۔ بعدازاں ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن نے اعتراف کیا کہ اس نے اس وبا کا خطرہ بتانے کے لئے مبالغہ آرائی سے کام لیاتھا۔ اس ادارے نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ ایسی ویکسینیشنز اور ادویات نے لوگوں کو دیگر موذی امراض میں مبتلا کیا، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ نتیجتاً فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی مزید ادویات فروخت ہوں گی اور ان کے وارے نیارے ہوں گے۔
جرمن ویلاسکس کا کہناہے :''جب سوائن فلو کی وبا پھوٹی تھی، میں ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے 'ڈیپارٹمنٹ آف پبلک ہیلتھ، انٹلیکچوئل پراپرٹی اینڈ میڈیکیشن' کا سیکرٹری جنرل تھا، ہمارے ہاں کوئی بھی خوفزدہ نہیں تھا''۔ مسٹر ویلاسکس آج کل گرین کلائیمیٹ فنڈ کے لئے کام کررہے ہیں۔ان کا کہناہے:'' میں نے ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں دیکھا جس نے سوائن فلو کی ویکسینیشن لی ہو حتیٰ کہ ڈائریکٹرجنرل نے بھی نہیں۔ جب صحافیوں نے ڈائریکٹر جنرل سے پوچھا کہ سوائن فلو اس قدر خطرناک ہے تو کیا آپ نے بھی ویکسینیشن کرائی ہے ؟ انھوں نے جواباً کہا : ''ابھی میرے پاس اس کے لئے وقت نہیں، میں بعد میں ویکسینیشن کراؤں گی''۔
یورپین کونسل میں سابق نمائندے 'ولف گینگ ووڈارگ 'کہتے ہیں کہ ڈبلیو ایچ او کے لوگ فنڈنگ کے بدلے میں طے کئے جانے والے معاملات کے باب میں آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ ان کا کہناہے:'' ڈبلیو ایچ او کے حکام ان معاملات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ وہ سائنسی ماہرین پر انحصار کرتے ہیں جو اس ادارے کو فنڈنگ کرنے والی تنظیموں اور ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ان میں سے بہت سے ایسی سفارشات پیش کرتے ہیں جو فارماسیٹیکل انڈسٹری کے مفاد میں ہوتی ہیں''۔ اس کا دوسرا یہ مطلب ہے کہ ادویہ ساز کمپنیوں کے کاروبار کو بڑھانے چڑھانے کے لئے دنیا کے بعض حصوں میں لوگوں کو خوفزدہ کیاجائے اور پھر ادویات بیچی جائیں۔
گزشتہ کئی برسوں سے ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن سمیت اقوام متحدہ کے دیگراداروں اور کاروباری کمپنیوں اور تنظیموں کے درمیان تعلقات فروغ پارہے ہیں۔ان میں سے بعض اداروں کے باہمی تعلقات چرنوبل تباہی جیسے سنگین ادوار میں قائم ہوئے۔کہاجاتاہے کہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن نے جان بوجھ کر نیوکلیائی دھماکوں کے نتیجے میں متاثرہونے والوں سے متعلق اعدادوشمار کم ظاہر کئے تھے۔
واضح رہے کہ ڈبلیوایچ او انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ ثانی الذکر ادارہ 'ایٹمز فار پیس' کے نعرے کی بنیاد پر قائم ہواتھا۔ اگرچہ ان دونوں اداروں کے راستے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں، ایک کا مقصد عالمی صحت ہے اور دوسرے کا مقصد اٹامک انرجی کا محفوظ استعمال ہے۔
جس طرح اقوام متحدہ کے بارے میں دنیا میں ایک تاثر عام ہورہاہے کہ وہ دنیا کی بعض حکومتوں یا ملکوں کے مفادات کے لئے کام کرنے والا ادارہ بن کے رہ گیاہے، اسی طرح اس کے ذیلی ادارے جیسے ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن بھی بعض حکومتوں کے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہورہے ہیں۔ اپریل2017ء میں ایک برطانوی جریدے 'برٹش سائنس جرنل' نے ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کے ادارے 'انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر' نے اس موذی مرض کے اسباب کاجائزہ لینے کے لئے ریسرچ کا جو انداز اختیار کیا، اس کے سیاسی محرکات تھے۔ ظاہر ہے کہ جو ممالک ان اداروں کو زیادہ فنڈنگ کرتے ہیں، وہ انھیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال بھی کریں گے۔ یادرہے کہ اس وقت ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کو سب سے زیادہ فنڈ امریکا 300ملین ڈالر فراہم کرتاہے، اس کے بعد برطانیہ 195 ملین ڈالرز۔ بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن 300ملین ڈالرز عالمی ادارہ صحت کو فراہم کرتی ہے۔ اس کے بجٹ کا تیسرا حصہ انتظامیہ کی تنخواہوں، مراعات اور دیگراخراجات پر خرچ ہوتاہے۔
آخر میں یہ بھی جان لیں کہ ہماری صحت کے لئے فکر مند ہونے والے اس ادارے کے اہلکار اپنے سیرسپاٹوں پر خوب اخراجات کرتے ہیں، حالانکہ فکرمندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ ادارے کو ملنے والی ہرپائی ایک ایک مریض پر خرچ کرتے ۔ آپ شاید یہ جان کر بہت حیران ہوں گے کہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے اہلکاروں کے مختلف ممالک کے دوروں پر اخراجات زیادہ لیکن بیماریوں کی روک تھام اور علاج پر اخراجات کم ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس جون میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ڈبلیوایچ او کے اہلکاروں کے دوروں پر سالانہ 200ملین ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ یہ رقم نفسیاتی بیماریوں، ایچ آئی وی، ایڈز، تپدق اور ملیریا پر مجموعی ہونے والے اخراجات سے دوگنا زیادہ ہے۔ ادارے کی جنرل سیکرٹری مارگریٹ شان جو نومبر2006ء سے جون 2017ء تک اس عہدے پر کام کرتی رہیں، مغربی افریقہ کے ممالک کے دوران میں ایسے ہوٹل میں قیام پذیر رہیں جہاں ایک رات گزارنے کے 1000ڈالر یعنی ایک لاکھ 39 ہزار 110روپے خرچ آتاہے۔